خطابت کی اہمیت، ضرورت اور تقاضے

   
مجلس صوت الاسلام پاکستان
۲۰۱۷، ۲۰۱۸

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ اس سال کی کلاس کے شرکاء کو خوش آمدید۔ کافی عرصہ سے یہ سلسلہ چل رہا ہے جس کا مجلس صوت الاسلام والے اہتمام کرتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ انہیں جزائے خیر دیں اور زیادہ سے زیادہ علماء کرام کو اس سے استفادہ کی توفیق عطا فرمائیں۔

حضرت مولانا مفتی محی الدین صاحب ہمارے بہت پرانے بزرگ دوستوں میں سے ہیں۔ ہماری طویل عرصہ سے رفاقت چلی آ رہی ہے۔ ان کا تعلق خانقاہ سراجیہ کندیاں شریف سے تو ہے ہی، جمعیت علماء اسلام کے ساتھ بھی ان کا پرانا تعلق رہا ہے۔ تحریکات میں بڑے متحرک ساتھی رہے ہیں۔ جمعیت علماء اسلام، مجلس تحفظ ختم نبوت اور دیگر دینی تحریکات کے ساتھ حضرت مفتی صاحب کا تعاون اور ان میں شرکت مستقل تاریخی حصہ ہے اور تاریخ کا ایک کردار ہے۔ میری ان سے رفاقت کم و بیش چالیس سال سے چلی آ رہی ہے۔ انہوں نے کراچی کلفٹن میں جامعہ اسلامیہ کے نام سے بڑا اچھا ادارہ بنا رکھا ہے اور ان کے رفقاء کام کر رہے ہیں۔ سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ ان کی اولاد مفتی ابوہریرہ صاحب اور مفتی ابو ذر صاحب نے کام سنبھال لیا ہے اور آگے بڑھا رہے ہیں، یہ مفتی محی الدین صاحب کی تربیت کا اثر ہے کہ وہ اسی کام پر لگے ہوئے ہیں اور مسلسل ترقی کی طرف اپنے ادارے اور اپنے کام کو لے جا رہے ہیں۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ دینی محنت اور جدوجہد اگر اگلی نسل میں منتقل ہو جائے تو یہ پچھلی نسل کی قبولیت کی علامت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ مفتی صاحب کو صحت کاملہ عطا فرمائیں اور ان کے خاندان اور تمام رفقاء کو برکات، ترقیات اور ثمرات سے بہرہ ور فرمائیں، آمین۔

تربیتِ خطباء کورس کا مقصد یہ ہے کہ خطیب کا کام صرف خطبہ دینا نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے معاشرے کا دینی رہنما ہوتا ہے۔ مسجد ہمارا ایک ادارہ ہے اور اسلام اور مسلمانوں کا سب سے بڑا ادارہ مسجد ہی ہے۔ اس کے ساتھ عام آدمی کا شب و روز تعلق رہتا ہے۔ نماز، عبادت، تعلیم و تربیت، ذکر و اذکار اور دعوت کا تعلق، یہ سارے کام مسجد سے متعلق ہیں اور ایک عام مسلمان کو یہ سارے معاملات مسجد سے ملتے ہیں۔ مسجد ہمارے معاشرے کا بنیادی ادارہ ہے اور امام اور خطیب اس ادارے کے مرکزی کردار ہیں۔ ان کا کام لوگوں کو نمازیں پڑھانا ہے، خطبہ دینا ہے اور لوگوں کی دینی رہنمائی کرنا ہے، اور ضرورت پیش آئے تو مشورہ دینا بھی ہے، ان کے اخلاقیات اور دینیات کی نگرانی کرنا اور جہاں کہیں کوئی کمزوری نظر آئے اس کی اصلاح کرنا بھی ہے۔

خطیب جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نمائندہ ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب باقاعدہ مسجد نبوی بنائی تو مسجد کی تعمیر کے بعد وہاں پانچ وقت کی نماز بھی ہوتی تھی اور آپؐ جمعہ کا خطبہ ارشاد فرماتے تھے، جو رسمی نہیں ہوتا تھا، بلکہ اس میں آپؐ آنے والی وحی بتاتے تھے، مسلمانوں کو ان کی کمزوریوں سے آگاہ کرتے تھے، ہدایات دیتے تھے، رہنمائی کرتے تھے، تعلیم دیتے تھے، خطبہ بہت سی چیزوں کا مجموعہ ہے۔ اور یہ الحمد للہ تسلسل چلا آ رہا ہے کہ مسجد لوگوں کی دینی، معاشرتی، اخلاقی رہنمائی کر رہی ہے۔

عہد نبویؐ اور خلفاء راشدینؓ کے زمانے میں تو مسجد ہی تمام اجتماعی کاموں کا مرکز ہوا کرتی تھی اور مسجد کا اصل کردار بھی یہی ہے۔ عدالت بھی وہیں لگتی تھی، مقدمات اور جنگوں کے فیصلے بھی مسجد میں ہوتے تھے، صلح اور مذاکرات بھی مسجد میں ہوتے تھے، وفود مسجد میں ٹھہرتے تھے، اور مسجد کے ایک حصے صفہ میں تعلیم و تربیت کا ماحول بھی تھا۔ مسجد میں لوگوں کی معاشی کفالت کا بندوبست بھی ہوا کرتا تھا۔ لوگ صدقات و زکوٰۃ مسجد میں ادا بھی کرتے تھے، اور مسجد سے وظائف وصول بھی کرتے تھے۔

پھر زمانے کے ساتھ ساتھ کام تقسیم بھی ہوتے گئے اور سمٹتے بھی گئے، لیکن پھر بھی تمام تر تقسیم کار اور تمام تر کام کے پھیلنے کے باوجود مسجد ہماری بنیادی چیزوں کا آج بھی مرکز ہے۔ عبادت کا مرکز بھی ہے، تعلیم کا مرکز بھی مسجد اور اس سے متعلقہ مدرسہ ہے۔ دینی رہنمائی اور اصلاحی درس کی شکل میں، خطبے کی شکل میں، مختلف کورسز کی شکل میں، ان سب کا مرکز بھی مسجد ہے۔ دعوت و تبلیغ کا عمل بھی مسجد میں ہوتا ہے اور ہمارے خانقاہی سسٹم یعنی روحانی تربیت اور ذکر و اذکار کا تعلق بھی مسجد سے ہے۔ اور ان سارے کاموں میں مرکزی کردار امام اور خطیب کا ہوتا ہے۔

خطابت کا مقصد ہوتا ہے تعلیم، اصلاح، تربیت، ذہن سازی اور دفاع۔ اور یہی ہماری دینی ضروریات بھی ہیں۔ لیکن ائمہ و خطباء اب ’’پروفیشنل‘‘ ہوتے جا رہے ہیں۔ میں امام ہوں تو میں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وقت پر آنا ہے، نماز پڑھانی ہے اور چلے جانا ہے، مسجد سے میرا تعلق اتنا ہی ہے۔ میں خطیب ہوں تو میں نے وقت پر آنا ہے، جمعہ پڑھانا ہے اور چلے جانا ہے، باقی معاملات سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔ حالانکہ یہ رویہ درست نہیں ہے، امام اور خطیب کو اس مسجد سے متعلقہ لوگوں کی رہنمائی، نگرانی اور قیادت بھی کرنا ہوتی ہے۔

اس لیے امام اور خطیب کے لیے جہاں تعلیم ضروری ہے، مثلاً نماز کے آداب و شرائط کا علم ہونا کہ سجدہ سہو کب کرنا ہے، اعادہ کرنا ہو تو کیا طریقہ ہوگا، وغیرہ۔ اس کے ساتھ ساتھ امام اور خطیب دونوں کے لیے فکری اور روحانی تربیت بھی ضروری ہے، صرف فقہی مسائل کا جان لینا کافی نہیں ہے۔ بنیاد اگرچہ یہی ہے، لیکن صرف یہی کچھ کافی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ لوگوں کے ساتھ ڈیلنگ کیسی ہے؟ لوگوں کے ساتھ رابطہ کیسا ہے؟ اس رابطے کو امت کی بہتری کے لیے استعمال کیسے کرنا ہے؟ یہ بھی امام اور خطیب کی ذمہ داریوں میں سے ہے اور اس کے لیے تربیت کی ضرورت ہے۔

یہ کورسز اسی لیے ہوتے ہیں کہ ایک خطیب کو کیسا ہونا چاہیے اور اس کے لیے کیا چیزیں ضروری ہیں؟ معاشرتی طور پر آج کے معاشرے میں خطیب میں کون کونسی صفات ضروری ہیں، کیا صلاحیتیں ضروری ہیں اور اس کے کام کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے؟ اہلیت مستقل موضوع ہے، صلاحیت اور استعداد مستقل موضوع ہے، جبکہ طریقہ کار مستقل موضوع ہے، اور پھر نتائج اور ثمرات کو کنٹرول کرنا مستقل موضوع ہے۔ پہلے زمانے میں تو تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا نظام موجود ہوتا تھا اور تربیت ہوتی رہتی تھی، لیکن اب چونکہ ان معاملات کی طرف ہماری توجہ کم ہو گئی ہے تو یہ ضروری سمجھا جا رہا ہے کہ خطباء کی تربیت کے لیے کورسز کرائے جائیں جس کے لیے مختلف ادارے کام کرتے ہیں۔

مجلس صوت الاسلام پاکستان نے بھی اسی حوالے سے کام کا بیڑا اٹھایا ہے کہ خطباء کو خطابت کے تقاضوں سے اور آج کے معاشرتی تقاضوں سے آگاہ کیا جائے۔ یہ ساری چیزیں سامنے رکھ کر ’’تربیتِ خطباء کورس‘‘ ترتیب دیا گیا ہے، جس میں مختلف اصحاب دانش اپنے اپنے موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں اور خطباء کرام کو رہنمائی ملتی ہے۔ اللہ کرے کہ یہ سلسلہ گزشتہ سالوں کی طرح خیر و خوبی کے ساتھ چلے اور اپنی تکمیل تک پہنچے۔

خطابت کے حوالے سے پہلی بات تو یہ کہوں گا کہ خطبہ اور بیان دین کی بنیادی ضروریات اور تقاضوں میں سے ہے۔ انسان کی ذاتی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اپنی بات دوسرے تک پہنچا سکے۔ اللہ پاک نے انسان کو باقی جانداروں سے جو نمایاں امتیاز دیا ہے وہ ’’بیان‘‘ ہے۔ منطقی حضرات انسان کو ’’حیوانِ ناطق‘‘ کہتے ہیں کہ انسان بولنے والا اور گفتگو کرنے والا جانور ہے۔ باقی جانور بھی اپنی ضرورت کی حد تک گفتگو کرتے اور سمجھتے ہیں۔ چڑیا چڑیوں کی اور کوا کوے کی بات سمجھتا ہے، لیکن چونکہ ان کی ضروریات کا دائرہ محدود ہے، فرائض محدود ہیں، تو گفتگو کا دائرہ بھی محدود ہے۔ میں کہا کرتا ہوں کہ شیروں میں دھاڑنے والے تو سارے ہی ہوں گے، خطبہ دینے والا کوئی نہیں ہوگا۔ بکریوں میں منمنانے والی تو ساری ہی ہوں گی، لیکن بکریوں کو اکٹھا کر کے ان کو خطبہ دینے والی کوئی نہیں ہو گی۔ سب کو خطاب کر کے اپنے ما فی الضمیر کا اظہار کرنا، جس کو بیان کہا جاتا ہے، یہ انسان کے امتیازات میں سے ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ’’علمہ البیان‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ کہتے ہیں کہ میں نے انسان کو بیان کی تعلیم دی۔

بیان یعنی دوسروں تک اپنی بات اچھے طریقے سے پہنچانا، یہ شروع سے چلا آ رہا ہے۔ یہ دعوت کا ذریعہ بھی ہے اور تعلیم کا ذریعہ بھی ہے۔ خطابت بہتر سے بہتر انداز اور معیار پر ہو، یہ بیان کا تقاضہ ہے۔ ’’کیف ما اتفق‘‘ یہ نہیں کہ میں نے بس اپنی بات کہہ دی ہے۔ میں اس پر ایک واقعہ عرض کیا کرتا ہوں۔

قرآن پاک میں ہے کہ اللہ رب العزت نے حضرت موسٰی علیہ السلام کو نبوت دی۔ مدین سے واپس آ رہے تھے کہ راستے میں طور کے علاقے سے گزرے۔ طور پہاڑی پر آگ نظر آئی تو آگ لینے کے لیے چلے گئے۔ وہاں جو کلام ہوا وہ مکالمہ قرآن پاک میں مذکور ہے۔ جب آپؑ کو نبوت سے نوازا گیا تو حضرت موسٰی علیہ السلام نے وہاں ایک درخواست پیش کی کہ ’’رب اشرح لی صدری ویسر لی امری واحلل عقدۃ من لسانی یفقھوا قولی‘‘ کہ یا اللہ! میرا سینہ کھول دیں، میری زبان میں لکنت ہے، لوگ پوری طرح بات سمجھ نہیں پاتے، تو میری زبان کی لکنت دور فرما دیں تاکہ میں اپنی بات صحیح طریقے سے کہہ سکوں۔ یہ حضرت موسٰی علیہ السلام کا وہ عذر تھا جس کا فرعون نے ان کو طعنہ بھی دیا تھا۔ بڑا دلچسپ مکالمہ ہے۔

جب حضرت موسٰی علیہ السلام فرعون کے دربار میں گئے اور اس کے سامنے دعوت پیش کی کہ اللہ کی توحید کا اقرار کرو اور بنی اسرائیل کو آزادی دو۔ ’’فارسل معنا بنی اسرائیل ولا تعذبھم‘‘۔ تو اس دعوت کے جواب میں فرعون نے حضرت موسٰیؑ کو تین طعنے دیے تھے۔ ایک طعنہ یہ تھا ’’ولبثت فینا من عمرک سنین‘‘ تم نے میرے گھر میں اپنی عمر کا کتنا عرصہ گزارا ہے، یعنی میرے گھر کی روٹیوں پر پلے ہو اور آج تم میرے ہی سامنے کھڑے ہو۔ دوسراطعنہ یہ دیا ’’وفعلت فعلتک التی فعلت‘‘ کہ جاتے جاتے ایک بندہ بھی مار گئے تھے۔ فرعون نے حضرت موسٰی علیہ السلام کو تیسرا طعنہ یہ دیا کہ قوم سے خطاب کر کے کہا ’’ام انا خیر من ھذا الذی ھو مھین ولا یکاد یبین‘‘ یہ تو بات بھی صاف نہیں کر سکتا، یہ کہاں سے پیغمبر بن کر آ گیا ہے؟ اس کی تو گفتگو اور زبان صاف نہیں ہے، یہ صحیح طریقے سے سمجھا نہیں سکتا۔

حضرت موسٰی علیہ السلام نے اللہ پاک سے ایک درخواست تو یہ کی ’’واحلل عقدۃ من لسانی یفقھوا قولی‘‘ اے اللہ! میری زبان کی لکنت دور کر دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔ اور ساتھ دوسری درخواست یہ بھی کی ’’و اخی ھٰرون ھو افصح منی لسانا فارسلہ معی ردا یصدقنی‘‘ میرا بھائی مجھ سے زیادہ اچھی بات کر لیتا ہے، بڑا خطیب ہے، اس کو بھی نبوت دے دیں اور میرا ساتھی بنا دیں۔ حضرت موسٰیؑ نے حضرت ہارونؑ کے لیے نبوت کی درخواست کرتے ہوئے وجہ یہ بیان کی کہ ’’ھو افصح منی لسانا‘‘ وہ مجھ سے زیادہ فصیح اللسان ہے اور مجھ سے زیادہ واضح بات کر لیتا ہے۔ اللہ پاک نے ان کی یہ درخواست قبول کر لی اور فرمایا ’’قد اوتیت سؤلک یاموسٰی‘‘ موسٰی! تمہاری درخواست منظور ہے، آپ کی لکنت بھی دور کریں گے اور آپ کے بھائی کو نبوت بھی دیں گے۔

میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ اچھے طریقے سے بیان کرنا، فصاحت اور بلاغت، یہ نبوت کی ضروریات اور دین کے تقاضوں میں سے ہے۔ جو آدمی زیادہ بہتر بیان کر سکے گا وہ دین کو زیادہ بہتر سمجھا بھی سکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کو خطابت، بیان اور فصاحت کے بہت اعلیٰ معیار پر رکھا تھا۔ ویسے تو خطیب الانبیاء کا لقب حضرت شعیب علیہ السلام کا ہے، لیکن جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء کرام میں سب سے بڑے خطیب تھے۔ آپؐ دنیا میں بھی خطیبِ اعظم تھے اور قیامت کے متعلق فرمایا کہ ’’انا خطیبھم اذا سکتوا‘‘ حشر کے میدان میں جب سارے چپ ہوں گے تو میں ان کا خطیب ہوں گا۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ رب العزت نے خطابت کا اتنا اعلیٰ ذوق نصیب فرمایا تھا، ایسی صلاحیت عطا فرمائی تھی کہ اس کے مقابلے سے عاجز آ کر مخالفین کو اور کوئی جواب سمجھ نہیں آیا، سوائے اس کے کہ کہیں کہ یہ جادو ہے، یہ ان کی بے بسی تھی۔ حضورؐ کو جادوگر کہا گیا تو اس خطابت کے حوالے سے کہ آپؐ ایسی بات فرماتے ہیں جس سے لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ مخالفین کو اس کے مقابلے میں جادو کے علاوہ اور کوئی تعبیر نہیں ملی۔

پہلی بات میں نے یہ عرض کی ہے کہ خطابت دین کے تقاضوں میں سے ہے، نبوت کی ضروریات میں سے ہے، اور انبیاء کی صفات میں سے بھی ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود تو خطیبِ اعظم تھے ہی، آپؐ خطیب گر بھی تھے۔ حضورؐ نے دین کی دعوت میں خطابت کے ہنر کو خود بھی استعمال کیا اور اپنے صحابہؓ کی تربیت بھی کی۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں بڑے بڑے خطباء گزرے ہیں۔ سب سے بڑے خطیب حضرت ثابت بن قیس انصاریؓ تھے۔ خطیب الانصار، خطیب الاسلام اور خطیب رسول اللہ ان کے تین القاب تھے۔ جناب نبی کریمؐ کے نمائندہ خطیب تھے، بہت اچھی گفتگو کرتے تھے۔ حضورؐ نے ان کی حوصلہ افزائی بھی کی اور ان سے کام بھی لیا۔

امام بخاریؒ نے ایک بڑا دلچسپ واقعہ ذکر کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جن افراد نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا، ان میں مسیلمہ کذاب معروف تھا۔ اسے اپنی خطابت پر ناز تھا اور واقعی خطیب تھا بھی۔ اپنی خطابت کے زور سے اور قبیلے کے حوالے سے اس نے جو لشکر اکٹھا کیا تھا اس کی تعداد اَسی ہزار بتائی جاتی ہے۔ بہت بڑا سردار تھا، کوئی کمزور شے نہیں تھی۔ اس نے نبوت کا دعویٰ کر دیا تھا۔ مسیلمہ کذاب نے حضورؐ سے خط و کتابت بھی کی اور وفود بھی بھیجے، بلکہ بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ حضورؐ سے ملاقات اور مذاکرات کے لیے مسیلمہ خود مدینہ منورہ آیا اور اس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دوبدو ملاقات اور گفتگو ہوئی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مسیلمہ کذاب سے مذاکرات کے لیے تشریف لے گئے تو اپنے ساتھ حضرت ثابت بن قیسؓ کو لے کر گئے۔ میں کہا کرتا ہوں کہ خطابت کے دعوے کے ساتھ اس نے نبوت کا دعوٰی کیا تھا تو حضورؐ کی کمال حکمت عملی دیکھیے کہ مقابلہ بھی خطیب سے کروایا۔ بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ مسیلمہ کذاب نے جب پیشکش کی کہ مجھے اپنا خلیفہ نامزد کر دیں، یا تقسیم کر لیں ’’لنا وبر ولک مدر‘‘ شہری علاقے آپ کے، دیہاتی علاقے میرے۔ حضورؐ نے دو جملوں میں جواب دیا ’’ان الارض للہ یورثھا من یشاء من عبادہ‘‘ زمین اللہ کی ہے وہ جس کو چاہے دے یہ میرا کام نہیں ہے۔ اور دوسرا یہ کیا کہ زمین سے خشک سی لکڑی اٹھائی اور فرمایا کہ میں تمہیں یہ بھی دینے کا روادار نہیں ہوں۔ پھر فرمایا کہ یہ ثابت بن قیسؓ میرا نمائندہ ہے، میں جا رہا ہوں تمہارے ساتھ اب یہ گفتگو کرے گا۔ حضرت ثابت بن قیس انصاریؓ اسلام کے سب سے بڑے خطیب تھے۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کا شمار بھی بہت بڑے خطباء میں ہوتا ہے۔ فصاحت و بلاغت اور خطابت میں بڑے لوگوں میں سے تھیں اور بہت بڑی مقررہ تھیں۔ جبکہ ایک خطیبۃ الانصار بھی تھیں، حضرت اسماء بنت یزید بن سکنؓ، جو بڑے غضب کی خطیبہ تھیں اور عورتوں کے بڑے بڑے اجتماعات میں بیان کیا کرتی تھیں۔ امام بخاریؒ نے ’’الادب المفرد‘‘ میں ان کا ذکر کیا ہے۔

میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت، تعلیم و تربیت اور دینی جدوجہد کے لیے خطابت کو ایک ذریعے کے طور پر استعمال کیا ہے اور دین کے تقاضوں میں سے ایک خطابت بھی ہے۔

خطابت کا معیار کیا ہو؟ میں اس کی مختلف مثالیں ذکر کیا کرتا ہوں، اس موقع پر دو مثالوں کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ ہمارے ہاں ادب کی کتابوں میں ایک کتاب ’’المقامات الحریریہ‘‘ پڑھائی جاتی ہے، میں نے خود بہت دفعہ پڑھائی ہے۔ حریری نے اس میں خطبات جمع کیے ہیں۔ مختلف لوگوں سے تقریریں کروائی ہیں۔ وہ زمانہ تھا مشکل الفاظ، نادر ترکیبوں، ضرب الامثال اور محاورات کا۔ آج کی دنیا وہ نہیں ہے۔ آج عربوں میں جا کر حریری یا ہمدانی کے لہجے میں بات کریں تو وہ کہیں گے کہ یہ مجنون ہے اور کوئی آپ کی بات نہ سنے گا نہ سمجھے گا۔ یہ اُس دور کی خطابت تھی۔

ہمارے ہاں بھی اردو کی دنیا میں پون صدی پہلے تک سب سے بڑا معیار مولانا ابو الکلام آزادؒ کی خطابت تھی۔ مولانا آزادؒ نادر جملوں اور نادر تراکیب کے بادشاہ تھے، ضرب الامثال اور کہاوتیں ہاتھ باندھے ان کے سامنے کھڑی ہوتی تھیں۔ لیکن یہ انداز اُن کے دور میں ہی تھا، آج اگر آپ ان کے لہجے میں بیان کریں گے تو لوگ سمجھیں گے کہ مولوی صاحب وظیفہ کر رہے ہیں، آج کا دور اُس انداز کی خطابت کا دور نہیں ہے۔

اور عوامی سطح پر مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی خطابت معیار ہوا کرتی تھی۔ شاہ جیؒ کی خطابت کا انداز یہ تھا کہ رات کو عشاء کے بعد تقریر کرنے بیٹھتے اور لوگوں کو ایسے مسحور کرتے کہ صبح کی اذان پر انہیں ہوش آتا کہ چار پانچ گھنٹے گزر چکے ہیں۔ جبکہ آج کے دور میں آپ کی تقریر کو ایک گھنٹے سے زیادہ کوئی نہیں سنے گا، پھر جمائیاں لینے لگ جائیں گے کہ مولوی صاحب جان کیوں نہیں چھوڑ رہے۔ اُس دور کا کمال یہ تھا کہ آپ کتنی لمبی بات کر سکتے ہیں، جبکہ آج کے دور کی خطابت یہ ہے کہ آپ کتنے مختصر وقت میں اپنی بات مکمل کر سکتے ہیں۔

آج کی بین الاقوامی کانفرنسوں کا اگر جائزہ لیں تو اس میں بڑے سے بڑے مقرر کو گفتگو کے لیے دس پندرہ منٹ کا وقت دیا جاتا ہے، اور لوگ دس پندرہ منٹ میں بات پوری کرتے ہیں۔ آج بات پھیلانے کا نہیں بلکہ بات سمیٹنے کا نام خطابت ہے۔ جبکہ ہمارا مزاج یہ بنا ہوا ہے کہ پہلے خطبہ پڑھنا ہے، پھر تمہید باندھنی ہے، پھر گلے شکوے کرنے ہیں، پھر بات شروع کرنی ہے۔ مجھے ہنسی آتی ہے جب کسی کانفرنس میں کسی بڑے خطیب سے کہا جاتا ہے کہ حضرت! آپ نے دس منٹ بات کرنی ہے۔ تو وہ دس منٹ پہلے خطبہ اور پھر اس گلہ میں گزر جاتے ہیں کہ میرے جیسے خطیب کو صرف دس منٹ دیے گئے ہیں۔

میں آپ کو فرق بتا رہا ہوں کہ آج کی خطابت میں زبان کا خیال بھی رکھنا ہے اور وقت کا لحاظ بھی۔ آج کی خطابت یہ ہے کہ آپ کتنے سادہ لہجے میں بات سمجھا سکتے ہیں اور کتنے کم وقت میں اپنی بات پوری کر سکتے ہیں۔ خطابت ایک مستقل فن ہے۔ اس میں ایک بات یہ ہے کہ اپنے ماحول، نفسیات اور ذہنی سطح کو سمجھتے ہوئے بات کی جائے۔ اگر آپ اس طرح بات کر سکتے ہیں تو خطیب ہیں، ورنہ نہیں۔ آپ نے زمین آسمان کے قلابے ملا دیے ہیں، لوگ عش عش کر اٹھے ہیں، اور بعد میں تبصرہ کر رہے ہیں کہ مولانا نے غضب کی تقریر کی ہے لیکن کہا کیا ہے یہ سمجھ نہیں آیا، تو یہ خطابت نہیں ہے۔ اصل خطابت یہ ہے کہ سامنے بیٹھے ہوئے لوگ آپ کی بات سمجھ رہے ہوں۔

آج میں نے خطابت کی اہمیت، ضرورت، اور اس کے تقاضوں کے حوالے سے چند تمہیدی باتیں کی ہیں۔ آپ کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہ اس سال آپ ہمارے ساتھ شریک ہوئے ہیں، اللہ پاک آپ کا آنا اور ہم سے جو خدمت ہو سکے اسے قبول فرمائیں۔ آپ سے باقاعدہ گفتگو اگلی نشست سے ہو گی۔ اللہ تعالیٰ مجلس صوت الاسلام، مفتی محی الدین صاحب، ان کے تمام خاندان اور رفقاء کو اس محنت پر جزائے خیر دیں اور ترقیات اور ثمرات سے بہرہ ور فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter