ہم نے ’’نصرۃ العلوم‘‘ کے گزشتہ شمارے میں صوبہ سرحد میں ’’مسیحی طالبان تنظیم‘‘ کے نام سے عیسائی نوجوانوں کی ایک تنظیم کے قیام کا ذکر کیا تھا اور عرض کیا تھا کہ یہ افغانستان میں طالبان کی اسلامی تحریک کے اثرات ہیں کہ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی اپنی کمیونٹی کو مذہب کی طرف راغب کرنے کے لیے طالبان کے طریق کار کو اپنا رہے ہیں۔ لیکن اس سلسلہ میں کچھ مزید تفصیلات سامنے آئی ہیں جس سے تصویر کا دوسرا رخ بھی کچھ کچھ نظر آنے لگا ہے۔
چنانچہ روزنامہ نوائے وقت لاہور نے ۱۳ فروری ۱۹۹۹ء کے ادارتی شذرہ میں برطانوی اخبار ’’انڈی پینڈنٹ‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ پاکستانی عیسائی نوجوانوں نے مسلمانوں کی عسکری تحریکوں کے کیمپوں میں فوجی تربیت حاصل کرنا شروع کر دی ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق ۳۵ عیسائی نوجوانوں نے اسلامی نام اختیار کر کے مجاہدین کی دو مختلف تنظیموں کے کیمپوں میں مسلح جدوجہد کی ٹریننگ حاصل کی ہے جس پر خود کیتھولک چرچ نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
’’انڈی پینڈنٹ‘‘ کی یہ رپورٹ ملک کے سرکاری اداروں اور دینی حلقوں کی سنجیدہ توجہ کی مستحق ہے کیونکہ عالمی ادارے جس طرح پاکستان کی مسیحی کمیونٹی کو ایک عرصہ سے پاکستان کے نظریاتی اور اسلامی تشخص کے خلاف منظم اور متحرک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس کے پیشِ نظر اس خدشہ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ کہیں طے شدہ منصوبے کے تحت عیسائی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو مسلح جدوجہد کی ٹریننگ دلوا کر پاکستان کے دینی حلقوں اور محب وطن عناصر کے خلاف دہشت گردی کا ایک اور محاذ تو نہیں کھولا جا رہا؟
اس لیے ہم ملک کی دینی قیادت، مجاہدین کی تنظیموں اور سرکاری اداروں سے گزارش کریں گے کہ وہ ’’انڈی پینڈنٹ‘‘ کی اس رپورٹ کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لیں اور اس خدشہ کی روک تھام کے لیے بروقت اقدامات کریں۔