دینی مدارس: علمی وفکری دائرے میں وسعت کی ضرورت

   
اپریل ۲۰۰۶ء

(انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کے زیر اہتمام دینی مدارس کے اساتذہ کے لیے دس روزہ تربیتی پروگرام میں ’الشریعہ‘ کے رئیس التحریر نے ۱۲ مارچ کو ’’دینی مدارس کو درپیش مسائل اور چیلنجز‘‘ کے حوالے سے اظہار خیال کیا۔ ان کی گفتگو کا ایک حصہ یہاں نقل کیا جا رہا ہے۔ مدیر الشریعہ)

داخلی نصاب و نظام کے حوالے سے دینی مدارس کو ایک اور چیلنج یہ درپیش ہے کہ اسلامی ثقافت و اقدار کا تحفظ ان کے اہداف میں شامل ہے، لیکن جس مغربی ثقافت اور فلسفہ سے اسلامی اقدار و ثقافت کو خطرہ درپیش ہے، اس سے واقفیت کی ضرورت محسوس نہیں کی جا رہی۔ مغربی فکر و فلسفہ کیا ہے اور مغربی ثقافت و اقدار کا پس منظر کیا ہے؟ اس سے دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کی غالب اکثریت ناواقف ہے اور یہ افسوسناک صورتحال ہے کہ جس دشمن سے ہم لڑ رہے ہیں، اس کی ماہیت، طریقہ کار، ہتھیاروں اور دائرہ کار سے ہمیں شناسائی تک حاصل نہیں ہے۔ مغربی فلسفہ و نظام اور ثقافت و اقدار کا ایک تاریخی پس منظر ہے، اس کی اعتقادی بنیادیں ہیں، اس کا ایک عملی کردار ہے اور اس کا وسیع دائرۂ اثر ہے، مگر دینی مدارس کے نصاب میں اس سے آگاہی کا کوئی حصہ شامل نہیں ہے، حالانکہ ہمارے سامنے اسلاف کی یہ عظیم روایت موجود ہے کہ جب ہمارے معاشرے میں یونانی فلسفہ نے فروغ حاصل کیا تھا اور ہمارے عقائد کے نظام کو متاثر کرنا شروع کیا تھا تو ہمارے اکابر مثلاً امام ابو الحسن اشعریؒ، امام ابومنصور ماتریدیؒ، امام غزالیؒ، امام ابن رشدؒ اور امام ابن تیمیہؒ نے یونانی فلسفہ پر عبور بلکہ برتری حاصل کی تھی اور اسی زبان اور اصطلاحات میں یونانی فلسفہ کے پیدا کردہ اعتراضات و شبہات کا جواب دے کر اسلامی عقائد کی حقانیت اور برتری ثابت کی تھی، ورنہ ایک دور میں یونانی فلسفہ ہمارے عقائد کے نظام میں اتھل پتھل کی کیفیت پیدا کرنے میں کامیاب دکھائی دے رہا تھا۔ اس حوالے سے دینی مدارس سے بجا طور پر یہ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ مغربی فکر و فلسفہ کو بطور فن اپنے نصاب کا حصہ بنائیں، اس کے ماہرین پیدا کریں اور اسی کی زبان اور اصطلاحات میں شکوک و شبہات کے ازالہ اور اسلامی عقائد و ثقافت کے تحفظ و دفاع کا اہتمام کریں۔

دینی مدارس کو درپیش ایک چیلنج یہ بھی ہے کہ عالمی ماحول تو رہا ایک طرف، ہم عام طور پر اپنے اردگرد کے ماحول سے بھی باخبر نہیں ہوتے۔ میرے خیال میں اب اردگرد کے ماحول اور عالمی ماحول میں فرق کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے اور مزید مشکل ہو جائے گا۔ یہ معلومات کی وسعت کا دور ہے، ہر چیز سے باخبر رہنے کا دور ہے اور حالات پر نظر رکھنے کا دور ہے۔ اس ماحول میں دینی مدارس کو اپنے اس طرز عمل اور ترجیحات پر نظر ثانی کرنا ہو گی جو اپنے اساتذہ اور طلبہ کو بہت سے معاملات میں بے خبر رکھنے کے لیے ان کی پالیسی کا حصہ ہے۔ مثلاً:

  • معاصر مذاہب کا تعارفی مطالعہ انتہائی ضروری ہے، بالخصوص وہ چھ سات مذاہب جن کے پیروکار اس وقت دنیا میں وسیع دائرے میں پائے جاتے ہیں اور ان کے مستقل ممالک اور حکومتیں قائم ہیں، مثلاً یہودی، عیسائی، ہندو، بدھ مت اور سکھ وغیرہ۔ ان کا تعارفی بلکہ اسلام کے ساتھ تقابلی مطالعہ دینی مدارس کے فضلاء کے لیے ضروری ہے۔
  • مسلم امہ کا حصہ سمجھے جانے والے اعتقادی اور فقہی مذاہب مثلاً اہل سنت، اہل تشیع، حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، ظاہری، سلفی، جعفری، زیدی وغیرہ کا تعارفی مطالعہ اور ان کے اصول اور تاریخ سے واقفیت ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی عصری مسلم فکری تحریکات، جو روایتی دائرے سے ہٹ کر ہیں، ان کے بارے میں ضروری معلومات سطحی اور نامکمل نہ ہوں بلکہ اصل ماخذ سے صحیح معلومات ہونی چاہئیں۔
  • طب، سائنس، ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ وغیرہ کی عملی کارفرمائی سے بہت سے مسائل کی نوعیت تبدیل ہو گئی ہے اور ہوتی رہتی ہے۔ ان سے آگاہ ہوئے بغیر فتویٰ دینا یا مسئلہ بیان کرنا شرعی اصولوں کے منافی ہے، لیکن اس فرق کے ساتھ کہ فن کو حاصل کرنا اور چیز ہے، اور اس کے بارے میں ضروری معلومات رکھنا اس سے مختلف امر ہے۔
  • عالمی اور علاقائی زبانوں سے واقفیت اور ان پر عبور ایک مستقل مسئلہ ہے۔ دینی مدارس میں انگریزی کی تعلیم کا ایسا اہتمام کہ کوئی فاضل انگلش میں تقریر کر سکے یا معیاری مضمون لکھ سکے، سرے سے موجود نہیں ہے ۔ ہماری عربی، کتاب فہمی تک محدود ہے اور سالہا سال کی تعلیم اور تدریس کے بعد بھی ہم عربی زبان میں اس سے زیادہ عبور حاصل نہیں کر پاتے کہ کتاب کو سمجھ لیں اور اس کو پڑھا سکیں۔ بول چال، فی البدیہہ تقریر اور مضمون نویسی کی صلاحیت حاصل کرنا ہمارے اہداف میں شامل نہیں ہے، بلکہ اپنی قومی زبان اردو میں بھی ہماری حالت قابل رحم ہوتی ہے۔ ہمارے اکثر فضلاء اچھی اردو نہیں بول سکتے اور نہ ہی اردو میں ڈھنگ کا کوئی مضمون تحریر کر سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا افسوسناک خلا ہے جس نے ہمیں ابلاغ کے شعبے میں بالکل ناکارہ بنا رکھا ہے۔
  • ابلاغ کے جدید ذرائع مثلاً کمپیوٹر، انٹرنیٹ، ویڈیو وغیرہ تک ہماری رسائی محل نظر ہے اور نہ صرف یہ کہ زبان اور ذرائع عام طور پر ہماری دسترس سے باہر ہیں، بلکہ اسلوب کے حوالے سے بھی ہم آج کے دور سے بہت پیچھے ہیں۔ ہماری زبان ثقیل اور اسلوب فتویٰ اور مناظرہ کا ہوتا ہے، جبکہ یہ تینوں باتیں اب متروک ہو چکی ہیں۔ آج کی زبان سادہ اور اسلوب لابنگ اور بریفنگ کا ہے، مگر ہم ان دونوں سے نا آشنا ہیں جس کی وجہ سے ہم خود اپنے معاشرہ اور ماحول میں ہی بسا اوقات اجنبی ہو کر رہ جاتے ہیں اور ابلاغ کی ذمہ داری پوری نہیں کر پاتے۔
  • ہمارے ہاں عمرانی اور معاشرتی علوم کا ارتقا مسلم اسپین کے دور تک رہا ہے۔ اس کے بعد ایسی بریک لگی ہے جیسے ہمارے ہاں معاشرت اور عمرانیات کا ارتقا ہی رک گیا ہو۔ تب سے اس شعبہ میں ہم پر جمود طاری ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ ؒ کے اجتہادی کام کے علاوہ اس دوران میں کوئی پیشرفت دکھائی نہیں دیتی اور شاہ صاحب ؒ کے بعد بھی تین صدیوں سے سناٹا طاری ہے ۔ معاشرت کا ارتقا تو ظاہر ہے، رک نہیں سکتا مگر معاشرت و تہذیب کے حوالہ سے ہماری سوئی ابھی تک مسلم اسپین پر اٹکی ہوئی ہے اور ہم اس سے آگے بڑھتے نظر نہیں آرہے۔ اس جمود کو توڑے بغیر ہم معاشرت و تمدن اور ثقافت و عمرانیات کے بارے میں دنیا کی راہنمائی کا مقام آخر پھر سے کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟ مگر دینی مدارس میں عمرانی علوم کے حوالے سے کوئی اجتہادی کام اور علمی پیشرفت تو رہی ایک طرف، ان علوم تک ہمارے فضلاء اور اساتذہ کی رسائی بھی ایک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔
  • دینی مدارس میں ہمارے اعتقادی اور فقہی مباحث اور اختلافات پر خوب کام ہوتا ہے اور یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں ہماری توانائیوں اور صلاحیتوں کا بڑا حصہ صرف ہوتا ہے۔ مجھے اس کی ضرورت اور اہمیت سے انکار نہیں، لیکن اختلافات کی درجہ بندی اور ترجیحات کا ہمارے ہاں کوئی تصور نہیں۔ بسا اوقات اولیٰ اور غیر اولیٰ کے مسائل اور فروعی اختلافات کفر و اسلام کے معرکے کا روپ دھار لیتے ہیں اور کبھی اصولی اور بنیادی مسائل بھی نظر انداز ہونے لگ جاتے ہیں۔ اعتقادی مسائل اور فقہی اختلافات پر ضرور بات ہونی چاہیے اور طلبہ کو ان سے متعارف کرانا چاہیے، لیکن اس کے ساتھ ان اختلافات کی درجہ بندی اور ترجیحات بھی ان کے سامنے واضح ہونی چاہیے اور انہیں اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ کون سی بات کفر و اسلام کی ہے اور کون سی بات اولیٰ اور غیر اولیٰ کی ہے، کس اختلاف پر سخت رویہ اختیار کرنا ضروری ہے اور کون سے اختلاف کو کسی مصلحت کی خاطر نظرانداز بھی کیا جا سکتا ہے۔
  • تحقیق کے حوالے سے ہمارے ہاں صرف تین شعبوں میں کام ہوتا ہے: (۱) اعتقادی و فقہی اختلافات پر خوب زور آزمائی ہوتی ہے، (۲) افتا میں ضرورت کے مطابق تحقیق ہوتی ہے، (۳) دینی جرائد میں عام مسلمانوں تک اپنے اپنے ذوق کے مطابق دینی معلومات پہنچانے کے لیے تھوڑی بہت محنت ہوتی ہے۔ ان کے علاوہ امت کی اجتماعی ضروریات اور ملت اسلامیہ کے عالمی ماحول کی مناسبت سے کسی تحقیقی کام کا ہمارے ہاں کوئی تصور نہیں ہے۔ کچھ افراد اپنے ذوق اور محنت سے ایسا ضرور کر رہے ہیں، لیکن بحیثیت ایک ادارہ اور نیٹ ورک کے دینی مدارس کے پروگرام میں یہ چیز شامل نہیں ہے۔
  • معلومات کی وسعت، تنوع اور ثقاہت کا مسئلہ بھی غور طلب ہے۔ کسی بھی مسئلہ پر بات کرتے ہوئے ہم میں سے اکثر کی معلومات محدود، یک طرفہ اور سطحی ہوتی ہیں۔ الاّ یہ کہ کسی کا ذوق ذاتی محنت اور توجہ سے ترقی پا جائے اور وہ اس سطح سے بالا ہو کر کوئی کام کر دکھائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تحقیق، مطالعہ اور استدلال و استنباط کے فن کو ایک فن اور علم کے طور پر دینی مدارس میں پڑھایا جائے اور طلبہ کو اس کام کے لیے باقاعدہ طور پر تیار کیا جائے۔
  • دینی مدارس کی لائبریریوں کا حال بھی ناگفتہ بہ ہے۔ گنتی کے چند بڑے مدارس کے استثنا کے ساتھ عمومی طور پر دینی مدارس کی لائبریریوں میں درسی کتابوں سے ہٹ کر جو کتابیں پائی جاتی ہیں، وہ کیف مااتفق کے اصول پر کسی منصوبہ بندی اور ہدف کے بغیر ہوتی ہیں۔ ان تک طلبہ کی رسائی اور استفادہ کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں حتیٰ کہ بعض مدارس میں تو روزانہ اخبارات کا داخلہ بھی بند ہوتا ہے اور طلبہ پر پابندی ہوتی ہے کہ وہ اخبارات و جرائد کا مطالعہ نہیں کریں گے۔ خدا جانے اپنے طلبہ کو دنیا، اپنے ملک اور اردگرد کے ماحول سے بے خبر رکھ کر یہ مدارس انہیں کون سے ماحول میں کام کرنے کی تربیت دے رہے ہوتے ہیں۔
  • مذاہب اور تہذیبوں کے درمیان مکالمہ کی ضرورت بھی دن بدن عالمی سطح پر بڑھتی جا رہی ہے اور اس کی طرف بین الاقوامی حلقے متوجہ ہو رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس مکالمہ کے اصل فریق کون ہیں اور مکالمہ کا ایجنڈا کیا ہے۔ یہ ایک مستقل موضوع ہے جس پر الگ سے گفتگو ہونی چاہیے، لیکن مذاہب کے درمیان مکالمہ جس انداز سے آگے بڑھ رہا ہے، اس سے دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کا بے خبر اور لاتعلق رہنا سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے۔ اس مکالمہ کے پس منظر، ضرورت، دائرہ کار اور مضرت و منفعت سے دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کا آگاہ ہونا ضروری ہے، بلکہ اس مکالمے کے تو اصل فریق ہی دینی مدارس ہیں اور انہیں اس سلسلہ میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔
   
2016ء سے
Flag Counter