حضرت مولانا قاضی عبد الکریم کلاچویؒ

   
۱۸ اپریل ۲۰۱۶ء

۱۳ اپریل کو ڈیرہ اسماعیل خان جاتے ہوئے تھوڑی دیر کے لیے بھکر رکا، حضرت مولانا محمد عبد اللہ رحمہ اللہ تعالیٰ کی تعزیت کے لیے جامعہ قادریہ میں حاضری دی، اور ان کے فرزند مولانا کفایت اللہ اور دیگر حضرات سے ملاقات و تعزیت کی۔ حضرت مولانا مرحوم کے ساتھ طویل جماعتی رفاقت رہی ہے، وہ خدا ترس، حق گو، صاحب بصیرت اور متحرک جماعتی راہنما تھے اور زندگی بھر دین، مسلک اور جمعیۃ علماء اسلام کے لیے متحرک اور فکرمند رہے۔ گوجرانوالہ سے مولانا ہدایت اللہ جالندھری اور حافظ محمد یوسف ثانی ہمراہ تھے۔ ہماری اصل منزل ڈیرہ اسماعیل خان کی نواحی بستی ملانہ تھی جہاں مدینۃ العلوم والفیوض کے سالانہ جلسہ دستار بندی کے لیے مولانا قاری محمد رمضان نے یاد کیا تھا۔ جامعہ نعمانیہ کے مولانا وحید الدین اور پاکستان شریعت کونسل کے صوبائی راہنما مولانا عبد الحفیظ محمدی وہیں تشریف لائے اور مختلف امور پر تبادلہ خیال کا موقع مل گیا۔ جی تو کلاچی جانے کو بھی چاہتا تھا کیونکہ حضرت مولانا قاضی عبد الکریم رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات کے بعد وہاں نہیں جا سکا تھا مگر سفر کا نظم اس قدر بے لچک تھا کہ یہ خواہش ساتھ لے کر واپس آگیا۔ البتہ مولانا عبد الحفیظ محمدی کے ذریعہ حضرت قاضی صاحبؒ کے جانشین مولانا قاضی محمد نسیم کلاچوی کا یہ پیغام مکرر وصول ہوا کہ وہ حضرت مولانا قاضی عبد الکریم کلاچویؒ کے بارے میں ایک کتاب کے لیے مواد اور تاثرات جمع کر رہے ہیں اور اس کے لیے مجھ سے بھی تقاضہ ہے کہ کچھ معروضات قلمبند کر دوں۔

حضرت مولانا قاضی عبد الکریمؒ اور ان کے بھائی حضرت مولانا قاضی عبد اللطیفؒ کو ملک کی دینی تحریکات اور جماعتی زندگی میں منفرد مقام اور شناخت حاصل ہے۔ وہ اپنے علاقہ میں تو اکابر علماء دیوبند کی روایت و مسلک کے پرچارک تھے ہی، انہیں اہل حق کی ترجمانی اور نفاذ شریعت کی جدوجہد میں ملکی سطح پر بھی بھرپور کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔ اور ان کی تگ و دو کو دینی تحریکات کی تاریخ میں ایک مستقل باب کی حیثیت حاصل ہے۔ مجھے مولانا قاضی عبد الکریمؒ کی زیارت کا شرف سب سے پہلے ۱۹۶۷ء یا ۱۹۶۸ء میں ملا جب میں ڈیرہ اسماعیل خان کی تاریخی شریعت کانفرنس میں شرکت کے لیے وہاں گیا۔ یہ کانفرنس حق نواز پارک میں ہوئی اور مجھے اس جلوس کے بہت سے مناظر اور لطیفے اب بھی یاد ہیں جس کا ڈیرہ والوں نے حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ ، حضرت مولانا خواجہ خان محمدؒ اور دیگر اکابرین کے استقبال کے لیے اہتمام کیا تھا۔ اور یہ سعادت بھی میرے ذہن کے ایک کونے میں محفوظ ہے کہ اس کانفرنس کے منتظم اعلیٰ حضرت مولانا مفتی محمودؒ خود تھے۔ میں کانفرنس سے ایک روز قبل سیدھا حق نواز پارک پہنچا جو اس وقت میونسپل پارک کہلاتا تھا۔ مفتی صاحبؒ پارک کے وسط میں آلتی پالتی مارے بیٹھے تھے، مجھے دیکھتے ہی فرمانے لگے کہ اچھا ہوا کہ وقت پر آگئے ہو، ہم نے تو ابھی تک کانفرنس کا خطبہ استقبالیہ ہی نہیں لکھا۔ اس لیے تم پہلا کام یہی کرو کہ خطبہ استقبالیہ لکھ دو۔ خواجہ محمد زاہد مرحوم میرے ساتھ تھے ان کے ذمہ لگایا کہ رات ہی رات اسے طبع کرانے کا اہتمام کرو۔ میں نے فوری طور پر یہ خدمت سرانجام دی۔ اور جمعیۃ ہی کے ایک بزرگ شیخ عزیز الرحمن مرحوم کا پریس رات کو کھلوا کر اسے چھپوایا گیا۔

قاضی صاحبان کا تذکرہ تو ہفت روزہ ترجمان اسلام میں پڑھتا ہی رہتا تھا مگر پہلی ملاقات کا موقع یہی یاد ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان کی آئین شریعت کانفرنس میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد کی ملاقاتوں اور خلوت و جلوت کی صحبتوں کو شمار کرنا تو کجا ان کا اندازہ لگانا چاہوں تو وہ بھی میرے بس کی بات نہیں ہے۔

حضرت مولانا قاضی عبد الکریمؒ نکتہ رس مدرس اور نکتہ شناس دانشور تھے۔ زندگی بھر درس و تدریس، افتاء و ارشاد اور تربیت و سلوک کے ماحول میں گزری۔ لیکن ملکی و قومی معاملات اور دینی تحریکات کے متنوع تقاضوں پر اظہار خیال کا سلسلہ بھی جاری رہتا تھا۔ صاحب مطالعہ اور تجزیہ و تبصرہ کے عمدہ ذوق سے بہرہ ور تھے۔ جن دنوں ملک میں سنی شیعہ کشیدگی عروج پر تھی میں نے اس کشمکش کے تاریخی پس منظر اور معروضی حالات کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون لکھا جو اس وقت کے اخبارات کے علاوہ ماہنامہ الشریعہ میں بھی شائع ہوا تھا، حضرت قاضی صاحبؒ نے ایک ملاقات میں اس پر بے حد خوشی کا اظہار فرمایا اور کہا کہ تم نے ہمارے موقف کی صحیح ترجمانی کر دی ہے اور اس کی اشاعت بھی خوب ہوئی ہے۔

میں نے ایک مضمون میں افغان طالبان کی قیادت سے یہ عرض کیا کہ وہ نفاذ اسلام کے لیے پاکستان میں قرارداد مقاصد اور علماء کرام کے ۲۲ متفقہ نکات سے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات تک کے عمل سے استفادہ کریں اور جو سرکردہ حضرات پاکستان میں سیاسی اور عدالتی شعبوں میں نفاذ اسلام کے لیے مسلسل سرگرم عمل ہیں ان سے راہنمائی حاصل کریں۔ اس پر حضرت قاضی صاحبؒ نے مجھے خط لکھا کہ ’’انہیں اپنی نہج پر کام کرنے دو، انہیں ہمارے والی عادتیں کیوں ڈالنا چاہتے ہو؟‘‘ قاضی صاحبؒ کے اس درد بھرے جملہ میں معانی کا ایک جہان آباد ہے۔ میری رائے تو تبدیل نہیں ہوئی اور اب بھی وہی ہے مگر حضرت قاضی صاحبؒ کے اس درد دل نے اس قدر متاثر کیا کہ جب بھی موقع ملتا ہے مختلف محافل میں اس کا اظہار کرتا رہتا ہوں۔

ڈیرہ اسماعیل خان کا علاقہ تقسیم ہند سے قبل جمعیۃ علماء ہند کا مرکز سمجھا جاتا تھا اور یہاں سے صوبائی اسمبلی کا ایک رکن بھی جمعیۃ کی حمایت سے کامیاب ہوا تھا۔ اس لیے تحریک پاکستان کے موقع پر صوبہ سرحد میں جو ریفرنڈم ہوا اس میں اس علاقہ کے بارے میں خطرہ محسوس کیا جاتا تھا۔ حضرت مولانا قاضی عبد الکریمؒ نے ایک موقع پر بتایا کہ اس خطرہ کے پیش نظر پیر صاحب آف مالکی شریفؒ کی تجویز و تحریک پر شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے خود صوبہ سرحد کا دورہ کیا۔ وہ ہمارے بھی استاذ محترم تھے چنانچہ ان کے حکم پر اور ان کی وجہ سے ہم ان کے اکثر شاگرد ان کے ساتھ ہوگئے جس سے صوبہ سرحد میں ایک نمایاں تبدیلی دیکھی گئی۔ حضرت قاضی صاحبؒ ابتدا میں جمعیۃ علماء اسلام کے لیے خاصے متحرک تھے اور غالباً ایک موقع پر جمعیۃ علماء اسلام ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے ضلعی امیر اور صوبائی نائب امیر بھی رہے۔ مگر بعد میں گوشہ نشین ہوگئے جس کی وجہ شاید یہ ہو کہ ان کے چھوٹے بھائی حضرت مولانا قاضی عبد اللطیفؒ جمعیۃ کی قیادت کی صف اول تک پہنچ گئے تھے۔ یہ صورتحال خود ہمارے ہاں بھی پیش آئی تھی۔ حضرت مولانا مفتی محمودؒ نے ایک بار گکھڑ کا سفر کر کے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ سے کہا، جو اس وقت جمعیۃ کے ضلعی امیر تھے، کہ آپ جمعیۃ کی قیادت کے لیے آگے آئیں اور صف اول میں ہمارے ساتھ شریک ہوں۔ حضرت والد محترمؒ نے جواب میں فرمایا کہ میرے استاذ محترم مولانا مفتی عبد الواحدؒ جمعیۃ کے مرکزی ناظم، جبکہ میرا بیٹا زاہد الراشدی مرکزی سیکرٹری اطلاعات ہے، اس لیے یہی کافی ہے، مجھے بھی آپ ساتھ ہی سمجھیں۔

حضرت مولانا قاضی عبد الکریمؒ کو بعض امور میں اختلاف بھی تھا۔ خاص طور پر وہ پاکستان کی اسمبلیوں میں غیر مسلموں کی نمائندگی کے حق میں نہیں تھے اور اس پر مستقل موقف اور دلائل رکھتے تھے۔ جبکہ ۱۹۷۳ء کے دستور میں غیر مسلموں کی نمائندگی کو تسلیم کیا گیا ہے اور جمعیۃ علماء اسلام کی قیادت اس دستور کی تیاری اور پاسداری میں شروع سے شریک ہے۔ ہم نے جب پاکستان شریعت کونسل کے نام سے ایک مستقل فورم بنایا تو حضرت قاضی صاحبؒ سے سرپرستی قبول کرنے کی درخواست کی جو انہوں نے اس شرط پر قبول فرمائی کہ میرا موقف وہی رہے گا۔ ہم نے عرض کیا کہ آپ کو اپنا یہ موقف قائم رکھنے اور اس کے اظہار کا بجا طور پر حق ہے اور ہم اس میں رکاوٹ نہیں بنیں گے۔

قاضی صاحب مرحوم وضعدار اور با اصول علماء کرام کی فہرست میں چند گنے چنے افراد میں شمار ہوتے تھے جن سے استفادہ ہمارے جیسے کارکنوں کے لیے ہمیشہ باعث سعادت رہا ہے۔ اب بھی ان کی باتیں یاد آتی ہیں تو فکر و دانش کی خوشبو مہک اٹھتی ہے اور خلوص و للہیت کی چمک صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات جنت الفردوس میں بلند سے بلند تر فرمائیں اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter