گزشتہ ایک مضمون میں ’’اجتہاد‘‘ کے بارے میں کچھ تعارفی اور ابتدائی گزارشات پیش کی تھیں۔ آج کی صحبت میں اس سلسلہ میں ایک اہم سوال کا جائزہ لیا جا رہا ہے کہ ’’کیا اجتہاد کا دروازہ بند ہو چکا ہے؟‘‘ یعنی آج اگر کوئی اجتہاد کرنا چاہے تو اس کی کس حد تک اجازت ہے؟ کیونکہ عام طور پر اجتہاد کا دروازہ بند ہوجانے کی بات اس قدر مشہور ہوگئی ہے کہ ’’اجتہاد‘‘ کا لفظ کسی کی زبان پر آتے ہی بہت سے حلقوں کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی اس حوالہ سے صحیح رخ پر بھی بات کرنا چاہتا ہے تو تذبذب اور ہچکچاہٹ کے کانٹوں سے دامن چھڑانا اس کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ اجتہاد کے دو حصے ہیں اور دونوں کی نوعیت اور احکام الگ الگ ہیں۔
اجتہاد مطلق
ایک حصے کو ’’اجتہاد مطلق‘‘ کہتے ہیں جس کا دائرہ اجتہاد کے اصولوں کی تشکیل و تدوین اور قواعد و ضوابط کی ترتیب تک محدود ہے۔ صحابہ کرامؓ چونکہ براہ راست بارگاہ نبوتؐ سے فیض یافتہ تھے اس لیے انہیں قواعد و ضوابط مرتب کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ البتہ ان کے بعد تابعین کے دور میں اصول و قواعد کی ضرورت پڑی۔ مثلاً
- قرآن کریم میں کسی کام کے لیے امر کا صیغہ ہو تو اس کا کیا حکم ہوگا،
- قرآن کریم کی آیات کی تشریح میں رسول اللہؐ کے دو ارشادات مختلف ہوں تو کیا کریں گے؟
- کسی مسئلہ میں خلفاء راشدینؓ کے فیصلے ایک دوسرے سے متعارض ہوں تو فیصلہ کیسے ہوگا؟
- صحابہ کرامؓ کے مختلف فتوؤں میں کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح دینے کا طریق کار کیا ہوگا؟
یہ چند پہلو بطور مثال عرض کیے ہیں، اسی نوعیت کے بے شمار امور پر اصول وضع کرنے کی ضرورت پیش آئی تو تابعین اور اتباع تابعین کے دور میں بیسیوں اصحاب علم نے اس پر کام کیا اور اپنے اپنے طور پر اصول وضع کیے، قواعد و ضوابط ترتیب دیے اور ان کی روشنی میں عملی اجتہادات بھی کیے۔ ان میں سے حضرت امام ابوحنیفہؒ ، حضرت امام مالکؒ ، حضرت امام جعفر صادقؒ ، حضرت امام شافعیؒ ، حضرت امام احمد بن حنبلؒ اور حضرت امام داؤد ظاہریؒ جیسے چند بزرگوں کے کام کو امت کے اصحاب علم میں پذیرائی حاصل ہوئی اور ان کی بنیاد پر مستقل فقہی مذاہب تشکیل پا گئے۔ جبکہ باقی ائمہ مثلاً حسن بصریؒ ، سفیان ثوریؒ ، اور امام زارعی وغیرہم کے طریقے قبول عام حاصل نہ کر سکے اور رفتہ رفتہ تاریخ کا حصہ بن گئے۔
اصول سازی اور قواعد و ضوابط کی ترتیب و تدوین کا فطری دور وہی تھا اور اسی دور میں یہ عمل مکمل ہوگیا تھا۔ اس کے بعد اس کی ضرورت باقی نہ رہی اور اس اجتہاد کا دروازہ کسی کے اعلان کیے بغیر فطری طور پر خودبخود بند ہوگیا۔ اسے یوں سمجھ لیجیے جیسے دستور سازی ہے۔ کسی ملک میں دستور ایک ہی بار بنتا ہے اور بار بار دستور کا تشکیل دیا جانا کسی بھی ملک کے سیاسی استحکام کے منافی سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے دستور ساز اسمبلی ایک ہی بار قائم ہوتی ہے اور جب دستور مرتب ہو کر نافذ العمل ہوجاتا ہے تو دستور ساز اسمبلی اپنی ضرورت ختم ہو جانے کے باعث خودبخود تحلیل ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد قانون سازی کے ادارے بنتے ہیں جو ضرورت پڑنے پر ایک خاص پراسیس کے تحت دستور کی کسی شق میں ترمیم و اضافہ تو کر سکتے ہیں لیکن نہ وہ ہر وقت دستور سازی کے کام میں الجھے رہتے ہیں اور نہ ہی انہیں دستور ساز اسمبلی کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔
فقہ اسلامی کی تشکیل و تدوین میں مذکورہ بالا ائمہ کرام کو جنہیں ’’مجتہد مطلق‘‘ کہا جاتا ہے، دستور ساز کی سی حیثیت حاصل ہے۔ ان کا کام مکمل ہو جانے کے بعد قیامت تک اس عمل کی ضرورت ختم ہوگئی ہے اور یہ باب خودبخود بند ہوگیا ہے۔ اس لیے جب یہ کہا جاتا ہے کہ ’’اجتہاد‘‘ کا دروازہ بند ہوگیا ہے تو اس سے یہی بات مراد ہوتی ہے کہ ’’اجتہاد مطلق‘‘ کا دروازہ بند ہوگیا ہے۔
عملی اجتہاد
اجتہاد کا دوسرا حصہ ’’عملی اجتہاد‘‘ ہے۔ یعنی روزہ مرہ پیش آمدہ مسائل کا قرآن و سنت اور ائمہ کرامؒ کے مقرر کردہ اصولوں کی روشنی میں حل تلاش کرنا۔ اسے آپ دستور کی روشنی میں قانون سازی سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ چونکہ انسانی سوسائٹی میں ہر وقت نئے مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں اور حالات کا تغیر و تبدل انسانی معاشرت کا لازمی حصہ ہے اس لیے ’’عملی اجتہاد‘‘ کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوا اور نہ ہی قیامت تک کبھی بند ہوگا۔
البتہ اس ضمن میں ایک بات سمجھنا ضروری ہے کہ کیا ہر مسئلہ پر ہر مجتہد نے نیا اجتہاد کرنا ہے؟ اس سلسلہ میں سابقہ مضمون میں راہنما اصول کے طور پر ہم حضرت عمر بن الخطابؓ کا یہ طرز عمل بیان کر چکے ہیں کہ وہ کسی مسئلہ کا فیصلہ کرتے وقت قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ اپنے پیش رو خلیفہ حضرت ابوبکرؓ کے فیصلوں کا بھی لحاظ رکھتے تھے اور ان کا کوئی فیصلہ مل جاتا تو اس کی پیروی کرتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن و سنت میں کوئی واضح حکم نہ ملے تو نیا اجتہاد کرنے سے پہلے یہ دیکھ لینا چاہیے کہ اس سے قبل اس مسئلہ پر کوئی اجتہاد ہو چکا ہے یا نہیں۔ اگر اجتہاد ہو چکا ہے تو اس کی پیروی کرنی چاہیے اور بلاوجہ کسی ’’نئے اجتہاد‘‘ کی ذمہ داری اپنے سر پر نہیں لینی چاہیے۔ کیونکہ یہ بہت بڑی ذمہ داری اور شرعاً بہت بڑا بوجھ ہے، اس سے جتنا بچا جا سکے بہتر ہے۔ ہاں اگر اس مسئلہ پر کوئی اجتہاد اس سے قبل نہیں ہوا تو نیا حکم حاصل کرنے کے لیے اجتہاد ہو سکتا ہے۔ یا اگر اس مسئلہ پر اجتہاد تو ہوا ہے لیکن مختلف مجتہدین کے اجتہادات مختلف ہیں تو ان میں سے کسی ایک کو ترجیح دینے کے لیے اجتہاد ہو سکتا ہے۔ چنانچہ آج کے دور میں اجتہاد کا صحیح مفہوم اور دائرہ یہی ہے۔
اجتہاد کے حوالہ سے عام طور پر یہ سوال ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے کہ جب گزشتہ ادوار کے علماء کو اجتہاد کا حق حاصل تھا تو انہی مسائل پر آج کے علماء کو یہ حق کیوں حاصل نہیں ہے؟ اس سلسلہ میں گزارش ہے کہ جب ایک مسئلہ پر اجتہاد ہو چکا ہے تو کسی ضرورت کے بغیر محض استحقاق دکھانے کے لیے اسے ’’ری اوپن‘‘ کرنے کی مصیبت ہی کیا پڑی ہے؟ مثلاً قومی اسمبلی نے ایک قانون ۱۹۷۵ء میں منظور کیا تھا جو اس کے بعد سے مسلسل نافذ العمل ہے اور اس میں ترمیم کی ابھی تک کوئی ضرورت پیش نہیں آئی۔ آج کی قومی اسمبلی کے ارکان محض اس شوق میں اسے ختم کر کے اس کی جگہ نیا قانون منظور نہیں کریں گے کہ چونکہ ہمارے اختیارات ۱۹۷۵ء والی قومی اسمبلی کے برابر ہیں اس لیے ہم نیا قانون بنا کر ہی رہیں گے۔ اگر خدانخواستہ کوئی قانون ساز اسمبلی ایسا کر دیتی ہے تو کوئی بھی عقلمند شخص اس کے اس کام کی تحسین نہیں کرے گا۔ ہاں اگر حالات کے بدلنے سے قانون میں ردوبدل کی ضرورت پیش آگئی ہے تو اس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔
یہی معاملہ اجتہاد کا ہے کہ ماضی کے اجتہادات میں سے کسی اجتہاد پر حالات کے تغیر کے باعث نظر ثانی کی ضرورت پیش آجاتی ہے تو اس میں ترمیم کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ مگر صرف اجتہاد کا دائرہ وسیع کرنے کے خبط میں ماضی کے تمام اجتہادات کو ’’ری اوپن‘‘ کرنے کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔
چنانچہ اب اجتہاد کے حوالہ سے ترتیب یہ قائم ہوئی کہ:
- اجتہاد کے اصول و قواعد تشکیل دینے کا دور گزر چکا اور یہ کام مکمل ہو چکا ہے۔ اس لیے ’’اجتہاد مطلق‘‘ کا دروازہ فطری طور پر بند ہوگیا ہے۔
- ’’عملی اجتہاد‘‘ میں ماضی کے اجتہادات کو ترجیح حاصل ہے۔ اس لیے جن مسائل پر سابقہ مجتہدین اجتہاد کر کے احکام مرتب کر چکے، ان میں سے حالات کے تغیر و تبدل کی وجہ سے جن مسائل میں ترمیم و تبدل کی ضرورت پیش نہیں آئی ان پر نئے اجتہاد کی ضرورت نہیں ہے۔
- اب اجتہاد کا دائرہ ان امور تک محدود ہے جو بالکل نئے پیش آمدہ ہیں، یعنی جن امور پر کوئی فیصلہ اس سے قبل سامنے نہیں آیا، ان میں اجتہاد کیا جائے گا۔ یا وہ معاملات جن میں سابقہ مجتہدین کے اجتہادات مختلف ہیں، ان میں سے کسی ایک کو ترجیح دینے کے لیے آج کا مجتہد اپنا اجتہاد کا حق استعمال کرے گا۔
اس ضمن میں ایک اور مسئلہ قابل غور ہے کہ کیا یہ ضروری ہے کہ آج کا مجتہد اپنا اجتہاد کا حق استعمال کرتے ہوئے کسی ایک ’’فقہی مذہب‘‘ کے دائرے میں محدود رہے یا وہ اپنی صوابدید کے مطابق جس فقہی مذہب کے اصول کو جس مسئلہ میں چاہے بنیاد بنا سکتا ہے؟ اس پر پھر کسی موقع پر عرض کیا جائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔