مری میں علمی و فکری نشستیں

   
۹ جولائی ۲۰۱۵ء

گزشتہ دنوں دورۂ تفسیر کی پوری کلاس کے ساتھ چار روز مری میں گزارنے کا موقع ملا۔ جون کے آغاز میں جامعہ فاروق اعظمؓ مری کے سالانہ جلسہ میں حاضری ہوئی تو جامعہ کے مہتمم مولانا قاری سیف اللہ سیفی نے تقاضہ کیا کہ رمضان المبارک کے کچھ ایام ان کے پاس مری میں گزاروں۔ میں نے عذر کیا کہ ہمارے ہاں الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں دورۂ تفسیر کی چالیس روزہ کلاس ہوتی ہے جو وسط رمضان تک جاری رہتی ہے، جبکہ آخری عشرہ کی اپنی مصروفیات ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کلاس سمیت آجائیں ہم میزبانی کریں گے۔ چنانچہ ۲۶ مئی کو پوری کلاس مری منتقل ہوگئی اور ہم ۳۰ مئی تک وہاں رہے۔ مولانا قاری سیف اللہ سیفی، ان کے فرزند مولانا ظفر الاسلام اور دیگر رفقاء نے بھرپور میزبانی کی، جبکہ دوسری بہت سی مساجد میں بھی حاضری اور گزارشات پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوتی رہی، فالحمد للہ علیٰ ذلک۔

الشریعہ اکادمی میں دورۂ تفسیر کی کلاس کا یہ پانچواں سال تھا۔ کوئی بڑی کلاس نہیں ہوتی، اکادمی میں پچیس تیس حضرات کی گنجائش ہوتی ہے اور ہمارے ذوق کے مطابق اس قدر شرکاء میسر آجاتے ہیں۔ ترتیب قدرے مختلف ہوتی ہے۔ ترجمہ و تفسیر میں تیس پارے مولانا فضل الہادی، مولانا حافظ محمد یوسف، مولانا ظفر فیاض، مولانا حافظ محمد عبد اللہ راتھر، مولانا حافظ محمد وقار، مولانا حافظ عبد الرشید، حافظ محمد عمار خان ناصر، اور راقم الحروف میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ ان میں ایک دو کے علاوہ باقی سب جامعہ نصرۃ العلوم کے فضلاء اور والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے شاگرد ہیں۔ تقسیم کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ شرکاء ترجمہ و تفسیر کے متنوع ذوقوں سے روشناس ہوں اور ان کے فکر و نظر میں وسعت پیدا ہو۔ ترجمہ و تفسیر کے ساتھ ساتھ عصر حاضر کی دینی خدمات کو سامنے رکھتے ہوئے مختلف عنوانات پر چالیس کے لگ بھگ محاضرات ہوتے ہیں جن کے لیے ممتاز اہل علم و دانش کو زحمت دی جاتی ہے۔ جبکہ راقم الحروف بھی اپنے افکار و خیالات اور تاثرات و مشاہدات پیش کرتا رہتا ہے۔ ۳۰ جون کو مری میں ہی تقسیم اسناد کی تقریب ہوئی، پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمن درخواستی اور مولانا صاحبزادہ شہاب الدین آف موسیٰ زئی شریف مہمانان خصوصی تھے، شرکاء نے ان کے ہاتھوں اسناد اور انعامات وصول کیے۔

اس دوران مولانا حافظ ظفر الاسلام نے علاقہ کے سرکردہ علماء کرام کے ساتھ تبادلۂ خیالات کی ایک خصوصی نشست کا بھی اہتمام کر لیا جس کا عنوان ان کے بقول خطۂ کوہسار میں ’’علمی و فکری جمود کو ختم کرنے کے لیے مشاورت‘‘ تھا۔ ایک نوجوان اور متحرک عالم دین کی زبان سے یہ عنوان سن کر بہت خوشی ہوئی اور شرکاء محفل کے درمیان متعدد امور پر مشاورتی گفتگو میں شرکت ہوگئی۔

اس موقع پر مری کے اس علاقہ کے ایک بڑے دینی محسن حضرت حافظ غلام محمد جالندھریؒ کا بار بار تذکرہ ہوا جنہوں نے قیام پاکستان کے زمانے میں مری کے قریب لنگرکسی کے مقام پر ڈیرہ لگایا اور قرآن کریم حفظ و ناظرہ کی تعلیم و تدریس شروع کر دی۔ قرآن کریم کی تعلیم کے ساتھ ساتھ لوگوں کے عقائد و اخلاق کی اصلاح، توحید و سنت کا فروغ، رسوم و بدعات سے لوگوں کو نجات دلانا ان کا خصوصی مشن تھا۔ اس کے لیے وہ انتہائی نا مساعد حالات کے باوجود مسلسل سرگرم عمل رہے۔ اس خطہ میں دینی مدارس، دعوت و تبلیغ اور دینی تحریکات کا جو ماحول باقی بہت سے علاقوں سے ممتاز نظر آتا ہے وہ ان کی مساعی جمیلہ کا ثمرہ ہے اور پورے علاقے میں شاید ہی کوئی عالم دین اور حافظ و قاری ایسا ہو جو ان کا بالواسطہ یا بلا واسطہ شاگرد نہ ہو۔ وہ اکابر علماء دیوبند کا بار بار تذکرہ کرتے اور اپنے وقت کے بڑے علماء کرام کو بلا کر لوگوں کو ان سے متعارف کراتے جس سے ذہن سازی اور تربیت کے بہت سے مراحل خود بخود طے ہو جاتے تھے۔

یہ ہمارے بزرگوں کا طریق کار اور حکمت عملی رہی ہے، والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے استاذ گرامی حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ اس بات کی بطور خاص تلقین کیا کرتے تھے کہ جہاں بھی دینی محنت کے لیے بیٹھے ہو، اردگرد کے لوگوں کے تعلق و تعارف کو اپنی ذات تک محدود رکھنے کی بجائے اپنے وقت کے بزرگ علماء کرام سے انہیں ملاتے رہو، با عمل علماء کرام کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دیتے رہو، اور خطبہ و درس میں اپنے بزرگوں کا کسی نہ کسی حوالہ سے تذکرہ کرتے رہو تاکہ لوگ ان سے مانوس ہوں اور ان کے فکر و عمل کی اصلاح ہوتی رہے۔ حضرت حافظ غلام محمد جالندھریؒ اسی ذوق کے بزرگ تھے، ان کی زندگی اور خدمات پر ’’محسن کوہسار‘‘ کے نام سے ایک کتاب بھی میری نظر سے گزری ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ دینی خدمات کا ذوق رکھنے والے ہر شخص کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ ہماری معاشرتی کوتاہیوں میں ایک بات یہ بھی شامل ہوگئی ہے کہ دین کے جس شعبہ میں کام کر رہے ہیں لوگوں کے تعلق و تعارف کا دائرہ اپنی ذات یا زیادہ سے زیادہ اپنے مخصوص تعلیمی یا روحانی دائرہ تک محدود رکھنے کی شعوری کوشش کرتے رہتے ہیں، جس سے فکری اور ذہنی محدودیت بڑھتی ہے جو بالآخر اس علمی و فکری جمود تک جا پہنچتی ہے جس کا تذکرہ مولانا ظفر الاسلام کے تجویز کردہ عنوان میں کیا گیا ہے۔

لنگر کسی بھوربن کے پاس ہے اور حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ درسگاہ آج بھی قائم ہے جہاں ان کے پوتے قاری محمد طاہر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ مگر حضرت حافظ صاحبؒ خود ہجرت کر کے مدینہ منورہ جا بسے تھے، وہیں ان کا انتقال ہوا اور وہ جنت البقیع میں مدفون ہیں۔ مجھے مدینہ منورہ اور لنگر کسی دونوں جگہ ان کی خدمت میں حاضری کی سعادت حاصل ہوتی رہی ہے اور ان کی شفقتوں اور دعاؤں کا ایک بڑا ذخیرہ ہر وقت اپنے دامن میں موجود پاتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین مقامات سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter