مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی کے داماد کا اغوا

   
۲۵ اپریل ۲۰۱۴ء (غالباً‌)

حضرت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی ملک کے ممتاز علماء کرام میں سے ہیں، جامعہ نصرۃ العلوم کے ابتدائی فضلاء اور والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے خصوصی شاگردوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ انہوں نے شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ ، حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ ، حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ ، حضرت مولانا قاضی شمس الدینؒ اور حضرت مولانا غلام اللہ خانؒ سے تلمذ کا شرف حاصل کیا ہے۔ جبکہ ان کے شاگردوں میں ایک بڑا نام جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمن کا بھی ہے۔ سالہا سال تک جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے دارالافتاء کے سربراہ رہے ہیں اور ایک عرصہ سے نوشہرہ سانسی گوجرانوالہ میں جامع مسجد توحیدیہ کی خطابت کے علاوہ جامعہ فتاح العلوم کے اہتمام اور تدریس کی ذمہ داریاں نباہ رہے ہیں جس میں ان کے فرزند مولانا حافظ احمد اللہ گورمانی ان کے نائب اور معاون ہیں۔

مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی ایک محقق اور نکتہ رس مفتی کے طور پر ملک بھر میں تعارف رکھتے ہیں۔ گزشتہ روز ان کے ساتھ ایک سانحہ پیش آیا ہے جس کی وجہ سے یہ سطور تحریر کرنے کی ضرورت پیش آئی ہے، وہ یہ کہ رات کے پچھلے پہر خفیہ اداروں کے اہل کاروں نے مولانا حافظ احمد اللہ گورمانی کے گھر میں دروازے توڑ کر گھس جانے کے بعد خوف و ہراس کی فضا قائم کی اور مفتی صاحب محترم کے داماد مولانا حافظ محمد آصف کو اٹھا کر لے گئے جن کے بارے میں مسلسل رابطوں کے باوجود ابھی تک کچھ معلوم نہیں ہو رہا کہ انہیں کس ادارے نے اٹھایا ہے، وہ کہاں ہیں اور کس حالت میں ہیں؟ مولانا احمد اللہ گورمانی کا کہنا ہے کہ صبح چار بجے کے لگ بھگ کسی نے ان کے کمرے کا دروازہ زور زور سے دھڑ دھڑایا، وہ ہڑ بڑا کر اٹھے اور دروازے کھولنے کے لیے آگے بڑھے تو اس وقت تک دروازہ توڑا جا چکا تھا۔ انہوں نے شور مچایا کہ چور گھس آئے ہیں، اس پر انہیں کہا گیا کہ چور نہیں بلکہ پولیس ہے۔ اس کے ساتھ ہی دو آدمیوں نے انہیں دبوچ لیا اور خاموش رہنے کے لیے کہا۔ انہوں نے پوچھا کہ اگر پولیس ہے تو یہ کاروائی کس وجہ سے کی جا رہی ہے اور ان کا جرم کیا ہے؟ اس پر ایک اہل کار نے ان کے کندھے پر زور سے تھپڑ مارا اور کہا کہ خاموش رہو۔

اس کے بعد انہوں نے ان کے ساتھ والے کمرے کا دروازہ توڑا جس میں ان کی ہمشیرہ اور بہنوئی حافظ محمد آصف سوئے ہوئے تھے، انہوں نے حافظ محمد آصف کے منہ پر غلاف چڑھایا اور اٹھا کر لے گئے۔ اس سے قبل وہ ان کے پڑوسی کے گھر میں گھسے، ان کا دروازہ توڑا، انہیں ہراساں کر کے ان سے سیڑھی حاصل کی اور سیڑھی کے ذریعہ حافظ احمد اللہ گورمانی کے گھر کی چھت پر چڑھ کر سیڑھیوں کا دروازہ توڑنے کے بعد گھر میں داخل ہوگئے۔

حافظ محمد آصف مفتی محمد عیسیٰ خان صاحب کے داماد ہیں اور لاہور کے ایک دینی مدرسہ میں خدمات سر انجام دیتے ہیں۔ میں نے اپنے ایک گزشتہ کالم میں ان کا اس حوالہ سے ذکر کیا تھا کہ وہ اکابر اور اسلاف کی یادگاریں اور نوادرات جمع کرنے کا ذوق رکھتے ہیں جس کے لیے انہوں نے اپنے گھر میں چھوٹی سی گیلری بنا رکھی ہے۔ بڑے بڑے بزرگوں کی یادگاریں مختلف شکلوں میں سنبھالی ہوئی ہیں، کسی کی کوئی تحریر، کسی کی دستار کا ٹکڑا، کسی بزرگ کی قمیص، کسی کی لاٹھی اور کسی کی کوئی اور استعمال شدہ چیز بڑے سلیقے سے رکھی ہوئی ہے۔

مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی کے گھر میں خفیہ اداروں کی اس کاروائی نے شہر کے دینی حلقوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑا دی ہے اور ہر شخص پریشانی اور اضطراب کا شکار ہے۔ اس سے قبل شہر میں دارالعلوم جلیل ٹاؤن، مدرسہ انوار العلوم مرکزی جامع مسجد اور مدرسہ مظاہر العلوم چمڑا منڈی میں اسی قسم کی کاروائیاں ہو چکی ہیں اور سب لوگ حیرت میں ہیں کہ اگر پولیس یا کسی ادارے کو حافظ محمد آصف کی کسی معاملہ میں ضرورت تھی تو اس کے لیے نارمل ذرائع اختیار کیے جا سکتے تھے، اور گوجرانوالہ کے اداروں اور علماء کرام نے ایسے معاملات میں ہمیشہ سرکاری اداروں سے تعاون کیا ہے۔ لیکن اب یہ خیال عام ہو رہا ہے کہ شاید اسی تعاون کی یہ سزا دی جا رہی ہے کہ گوجرانوالہ کے بڑے دینی مدارس اور شخصیات کو نشانے پر رکھ لیا گیا ہے اور وقفے وقفے کے بعد انہیں اس قسم کی کاروائیوں کا ہدف بنایا جا رہا ہے۔

اس سلسلہ میں شہر کی مختلف دینی جماعتوں کے راہ نماؤں کا ایک ہنگامی اجلاس آج مرکزی جامع مسجد میں راقم الحروف کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں طے پایا کہ اس سنگین اور اضطراب انگیز واقعہ پر کل جمعۃ المبارک کے اجتماعات میں احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا جائے گا کہ

  • حافظ محمد آصف کو فوری طور پر بازیاب کیا جائے۔
  • مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی کے گھر میں دروازے توڑ کر داخل ہونے اور چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرنے والے افراد کو گرفتار کر کے ان کے خلاف سخت ترین کاروائی کی جائے، اور
  • دینی اداروں اور شخصیات کے خلاف اس طرح کی کاروائیوں کے سد باب کو یقینی بنایا جائے۔

جبکہ ۲۹ اپریل منگل کو ظہر کی نماز کے بعد مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں دینی جماعتوں کے راہ نماؤں اور کارکنوں کا مشترکہ احتجاجی کنونشن منعقد ہوگا جس میں آئندہ لائحہ عمل طے کیا جائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

ملک بھر کے احباب اور دینی راہ نماؤں سے بھی گزارش ہے کہ وہ اس سلسلہ میں آواز اٹھائیں اور اپنے اپنے ذرائع سے حکومت پر زور دیں کہ وہ اس قسم کی کاروائیوں کی روک تھام کے لیے ٹھوس حکمت عملی اختیار کرے اور حافظ محمد آصف سمیت ان تمام افراد کو بازیاب کرایا جائے جنہیں ایسی کاروائیوں کے ذریعے غائب کر دیا گیا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter