چھ ستمبر کو ملک بھر میں ’’یومِ دفاع پاکستان‘‘ منایا گیا۔ ۱۹۶۵ء میں اس روز بھارتی افواج رات کی تاریکی میں بین الاقوامی سرحد عبور کر کے لاہور پر قبضہ کے لیے چڑھ دوڑی تھیں، مگر پاک فوج کے جیالوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر انڈین آرمی کا راستہ روکا، اور سترہ دن کی جنگ میں دنیا نے دیکھ لیا کہ پاکستان کی افواج اپنی سرحدوں کی حفاظت کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہ دن ہر سال وطنِ عزیز کے دفاع میں پاکستانی فوج اور عوام کی قربانیوں اور جذبہ کی یاد تازہ رکھنے کے لیے منایا جاتا ہے۔
راقم الحروف کی عمر ان دنوں سترہ اٹھارہ برس کے لگ بھگ تھی، مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں زیرِ تعلیم تھا اور غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی اچھی خاصی دلچسپی لیا کرتا تھا، جن میں ادبی محافل میں شرکت، لائبریریوں میں گھومنا اور رفاہی اور سیاسی تنظیموں کے کاموں میں شریک ہونے کے ساتھ ساتھ شہری دفاع کی تنظیم میں بطور رضا کار کچھ نہ کچھ کرتے رہنا بھی شامل تھا۔ بھارت نے پہلے رن کچھ کے محاذ پر چھیڑ چھاڑ کی تھی، جس میں اسے منہ کی کھانا پڑی، اس کے بعد بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے اپنی مرضی کا محاذ کھولنے کی دھمکی دی، اور اس دھمکی کے پیشِ نظر پاکستان میں شہری دفاع کی نیم سرکاری تنظیم نے شہریوں کو ممکنہ خطرات اور ان کے مقابلہ کی تیاریوں کی طرف توجہ دلانا شروع کر دی تھی۔ راقم الحروف بھی اس میں بطور رضا کار بھرتی ہوا، وردی سلوائی اور اس کے شعبہ تبلیغ میں عوام کو شہری دفاع کی تربیت حاصل کرنے کی ترغیب دینے کے لیے مختلف جلسوں میں شرکت شروع کر دی۔
پانچ ستمبر شام کو گکھڑ میں چند نوجوانوں نے ایک جلسہ کا اہتمام کیا جس کا مقصد عوام کو پاک فوج کے جوانوں کے لیے خون کے عطیات دینے کی ترغیب دلانا تھا۔ میاں فاضل رشیدی مرحوم اور میاں محمد اشرف گلزار مرحوم کے ساتھ راقم الحروف نے بھی خطاب کیا۔ جلسہ کا انتظام کرنے والوں میں ہمارے دوست عبد الرؤف بٹ مرحوم اور افتخار احمد رانا پیش پیش تھے جو آج کل امریکہ میں قیام پذیر ہیں۔ جلسہ میں راقم الحروف نے شہری دفاع کی ٹریننگ پر زیادہ زور دیا۔ رات جلسہ سے فارغ ہوئے تو اسی صبح نماز فجر کے بعد مسجد میں درس سن رہے تھے کہ اچانک طیاروں کی گھن گرج سنائی دی اور اس کے بعد بمباری ہوئی۔ گکھڑ ریلوے سٹیشن پر انڈین طیارے نے بم گرایا تھا جس سے گکھڑ کے ایک نوجوان صفدر باجوہ جو اپنے کھیتوں کی طرف جا رہے تھے شہید ہو گئے۔ راقم الحروف ان دنوں روزنامہ وفاق لاہور کا گکھڑ کے لیے نامہ نگار تھا، چنانچہ صفدر باجوہ شہید کی شہادت پر وفاق میں فیچر بھی لکھا۔ اس کے بعد سترہ دن دفاعِ وطن کے اسی جذبہ کے ساتھ گزر گئے اور شہری دفاع کے رضاکار کے طور پر دیگر دوستوں کے ہمراہ رات کو مختلف پلوں پر پہرہ دینے کی سعادت حاصل کی۔
اس موقع پر ملک و قوم کے دفاع اور حفاظت میں حکومت، عوام، سیاسی جماعتیں اور مذہبی رہنما جس طرح ایک مٹھی اور ایک جان ہو گئے تھے، اس نے پاکستان کو ناقابلِ شکست بنا دیا تھا، مگر اس کے صرف چھ سال بعد اس قومی وحدت کو پارہ پارہ کر کے دشمن نے اپنی ہزیمت کا ہم سے بدلہ لے لیا اور مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا۔
چھ ستمبر کو یومِ دفاعِ پاکستان ہر سال منایا جاتا ہے اور مسلح افواج کی خصوصی تقریبات کے علاوہ عوامی اجتماعات بھی ہوتے ہیں، مگر اس سال یومِ دفاعِ پاکستان پر گوجرانوالہ میں جو منظر دیکھنے میں آیا وہ شاید زندگی بھر نہ بھولے۔ اس روز ’’جیشِ محمؐد‘‘ والے شیرانوالہ باغ میں شہداء کی یاد میں سالانہ جلسہ کرتے ہیں جو چند سال سے اسی جگہ اور اسی تاریخ کو منعقد ہو رہا ہے۔ اس سال بھی حسبِ معمول اشتہار دیکھنے میں آیا اور اعلان ہوا کہ جیش محمدؐ کے سربراہ مولانا محمد مسعود اظہر جلسہ سے خطاب کریں گے۔ عین جلسہ والے دن یعنی چھ ستمبر کو گیارہ بجے دن مجھے فون پر بتایا گیا کہ انتظامیہ نے جیش محمدؐ کو جلسہ کے انتظامات سے روک دیا ہے اور جلسہ گاہ کی ناکہ بندی کر دی ہے۔ اس صورتحال پر غور کرنے کے لیے جمعیۃ علماء اسلام (ف) کے مولانا سید عبد المالک شاہ، جمعیۃ علماء اسلام (س) کے مولانا قاری محمد اکرام اور علامہ محمد احمد لدھیانوی، پاکستان شریعت کونسل کے مولانا محمد نواز بلوچ، اور مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت کے حافظ محمد ثاقب دوسرے علماء کرام کے ہمراہ مدرسہ نصرۃ العلوم میں جمع ہیں اور میرا انتظار ہو رہا ہے۔ میں پہنچا تو جیش محمدؐ کے دوستوں نے بتایا کہ کل شام تک صورتحال بالکل ٹھیک تھی، انتظامیہ کے ذمہ دار حضرات کے ساتھ بات ہو چکی تھی اور ان کی طرف سے یہ کہا گیا تھا کہ شیرانوالہ باغ میں جلسہ کے انعقاد کو وہ بوجوہ مناسب نہیں سمجھتے، اس لیے جلسہ شیخوپورہ موڑ پر ہاکی سٹیڈیم میں کر لیا جائے۔ جلسہ کے منتظمین نے اس سے اتفاق کر لیا اور ہاکی سٹیڈیم میں جلسہ کے انعقاد کی تیاریاں شروع کر دیں، مگر رات کو انتظامیہ کی طرف سے انہیں باضابطہ اطلاع دی گئی کہ ہاکی سٹیڈیم میں بھی جلسہ منعقد نہیں کر سکتے، اور اس کے ساتھ ہی ہاکی سٹیڈیم میں پولیس کی بھاری نفری جلسہ کے انتظامات کو روکنے کے لیے مقرر کر دی گئی ہے۔
اس سلسلہ میں فوری طور پر ڈی آئی جی پولیس سے بات کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ان سے رابطہ ہوا تو انہوں نے کہا کہ آ جائیں وہ دفتر میں موجود ہیں، مگر پندرہ بیس منٹ کے وقفہ سے جب ہم سب ڈی آئی جی آفس پہنچے تو موصوف کور کمانڈر کے ساتھ ملاقات کے لیے کہ چھاؤنی تشریف لے جا چکے تھے۔ ڈی سی او کے دفتر حاضری دی تو ان کے بارے میں بھی یہی معلوم ہوا کہ کور کمانڈر سے ملاقات کے لیے گئے ہیں۔ اس کے بعد ان سے رابطہ کے لیے مسلسل کوشش ہوتی رہی اور بالآخر چار بجے کے لگ بھگ ڈی آئی جی سے ان کے دفتر میں ملاقات ممکن ہو سکی، جبکہ اس دوران شہر کے چاروں طرف راستوں کی ناکہ بندی ہو چکی تھی اور ہر ناکہ پر پولیس اہلکار شہر کی طرف آنے والی گاڑیوں کو روک کر ڈاڑھی والے مسافروں کو نیچے اتارنے میں مصروف تھے۔ خود ہم جیش محمدؐ کے کمانڈر مولانا عبد الجبار اخوند کے ساتھ ان کی گاڑی میں ڈی آئی جی سے ملاقات کے لیے جاتے ہوئے جنرل بس سٹینڈ کے قریب سے جی ٹی روڈ پر مڑنے گئے تو پولیس نے ناکہ لگا رکھا تھا اور ہمیں روک کر کہا گیا کہ آپ حضرات جی ٹی روڈ پر نہیں جا سکتے۔ پولیس اہلکاروں کی موقع پر موجود جیش محمدؐ کے رضا کاروں سے تو تو میں میں ہوئی اور ہم ایکا کرتے ہوئے اس ناکے سے نکل کر آگے بڑھ گئے۔
ڈی آئی جی سے ملاقات ہوئی تو میں نے عرض کیا کہ حضور! آج یومِ دفاعِ پاکستان ہے۔ جہاد، دفاعِ وطن، اور شہداء کی یاد ہمارا قومی مسئلہ ہے۔ اس پر تو خود حکومت کو عوامی اجتماعات کا اس روز اہتمام کرنا چاہیے، مگر آپ خود کچھ کرنے کی بجائے ہمیں بھی شہداء کی یاد منانے سے روک رہے ہیں؟ اس کے جواب میں انہوں نے جس لہجہ اور انداز میں سرکاری فیصلہ کیا اس سے خود ان کی بے بسی اور بے چارگی کا اندازہ ہو رہا تھا۔ بہرحال تفصیلی گفتگو کے بعد بات اس نتیجہ پر پہنچی کہ کسی پبلک مقام پر جلسہ کی تو کسی قیمت پر اجازت نہیں دی جا سکتی، البتہ کسی مسجد کی چاردیواری میں لاؤڈ سپیکر کی بجائے ڈیک لگا کر جلسہ کر لیا جائے تو اسے برداشت کیا جا سکتا ہے۔ اس پر طے پایا کہ جلسہ شیرانوالہ باغ یا ہاکی سٹیڈیم کی بجائے مرکزی جامع مسجد میں ہوگا اور جیش محمدؐ کے حضرات اس پر بھی راضی ہو گئے۔
مغرب کی نماز کے بعد مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ میں جلسہ کا آغاز ہوا۔ راقم الحروف کو سیٹلائٹ ٹاؤن میں حافظ محمد یحییٰ میر صاحب کی طرف سے مولانا محمد مسعود اظہر کے اعزاز میں دیے گئے عشائیہ میں شریک ہونا تھا اس لیے نماز پڑھا کر وہاں چلا گیا۔ مولانا موصوف کے دیر سے آنے کی وجہ سے وہاں خاصی دیر ہو گئی اور دس بجے کے لگ بھگ جب واپس آیا تو منظر ہی عجیب تھا۔ میں مرکزی جامع مسجد کا خطیب ہوں اور میری رہائش جامع مسجد کے مکان میں ہے۔ حافظ محمد یحییٰ میر مجھے موٹر سائیکل پر بٹھائے مسجد کے چاروں طرف گھومتے رہے، مگر ہر طرف پولیس کی ناکہ بندی کی وجہ سے مسجد کی طرف جانے کا کوئی راستہ نہ ملا۔ بازار کی طرف سے گلیوں میں سے آنے کی کوشش کی تو آنسو گیس نے روک لیا۔ کوشش کی کہ اس حالت میں بھی مسجد پہنچنے کی کوئی صورت نکالی جائے، مگر جب دم گھٹنے لگا تو واپسی کے سوا کوئی چارہ کار نہ رہا اور میں نے رات اپنے گھر کی بجائے حافظ محمد یحییٰ میر کے گھر سیٹلائٹ ٹاؤن میں بسر کی۔
پولیس کی اس ناکہ بندی نے اشتعال کی جو صورتحال پیدا کی اس سے جلسہ میں شرکت کے لیے آنے والے حضرات بپھر گئے۔ اجتماع کی کیفیت یہ تھی کہ مسجد اور اس کے اردگرد بازاروں میں رش کی وجہ سے گزرنے کا راستہ نہیں تھا اور شیرانوالہ باغ کے گرد ہزاروں لوگ جمع تھے جو باغ میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس محاذ آرائی میں پولیس کو بالآخر پسپا ہونا پڑا اور عوام کے بے پناہ ہجوم کے آگے اس کا کوئی بس نہ چلا۔ لوگ زبردستی باغ میں داخل ہو گئے اور عوام کے مطالبہ اور اصرار پر جلسہ کے منتظمین کو مسجد کے صحن میں اسٹیج چھوڑ کر مسجد کی چھت پر شیرانوالہ باغ کی طرف رخ کر کے ہنگامی اسٹیج بنانا پڑا، اور پھر ساڑھے دس بجے کے بعد جلسہ کی کارروائی وہیں ہوئی۔ جلسہ کے شرکاء کا کہنا ہے کہ مسجد اور گلیوں کے ساتھ شیرانوالہ باغ کے دونوں گراؤنڈوں میں ہر طرف لوگ ہی لوگ تھے اور اس طرح رات دو بجے تک جلسہ کی کارروائی جاری رہی۔
یہ کارروائی قدرے تفصیل کے ساتھ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یومِ دفاعِ پاکستان کے موقع پر ایک جہادی تنظیم کی طرف سے شہیدوں کی یاد اور جہاد کے عنوان پر منعقد ہونے والے جلسہ کے ساتھ انتظامیہ کا یہ سلوک ملکی حالات، قومی جذبات اور جہادِ کشمیر کے تسلسل کے حوالے سے تو قطعی طور پر ناقابلِ فہم ہے، البتہ بین الاقوامی دباؤ اور مشرف واجپائی مذاکرات کی مصلحتوں کے پس منظر میں بات کچھ نہ کچھ سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن صرف اتنی گزارش کی جسارت کر رہا ہوں کہ اگر ایسا ہی کرنا تھا تو کام ادھورا اور نامکمل نہیں ہونا چاہیے تھا، بلکہ اس ساری کارروائی کی ویڈیو فلم بننی چاہیے تھی کہ کس طرح ایک جہادی تنظیم کے جلسہ کو روکنے کے لیے پولیس کے نوجوان مستعد کھڑے ہیں، کس طرح شہر میں داخل ہونے والی گاڑیوں سے ڈاڑھی والے مسافروں کو زبردستی اتارا جا رہا ہے، اور کس طرح پولیس کے جیالے شہداء کی یاد میں منعقد ہونے والے جلسہ کے شرکاء پر لاٹھیاں اور آنسو گیس کے شیل برسا رہے ہیں؟ یہ ویڈیو میرے خیال میں جنرل پرویز مشرف کو مجوزہ دورہ امریکہ میں زیادہ فائدہ دے سکتی تھی ۔۔۔ آپ کا کیا خیال ہے؟