روزنامہ ایکسپریس گوجرانوالہ (۱۸ جنوری ۲۰۱۲ء) کی خبر کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس محترم جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا ہے کہ اگر کوئی قانون قرآن و سنت کے کسی قانون کے درمیان حائل ہے تو اس کے لیے وفاقی شرعی عدالت سے رجوع کیا جائے۔ یہ بات انہوں نے ایک رٹ درخواست کی سماعت کے دوران کہی جس میں درخواست گزارنے استدعا کی ہے کہ قوانین کو اسلامی رنگ میں ڈھالنے کے لیے قراردادِ مقاصد کے تحت قرآن و سنت کے احکام کو ملکی قوانین کے طور پر نافذ کرنے کا حکم دیا جائے۔ چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا کہ عدالتیں آئین اور قانون کے تابع کام کر رہی ہیں، درخواست گزار نے درخواست میں ترمیم کی اجازت طلب کی جو دے دی گئی اور اس کے بعد چیف جسٹس نے رٹ کی سماعت غیر متعینہ عرصہ کے لیے ملتوی کر دی۔
قرآن و سنت کی دستوری بالادستی کے نام پر یہ آنکھ مچولی ایک مدت سے ملک کے اعلیٰ ایوانوں کے ساتھ ساتھ عدالتوں میں بھی جاری ہے۔وفاقی شرعی عدالت بلاشبہ ایک دستوری ادارہ ہے اور ملک میں نافذ کسی بھی قانون کا جائزہ لے کر اسے قرآن و سنت قرار دینے کی صورت میں حکومت کو متبادل قانون لانے کا حکم دینا بھی وفاقی شرعی عدالت کے اختیار میں ہے، لیکن عملی صورتحال یہ ہے کہ ملک میں نافذ سودی قوانین کو ختم کرنے کے لیے وفاقی شرعی عدالت نے واضح حکم دیا تھا جس کی سپریم کورٹ کے شریعت ایپلیٹ بنچ نے بھی توثیق کر دی تھی، لیکن نظر ثانی کی اپیل میں اس کیس کی ازسرِنو سماعت کے آرڈر کے ساتھ اسے غیر متعینہ مدت کے لیے التوا میں ڈال دیا گیا جو ابھی تک التوا کی فریزر میں منجمد پڑی ہے۔
اس طرح کی اور بھی کئی درخواستیں اس فریزر کے تہہ خانوں میں پڑی مل جائیں گی، اس لیے ہم محترم جسٹس شیخ عظمت سعید صاحب سے بصد ادب و احترام سے گزارش کریں گے کہ وہ اس فریزر کا دروازہ کھلوانے اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کا بھی کوئی راستہ بتائیں۔ کیا شرعی قوانین کے نفاذ اور قرآن و سنت کی دستوری بالادستی کے معاملات کو اسی طرح غیر معینہ عرصہ کے لیے ملتوی کیا جاتا رہے گا؟ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دیں اور ہمارے حال پر رحم فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔