(جمعیۃ علماء اسلام کے ممتاز راہنما اور مرکزی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کے سیکرٹری اطلاعات مولانا زاہد الراشدی گزشتہ دنوں برطانیہ کے تبلیغی دورے اور انٹرنیشنل ختم نبوت کانفرنس لندن میں شرکت کے بعد حج بیت اللہ ادا کرتے ہوئے گوجرانوالہ واپس پہنچے اور ہمارے نمائندہ کے ساتھ گفتگو کے دوران انہوں نے اپنے بیرونی دورہ کے تاثرات کا اظہار کیا۔ اس گفتگو کی رپورٹ درج ذیل ہے۔ ہفت روزہ خدام الدین، لاہور)
سوال: مولانا! آپ کا شمار تحریک ختم نبوت کے ذمہ دار راہنماؤں میں ہوتا ہے اور آپ نے اگست میں لندن میں منعقد ہونے والی بین الاقوامی ختم نبوت کانفرنس میں شرکت بھی کی ہے، کیا آپ اس کانفرنس کی ضرورت پر روشنی ڈالیں گے؟
جواب: قادیانیت کا مسئلہ بنیادی طور پر پاکستان اور ہندوستان کا مسئلہ ہے لیکن چونکہ اس فتنہ کی تخم ریزی اور آبیاری برطانوی استعمار نے اپنے دور اقتدار میں نوآبادیاتی مقاصد کے لیے کی تھی، اور دنیا میں جہاں برطانوی اقتدار اور اثرات رہے ہیں وہاں اس فتنہ کے قدم بھی پہنچے ہیں۔ بالخصوص پاکستان کے اولین وزیرخارجہ چودھری ظفر اللہ خان نے اپنے دور وزارت میں وزارت خارجہ کو قادیانیت کی تبلیغ و توسیع کے لیے پوری طرح استعمال کیا ہے۔ اس لیے دنیا کے مختلف حصوں میں قادیانیت کے اثرات اور مراکز موجود ہیں اس لیے ایک عرصہ سے اس کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ عالمی سطح پر قادیانیوں کی سرگرمیوں کا تعاقب منظم طور پر کیا جائے۔ پھر پاکستان میں امتناع قادیانیت آرڈیننس کے نفاذ کے بعد مرزا طاہر احمد نے ملک سے فرار اختیار کر کے لندن کو اپنی سرگرمیوں کا ہیڈکوارٹر بنا لیا اور وہاں قادیانی جماعت کا مرکز قائم کر کے پاکستان اور اسلام کے خلاف پراپیگنڈا کی مہم تیز کر دی تو اس ضرورت کا احساس دوچند ہو گیا۔
چنانچہ گزشتہ سال مکہ مکرمہ میں چند سرکردہ علماء نے جن میں مکہ مکرمہ کے الشیخ مولانا عبد الحفیظ المکی اور مولانا محمد مکی حجازی اور پاکستان سے مولانا منظور احمد چنیوٹی اور مولانا محمد ضیاء القاسمی سرفہرست ہیں۔ باہمی مشورہ کے بعد ’’انٹرنیشنل ختم نبوت مشن‘‘ کے قیام اور لندن میں بین الاقوامی ختم نبوت کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ عالمی سطح پر قادیانیوں کے یکطرفہ پراپیگنڈا کا مؤثر جواب دیا جائے اور مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کو اس کانفرنس کے بارے میں بیدار کیا جائے۔
سوال: برطانیہ میں مقیم مسلمانوں کا اس کانفرنس کے بارے میں کیا طرز عمل رہا؟
جواب: برطانیہ میں مقیم بہت سے مسلمان پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور دیگر مختلف ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمارے کام کا میدان ان تین ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان تھے، اور ان مسلمانوں نے اگست ۱۹۸۵ء کے دوران لندن میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔ کانفرنس سے قبل برطانیہ کے مختلف شہروں میں ختم نبوت کے عنوان پر اجتماعات رکھے گئے تھے جن میں مسلمانوں نے بھاری تعداد میں پورے جوش و خروش کے ساتھ شرکت کی اور برطانیہ میں مقیم علماء کی ایک بڑی تنظیم ’’جمعیۃ علماء برطانیہ‘‘ نے باقاعدہ تنظیمی حیثیت سے کانفرنس کی کامیابی کے لیے ملک کے طول و عرض میں محنت کی۔
سوال: ختم نبوت کا مسئلہ عام مسلمانوں کا مشترکہ مسئلہ ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ اس کانفرنس میں دیوبندی مکتب فکر کے سوا دوسرے مکاتب فکر کو شریک نہیں کیا گیا؟
جواب: ہم یہاں سے اسی جذبہ کے ساتھ گئے تھے کہ پاکستان کی طرح یورپ میں بھی تمام مکاتب فکر کے اشتراک کے ساتھ قادیانیت کے خلاف مشترکہ محاذ قائم کیا جائے لیکن وہاں پہنچنے کے بعد فرقہ وارانہ کشیدگی کی ایسی افسوسناک صورتحال سامنے آئی کہ فوری طور پر تمام مکاتب فکر کے ذمہ دار حضرات کو ایک جگہ جمع کرنا بظاہر مشکل نظر آرہا تھا۔ یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ یورپ کا معاشرہ جو گھریلو زندگی کے تصور اور قلبی سکون سے یکسر محروم ہونے کے باعث اسلام کی تبلیغ کا سب سے بڑا میدان بن سکتا ہے، وہاں فرقہ وارانہ کشمکش کی شدت اسلام کی تبلیغ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے بلکہ اسلام سے نفرت کا سبب بن رہی ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے اور مساجد کے جھگڑے اس قدر سنگین ہیں کہ الامان والحفیظ۔
اس صورتحال کو دیکھ کر ہم نے محسوس کیا کہ پہلی ’’بین الاقوامی ختم نبوت کانفرنس‘‘ کے موقع پر ایسا کوئی رسک نہیں لینا چاہیے جو کانفرنس کے بنیادی مقاصد میں ہی نقصان کا باعث بن جائے۔ چنانچہ ہم نے طے کیا کہ کانفرنس اور اس سے قبل ملک گیر دوروں میں فرقہ وارانہ اختلافات کو مثبت یا منفی کسی طور پر بھی چھیڑے بغیر اپنی ساری توجہ کانفرنس کے بنیادی مقاصد پر مرکوز رکھیں گے۔
اس حکمت عملی کا یہ فائدہ ہوا کہ بالآخر دوسرے مکاتب فکر کے راہنماؤں کو بھی کانفرنس کے مقاصد کی اہمیت اور منتظمین کے خلوص کا احساس ہو گیا اور کانفرنس سے قبل بریلوی مکتب فکر کی نمائندہ تنظیم ’’ورلڈ اسلامک مشن برطانیہ‘‘ اور اہل حدیث مکتب فکر کی تنظیم ’’جمعیۃ اہل حدیث برطانیہ‘‘ نے اخبارات میں باقاعدہ اشتہارات اور قراردادوں کے ذریعے بین الاقوامی ختم نبوت کانفرنس کی مکمل حمایت کا اعلان کر دیا جس کے بہت اچھے اثرات مرتب ہوئے اور مشترکہ جدوجہد کے سلسلہ میں محسوس کیے جانے والے خدشات کے ازالہ کے ساتھ آئندہ کے لیے تمام مکاتب فکر کے مشترکہ اجتماعات کی راہ ہموار ہو گئی۔
سوال: کانفرنس میں کن ممالک سے علماء شریک ہوئے؟
جواب: کانفرنس میں شرکت اور خطاب کرنے والے علماء میں بھارت سے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید اسعد مدنی، بنگلہ دیش کے بزرگ دینی و سیاسی راہنما حافظ جی حضور، رابطہ عالم اسلام کے نمائندہ ڈاکٹر حسن الاھدل، سعودی سفارت خانہ کے نمائندہ الشیخ ناجی صادق المفتی، مصر کے الشیخ زاہران، متحدہ عرب امارات کے الشیخ خلیل اور الشیخ اشتیاق حسین عثمانی، کینیڈا سے مولانا مظہر عالم اور پاکستان سے تحریک ختم نبوت کے سربراہ حضرت مولانا خان محمد کے علاوہ علامہ خالد محمود، مولانا منظور احمد چنیوٹی، مولانا محمد ضیاء القاسمی، مولانا محمد زکریا ایم پی اے کراچی، مولانا مفتی احمد الرحمان، مولانا محمد یوسف لدھیانوی، مولانا محمد حنیف جالندھری، مولانا سید عبد القادر آزاد، مولانا محمد یوسف خان آزاد کشمیر، مولانا میاں محمد اجمل قادری، مولانا قاری عبد الحئی عابد، مولانا عبد الرؤف ربانی اور دیگر حضرات بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
سوال: کانفرنس کی صدارت کس نے کی اور تقاریر کن زبانوں میں ہوئیں؟
جواب: کانفرنس کی دو نشستیں ہوئیں۔ پہلی نشست کی صدارت مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کے امیر حضرت مولانا خان محمد نے اور دوسری نشست کی صدارت جمعیۃ علماء ہند کے سربراہ حضرت مولانا سید اسعد مدنی نے کی۔ جبکہ انٹرنیشنل ختم نبوت مشن کے سربراہ الشیخ عبد الحفیظ المکی دونوں نشستوں میں اور مصر کے الشیخ زہران اور سعودی عرب کے الشیخ صادق ناجی المفتی ایک نشست میں معاون صدر رہے۔ کانفرنس میں مجموعی طور پر پچاس سے زائد تقریریں ہوئیں اور یہ تقاریر تین زبانوں، اردو، عربی اور انگریزی میں ہوئیں۔
سوال: مرزا طاہر احمد نے گزشتہ دنوں اس کانفرنس کے بارے میں کہا ہے کہ حاضری کم تھی اور مقررین نے گالیاں دی ہیں اور عام لوگوں نے اس میں دلچسپی نہیں لی۔
جواب: مرزا صاحب نے یہ کہہ کر اپنے حواریوں کو تسلی دینے کی کوشش کی ہے حالانکہ کانفرنس کی حاضری کی صورتحال یہ تھی کہ بڑے ہال میں ۲۷ باقاعدہ نشستوں کے علاوہ ۵۰۰ زائد کرسیاں لگوائی گئی تھیں اور اس کے ساتھ ایک اور فرشی نشست والا ہال نماز کے لیے الگ حاصل کیا گیا تھا۔ کانفرنس کا آغاز صبح دس بجے ہوا اور ساڑھے گیارہ بجے تک تمام نشستیں، سیڑھیاں اور راستے پر ہو کر لوگ نماز والے خالی ہال میں جانا شروع ہو گئے تھے، اور پھر یہ کیفیت شام سات بجے تک اسی طرح رہی۔ لندن کے اخبارات کی رپورٹ کے مطابق لندن میں مسلمانوں کی اب تک منعقد ہونے والی عوامی کانفرنسوں میں یہ سب سے بڑی کانفرنس تھی۔
جہاں تک گالیوں اور بدزبانی کا تعلق ہے اس کا قصہ بھی سن لیں۔ ہمارے وہاں پہنچنے کے بعد قادیانیوں نے مختلف ذرائع سے یہ پراپیگنڈا کیا کہ مولوی حضرات بدزبانی کرتے ہیں اور گالیاں دیتے ہیں۔ اس کے جواب میں ہم نے قادیانیوں کو آئینہ دکھانے کے لیے کانفرنس کے ایک مقرر مولانا اللہ وسایا کے ذمہ یہ موضوع لگایا کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کی اپنی کتابوں سے وہ اقتباسات پڑھ کر سنائیں جن میں مرزا صاحب آنجہانی نے مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ، مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ اور دوسرے اکابر علماء کو گالیاں دی ہیں۔ تاکہ تہذیب و شرافت کا شب و روز ڈھنڈورا پیٹنے والوں کے اپنے پیشوا کی زبان کا لوگوں کو علم ہو۔ اگر ان گالیوں کے سنانے سے مرزا طاہر احمد کو دکھ ہوا ہے تو اس کا شکوہ کانفرنس کے مقررین سے کرنے کی بجائے انہیں اپنے آنجہانی دادا مرزا غلام احمد قادیانی کی قبر پر کرنا چاہیے۔
سوال: کیا آپ کانفرنس کی کامیابی اور اس کے نتائج سے پوری طرح مطمئن ہیں؟
جواب: بحمد اللہ تعالٰی کانفرنس پوری طرح کامیاب ہوئی ہے اور اس کے اثرات بھی ہماری توقعات سے بڑھ کر ہوئے ہیں۔ کامیابی کے بارے میں تو پہلے بتا چکا ہوں، نتائج اور ثمرات کے بارے میں آپ دو باتوں سے اندازہ کر لیں۔
ایک یہ کہ کانفرنس کے فورًا بعد جب اس کی خبریں یورپ کے دوسرے ممالک میں پہنچیں تو کینیڈا، مغربی جرمنی اور دیگر ممالک کی طرف سے تقاضے شروع ہو گئے ہیں کہ ان کے ممالک میں اس نوع کی کانفرنسیں منعقد کی جائیں۔ لیکن اس کے بعد حج بیت اللہ کا موسم آ جانے کے باعث ان ممالک میں کانفرنسوں کا فوری انعقاد نہ ہو سکا۔ اب ان شاء اللہ ان کا پروگرام جلدی طے ہو گا۔
دوسری بات یہ ہے کہ کانفرنس سے ہمارا سب سے بڑا مقصد اس فتنہ کے سلسلہ میں یورپی مسلمانوں کو بیدار کرنا اور وہاں کی رائے عامہ کو اس حقیقت سے آگاہ کرنا تھا کہ اسلام اور قادیانیت دو الگ الگ مذہب ہیں۔ قادیانیوں کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے اور قادیانی گروہ کے راہنما خود کو مسلمان ظاہر کر کے اور اسلام کا نام استعمال کر کے دنیا کو اشتباہ اور دھوکہ کی جس کیفیت میں رکھنا چاہتے ہیں، ملت اسلامیہ کے لیے وہ قابل برداشت نہیں ہے۔ چنانچہ اس مقصد میں ہمیں کامیابی حاصل ہوئی ہے، وہاں کے مسلمانوں نے قادیانیوں کے سوشل بائیکاٹ اور انہیں مسلمانوں کی ایسوسی ایشنوں سے نکالنے کی مہم شروع کر دی ہے۔
کانفرنس کے بعد قادیانیوں نے باٹلے اور بریڈفورڈ میں ’’احمدیہ مسلم ایسوسی ایشن‘‘ کے نام اور ’’جلسہ ختم نبوت‘‘ کے عنوان سے اجتماعات کا اعلان کیا جس پر وہاں کے مسلمانوں نے مقامی حکام سے احتجاج کیا اور انہیں اپنے موقف سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ قادیانی اپنا اجتماع ضرور کریں لیکن ’’ختم نبوت‘‘ اور ’’مسلم‘‘ کے عنوان سے ہم انہیں جلسہ نہیں کرنے دیں گے۔ اس سے دھوکہ اور اشتباہ پیدا ہوتا ہے۔ برطانوی حکام نے مسلمانوں کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے قادیانی اجتماعات کے لیے پہلے سے کی ہوئی پبلک ہال کی بکنگ منسوخ کر دی۔
یہ واقعات اس امر پر شاہد ہیں کہ کانفرنس اپنے مقاصد کے لحاظ سے کامیاب رہی ہے۔
سوال: اب ذرا اپنے ملک میں واپس آتے ہیں، یہ بتائیں کہ کیا آپ تحریک ختم نبوت کی موجودہ صورتحال سے مطمئن ہیں اور اس سلسلہ میں کیا تقاضے محسوس کرتے ہیں؟
جواب: مطمئن ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اس لیے کہ ابھی بہت سا کام باقی ہے۔ آئینی اور قانونی طور پر غیر مسلم قرار دیے جانے اور اسلامی اصطلاحات کے استعمال سے قادیانیوں کو روک دیے جانے کے بعد ان آئینی و قانونی اقدامات پر عملدرآمد کا مرحلہ ابھی باقی ہے۔ ملک کے مختلف حصوں سے عملدرآمد کے غیر مؤثر ہونے کی شکایات موصول ہو رہی ہیں اور با اثر قادیانی افسران ان میں مسلسل رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔ مولانا محمد اسلم قریشی کی بازیابی کا مسئلہ ابھی جوں کا توں ہے، کلیدی آسامیوں سے قادیانیوں کی علیحدگی کے بارے میں کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا، ارتداد کی شرعی سزا کے نفاذ کا مطالبہ ابھی پورا نہیں ہوا، اس کے علاوہ اور بھی اہم مسائل ابھی حل طلب ہیں۔ اس لیے تحریک ختم نبوت کو ازسرنو منظم کرنے اور تمام مکاتب فکر کے ذمہ دار راہنماؤں کو اعتماد میں لیتے ہوئے اس جدوجہد کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
سوال: آپ نے مولانا اسلم قریشی کی بازیابی کا ذکر کیا ہے۔ اس سلسلہ میں تازہ صورتحال کیا ہے؟
جواب: اسلم قریشی کیس کے سلسلہ میں تازہ صورتحال یہ ہے کہ گوجرانوالہ کے ڈی آئی جی پولیس میجر مشتاق احمد کی سربراہی میں بننے والی ٹیم کے پاس یہ کیس آنے کے بعد سے تفتیش کا کام قطعی طور پر معطل ہے اور برائے نام بھی کوئی کام نہیں ہو رہا۔ ’’مرکزی مجلس عمل‘‘ نے اس ٹیم پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے لیکن نہ تو اس ٹیم کو بدلا گیا ہے اور نہ ہی یہ ٹیم کچھ کر رہی ہے۔ حال ہی میں اسلم قریشی اغوا کیس کے سلسلہ میں کچھ اور شواہد سامنے آئے ہیں جن کی بنیاد پر تفتیش کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ لیکن موجودہ ٹیم تک ان امور کو پہنچانے کو ہم ان قرائن کو سامنے کر دینے کے مترادف سمجھتے ہیں، اس لیے نئی ٹیم کے انتظار میں ہیں۔
سوال: کیا انٹرنیشنل ختم نبوت مشن کی پاکستان میں شاخ قائم کی جا رہی ہے؟
جواب: میں انٹرنیشنل ختم نبوت مشن کا باقاعدہ ممبر نہیں ہوں اس لیے پوری ذمہ داری سے تو کچھ نہیں کہہ سکتا البتہ میری معلومات کے مطابق مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان اور انٹرنیشنل ختم نبوت مشن کے درمیان لندن میں ہی یہ سمجھوتا طے پا گیا ہے کہ پاکستان میں تحریک ختم نبوت کی راہنمائی اور قیادت مجلس تحفظ ختم نبوت کرے گی، اور بیرون ملک اس جدوجہد کو مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کے امیر مولانا خان محمد ہی کی زیرنگرانی انٹرنیشنل ختم نبوت مشن آگے بڑھائے گا۔ اس لیے میرے خیال میں غالباً پاکستان میں مشن کی شاخ قائم نہیں کی جائے گی۔
سوال: مشن کے راہنماؤں کا مختصر تعارف کرا دیجئے۔
جواب: انٹرنیشنل ختم نبوت مشن کے سرپرست مولانا اسعد مدنی اور مولانا خان محمد بھارت اور پاکستان کی معروف شخصیات ہیں۔ نائب امیر مولانا منظور احمد چنیوٹی جنرل سیکرٹری، مولانا محمد ضیاء القاسمی اور رکن شورٰی علامہ خالد محمود بھی تحریک ختم نبوت کے معروف راہنماؤں میں سے ہیں اور قادیانیت کے محاذ پر ان کی خدمات تاریخ کا اہم حصہ ہیں۔ البتہ مشن کے سربراہ مولانا عبد الحفیظ مکی پاکستان کے عوامی حلقوں میں زیادہ متعارف نہیں ہیں اس لیے ان کے بارے میں مختصرًا یہ عرض ہے کہ مولانا عبد الحفیظ مکی پاکستان ہی کے رہنے والے ہیں جنہیں اب سعودی عرب کی شہریت حاصل ہے۔ مکہ مکرمہ میں ایک عرصہ سے مقیم ہیں، کتابوں کا کاروبار کرتے ہیں اور مکہ مکرمہ کے معروف دینی ادارہ مدرسہ صولتیہ کے استاذ ہونے کے ساتھ ساتھ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنیؒ کے خلیفہ مجاز ہیں۔ ایک ممتاز علمی اور روحانی شخصیت ہونے کے علاوہ دینی جذبہ اور ملی درد رکھنے والے باہمت راہنما ہیں اور انٹرنیشنل ختم نبوت مشن کے قیام اور بین الاقوامی ختم نبوت کانفرنس کے انعقاد میں شخصی طور پر سب سے زیادہ انہی کی تگ و دو کا حصہ ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ مشن کے کام کو پوری دنیا میں پھیلا دیا جائے اور ہر سطح پر قادیانیت کا تعاقب کیا جائے۔
سوال: مرکزی مجلس عمل کے راہنما تحریک ختم نبوت کو آگے بڑھانے کے لیے کیا طرز عمل اختیار کر رہے ہیں؟
جواب: ہمارے کام کا میدان اور طریق کار تو یہی ہوتا ہے کہ تمام مکاتب فکر کے راہنماؤں اور علماء کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوشش ہوتی ہے، رائے عامہ کو تحریک ختم نبوت کے مطالبات کے سلسلہ میں منظم کیا جاتا ہے اور عوامی دباؤ کے ذریعے حکومت کو مطالبات کی منظوری کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اب بھی یہی طریق کار اختیار ہوگا۔ ویسے تو اسلام کے نفاذ کی دعویدار حکومت کو ختم نبوت جیسے اہم دینی مسئلہ کے عملی تقاضوں کی تکمیل کے لیے عوامی مطالبات اور دباؤ کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ یہ اس کا اپنا کام ہے اور اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ مولانا محمد اسلم قریشی کا سراغ لگائے اور تحریک ختم نبوت کے مطالبات کو پورا کرے۔ تاہم اس سلسلہ میں مجلس عمل کے مرکزی راہنما باہمی رابطہ قائم کر رہے ہیں۔ اکتوبر کی ۲۴ اور ۲۵ تاریخ کو ربوہ میں دو روزہ کل پاکستان ختم نبوت کانفرنس منعقد ہو رہی ہے جس میں مرکزی مجلس عمل کے راہنما جمع ہوں گے، جبکہ ساہیوال کے شہدائے ختم نبوت قاری بشیر احمد اور اظہر رفیق کی شہادت کو ایک سال مکمل ہونے پر ۲۶ اکتوبر کو ساہیوال میں شہدائے ختم نبوت کانفرنس منعقد ہو رہی ہے۔ اس موقع پر بھی مختلف مکاتب فکر کے راہنماؤں کا اجتماع ہو گا اور باہمی صلاح مشورہ کے ساتھ تحریک ختم نبوت کو آگے بڑھانے کے لیے کوئی لائحہ عمل طے کر لیا جائے گا، ان شاء اللہ تعالٰی۔