برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر ستائیس جون کو اپنے عہدہ سے سبکدوش ہو رہے ہیں اور ان کی جگہ مسٹر گورڈن براؤن پارٹی کی قیادت اور وزارت عظمیٰ سنبھالنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ حکمران لیبر پارٹی کی قیادت میں یہ تبدیلی برطانوی رائے عامہ کے اس شدید دباؤ کا نتیجہ ہے جو مسٹر ٹونی بلیئر کی حکومت کی طرف سے عراق کی جنگ میں اختیار کی جانے والی پالیسی کے خلاف سامنے آیا اور جس کا عملی اظہار برطانیہ کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں مختلف حلقوں میں حکمران لیبر پارٹی کی پسپائی کی صورت میں نمودار ہوا ہے، جس کے بعد یہ توقع کی جا رہی ہے کہ اگلے عام انتخابات میں لیبر پارٹی اپنی موجودہ پوزیشن برقرار نہیں رکھ پائے گی اور کنزرویٹو پارٹی اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت سنبھال لے گی۔
مسٹر ٹونی بلیئر نے ۹/۱۱ کے بعد امریکا کے صدر بش کے ساتھ مل کر عالمی سطح پر مبینہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور عراق پر اتحادیوں کی فوج کشی کے حوالے سے جو مسلسل کردار ادا کیا ہے، اس کے باعث انہیں بش نمبر دو یا بش کے سب سے زیادہ وفادار کے طور پر یاد کیا جانے لگا ہے اور یہی بات برطانوی عوام میں مسٹر ٹونی بلیئر کے خلاف نفرت کا سبب بنی ہے۔ اس کا اندازہ چرچ آف انگلینڈ کی اس رپورٹ سے کیا جا سکتا ہے جو گزشتہ ماہ کے پہلے ہفتے میں سامنے آئی ہے اور جس میں لندن کے ایک اردو روزنامہ کی سات مئی کی خبر کے مطابق کہا گیا ہے کہ
”برطانوی اخبار آبزرور کے مطابق چرچ آف انگلینڈ نے دعویٰ کیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے لیے حکومت کی تباہ کن پالیسیوں نے برطانوی مسلمانوں کو انتہا پسند بنا دیا ہے۔ رپورٹ میں وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی خارجہ پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں برطانیہ کا چہرہ مسخ ہو چکا ہے اور یورپ میں وہ تنہا کھڑا ہے اور اس کی وجہ امریکا کے ہر حکم کی بجا آوری ہے۔ رپورٹ میں امید ظاہر کی گئی ہے کہ قیادت کی تبدیلی سے فکر و نظر کی تبدیلی بھی واقع ہو گی۔
پروٹسٹنٹ فرقہ کے سربراہ آرچ بشپ آف کنٹربری ڈاکٹر روون ولیمز نے اس رپورٹ کی توثیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ عراق پر ناجائز تسلط اور حکومت کی نامناسب اور ناانصافی پر مبنی پالیسیوں کی وجہ سے برطانیہ دہشت گردوں کی بھرتی کا سرگرم حصہ بن گیا ہے۔ انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے مدد دینے کی بجائے برطانیہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شمولیت نے القاعدہ کو یہ مواقع فراہم کر دیے ہیں کہ وہ پروپیگنڈے سے مسلمانوں کو اس طرف راغب کر لے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں قیامِ امن کے مغرب کے نظریے کی مخالفت کریں۔
چرچ آف انگلینڈ کی یہ رپورٹ برطانوی ایوان نمایندگان (دارالعوام) کی طرف سے عالمی سیکورٹی کے بارے میں ہونے والی تحقیقات کے موقع پر پیش کی گئی ہے اور اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عراق اس وقت دہشت گردوں کی بھرتی کی صلاحیت کا حامل ہو چکا ہے۔ یورپ کے مسلم معاشروں کے کچھ حصوں کے انتہا پسندانہ رجحانات کی تصدیق ہو گئی ہے اور عراق میں غیر ملکی تسلط اس میں مزید اضافے کا باعث ہے۔ جنگ نے یورپ اور مشرق وسطیٰ میں موجود انتہا پسند مسلمانوں کو یہ موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ اپنے ذاتی اور مقامی مسائل کو عالمی سطح کا بنا ڈالیں۔
آرچ بشپ آف کنٹربری ڈاکٹر روون ولیمز نے دارالعوام کی کمیٹی کے نام ایک الگ خط میں کہا ہے کہ مغربی جمہوریت کو برآمد کرنے کی کوشش کو پلٹ کر دے مارا گیا ہے، مغرب کی جانب سے غیر منتخب حکومتوں کی حمایت کے باعث جمہوریت کی اپیلوں پر شبہ کیا جاتا ہے۔ انہوں نے حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ امریکی حکومت کی بری خواہشوں کو پورا کرنے کے لیے اس کا ساتھ دے کر اپنی ساکھ کھو رہی ہے، تاہم وزیر اعظم کی تبدیلی سے برطانیہ اپنے چہرے کی رفوگری کے قابل ہو پائے گا۔“
مسٹر ٹونی بلیئر کی پالیسیوں اور ان کے نتائج کے حوالے سے یہ تو چرچ آف انگلینڈ اور آرچ بشپ آف کنٹربری کے تاثرات ہیں، جو ایک باضابطہ رپورٹ کی صورت میں برطانوی پارلیمنٹ کو پیش کیے گئے ہیں، اس کے ساتھ ہی سیاسی حلقوں کے تاثرات کی ایک جھلک بھی اس خبر میں دیکھ لی جائے جو نو مئی ۲۰۰۷ء کو لندن کے ایک اور روزنامہ نے شائع کی ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ
- لیبر پارٹی کی ڈپٹی لیڈر شپ کے امیدواروں نے خارجہ پالیسی کو زیادہ خود مختار بنانے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ حکومت امریکا کی بہت کم حمایت کرے اور ٹونی بلیئر کی طرح اس کی ہر بات نہ مانے۔
- ایک امیدوار پیٹرسن نے پروگریسیو انٹرنیشنل پالیسی کا مطالبہ کیا ہے، جس میں فوجی قوت آخری حربہ کے طور پر اس وقت استعمال کی جائے جب جمہوریت، آزادی اور انسانی حقوق کو خطرہ ہو۔
- بلیوی بین کا موقف یہ ہے کہ ملٹی لیٹرل پالیسی سے وہ ووٹر واپس آ سکتے ہیں جنہوں نے عراق میں مداخلت پر پارٹی کو چھوڑ دیا تھا۔
لیکن برطانیہ کی مذہبی اور سیاسی قیادت بلکہ خود حکمران پارٹی کی دوسری صف کی قیادت کے اس واضح موقف کے باوجود مسٹر ٹونی بلیئر اپنے اس موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ انہوں نے جو کیا ہے ٹھیک کیا ہے اور وہ آئندہ کے لیے بھی اسی کو بہترین پارٹی پالیسی تصور کرتے ہیں۔ چنانچہ دس مئی کے اخبار میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق مسٹر ٹونی بلیئر نے عراق سے برطانوی فوجوں کا انخلا شروع کرنے اور عراق جنگ کے ضمن میں معافی مانگنے کے مطالبات پھر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ان دہشت گردوں کے خلاف ڈٹ جائے جو عراق کو کمزور کر رہے ہیں۔ برطانوی پارلیمنٹ میں سوالوں کے وقفہ کے دوران ان سے پوچھا گیا کہ عراق جنگ سے پیدا شدہ صورتحال سے نہ صرف آپ (بلیئر) پر، بلکہ پورے سیاسی عمل پر بھروسے کو ٹھیس پہنچی ہے، اس لیے وزیر اعظم کو عراق کے معاملے میں غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے معافی مانگنا چاہیے اور اقتدار چھوڑنے سے قبل معاملہ کی مکمل انکوائری کرانا چاہیے۔ مسٹر ٹونی بلیئر نے اس کے جواب میں کہا کہ وہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے، عراق میں دہشت گردوں سے نبرد آزما فوجوں کی حمایت کرنی چاہیے۔
اس سے قبل پانچ مئی کے اخبارات میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق مسٹر ٹونی بلیئر یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ مغرب کو اسلام سے خوفزدہ ہونے کی بجائے اپنی اقدار پر ڈٹے رہنا چاہیے اور یہ بات ثابت کرنی چاہیے کہ مغرب اپنی اقدار پر یقین رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اسلامی دنیا کو یہ دکھانا چاہیے کہ ہم اپنی اقدار ہر ایک پر لاگو کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم مسلمانوں کے اس نظریے پر دفاعی انداز اختیار کر لیتے ہیں، جس کے مطابق وہ سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی مغرب کے رویے کا رد عمل ہے۔
اس پس منظر میں اس ماہ کے آخر تک مسٹر ٹونی بلیئر برطانوی وزارت عظمیٰ سے الگ ہو رہے ہیں، ان کے بعد لیبر پارٹی کی حکومتی پالیسی کیا ہو گی؟ اور کیا چرچ آف انگلینڈ کی خواہش اور امید کے مطابق وزیر اعظم کی تبدیلی کے بعد برطانیہ اپنے چہرے کی رفوگری کی طرف توجہ دے سکے گا؟ اس کا جواب فی الحال نہیں دیا جا سکتا اور آنے والا وقت ہی اس کے بارے میں صحیح رخ واضح کر سکے گا، تاہم مسٹر ٹونی بلیئر نے برطانوی وزارت عظمیٰ سے سبکدوشی کے بعد فارغ بیٹھنے کی بجائے ایک اور محاذ پر سرگرم عمل ہونے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے بارے میں سات مئی کو لندن کے ایک اردو روزنامہ کی خبر میں بتایا گیا ہے کہ وزیر اعظم ٹونی بلیئر مستعفی ہونے کے بعد ایک گلوبل فاؤنڈیشن قائم کرنا چاہتے ہیں، تاکہ تین مذاہب (عیسائیت، یہودیت اور اسلام) کے درمیان زیادہ مفاہمت پیدا کی جا سکے۔ ان کے ایک قریبی مشیر نے تصدیق کی ہے کہ ٹونی بلیئر انٹرفیتھ آرگنائزیشن (مکالمہ بین المذاہب کے لیے تنظیم) قائم کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک کوئی ادارہ انٹرفیتھ پر زیادہ متحرک طور پر کام نہیں کر رہا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ فاؤنڈیشن لندن میں قائم ہو گی اور کلنٹن فاؤنڈیشن کی طرز پر کام کرے گی۔
اس کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ برطانوی عوام کی مخالفت اور ناپسندیدگی کے باوجود مسٹر ٹونی بلیئر نہ عراق جنگ کے حوالہ سے اپنے موقف اور کردار سے دستبردار ہوتے ہیں اور نہ ہی مغرب اور مسلمانوں کے درمیان ثقافتی اقدار کی کشمکش کے بارے میں ان کے ایجنڈے میں کوئی لچک پیدا ہوئی۔ انہوں نے میدان نہیں چھوڑا، بلکہ صرف مورچہ تبدیل کیا ہے۔ گویا عملی سیاست سے نکل کر وہ فکری، نظریاتی اور ثقافتی محاذ پر آ رہے ہیں اور چونکہ ہمارا بھی یہی مورچہ ہے اور ہم جو تھوڑی بہت محنت کر رہے ہیں اسی شعبہ میں کر رہے ہیں، اس لیے سامنے کی صفوں میں ایک تازہ دم اور تجربہ کار پہلوان کی آمد پر اسے خوش آمدید کہتے ہیں۔