ماہ ستمبر کے دوران ملک بھر میں جہاں وطن عزیز کے جغرافیائی دفاع و استحکام کے حوالہ سے مختلف تقریبات اور پروگراموں کا اہتمام ہوا وہاں تحفظ ختم نبوت کے عنوان سے بھی ملک کے نظریاتی دفاع و استحکام کے فروغ کے موضوع پر متنوع تقریبات منعقد کی گئیں۔ ۶ ستمبر کو ۱۹۶۵ء کی جنگ کی یاد میں ’’یوم دفاع‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے جبکہ ۷ ستمبر کو ’’یوم فضائیہ‘‘ کے علاوہ ’’یوم تحفظ ختم نبوت‘‘ کا عنوان بھی دیا جاتا ہے کیونکہ اس روز ۱۹۷۴ء میں پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا تاریخی دستوری فیصلہ کیا تھا۔ مجھے اس حوالہ سے دو تقریبات میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔
۲۱ ستمبر جمعرات کو مجلس احرار اسلام پاکستان کے مرکز لاہور میں ’’تحفظ ختم نبوت کانفرنس‘‘ منعقد ہوئی جس کی صدارت جمعیۃ علماء پاکستان کے سربراہ جناب پیر اعجاز احمد ہاشمی نے کی اور اس سے مولانا محمد امجد خان، مولانا پیر سید کفیل شاہ بخاری، مولانا حافظ زبیر احمد ظہیر، مولانا عبد الرؤف فاروقی، حافظ عاکف سعید، حاجی عبد اللطیف چیمہ اور دیگر سرکردہ زعماء کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سرگرم راہ نما حافظ میاں محمد نعمان نے خطاب کیا اور راقم الحروف نے بھی کچھ معروضات پیش کیں۔ مقررین نے پاکستان کے نظریاتی تشخص کے تحفظ اور عقیدۂ ختم نبوت و ناموس رسالتؐ کی پاسداری کے عزم کی تجدید کی۔
جبکہ ۲۳ ستمبر ہفتہ کو اپنے آبائی شہر گکھڑ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے زیراہتمام منعقدہ ’تحفظ ختم نبوت سیمینار‘‘ میں حاضری زندگی کا ایک خوشگوار تجربہ ثابت ہوئی۔ پاکستان پیپلز پارٹی گکھڑ کے صدر میاں راشد طفیل کے والد گرامی میاں محمد طفیل مرحوم مجاہد ختم نبوت آغا شورش کاشمیریؒ کے حلقۂ احباب میں شامل اور تحفظ ختم نبوت کی جدوجہد میں ان کے سرگرم معاون تھے۔ جبکہ میاں محمد طفیل مرحوم کے بڑے بھائی میاں فاضل رشیدی مرحوم پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ارکان میں شمار ہوتے تھے اور ایک عرصہ تک پیپلز پارٹی گوجرانوالہ کے چیئرمین رہے ہیں۔ اور ان کے والد محترم ماسٹر کرم دین مرحوم میرے والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے ابتدائی ساتھیوں میں سے تھے۔ اس حوالہ سے یہ خاندان پاکستان پیپلز پارٹی میں متحرک ہونے کے ساتھ ساتھ دینی معاملات میں شروع سے ہمارا معاون چلا آرہا ہے۔
میاں راشد طفیل نے چند روز قبل مجھے بتایا کہ وہ گکھڑ میں تحفظ ختم نبوت کے سلسلہ میں سیمینار منعقد کرنے کا پروگرام بنا رہے ہیں تو بے حد خوشی ہوئی اور حاضری کا وعدہ کر لیا۔ وہاں حاضر ہو کر پتہ چلا کہ یہ کوئی رسمی سا پروگرام نہیں بلکہ باقاعدہ ’’کل جماعتی ختم نبوت کانفرنس‘‘ تھی جو ایک بڑے شادی ہال میں منعقد ہوئی جس میں پورے علاقہ سے مختلف مذہبی مکاتب فکر اور سیاسی جماعتوں کے راہنما و کارکن بڑی تعداد میں شریک تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی اور ضلعی قیادت بھی موجود تھی، پارٹی کے صوبائی صدر جناب قمر الزمان کائرہ مہمان خصوصی تھے اور ان کے علاوہ جناب تنویر اشرف کائرہ، میاں اظہر حسن ڈار، چودھری محمد اشرف سندھو، راؤ اکرام علی خان اور دیگر پارٹی راہنما بھی شریک محفل تھے۔ مختلف مکاتب فکر کے راہنماؤں میں مولانا شاہ نواز فاروقی، مولانا پروفیسر عبد الرحمان جامی، مولانا قاری محمود اختر عابد، مولانا فہیم الرحمان، قاری خالد محمود اور دیگر حضرات نے خطاب کیا۔
میں نے پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی اور ضلعی قیادت کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قادیانی مسئلہ کے حل میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اور دیگر راہنماؤں کے کردار کا قدرے تفصیل کے ساتھ ذکر کیا اور کہا کہ پاکستان کو دستوری طور پر اسلامی ریاست کا درجہ دینے اور قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر ختم نبوت کے مسئلہ کو حل کرنے میں بھٹو مرحوم اور ان کی پارٹی کا کردار بہت اہم ہے جو تاریخ کا حصہ ہے۔ اور صرف ایک بار نہیں بلکہ دوسری بار پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ہی پورے دستور پر نظر ثانی کے دوران ان فیصلوں کا تحفظ کر کے اور انہیں بعینہ برقرار رکھ کر پاکستان کے اسلامی تشخص کے تسلسل اور عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے پارلیمنٹ نے پوری قوم کی طرف سے اس موقف کی جو تجدید کی تھی اس کا سہرا بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے سر ہے۔
مگر آج قومی اور بین الاقوامی سطح پر ان قومی فیصلوں کو بہت سے چیلنجز درپیش ہیں۔ قادیانیوں نے ان فیصلوں کو آج تک تسلیم نہیں کیا بلکہ بین الاقوامی فورمز پر وہ ان دستوری اور جمہوری فیصلوں کو مسترد کرتے ہوئے ان خلاف مورچہ بندی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جبکہ دستور پاکستان کی اسلامی اساس اور دفعات کو بھی مختلف دائروں میں چیلنج کیا جا رہا ہے۔ اس لیے ہم پاکستان پیپلز پارٹی سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان اہم قومی، جمہوری اور دستوری فیصلوں کے تحفظ کے لیے بھی سرگرم کردار ادا کرے گی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر جناب قمر الزمان کائرہ نے اس حوالہ سے پرمغز اور بامقصد گفتگو کی جس سے مجھے یہ اطمینان ہوا کہ پارٹی میں ایسے حضرات موجود اور مؤثر ہیں جو ان مسائل کا ادراک رکھتے ہیں اور انہیں حل کرنے کا عزم بھی رکھتے ہیں۔ کائرہ صاحب نے ملکی و عالمی صورتحال پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور کہا کہ ہمیں ایک ملت اور قوم کے طور پر وطن عزیز اور عالم اسلام کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہوگا اور گروہی و فرقہ وارانہ تقسیم سے بالاتر ہو کر قومی جذبہ کے ساتھ ملی وحدت اور قومی سلامتی کے لیے کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ وہ دستور پاکستان کے اسلامی تشخص اور عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے قانون کے خلاف مختلف حلقوں میں جاری منفی سرگرمیوں سے آگاہ ہیں اور قوم کے ان تاریخی فیصلوں کی پاسداری کے لیے کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے دیگر راہنماؤں نے بھی اپنے خطابات میں اسی قسم کے جذبات پیش کیے اور اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ گکھڑ کی پیپلز پارٹی نے ایک اہم دینی و قومی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے اس مشترکہ سیمینار کا اہتمام کیا ہے۔ سیمینار میں پاکستان مسلم لیگ (ن) گکھڑ کے صدر اور بلدیہ گکھڑ کے چیئرمین میر مظہر بشیر نے علالت کے باعث اپنے نمائندہ کے ذریعے سیمینار کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا اور اس اہم سیمینار کے انعقاد پر مبارکباد پیش کی۔