قومی وحدت اور دفاع کے چند تاریخی دن

   
جامعہ فتحیہ، اچھرہ، لاہور
۱۹ مئی ۲۰۲۵ء

(۱۹ مئی کو جامعہ فتحیہ، اچھرہ، لاہور میں ’’معرکہٴ حق: بنیانٌ مرصوص‘‘ پر گفتگو)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج پوری قوم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سراپائے تشکر و امتنان ہے کہ اللہ رب العزت نے پاکستان اور پاکستانی قوم کو، ہمارے حکمرانوں اور افواج کو، بلکہ تمام طبقات کو ایک بہت بڑی آزمائش میں سرخرو فرمایا ہے۔ یہ بڑی آزمائش آ گئی تھی لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے پوری قوم کو یہ توفیق عطا فرمائی کہ وہ بنیانٌ مرصوص ہو کر سامنے آئی اور اللہ پاک نے اس کی لاج رکھی۔ بنیان مرصوص کا لفظی ترجمہ تو سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے۔ آج کل تو کنکریٹ ہے، اور بھی نئے طریقے آ گئے ہیں، لیکن کسی زمانے میں کسی دیوار کے مضبوط کرنے کی سب سے بہتر صورت یہ ہوتی تھی کہ اس میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جاتا تھا جس سے دیوار مضبوط ہو جاتی تھی۔

اس کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے، اللہ رب العزت نے ایک جگہ فرمایا، ابھی قاری صاحب جہاد کے حوالے سے وہ آیات پڑھ رہے تھے ’’ان اللہ یحب الذین یقاتلون فی سبیلہ صفاً‌ کانھم بنیان مرصوص‘‘ (الصف ۴) اللہ تعالیٰ ان مسلمانوں کو بہت پسند کرتے ہیں جو ایسے متحد ہو کر دشمن کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں جیسے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہو۔ اور الحمد للہ ایسا ہی ہوا ہے۔ یہ محاورہ ہے اتحاد اور وحدت کایعنی جب جہاد ہوتا ہے اور دشمن کے مقابلے میں قوم متحد ہوتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد آتی ہے اور اللہ رب العزت سرخروئی عطا فرماتے ہیں۔

انڈیا کے ساتھ ہمارے مسائل تو پچھتر سال سے چل رہے ہیں، کشمیر کا مسئلہ بھی ہے، پانی کا مسئلہ بھی ہے، اور مسائل بھی ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان پہلے بھی جنگیں ہو چکی ہیں اور اگر یہ مسائل حل نہ ہوئے تو آئندہ بھی ہوں گی، اللہ پاک معاف فرمائیں۔ البتہ حالیہ تنازع پانی سے شروع ہوا تھا جو انڈیا نے ایک واقعہ کے بعد بند کر دیا اور پھر پانی کا یہ تنازع فضاؤں کی جنگ میں تبدیل ہو گیا، صورتحال ساری آپ کے سامنے ہے۔ اب سیزفائر کا وقفہ آیا ہے، دعا کریں کہ یہ وقفہ قائم رہے۔

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ’’لا تتمنوا لقاء العدو واسلوا اللہ العافیۃ فاذا لقیتموھم فاصبروا واعلموا ان الجنۃ تحت ضلال السیوف‘‘ دشمن سے مقابلے کی تمنا نہ کرو، یعنی زبردستی لڑائی مول نہ لو، اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ عافیت مانگو، اپنے لیے بھی اور قوم کے لیے بھی، لیکن جب سامنا ہو جائے تو پھر ڈٹ جاؤ، پھر تمہاری جنت تلوار کے سائے میں ہی ہے، پھر بزدلی اور نرمی دکھانا دین کے مزاج کے بھی خلاف ہے اور قومی غیرت کے بھی خلاف ہے۔

اللہ رب العزت نے اس کے ساتھ یہ حکم بھی دیا ہے ’’واعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ و من رباط الخیل ترہبون بہ عدو اللہ وعدوکم‘‘ (الانفال ۶۰) قوت پیدا کرو جو تمہارے بس میں ہو، اپنی وحدت قائم کرو، اپنے دفاع کو مضبوط کرو۔ جبکہ قوت کا معیار یہ بتایا ہے کہ اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن کو تم مرعوب رکھ سکو۔ میں اصطلاحی زبان میں اس کا ترجمہ یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ طاقت کا توازن تمہارے ہاتھ میں ہونا چاہیے، دنیا کو پتہ ہونا چاہیے کہ ان کو چھیڑنا آسان نہیں ہے، اور الحمد للہ یہ دنیا کو پتہ چل گیا ہے۔

اس پر ایک واقعہ عرض کرنا چاہوں گا۔ آج کل تو ٹیکنالوجی کی لڑائی ہوتی ہے ، صف بندی کی لڑائی نہیں ہوتی۔ سیاسی طور پر میز کی لڑائی ہے اور فوجی لحاظ سے ٹیکنالوجی کی لڑائی ہے کہ کنٹرول روم میں بیٹھ کر بٹن دبانے ہوتے ہیں۔ پرانے زمانے میں صف بندی کی لڑائی ہوتی تھی۔ امام ترمذیؒ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کا زمانہ تھا اور رومیوں کے ساتھ جنگ تھی، آمنے سامنے صفیں کھڑی تھیں کہ ایک نوجوان کو جوش آیا، جیسے نوجوانوں کو جوش آجایا کرتا ہے، اس نے تلوار لی اور نعرے لگاتا ہوا دشمن کی صفوں میں گھس گیا۔ کسی نے اس نوجوان کی جذباتیت پر قرآن پاک کی آیت پڑھی ’’وانفقوا فی سبیل اللہ ولا تلقوا بایدیکم التھلکۃ‘‘ (البقرۃ ۱۹۵) یعنی اپنے آپ کو خود ہلاکت میں نہ ڈالو۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ وہاں کھڑے تھے، کہا کہ ٹھہرو بھئی، یہ آیت تم نے غلط جگہ پڑھی ہے ، یہ اس موقع کے لیے نہیں ہے، یہ آیت تو ہمارے بارے میں نازل ہوئی تھی، اس آیت کا شانِ نزول ہم انصارِ مدینہ ہیں۔

حضرت ابو ایوب انصاریؓ نے فرمایا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو ہم انصارِ مدینہ نے الحمد للہ جو کچھ ہم سے ہو سکا ہم نے کیا۔ انصار نے سنبھالا بھی ہے اور لڑائیاں بھی لڑی ہیں۔ بدر کی لڑائی لڑی ہے، احد کی لڑی ہے، خندق کی لڑی ہے۔ لیکن جب خیبر کی لڑائی ہوئی تو اس کے بعد صورتحال کافی بدل گئی تھی، ہمارا رعب بھی قائم ہو گیا تھا، خرچے وغیرہ بھی ملنے شروع ہو گئے تھے۔ ہم انصارِ مدینہ نے آپس میں بیٹھ کر مشورہ کیا کہ پہلے ہم وقت بھی بہت دیتے تھے، مال بھی بہت خرچ کرتے تھے، خیبر کی جنگ کے بعد معاشی حالات بھی بہتر ہو گئے ہیں اور دنیا میں ہمارا کچھ رعب بھی بن گیا ہے۔ اس لیے اب ہم ایسا کریں کہ اپنی کھیتی باڑی کی طرف توجہ دیں اور اس کے ساتھ مال اور وقت بھی اس طرح نہ دیا کریں جیسے پہلے دیتے تھے۔

اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ’’وانفقوا فی سبیل اللہ ولا تلقوا بایدیکم التھلکۃ‘‘ اللہ کے راستے میں جہاد پر خرچ کرتے رہو، جہاد میں خرچ پر کمی کر کے اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو۔ اپنے دفاع و حفاظت اور اپنی قوت کا خرچہ کم کرنے کا نتیجہ کیا ہو گا؟ اس کا معنی یہ ہے کہ جیسے پہلے وقت دیتے تھے، مال خرچ کرتے تھے اور جہاد کرتے تھے، اسی طرح اپنا ماحول قائم رکھو، ورنہ یہ ’’ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکہ‘‘ کا مصداق ہو گا۔

الحمد للہ ثم الحمد للہ تمام تر رکاوٹوں، طعنوں اور مشکلات کے باوجود پاکستان ایک ایٹمی قوت بنا ہے اور اس کے دنیا پر اثرات بھی ہیں۔ ایک پرانی کہاوت مجھے یاد آئی ہے، امریکہ کے کسی علاقے کی ہے، ایک آدمی کسی سے ملنے گیا، وہ کسی جنگلی علاقے میں رہتا تھا۔ اس نے اپنے میزبان سے اردگرد کے ماحول کے بارے میں پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ سب شریف لوگ ہیں اور ہمارا معاملہ ٹھیک چل رہا ہے۔ اس نے پوچھا کہ پھر یہ سامنے رائفل کیوں لٹکائی ہوئی ہے؟ اگر کوئی جھگڑا نہیں ہے، کوئی لڑائی نہیں ہے، لوگ تعاون کرنے والے ہیں تو پھر یہ بندوق کس لیے؟ اس نے جواب دیا کہ اسی کی وجہ سے لوگ اچھے ہیں اور یہ بندوق انہیں شریف رکھنے کے لیے ہی رکھی ہوئی ہے۔

آج کل بین الاقوامی تبصرے آپ پڑھ رہے ہیں کہ دو ایٹمی ملکوں کے درمیان جنگ بندی کیوں کروائی گئی ہے، اس خوف سے کہ کہیں ایٹم بم کے بٹن پر ہاتھ نہ لگ جائے۔ اسی کے بارے میں اللہ پاک نے فرمایا ہے ’’ترہبون بہ عدو اللہ وعدوکم‘‘۔ یہ بات میں ضرور کہوں گا کہ ایٹم بم استعمال کرنا ضروری نہیں ہےلیکن رعب رکھنا ضروری ہے ، اللہ پاک اس کا رعب قائم رکھے۔

ایک اور بات عرض کرنا چاہوں گا کہ جب پاکستان ایٹمی قوت بنا اور دنیا میں اعلان ہوا تو اس پر مضامین بھی بہت لکھے گئے۔ ایک مرتبہ شاید قطر سے لندن جا رہا تھا تو ان طیاروں میں عرب اخبارات ہوتے ہیں، میں نے وقت گزاری کے لیے ’’الاہرام‘‘ پکڑ لیا، یہ مصر کا بڑا اخبار ہے۔ عرب دنیا کا ایک معروف کالم نگار ہے فہمی ہویدی، اس کا کالم اس دن اخبار میں آیا ہوا تھا جس کا عنوان تھا: اسرائیل! ہوشیار۔ اور کالم میں لکھا تھا کہ اسرائیل اب ہمارے سامنے ہوش سے بات کرے، ہم ایٹمی قوت ہیں۔ یہ مصر کا صحافی کہہ رہا ہے۔

ہماری تین قوتیں ہیں جس کا قرآن مجید نے ذکر فرمایا ہے:

  1. سب سے پہلے تو عقیدہ کی قوت ہے جس نے امتیاز پیدا کیا ہے۔ ہماری ہندوؤں کے ساتھ لڑائی کیا ہے؟ وہ بھی ایشیائی ہیں، ہم بھی ایشیائی ہیں، وہ بھی اسی رنگ کے ہیں، ہم بھی اسی رنگ کے لوگ ہیں۔ یہ عقیدے اور تہذیب کی لڑائی ہے جو امتیاز پیدا کرتی ہے۔
  2. اس کے بعد دوسری قوت ہے وحدت۔ الحمد للہ پاکستانی قوم پہ جب بھی وقت آیا ہے ہم اپنے سب جھگڑے بھلا کر اکٹھے ہوئے ہیں، اور اس موقع پر بھی ایسا ہی ہوا ہے، ملک کی سرحدوں کے دفاع میں اور ملک کی سالمیت کے تحفظ میں ہم سب اکٹھے ہیں۔
  3. اور تیسری قوت وہ جس کے بارے میں اللہ رب العزت نے فرمایا ہے کہ تمہیں ’’ترہبون بہ عدو اللہ وعدوکم‘‘ کی کیفیت میں ہونا چاہیے کہ طاقت کا توازن تمہارے ہاتھ میں ہو اور تمہارا رعب قائم رہنا چاہیے۔

ان تینوں کا قرآن مجید نے ذکر فرمایا ہے کہ ایمان و عقیدہ اور تہذیب و ثقافت کی حفاظت بھی کرو، اپنی وحدت بھی قائم رکھو، اور جو وقت کی قوت ہے اس میں تم کسی سے پیچھے نہ رہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے قومی اداروں کو، ہماری افواج کو، سیاستدانوں کو، اور تمام طبقات کو اس وحدت پر قائم رکھیں، یہ جو چند دن ہمارے آپس میں وحدت کے گزرے ہیں یہ پاکستان کے تاریخی دن ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایمان کو قائم رکھیں، قوت کو قائم رکھیں، اور اس جذبے کو بھی قائم رکھیں ۔

آزمائشیں آتی رہتی ہیں اور آئندہ بھی آئیں گی۔ ایک آزمائش قومی ہے اور ایک آزمائش ملّی ہے۔ قومی آزمائش تو یہ ہے جس میں الحمد للہ ہم سرخرو ہوئے ہیں۔ اور ملّی آزمائش کا سب سے بڑا مظہر اس وقت غزہ کا مسئلہ ہے اور یہ پوری ملتِ اسلامیہ کی آزمائش ہے۔ دعا کریں جس طرح اللہ تعالیٰ نے قومی آزمائش میں ہمیں سرخروئی عطا فرمائی ہے، اسی طرح ملّی آزمائش میں بھی امتِ مسلمہ کو سرخروئی عطا فرمائیں، فلسطین اور غزہ کا محاذ اُمت کا محاذ ہے، ہمارا محاذ ہے اور ہمیں اس کو ہر لحاظ سے سنبھالنا چاہیے، اللہ پاک ہم سب کو اسی جذبے کے ساتھ اس محاذ پر بھی کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور سرخروئی بھی نصیب فرمائے، آمین۔

2016ء سے
Flag Counter