بشپ آف فیصل آباد ڈاکٹر جان جوزف کی مبینہ خودکشی جتنی اچانک تھی اسی قدر افسوسناک بھی ہے کہ ایک فعال اور انتھک راہنما اپنے مشن کی خاطر شب و روز محنت کرتے ہوئے منظر سے غائب ہوگیا۔ ڈاکٹر جان جوزف مسیحی کمیونٹی کے اس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جس نے انسانی حقوق اور مذہبی آزادیوں کے حوالہ سے پاکستان میں سیکولر قدروں کی راہ ہموار کرنے کے لیے بے پناہ محنت کی۔ اور جن اسلامی قوانین کو وہ انسانی حقوق کے لیے اپنے مخصوص فلسفہ کے منافی سمجھتے تھے ان کا راستہ روکنے کے لیے نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ عالمی سطح پر دن رات ایک کر کے بین الاقوامی لابیوں کی توجہ اور امداد حاصل کرنے میں کامیاب پیش رفت کی۔ اس لیے مشن اور موقف سے اختلاف اپنی جگہ لیکن محنت اور جدوجہد کے حوالہ سے ڈاکٹر جان جوزف کی مصروف ترین اور انتھک زندگی کی داد نہ دینا ناانصافی شمار ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر جان جوزف کی خودکشی کی خبر پڑھ کر دل کو دھچکا سا لگا اور دل یہ ماننے کے لیے تیار نہ ہوا کہ ایک متحرک عملی زندگی گزارنے اور اپنے اہداف کی طرف مسلسل پیش رفت کرنے والے ’’فیلڈ ورکر‘‘ کو اچانک مایوسی کی دلدل میں چھلانگ لگانے کی بات آخر کیسے سوجھ گئی؟
چنانچہ اس معاملہ میں تفتیش جوں جوں آگے بڑھ رہی ہے خودکشی کی مبینہ کہانی مدھم پڑتی جا رہی ہے اور اس خدشہ کو مسلسل تقویت حاصل ہو رہی ہے کہ ڈاکٹر جان جوزف نے خودکشی نہیں کی بلکہ انہیں قتل کیا گیا ہے اور کسی دوسری جگہ انہیں گولی مار کر ان کی لاش ساہیوال کی عدالت کے سامنے رات کے اندھیرے میں ڈال دی گئی ہے۔ اس سلسلہ میں ساہیوال کے معروف قانون دان اور پنجاب بار کونسل کے رکن عبد المتین چوہدری ایڈووکیٹ نے متعلقہ عدالت میں باقاعدہ درخواست دے دی ہے کہ قتل کے امکانات کی عدالتی تحقیقات کرائی جائیں۔ جبکہ لاہور کے بشپ کیتھ لیزلی نے اعلیٰ نوعیت کی جوڈیشل انکوائری کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ اور اب ساہیوال کے ایک مسیحی راہنما ڈاکٹر جارڈن پیٹرک نے بھی اسی خدشہ کی تائید کر دی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اصل حقائق کے منظر عام پر آنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ اور وہ المیہ اپنے اصل روپ میں جلد قوم کے سامنے آجائے گا جس نے مسیحی کمیونٹی سے ڈاکٹر جان جوزف جیسا متحرک راہنما چھین لیا۔
ڈاکٹر جان جوزف کی موت کے حوالے سے سب سے زیادہ تعجب امریکی حکومت اور پاپائے روم کے ردعمل پر ہوا کہ انہوں نے معروضی حقائق کے سامنے آنے کا انتظار کیے بغیر اس حادثہ کا تعلق پاکستان میں نافذ توہین رسالتؐ کی سزا کے قانون سے جوڑنے میں کس قدر عجلت سے کام لیا۔ اور امریکی حکومت نے تو اس قانون کی منسوخی کا مطالبہ بھی فورًا دہرایا ہے جو اس کی طرف سے اس سے پہلے بھی مسلسل جاری ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اگر امریکی حکومت کی اس قسم کے کسی حادثے کے لیے کوئی پلاننگ نہیں تھی تو کم از کم اسے ایسے کسی سانحے کا انتظار ضرور تھا کہ واقعہ رونما ہوتے ہی امریکی حکومت نے پاکستان سے توہین رسالتؐ کی سزا کا قانون ختم کرنے کا مطالبہ داغ دیا۔ اور اس کے ساتھ ہی ملک کے مختلف حصوں میں اس قانون کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔
خدا بھلا کرے فیصل آباد کے مذہبی راہنماؤں اور تاجر برادری کا کہ وہ فورًا مل بیٹھے اور اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کر کے حالات میں توازن کا رخ نمایاں کر دیا۔ ورنہ بین الاقوامی لابیاں اس سانحے کو جس طرح کیش کرانے کے لیے آگے بڑھ رہی تھیں اس کا مقصد پاکستان کے داخلی استحکام میں مزید دراڑیں پیدا کرنے اور افراتفری کو فروغ دینے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اس کے ساتھ ہی وہ مسیحی راہنما بھی پوری قوم کی طرف سے مبارکباد اور شکریے کے مستحق ہیں جنہوں نے پاکستان کے داخلی استحکام اور نظریاتی تشخص کے خلاف بین الاقوامی سیکولر لابیوں کے پھیلائے ہوئے اس جال میں پھنسنے سے نہ صرف انکار کر دیا بلکہ اس کی نشاندہی کر کے سازش کو بے نقاب کیا۔ اس سلسلہ میں لاہور کے بشپ کیتھ لیزلی سب سے نمایاں ہیں جنہوں نے ڈاکٹر جان جوزف کے قتل کے خدشات کی نشاندہی کرنے کے علاوہ یہ بات بھی علی الاعلان کہی کہ انبیاء کرامؑ کی توہین پر موت کی سزا صرف اسلام کا قانون نہیں ہے بلکہ بائبل کا حکم بھی یہی ہے، اس لیے اس قانون پر مسلمانوں اور مسیحیوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ البتہ وہ اتنا ضرور چاہیں گے کہ قانون کے نفاذ کے طریق کار کو ازسرِنو اس طرح مرتب کیا جائے کہ کسی شخص کو اپنے کسی ذاتی مخالف کے خلاف اتنا بڑا الزام لگا کر اسے خواہ مخواہ عدالتوں میں گھسیٹنے کی آزادی حاصل نہ ہو۔ یہی بات ساہیوال کے ڈاکٹر جارڈن پیٹرک نے کہی ہے اور توہین رسالتؐ کی سزا کا قانون ختم کرنے کی مخالفت کی ہے۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مسیحی کمیونٹی کے ان دو ذمہ دار راہنماؤں کے اس موقف کی تائید میں بائبل کا حوالہ بھی درج کر دیا جائے تاکہ اس موقف کی عملی بنیاد واضح ہو جائے۔ مسیحی اشاعت خانہ ۳۶ فیروزپور روڈ لاہور ۱۶ کی شائع کردہ ضخیم کتاب ’’قاموس الکتاب‘‘ کے صفحہ ۵۱۲ پر درج ہے:
’’موت کی سزا یہ جرائم یا خطاؤں کے لیے دی جاتی تھی۔ والدین پر ہاتھ اٹھانا یا ان پر لعنت بھیجنا (خروج ۲۱، ۱۵، ۱۷) خدا کے خلاف کفر بکنا یا لعنت کرنا (احبار ۲۴، ۱۴) سبت کے دن کی بے حرمتی کرنا (گنتی ۱۵، ۳۲، ۳۶) جادوگرنی ہونا (خروج ۲۲، ۱۸) زنا کرنا (احبار ۲۰، ۱۰) زنا بالجبر کا ارتکاب (استثناء ۲۲، ۲۵) زنائے محرم کا مرتکب ہونا یعنی ان رشتے داروں سے مباشرت کرنا جن سے نکاح کی اجازت نہیں (احبار ۲۰، ۱۱، ۱۴) حیوانات سے غیر طبعی تعلق قائم کرنا (احبار ۲۰، ۱۶) کسی کو اغوا کرنا (خروج ۲۱، ۱۶) بت پرستی (احبار ۲۰، ۲)‘‘
ڈاکٹر جارڈن پیٹرک نے ایک بات اور بھی کہی ہے کہ مسلمان علماء کرام اور مسیحی مذہبی راہنماؤں کو آپس میں ملاقاتوں اور گفت و شنید کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ باہمی غلط فہمیاں دور ہوں اور ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے میں مدد ملے۔ ڈاکٹر صاحب موصوف سے گزارش ہے کہ ہم تو یہ بات ایک عرصہ سے کہہ رہے ہیں حتیٰ کہ دس سال قبل امریکہ کے ایک بیپٹسٹ مسیحی رہنما اور گزشتہ سال برطانیہ کے شہر نوٹنگھم میں ایک چرچ کے سربراہ سے ملاقات میں اسی موضوع پر گفتگو کی تھی کہ مذہبی اقدار کے تحفظ اور آسمانی تعلیمات کی طرف انسانی معاشرہ کو واپس لانے کے لیے مسیحیوں اور مسلمانوں کے مذہبی رہنماؤں کو مل جل کر محنت کرنا چاہیے۔ کیونکہ آسمانی تعلیمات دونوں کی مشترکہ میراث ہیں اور سیکولرازم دونوں کا مشترکہ دشمن ہے جس کے چنگل سے انسانی معاشرے کو نکالنے کے لیے دونوں کو محنت کرنا ہوگی۔
ڈاکٹر جان پیٹرک سے گزارش ہے کہ ہمیں پاکستان کے مسیحی رہنماؤں سے یہ شکایت ہرگز نہیں ہے کہ وہ اپنے مذہب کی بات کیوں کرتے ہیں بلکہ ہم ان کا یہ حق سمجھتے ہیں کہ اپنی کمیونٹی کے لیے اپنے مذہب کی بات کریں۔ اور انہیں یقین دلاتے ہیں کہ وہ اپنی کمیونٹی کے لیے بائبل کی بنیاد پر مذہب کی جو بات کریں گے ہم اس کی تائید کریں گے۔ البتہ اس وقت ہمیں ضرور تکلیف ہوتی ہے جب بعض مسیحی رہنما مذہب سے ہٹ کر لادینیت کے موقف کے پرچارک بن جاتے ہیں اور بائبل کی بات کرنے کی بجائے عالمی سیکولر لابیوں کی قراردادیں ہاتھوں میں اٹھائے انہیں ہم سے منوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے اگر ڈاکٹر جارڈن پیٹرک باہمی غلط فہمیاں دور کرنے کے لیے مسلمان علماء سے گفت و شنید کے خواہشمند ہیں تو ہم بسر و چشم حاضر ہیں، لیکن صرف اس شرط پر کہ یہ گفت و شنید قرآن کریم اور بائبل کی بنیاد پر ہوگی، مغرب کی سیکولر لابیوں کی مذہب دشمن قراردادوں کو تسلیم کرنے کے حوالے سے نہیں۔