سقوطِ ڈھاکہ اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے عظیم سانحہ کے بارے میں جسٹس حمود الرحمان مرحوم کی سربراہی میں قائم کیے گئے کمیشن کی مبینہ رپورٹ بھارت کے کسی اخبار میں شائع ہوئی اور اس کے بعد پاکستان میں اس کی باضابطہ اشاعت کے مطالبہ نے زور پکڑا تو چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف نے یہ کہہ کر اس سے دامن چھڑا لیا کہ یہ پرانی بات ہو چکی ہے اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ وہ ماضی کو بھول جائیں اور پچھلے واقعات کی کرید میں پڑنے کی بجائے مستقبل کی فکر کریں۔
ہمارے خیال میں جنرل صاحب کا یہ مشورہ قرین انصاف نہیں ہے اور اس کی نرم سے نرم الفاظ میں بھی تعبیر کی جائے تو اس کے لیے ’’عذرِ گناہ بدتر از گناہ‘‘ کے سوا کوئی متبادل عنوان ذہن میں نہیں آرہا۔ اس لیے کہ مستقبل کی عمارت ہمیشہ ماضی کی بنیادوں پر تعمیر ہوتی ہے اور ماضی کی بنیادیں کھودے بغیر صرف حال کی زمین پر کھڑی کی جانے والی کسی عمارت کے بہتر مستقبل کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ ماضی سے آنکھیں بند کرنا زندہ قوموں کا شعار نہیں ہوتا اور اپنی غلطیوں اور حماقتوں کو یاد رکھ کر ان سے سبق حاصل نہ کرنے والے افراد، گروہ اور قومیں اس کارگاہِ حیات میں مستقبل کی طرف کامیاب پیش رفت نہیں کر پاتیں۔ اس لیے اگر جنرل صاحب موصوف حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ شائع نہ کرنے کی کوئی اور وجہ بیان کر دیتے یا کم از کم ’’وسیع تر قومی مفاد و مصلحت‘‘ کے سکہ بند عذر کا حوالہ دے دیتے تو شاید خاموشی کا کوئی جواز نکل آتا مگر ماضی کو بھول جانے کا مشورہ دے کر رپورٹ شائع نہ کرنے کے اعلان نے نہ صرف یہ کہ قوم کی مایوسی میں اضافہ کیا ہے بلکہ ان حساس دلوں کے زخموں کو بھی ایک بار پھر کرید ڈالا ہے جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دولخت ہو جانے کے عظیم سانحہ پر ربع صدی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود دل گرفتہ ہیں اور اس کے اسباب و عوامل اور ذمہ دار طبقات و افراد سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے بے چین ہیں۔
اور پھر ماضی کو بھول جانے کا سبق اسلامی تعلیمات کے بھی منافی ہے کیونکہ قرآن کریم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو پیغام دیا ہے اس کا بہت بڑا حصہ ماضی کے واقعات پر مشتمل ہے۔ اور ماضی بھی تیس چالیس سال پہلے کا نہیں بلکہ ہزاروں سال پہلے والا ماضی قرآن کریم نے بار بار ہمارے سامنے رکھا ہے اور ساتھ یہ ہدایت کی ہے کہ اس سے عبرت پکڑو، اس سے سبق حاصل کرو، اس کی روشنی میں اپنے حال کو سنوارو اور اسی کو سامنے رکھ کر مستقبل کے منصوبے بناؤ:
- قرآن کریم نے ہمیں بتایا ہے کہ ہمارے جدِ امجد حضرت آدم علیہ السلام سے بھول ہوئی کہ شجرِ ممنوعہ کا ذائقہ چکھ لیا تو انہیں جنت چھوڑنا پڑی، یہ ہمارے سبق کے لیے ہے کہ جنت میں دوبارہ جانا چاہتے ہو تو اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی کرنا ہوگی اور جن کاموں اور چیزوں سے تمہیں منع کیا گیا ہے ان سے باز رہنا ہوگا۔
- قرآن کریم نے ہمیں بتایا ہے کہ خدائی کا دعویٰ کرنے والے نمرود اور فرعون نے جب اہلِ ایمان اور اہلِ حق کی بات ماننے کی بجائے ان سے ٹکر لینے کی روش اختیار کی تو اللہ تعالیٰ کی غیبی قوتوں نے انہیں پاش پاش کر کے رکھ دیا۔ اس میں بھی سبق ہے کہ اقتدار اور قوت پر گرفت رکھنے والے حضرات ظاہری طاقت اور اسباب کو ہی سب کچھ نہ سمجھ لیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ان غیبی قوتوں اور تدبیروں کو ذہن میں رکھیں جو اللہ تعالیٰ کے دوستوں کے لیے حرکت میں آجائیں تو تمام تر ظاہری شکوہ و جلال پانی میں ڈبکیاں کھانے لگتا ہے۔
- قرآن کریم نے ہمیں قومِ لوط کے حشر سے آگاہ کیا ہے کہ جب وہ شہوت پرستی کی انتہا کو چھونے لگے اور فطرت کے تمام دائروں کو توڑتے ہوئے آسمانی تعلیمات اور اللہ تعالیٰ کے فرستادہ نیک بندوں سے الجھنے پر آگئے تو آسمان نے ان پر پتھروں کی بارش کر دی اور سدوم اور عمورا کی بستیوں کی بربادی پر اللہ تعالیٰ نے بحیرۂ مردار کو قیامت تک کے لیے نشان عبرت بنا دیا۔
- قرآن کریم نے ہمیں بنی اسرائیل کی تاریخ اور ماضی سے سب سے زیادہ تفصیل کے ساتھ روشناس کرایا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد کو نبوت ملی، بادشاہت ملی، آسمانی شریعت ملی، دنیاوی جاہ و جلال ملا، جنوں انسانوں اور بحر و بر پر حکومت ملی اور اقوام عالم پر برتری و بالادستی حاصل ہوئی۔ مگر یہ عظیم خاندان جب آسمانی تعلیمات کی پابندی کرنے کی بجائے اپنی خواہشات کی پیروی پر اتر آیا اور اس نے ’’خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں‘‘ کے مصداق تورات کے احکام کی من مانی تشریحات شروع کر دیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے لعنت اور غیظ و غضب کا مستحق قرار پا گیا۔
- قرآن کریم نے ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد اور ان سے نسبت پر فخر کرنے والے عربوں کے بارے میں بتایا کہ انہوں نے بیت اللہ کو بت پرستی اور شرک کی آماجگاہ بنا دیا اور زنا، شراب، جوا، بدکاری، نسل پرستی، سود اور ناچ گانے جیسی جاہلانہ اقدار کو اپنی زندگیوں کا معمول بنا لیا تو اللہ تعالیٰ نے کس طرح انہیں ان کی جاہلانہ تہذیب سمیت صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔
یہ سب کچھ ہمارے سبق کے لیے ہے اور ہمیں اپنے حال کی اصلاح اور مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے اس میں فکری بنیادیں فراہم کی گئی ہیں۔ ورنہ قرآن کریم نعوذ باللہ کوئی قصہ گوئی کی کتاب نہیں ہے کہ اس کا اتنا بڑا حصہ ماضی کے واقعات اور قصوں کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منافقانہ تعلق رکھنے والے جس گروہ کی سازشوں اور حرکتوں کے بارے میں بتایا ہے وہ آج کے دور میں ہمارے لیے ماضی کی حیثیت رکھتا ہے کہ انہوں نے اسلام اور ایمان کے دعویٰ اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر میں رہتے ہوئے قرآنی احکام اور نبوی تعلیمات سے روگردانی کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلے۔ جناب رسول اللہؐ کو دق کرنے اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے کس طرح اس وقت کی عالمی قوت سلطنت روما سے سازباز کر کے پرائیویٹ سوسائٹی (این جی او) تشکیل دی اور مسجد کے نام سے خود مدینہ منورہ کے اندر مسلمانوں کے خلاف اڈہ قائم کرنا چاہا تو قرآن کریم نے اسے ’’مسجد ضرار‘‘ قرار دے کر نذر آتش کروا دیا۔
یہ سب واقعات ہمارے لیے سبق کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اتنا مقدس سبق کہ ہم انہیں اللہ تعالیٰ کا کلام مان کر تلاوت کرتے ہیں اور ایک ایک حرف پر کم از کم دس دس نیکیوں کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ اس لیے جنرل پرویز مشرف صاحب سے بڑے ادب کے ساتھ گزارش ہے کہ اگر جنت سے نسل انسانی کے نکلنے کے واقعہ پر حضرت آدم علیہ السلام کی بھول اور خطا کی رپورٹ قیامت تک کے لیے مسلسل شائع ہو سکتی ہے تو ’’سقوط ڈھاکہ‘‘ جیسے عظیم سانحہ پر پاک فوج کے جرنیلوں، سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی غلطیوں، حماقتوں اور بدعنوانیوں کی رپورٹ شائع ہونے سے کوئی آسمان نہیں ٹوٹ پڑے گا۔