عقل کی حدود اور اس سے استفادہ کا دائرہ کار

   
تاریخ : 
ستمبر ۲۰۰۶ء

’الشریعہ‘ کے گزشتہ شمارے میں ہم نے روزنامہ جناح اسلام آباد کے کالم نگار آصف محمود ایڈووکیٹ صاحب کے پیش کردہ سوالات میں سے ایک کا مختصراً جائزہ لیا تھا۔ آج کی محفل میں ہم اس قسم کے سوالات کے حوالے سے چند اصولی گزارشات پیش کریں گے اور اس کے بعد باقی ماندہ سوالات میں سے اہم امور پر کچھ نہ کچھ عرض کرتے رہیں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

سب سے پہلے اس حقیقت کو سمجھنا اور پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ جب ہم ایک مسلمان کے طور پر اللہ تعالیٰ کو اس کائنات کا خالق و مالک، رازق و مدبر اور حکیم و حاکم یقین کرتے ہیں اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا نمائندہ اور احکام و قوانین میں اس کی طرف سے مجاز اتھارٹی سمجھتے ہیں تو اس یقین و ایمان کی رو سے ہم اس امر کے پابند ہو جاتے ہیں کہ ان کی طرف سے جو حکم بھی آئے اور جو بات بھی کہی جائے، اسے حتمی تصور کریں اور اگر کوئی بات ہماری سمجھ میں نہ آتی ہو تو بھی اللہ تعالیٰ اور ان کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو صحیح اور برحق مانتے ہوئے سمجھ میں نہ آنے کو اپنی عقل کی کوتاہی پر محمول کریں۔ بات وہاں بگڑتی ہے اور اشکال وہیں پیدا ہوتا ہے جب کچھ لوگ یہ طے کر لیتے ہیں کہ ہماری عقل اور سمجھ کسی بات کے صحیح اور حتمی ہونے کا واحد معیار ہے۔ کوئی بات اس کے دائرے میں آئے گی تو ہم قبول کریں گے اور اگر کوئی بات ہماری سمجھ اور عقل کے دائرے میں نہیں آ رہی تو نہ صرف یہ کہ اس کو تسلیم نہیں کریں گے بلکہ اس کی نفی کرنا اور اس کا مذاق اڑانا بھی ضروری سمجھیں گے۔

عقل ایک عمدہ صلاحیت اور قدرت کے عطا کردہ ایک بہترین آلہ کا نام ہے جس کے ذریعے سے ہم اردگرد کے ماحول کو سمجھتے ہیں، اپنی ضروریات کا ادراک حاصل کرتے ہیں، اپنے نفع و نقصان کو پہچانتے ہیں اور علم و دانش میں ارتقا حاصل کرتے ہیں۔ لیکن یہ محض ایک آلہ ہے جو حاصل شدہ معلومات میں سے ایک اچھی ترتیب اور عمدہ نتیجہ نکالنے کے کام آتا ہے، خود اس کے اندر سے کوئی چیز برآمد نہیں ہوتی۔ اس کی مثال ایک کمپیوٹر کی سی سمجھ لیجیے کہ اس میں جو پروگرام فیڈ کریں گے وہ اس کے دائرے میں کام کرے گا، اپنی طرف سے کسی پروگرام کا اضافہ نہیں کرے گا۔ آپ اسے جو پروگرام مہیا کریں گے اسی کے مطابق اس سے کام لے سکیں گے، اور اگر آپ چاہیں کہ فیڈ کیے ہوئے پروگرام سے ہٹ کر کمپیوٹر اپنی طرف سے بھی آپ کو کچھ دے تو کوئی عمدہ سے عمدہ کمپیوٹر بھی ایسا نہیں کر سکے گا۔ اسی طرح کی ایک مثال ملک شیک بنانے والی مشین کی بھی ہے، اس کے اندر صرف یہ صلاحیت ہے کہ جو کچھ اس میں ڈالا جائے اسے مکس کر کے آپ کو ان چیزوں کا جوس پیش کر دے، اپنی طرف سے کوئی چیز وہ اس میں شامل نہیں کرے گا۔ آپ نے جتنی چیزیں اس میں ڈالی ہیں اور جس مقدار میں ڈالی ہیں وہ ان کے مطابق آپ کو نتیجہ دے گا، اور اگر آپ کی خواہش ہو کہ وہ اپنی طرف سے بھی اس میں کوئی چیز شامل کر دے تو یہ آپ کا بھول پن ہوگا۔ بالکل یہی صورتحال عقل کی ہے، وہ ایک عمدہ صلاحیت اور بہترین آلہ ہے، اس کو جو معلومات، مشاہدات، مدرکات اور محسوسات فراہم ہوں گے وہ ان کے مطابق نتائج فراہم کرے گی۔ معلومات و مشاہدات کا دائرہ محدود ہوگا تو نتیجہ بھی محدود ہوگا اور جوں جوں معلومات و مشاہدات اور محسوسات و مدرکات کا دائرہ وسیع ہوتا جائے گا، نتیجہ بھی مختلف ہوتا چلا جائے گا۔

یہی وجہ ہے کہ جوں جوں انسان کے مشاہدات اور معلومات میں اضافہ ہو رہا ہے اس کی عقل کے فیصلے بھی بدلتے جا رہے ہیں۔ ایک دور تھا جب انسان کی زبان سے صادر ہونے والی گفتگو کے بارے میں یہ محاورہ زبان زد عوام تھا کہ ’’اذا تلفظ تلاشی‘‘ جب کوئی بات منہ سے نکل جاتی ہے تو معدوم ہو جاتی ہے، اس کا کوئی وجود باقی نہیں رہتا۔ اور اسی وجہ سے عقل کی بنیاد پر ہر بات کا فیصلہ کرنے والے حضرات مسلمانوں کے اس عقیدہ پر معترض ہوا کرتے تھے کہ قیامت کے روز انسان کی باتوں کا بھی حساب ہوگا اور اقوال کو بھی میزان پر تولا جائے گا۔ وہ یہ کہتے تھے کہ جب ایک چیز کا وجود ہی باقی نہیں رہا اور وہ فضا میں تحلیل ہو گئی ہے تو اس کا وزن کیسے ہوگا اور وزن کے لیے وہ قابو میں کیسے آئے گی؟ ان کے اس اعتراض کا درست یا غلط ہونا اپنی جگہ پر، مگر یہ اس دور کے معقولات و مشاہدات کی بنیاد پر تھا جب انسانی مشاہدے کی رو سے الفاظ منہ سے نکل کر معدوم ہو جایا کرتے تھے۔ لیکن اب تو منہ سے نکلتے ہی ایک ایک لفظ ریکارڈ ہو جاتا ہے، محفوظ ہو جاتا ہے اور کسی بھی وقت دوبارہ سنا جا سکتا ہے۔ اسی طرح انسان کے اعمال کی بات ہے کہ جب یہ ریکارڈ میں نہیں آتے تھے تو یہی سمجھا جاتا تھا کہ انسان سے کوئی عمل صادر ہو کر فضا میں تحلیل ہو گیا ہے اور اسے دوبارہ وجود میں لانا مشاہدہ سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس لیے قرآن کریم کے اس ارشاد پر بھی اعتراض ہوتا تھا کہ انسان قیامت کے روز اپنے اعمال کو دیکھے گا، لیکن اب انسان کے قول کے ساتھ ساتھ اس کا ہر عمل ریکارڈ میں آ جاتا ہے، محفوظ ہو جاتا ہے اور اسے کسی بھی وقت دوبارہ دیکھا جا سکتا ہے۔

اس مثال سے ہم یہ نکتہ اپنے قارئین کے ذہن میں لانا چاہتے ہیں کہ عقل کا کوئی فیصلہ بھی حتمی نہیں ہوتا۔ عقل کا ہر فیصلہ اس وقت تک اسے میسر آنے والی معلومات و مشاہدات کی روشنی میں ہوتا ہے اور چونکہ معلومات و مشاہدات اور مدرکات و محسوسات میں وسعت و تنوع کا امکان ہر لمحہ موجود رہتا ہے، اس لیے عقل کے ہر فیصلے میں تبدیلی اور تغیر کا امکان بھی ہر وقت موجود رہتا ہے اور عقل کے کسی فیصلے کو کسی وقت بھی آخری اور فائنل قرار نہیں دیا جا سکتا۔

پھر اس حوالے سے ایک اور پہلو پر بھی نظر ڈال لینی چاہیے کہ عقل عام جسے ’’کامن سینس‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، نہ زمانے کے لحاظ سے ایک رہتی ہے اور نہ علاقے کے اعتبار سے ہی اس میں یکسانی پیدا ہو سکتی ہے۔ ہم یہ عرض کر چکے ہیں کہ عقل محض ایک آلہ ہے اور ایک کمپیوٹر ہے جو اس میں فیڈ کیے ہوئے پروگرام کے مطابق ہی نتیجہ دے گا اور پروگرام کی یہ فیڈنگ سوسائٹی کرتی ہے۔ ایک بچہ جب سوچنے سمجھنے کے قابل ہوتا ہے تو اس کے کمپیوٹر کی خالی سی ڈی میں اردگرد کا ماحول اپنا پروگرام فیڈ کرنا شروع کر دیتا ہے جو اس کے سن بلوغ تک پہنچتے پہنچتے مکمل ہو جاتا ہے اور پھر عام طور پر وہ ساری زندگی اسی فیڈ کیے ہوئے پروگرام کے مطابق گزار دیتا ہے۔ ایک انسان کے ذہن کے کمپیوٹر میں پروگرام کی فیڈنگ کا یہ کام سب سے پہلے گھر کی چار دیواری میں ماں باپ کی حرکات و سکنات کی صورت میں ہوتا ہے اور وہی بچے کی ذہنی نشوونما میں سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں جسے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ارشاد میں یوں بیان فرمایا ہے کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، اسے اس کے ماں باپ یہودی بناتے ہیں، عیسائی بناتے ہیں اور مجوسی بناتے ہیں۔ یعنی اس خالی کیسٹ اور سی ڈی میں کسی پروگرام کی فیڈنگ کا کام سب سے پہلے ماں باپ کرتے ہیں، پھر بچہ اسی سانچے میں ڈھلتا چلا جاتا ہے۔ یہ بات عام مشاہدے میں ہے کہ مسیحی ماحول میں پرورش پانے والا بچہ یقیناً یہودی ماحول میں تربیت حاصل کرنے والے بچے سے مختلف ہوتا ہے، اور ہندو خاندان میں جوان ہونے والے بچے کی نفسیات مسلمان خاندان میں جنم لینے والے بچے سے قطعاً مختلف ہوتی ہیں۔ اسی طرح امریکہ کے ماحول میں پرورش پانے والے بچے کی نفسیات اور افتاد طبع افریقی بچے سے مختلف ہوگی، اور عرب ماحول میں نشوونما حاصل کرنے والے نوجوان کی نفسیات اور معقولات چینی ماحول میں نشوونما پانے والے نوجوان سے الگ ہوگی۔

یہ تنوع اور اختلاف اس امر کی واضح دلیل ہے کہ ہر انسان کی عقل نہ صرف یہ کہ میسر آنے والی معلومات اور مشاہدات کی پابند ہے بلکہ اپنے اپنے ماحول کی بھی اسیر ہے۔ اور ان دو باتوں کے موجود ہوتے ہوئے یہ بات کم از کم ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ ’’عقل عام‘‘ کا کوئی ایسا معیار بھی ہو سکتا ہے جو تمام زمانوں اور تمام علاقوں کے لیے یکسانی کا حامل ہو اور جسے پوری نسل انسانی کے لیے کسی ضابطہ و قانون اور فلسفہ و نظام کی بنیاد بنایا جا سکے۔

آج مغرب کے پاس اپنے فکر و فلسفہ کو دنیا سے منوانے کے لیے سب سے بڑی دلیل یہی ’’عقل عام‘‘ اور ’’کامن سینس‘‘ ہے۔ لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ جس عقل عام اور کامن سینس کو واحد عالمی معیار قرار دے کر دنیا سے منوانے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ صرف مغرب کی عقل عام ہے اور اسی کا کامن سینس ہے، اس کے معلومات و مشاہدات کا دائرہ باقی دنیا سے مختلف ہے، اس کے مدرکات و محسوسات کی سطح باقی دنیا سے الگ ہے، اور اس کے تاریخی پس منظر اور تجربات کا ماحول دوسری دنیا سے مطابقت نہیں رکھتا۔ مگر وہ صرف سائنس اور ٹیکنالوجی، عسکری قوت اور معیشت و میڈیا کی بالادستی کی قوت پر اپنا مخصوص کامن سینس پوری دنیا پر مسلط کرنے کے درپے ہے۔ میڈیا، لابنگ اور ذہن سازی کے تمام ہتھیار اور ذرائع اس کے کنٹرول میں ہیں اور وہ منہ زور ہاتھی کی طرح دنیا کی ہر ثقافت، فکر اور فلسفہ کو روندتا چلا جا رہا ہے۔

اس لیے ہم اگر اسلامی احکام و قوانین کو ان کے اصل تناظر میں سمجھنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں مغرب کے پھیلائے ہوئے فکر و فلسفہ کے جال کا ادراک حاصل کرنا ہوگا، اس کے وسیع تر پروپیگنڈے کے فریب سے نکلنا ہوگا، اور اس ابدی حقیقت کو سمجھنا ہوگا کہ انسانی عقل کا اصل مقام کیا ہے اور عقل عام کی اصل حدود اور دائرہ کار کیا ہے۔ اس لیے کہ اگر ہم اپنے عقائد اور بنیادی احکام کے فیصلے اس عقل خاص یا عقل عام کی بنیاد پر کرنے بیٹھ جائیں تو ہر سو سال کے بعد عقائد میں تبدیلی لانا ہوگی اور ہر صدی کے بعد احکام و قوانین میں ردوبدل کرنا ہوگا۔ پھر مختلف علاقوں کے لیے مختلف قوانین ہوں گے اور یہ تصور باقی نہیں رہے گا کہ عقائد و احکام کا کوئی ایسا درجہ اور معیار بھی ہے جو عقل کے آئے دن بدلتے ہوئے فیصلوں سے ماورا ہے اور سب زمانوں کے لیے یکساں طور پر قابل قبول ہے۔ ہمیں عقل اور عقل عام کی افادیت اور کارفرمائی سے انکار نہیں ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی ناشکری کا سوچ بھی نہیں سکتے، لیکن وہ اپنے دائرۂ کار میں رہے گی تو نعمت ہوگی۔ اور اسے اس کے حدود سے نکال کر وحی سے بالاتر قرار دے دیا جائے گا اور وحی کی تعبیر و تشریح اور تفہیم و توضیح میں بھی اسے حتمی معیار اور اتھارٹی تصور کر لیا جائے گا تو یہی نعمت آزمائش اور عذاب کی شکل بھی اختیار کر سکتی ہے۔

اس لیے اصولی گفتگو کے آغاز میں ہم اپنے مسلمان بھائیوں کو اس طرف توجہ دلانا چاہیں گے کہ ان سوالات کا ضرور سامنا کریں اور انہیں سمجھنے اور سمجھانے کی ضرور کوشش کریں لیکن اس سے پہلے اپنے ایمان و یقین کی بنیاد کا ضرور جائزہ لے لیں کہ کیا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات کو اپنی عقل یا دنیا کی عقل عام پر پرکھنا ضروری ہے؟ اور کیا یہ راستہ فطرت کا راستہ نہیں ہے کہ جو بات سمجھ میں آجائے اس پر خدا کا شکر ادا کریں، اور جو بات ہم نہ سمجھ سکیں اس پر یہ کہتے ہوئے ایمان قائم رکھیں کہ جس طرح بہت سی باتیں پہلے سمجھ میں نہیں آتی تھیں مگر اب سمجھ میں آ رہی ہیں، اسی طرح مشاہدات و معلومات کا دائرہ مزید وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ یہ باتیں بھی ہماری سمجھ میں آ جائیں گی؟

   
2016ء سے
Flag Counter