گزشتہ دنوں مکہ مکرمہ میں مسلم سربراہ کانفرنس کا غیر معمولی اجلاس ہوا، اجلاس جس انداز سے بلایا گیا اور اسے غیر معمولی قرار دے کر اس کی جس طرح تشہیر کی گئی اس سے بہت سے مسلمانوں کو یہ خوش فہمی ہوگئی تھی کہ شاید مسلم حکمرانوں کو وقت کی ضروریات کا احساس ہوگیا ہے اور وہ مسلم امہ کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لیے کوئی سنجیدہ پروگرام تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ مسلم ممالک کے بہت سے سربراہ اس موقع پر مکہ مکرمہ میں جمع ہوئے اور بیت اللہ شریف کے اندر جانے کی سعادت بھی حاصل کی لیکن ان کے فیصلے اور اعلانات پڑھ کر مایوسی ہوئی کہ حالات کی اصلاح اور مسلم امہ کو اس دلدل سے نکالنے کے حوالہ سے مسلم حکمرانوں کے رویہ میں کوئی تبدیلی اور سنجیدگی ان فیصلوں میں نظر نہیں آئی اور ’’نشستند و گفتند و برخاستند‘‘ کے سوا مسلم سربراہ کانفرنس کے اس غیر معمولی اجلاس کا کوئی کردار سامنے نہیں آیا۔
بیشتر مسلم حکمرانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ حکومت مسلم عوام پر کر رہے ہیں مگر ان کے ذہن و فکر کی وابستگی مغرب کے ساتھ ہے اور وہ مسلمانوں اور مغرب کے درمیان موجودہ عالمی کشمکش میں دونوں کو خوش کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہیں جس سے ان کی پوزیشن زیادہ مضحکہ خیز ہوتی جا رہی ہے۔ مسلم حکمرانوں کے لیے صحیح راستہ یہی ہے کہ وہ اپنے لیے ایک کیمپ کو چنیں، دونوں کشتیوں میں پاؤں نہ رکھیں کیونکہ اگر کشتیوں کے درمیان فاصلہ اسی طرح بڑھتا رہا تو ان کی جگہ دونوں میں سے کسی کشتی میں باقی نہیں رہے گی۔