ملک کے سرکاری نصابِ تعلیم کے حوالے سے مبینہ تبدیلیوں پر بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے اور آغا خان فاؤنڈیشن کا حوالہ اس میں بار بار سامنے آرہا ہے۔ بہت سے دوست سوال کر رہے ہیں کہ ملک کے ریاستی نصاب تعلیم کے ساتھ آغا خان فاؤنڈیشن کا کیا تعلق ہے اور ملک کے بہت سے تعلیمی حلقوں کو آغا خان فاؤنڈیشن سے کیا شکایت ہے کہ وہ اس سلسلہ میں اس قدر تشویش و اضطراب کا اظہار کر رہے ہیں؟ اس لیے ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اس حوالہ سے کچھ گزارشات قارئین کی خدمت میں پیش کر دی جائیں۔
اصل مسئلہ تو ملک کے ریاستی اور سرکاری نصاب کی ’’اوورہالنگ‘‘ کا ہے کہ ہمارے مغربی آقا سیاسی اور عسکری تسلط کے بعد اب تعلیمی اور ثقافتی معاملات کو بھی اپنے کنٹرول میں لینا چاہتے ہیں اور ان کا پروگرام یہ ہے کہ پاکستان کے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب تعلیم کو مغربی نظام تعلیم سے ہم آہنگ کیا جائے جس کے لیے ضروری ہے کہ نصاب تعلیم سے وہ تمام مواد نکال دیا جائے جو مسلمانوں کے اسلامی تشخص کو اجاگر کرتا ہے یا پاکستان کے نظریاتی و تہذیبی امتیاز کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس کے بارے میں مختلف اداروں کی رپورٹیں سامنے آچکی ہیں اور جس جس حصے کو اس حوالہ سے نصاب سے خارج کرنا ضروری سمجھا جا رہا ہے متعدد رپورٹوں میں اس کی نشاندہی کر دی گئی ہے۔ اس میں عقائد و ثقافت کا مسئلہ سب سے اہم ہے کہ مغرب کے لیے یہ بات قابل اعتراض ہے کہ مسلمان طلبہ اور طالبات کو اس بات کی تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ بحیثیت مسلمان دوسری اقوام سے الگ تشخص رکھتے ہیں۔ اسلام واحد حق مذہب ہے۔ مسلمان اپنے ذاتی، خاندانی اور معاشرتی معاملات میں قرآن و سنت کی تعلیمات کا پابند ہے اور اسے اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ قرآن و سنت کی تعلیمات کو نظرانداز کر کے دوسری اقوام کی تہذیب و ثقافت اور اقدار و روایات کی پیروی کرے۔ کیونکہ یہ سب باتیں مغرب کے نزدیک درست نہیں ہیں اس لیے کہ ان سے مسلمانوں کے دوسری تمام اقوام سے الگ اور ممتاز ہونے کا ذہن بنتا ہے اور یہ اس عالمگیر اور بین الاقوامی مفاہمت، ہم آہنگی اور رواداری کے منافی ہے جس کا مغرب اس وقت دعوے دار ہے اور جسے ہر حال میں قابل عمل بنانے کے لیے مغرب اپنی پوری قوت صرف کر رہا ہے۔
مسلمانوں کی الگ ثقافتی حیثیت اور پاکستان کا جداگانہ نظریاتی و تہذیبی تشخص مغرب کا اصل ہدف ہیں اور اس کی تمام تر تگ و دو کا مرکزی نکتہ اس امتیاز اور تشخص کا خاتمہ ہے۔ اس کے لیے ہوم ورک مکمل ہے، پیپرورک کی حد تک کام ہو چکا ہے اور اب مسئلہ اسے روبہ عمل لانے کا ہے جس کے لیے مغرب کو پاکستان کے موجودہ روایتی حلقوں میں سے کسی پر اعتماد نہیں ہے۔ مغرب یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کے سرکاری محکموں اور تعلیمی اداروں میں ایسے افراد بہت کم ہیں جو اس ایجنڈے میں مغرب کے ہم نوا ہیں اور اگر کچھ افراد موجود ہیں تو ان میں اتنی جرأت، حوصلہ اور صلاحیت نہیں ہے کہ وہ اس طرف کوئی عملی پیش رفت کر سکیں اور وہ مغرب کی حمایت میں زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
مغرب نے اس حوالہ سے مختلف افراد اور طبقات پر بہت کام کیا ہے اور بڑے پیسے خرچ کیے ہیں۔ بہت سی مراعات کی صورت میں اور متعدد این جی اوز کے ذریعے اپنے مطلب کے افراد کو بہت نوازا ہے لیکن کوئی عملی نتیجہ اسے حاصل نہیں ہوا۔ اس لیے مغرب نے ملک کی اکثریت پر اعتماد کرنے کی بجائے یا اس میں سے افراد منتخب کر کے ان پر مزید پیسے ضائع کرنے کی بجائے ایک اقلیت کا انتخاب کیا ہے جو اقلیت ہونے کے باوجود تعلیمی محاذ پر منظم نیٹ ورک رکھتی ہے، اس کا بین الاقوامی تعلیمی نیٹ ورک سے تعلق ہے، اس کے پاس ایک معیاری تعلیمی نظام کو چلانے کی صلاحیت اور وسائل دونوں موجود ہیں اور اس نے اس سلسلہ میں اچھا خاصا کام پہلے سے کر رکھا ہے۔ اس کے لیے پاکستان میں امریکہ کی سفیر محترمہ نینسی پاؤل اور آغا خان فاؤنڈیشن کے سربراہ جناب شمس الحق لاکھانی کے درمیان ایک باقاعدہ تحریری معاہدہ کی خبریں آچکی ہیں جس کے تحت آغا خان فاؤنڈیشن پاکستان کے تعلیمی نظام و نصاب کو عالمی تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے کام کرے گی اور امریکہ اسے اس کے لیے ساڑھے چار سو لاکھ ڈالر دے گا۔ جبکہ حکومت پاکستان نے اس کے ساتھ اپنی رضامندی اور تعلق کا اس طرح اظہار کر دیا ہے کہ شمس الحق لاکھانی اور نینسی پاؤل کے اس مبینہ تحریری معاہدہ پر وفاقی وزیرتعلیم محترمہ زبیدہ جلال اور سندھ کے وزیرتعلیم عرفان مروت نے بھی دستخط کیے ہیں۔ اس معاہدہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے آغا خان فاؤنڈیشن کے قائم کردہ تعلیمی بورڈ کو سرکاری سطح پر تسلیم کر لیا گیا ہے اور رپورٹ یہ ہے کہ اس بورڈ کو امتحانی یونیورسٹی کا درجہ دے کر ملک کے تمام سرکاری تعلیمی بورڈز کو اس کے ساتھ منسلک کیا جا رہا ہے۔ جبکہ وفاقی وزیرتعلیم محترمہ زبیدہ جلال ایک اخباری بیان میں بتا چکی ہیں کہ آغا خان ایجوکیشنل بورڈ ۲۰۰۶ء سے امتحان لینے کا سلسلہ شروع کر دے گا۔
اس پر ملک کے دینی اور تعلیمی حلقوں کو تشویش ہے کہ ایک طرف تو تعلیمی نصاب کو مغرب کے دباؤ کا سامنا ہے کہ نصاب تعلیم سے اسلامی مواد اور روایات کو خارج کرنے کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں اور دوسری طرف جو تھوڑا بہت برائے نام اسلامی مواد موجود ہوگا وہ بھی ایک اقلیتی گروہ کی ترجیحات اور پالیسی کے مطابق ہوگا جس سے ملک کی غالب اکثریت کے عقائد، ثقافت اور دینی روایات کو شدید خطرہ لاحق ہو جائے گا۔
جہاں تک آغا خان کمیونٹی کا تعلق ہے اس کے بارے میں الندوۃ العالمی الاسلامی (ریاض، سعودی عرب) کی شائع کردہ کتاب ’’الموسوعۃ المیسرۃ فی الادیان والمذاہب المعاصرۃ‘‘ میں ’’الاسماعیلیۃ‘‘ کے عنوان سے دی گئی معلومات کے مطابق ’’آغا خانی فرقہ‘‘ اسماعیلیوں کی شاخ ہے۔ اور اسماعیلیوں کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ امام جعفر صادقؒ کی وفات کے بعد جب اہل تشیع نے ان کے فرزند امام موسیٰ کاظمؒ کو ان کا جانشین قرار دے کر امام تسلیم کیا تو ایک گروہ نے اس فیصلہ سے اختلاف کیا اور امام جعفر صادقؒ کے دوسرے بیٹے امام اسماعیلؒ کو اپنا امام بنا لیا، اس حوالہ سے وہ اسماعیلی کہلاتے ہیں۔ جبکہ دیگر اہل تشیع کی اکثریت اثنا عشری کہلاتی ہے جو بارہویں امام تک امامت کا تسلسل مانتے ہیں، بارہویں امام ان کے نزدیک غائب ہوگئے تھے اور ان کی واپسی تک انہی کی امامت جاری رہے گی۔ مگر اسماعیلیوں کے نزدیک اماموں کا تسلسل اب تک جاری ہے اور موجودہ آغا خان اس کے مطابق انچاسویں امام بنتے ہیں۔
اسماعیلیوں کے مختلف گروہ مختلف ادوار میں گزرے ہیں، ان میں قرامطہ بھی ہیں جو باطنی سلسلہ کا معروف گروہ ہے، ان میں فاطمی بھی ہیں جن کی ایک عرصہ تک مصر پر حکومت رہی ہے، ان میں تاریخ کا معروف کردار حسن بن صباح بھی ہے جس نے باطنی سلطنت قائم کر رکھی تھی اور زمین پر خود ساختہ جنت بنا رکھی تھی، ان میں بوھرے بھی ہیں جن کا ہیڈ کوارٹر بمبئی میں ہے اور ایک گروہ اسماعیلیوں میں ایسا بھی ہے جو ساتویں امام محمد بن اسماعیل کو امام غائب مانتا ہے اور اس کے بعد امامت کے تسلسل کا قائل نہیں ہے۔ ان کے معتقدات مذکورہ کتاب میں اس طرح درج ہیں کہ وہ:
- ایک معصوم امام کی موجودگی کو ضروری مانتے ہیں۔
- امام کو خدا کا نمائندہ سمجھتے ہیں۔
- امام کو اپنی آمدنی کا پانچواں حصہ خمس ادا کرتے ہیں۔
- امام پر ایمان کو نجات کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔
- تناسخ کے قائل ہیں۔
- امام کو تمام انبیاء کرامؑ کا وارث قرار دیتے ہیں۔
- اللہ تعالیٰ کی صفات کا انکار کرتے ہیں۔
- تقیہ یعنی ضرورت کے وقت عقیدہ کو چھپانے کو ضروری خیال کرتے ہیں۔
جبکہ پنجاب یونیورسٹی کے ’’دائرہ معارف اسلامیہ‘‘ کے مطابق اسماعیلیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ جو امام وقت کو نہیں مانتا وہ کافر ہے اور امام کو قرآن کی تشریح اور عقائد و عبادات کی مختلف صورتوں کے تعین کا حتمی اختیار حاصل ہے۔ آغا خانیوں کے موجودہ سلسلے کا آغاز آقائے حسن علی شاہ سے ہوا جو ایران سے تعلق رکھتے تھے اور انہیں ’’آغا خان‘‘ کا خطاب حکومتِ برطانیہ نے دیا تھا، وہ برطانوی حکومت کے آلۂ کار کے طور پر اس دور میں سرگرم عمل تھے، ان کی وفات پر ۱۸۸۱ء میں علی شاہ آغا خان دوم بنے، ان کے بیٹے آغا خان سوم سلطان محمد شاہ تھے جنہوں نے ۱۸۸۵ء میں یہ منصب سنبھالا اور برصغیر کی سیاسی تاریخ میں جن آغا خان کا نام کثرت سے ذکر ہوتا ہے یہ وہی آغا خان سوم ہیں، ان کی ولادت کراچی میں ہوئی، ۱۹۵۷ء میں ان کی وفات پر ان کے پوتے پرنس کریم ان کی جگہ آغا خان چہارم بنے جو اب تک اس منصب پر فائز چلے آرہے ہیں۔
کراچی کو آغا خان کمیونٹی کی سرگرمیوں میں مرکزی حیثیت حال ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات یعنی گلگت، بلتستان، سکردو اور ہنزہ وغیرہ میں آغا خانیوں کی خاصی تعداد آباد ہے اور اسی وجہ سے آغا خان کی توجہات کا یہ علاقہ مرکز بنا ہوا ہے۔ شمالی علاقہ جات میں مغرب بالخصوص امریکہ کی دلچسپی ظاہر ہے کہ اس خطہ میں دنیا کا سب سے اونچا میدان ’’دیوسائی‘‘ ہے جہاں ٖبیٹھ کر چین، جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کو فضائی طور پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے اس لیے یہ میدان امریکہ کی ضرورت بن چکا ہے، اس حوالہ سے شمالی علاقہ جات کوالگ طور پر ایک ریاست بنانے یا کم از کم پاکستان کے اندر الگ صوبے کی حیثیت دینے کی کوشش بھی مسلسل جاری رہتی ہے۔
یہ آغا خانی فرقہ کا مختصر تعارف ہے جو مذکورہ بالا دو کتابوں کے حوالہ سے درج کیا گیا ہے۔ اس پس منظر میں آغا خان فاؤنڈیشن کے ساتھ امریکی سفیر کے معاہدہ کو دیکھا جائے اور آغا خان فاؤنڈیشن کے ساتھ پاکستان کے تعلیمی نظام کو منسلک کرنے کے منطقی نتائج کا جائزہ لیا جائے تو مستقبل کے خوفناک نقشہ کو سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ ارباب فہم و دانش سنجیدگی کے ساتھ اس طرف توجہ دیں اور عوام کو اس سلسلہ میں صحیح معلومات فراہم کرتے ہوئے انہیں بتائیں کہ عالمی نظام کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے نام پر ان کے ساتھ کیا ڈرامہ کھیلا جا رہا ہے۔