بعد الحمد والصلوٰۃ۔ عباسی خلفاء اور اُموی خلفاء کی آپس میں سیاسی مخالفت تھی۔ اور جب سیاسی مخالفت ہوتی ہے تو پھر خواہ مخواہ کے اعتراض ہوتے ہیں، جیسے آج کل ہو رہا ہے، کوئی اِس پر کر رہا ہے، کوئی اُس پر کر رہا ہے، اصل بات کچھ بھی نہیں ہوتی، بس اعتراض کرنا ہوتا ہے، سیاسی مخالفت ایسی ہی ہوتی ہے۔ ایک عباسی خلیفہ صاحب مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے تو انہوں علماء سے سوال کر دیا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر سب سے پہلا اعتراض کیا ہوا تھا؟ حضرت عثمانؓ اموی تھے، بنو امیہ میں سے تھے، دوسری پارٹی تھی۔
مجلس میں ایک بزرگ بیٹھے ہوئے تھے، انہیں یہ لہجہ پسند نہیں آیا کہ اس طرح بات نہیں کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ میں بتا دیتا ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ ارشاد فرماتے تھے تو منبر کے اوپر کے درجے پر کھڑے ہوتے تھے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ بنے تو احتراماً دوسری سیڑھی پر آ گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو تیسری سیڑھی پر آ گئے۔ اب یہ کوئی مسئلہ نہیں، صرف احتراماً تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی باری آئی تو سیڑھیاں ختم ہو گئیں، تو وہ اوپر والی سیڑھی پر جا کھڑے ہوئے۔ کسی نے اعتراض کیا کہ حضرت، پہلوں نے احتراماً اس کا لحاظ رکھا تھا مگر آپ اوپر والی سیڑھی پر کھڑے ہو گئے ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مزے کا جواب دیا کہ انہوں نے ادب و احترام کا لحاظ رکھا تھا اور میں نے اصل سنت پر عمل کیا ہے۔
یہ ایک سادہ سی بات تھی، وہ بزرگ کہنے لگے کہ امیر المومنین! حضرت عثمانؓ نے ایسا کر کے آپ پر بڑا احسان کیا ہے۔ اب ان کی سیاسی مخالف تھی، کہنے لگے کہ مجھ پر کیا احسان کیا ہے؟ بزرگ نے کہا کہ اگر حضرت عثمانؓ اس تسلسل کا خیال رکھتے تو زمین پر کھڑے ہوتے، بعد والے بزرگ زمین کھود کر نیچے جاتے، اور آپ کی باری آنے تک آپ کنویں میں خطبہ ارشاد فرماتے اور ہم اوپر سے سن رہے ہوتے کہ امیر المومنین کیا ارشاد فرما رہے ہیں۔
تو میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ خواہ مخواہ اعتراض نہیں کرنا چاہیے، اللھم صل علیٰ سیدنا محمدن النبی الامی وعلیٰ اٰلہ واصحابہ و بارک وسلم۔