’’رابطہ عالم اسلامی‘‘ کے زیر اہتمام مکہ مکرمہ سے ’’العالم الاسلامی‘‘ ہفت روزہ اخبار عربی میں شائع ہوتا ہے جو اخباری سائز کے سولہ صفحات پر مشتمل ہوتا ہے اور اس میں دو صفحات انگلش کے بھی ہوتے ہیں۔ اس میں عالم اسلام کی مجموعی صورتحال کے حوالے سے خبروں اور تبصروں کے علاوہ رابطہ عالم اسلامی کی سرگرمیوں کی رپورٹیں شائع ہوتی ہیں اور عالمی مسائل پر تجزیاتی و معلوماتی مضامین بھی ہوتے ہیں۔ ایک عرصہ سے ہمارے پاس الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں آرہا ہے، جس سے اہم خبروں اور معلومات کے ساتھ ساتھ عالمی مسائل پر سعودی حکومت اور علماء کے نقطہ نظر سے بھی آگاہی ہو جاتی ہے۔ العالم الاسلامی کا پوسٹل ایڈریس پوسٹ بکس نمبر ۵۳۷ مکہ مکرمہ ہے، جبکہ ای میل اور ویب سائٹ کے ایڈریس درج ذیل ہیں۔
اس وقت اس کا ۲۴ جنوری ۲۰۰۳ء کا شمارہ میرے سامنے ہے اور میں اس کی چند اہم خبروں اور تبصروں کے مطالعہ میں اپنے قارئین کو بھی شریک کرنا چاہتا ہوں۔
ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ جامعہ ازہر قاہرہ کے سربراہ الشیخ محمد سيد طنطاوی نے اس تجویز کو مسترد کر دینے کا اعلان کیا ہے کہ جامعہ ازہر کے مختلف درجات میں قرآن کریم کی تعلیم و تدریس کے نصاب میں سے یہودیوں کے بارے میں آیاتِ قرآنی کو حذف کر دیا جائے۔ خبر میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ شرانگیز تجویز کس نے پیش کی ہے، البتہ شیخ الازہر کا یہ بیان نقل کیا گیا ہے کہ قرآن کریم، دیگر علوم شرعیہ اور علوم عربیہ کے نصاب میں کسی قسم کی کمی نہیں کی جا سکتی۔
ایک خبر میں بتایا گیا کہ ترکی میں نومنتخب حکومت نے عورتوں کے لیے پردے پر پابندی ختم کرنے اور انہیں پبلک مقامات پر حجاب کے استعمال کی اجازت دینے کے لیے پارلیمنٹ میں قانون کا بل پیش کرنے کا جو پروگرام بنایا تھا، ترک فوج کے جرنیلوں کے دباؤ پر اسے مؤخر کر دیا گیا ہے۔ کیونکہ جنرل صاحبان پردے پر پابندی ختم کرنے کی مخالفت کر رہے ہیں، اور ملک کی سیکولر جماعتیں بھی پردے کی واپسی کو ملک کے سیکولر نظام کے لیے خطرہ قرار دے رہی ہیں۔ تاہم حقوق انسانی کی اسلامی تنظیموں نے وزیراعظم جناب عبد اللہ گل کی طرف سے اس مسئلہ پر لچک دکھانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ اس سے حکومت پر جرنیلوں کا دباؤ بڑھ جائے گا اور وہ اپنے ایجنڈے پر عمل نہیں کر سکے گی۔
ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ اردن کی حکومت نے اردن سے شائع ہونے والے جریدہ ’’الہلال‘‘ پر پابندی لگا دی ہے، کیونکہ اس کی کسی گزشتہ اشاعت میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شان میں گستاخی کی گئی ہے اور اہانت آمیز گفتگو کی گئی ہے۔ اردن کے دینی حلقوں کے مطالبہ پر حکومت نے اس پرچہ کی اشاعت ممنوع قرار دے دی ہے۔
ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ ترکی قبرص کے صدر رؤف ویکنتاش نے قبرص کو دوبارہ متحد کرنے کے بارے میں اقوام متحدہ کے منصوبے کی مخالفت کی ہے، اور کہا ہے کہ اس سے کم از کم پچاس ہزار افراد بے گھر ہو جائیں گے اور ان کے بنیادی انسانی حقوق پامال ہوں گے۔ خبر کے مطابق اقوام متحدہ کے اس منصوبے پر عملدرآمد سے قبرص ترکوں کی ایک بڑی آبادی کو نقل مکانی کرنا پڑے گی۔ جبکہ اقوام متحدہ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ قبرص کو ۲۸ فروری تک بہرحال دوبارہ متحد ہو جانا چاہیے۔
ایک خبر کے مطابق ترکی کے وزیر مملکت محمد ایدن نے کہا ہے کہ ان کی وزارت ملک میں دینی شعبوں کی بحالی اور مساجد کے کردار کو بڑھانے کا ایک منصوبہ تیار کر رہی ہے، جس میں علمائے کرام کو اہمیت حاصل ہو گی اور دینی اقدار و روایات کی بحالی اور ترویج کا دائرہ ترکی سے باہر مشرقی یورپ کی ریاستوں تک بھی بڑھایا جائے گا۔
ایک خبر کے مطابق ایتھوپیا کے علاقہ بورنا میں ایک بت پرست قبیلے کے سربراہ الشیخ دمبوب ماندوھیسا نے چھیاسی سال کی عمر میں اپنے قبیلے کے ہزاروں افراد کے ہمراہ اسلام قبول کر لیا ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کے علاقہ احساء میں چودہ مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے ۱۹۶۳ افراد نے اسلام قبول کیا ہے۔ جبکہ جدہ میں سولہ سو افراد نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا ہے اور افریقہ میں تین پادریوں کے علاوہ زمبیا اور مالی میں بھی پچاس سے زائد افراد دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ہیں۔
العالم الاسلامی کے اس شمارے میں سب سے زیادہ دلچسپی کا حامل ایک سعودی خاتون سہیلہ زین العابدین حماد کا مضمون ہے جو صفحہ چار پر شائع ہوا ہے اور اس میں اس خاتون نے امریکی رائٹر مائیکل بارن کے ایک تفصیلی مضمون کا جواب دیا ہے، جس میں امریکی قلمکار نے سعودی عرب پر امریکہ دشمنی کا الزام لگایا ہے اور سعودی حکومت کے بہت سے اقدامات کو امریکی دشمنی پر مبنی قرار دیتے ہوئے ان پر تنقید کی ہے۔
سہیلہ زین العابدین کا کہنا ہے کہ مائیکل بارن نے الزام لگایا ہے کہ الخیر کے بم دھماکوں کی تحقیقات میں سعودی عرب ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے اور ایف بی آئی کو تفتیش کا موقع نہیں دے رہا۔ مگر امریکی مصنف یہ بات بھول گیا ہے کہ یہ واقعہ سعودی عرب کی سرزمین پر ہوا ہے اور اس کے بارے میں تحقیقات کا حق بھی صرف سعودی عرب کو ہے۔ اس میں ایف بی آئی کی شرکت ہمارے داخلی معاملات میں مداخلت ہو گی اور ہماری خودمختاری کے خلاف ہو گی۔
مضمون نگار نے سوال کیا ہے کہ گیارہ ستمبر کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے حادثہ کے ذمہ داروں میں پندرہ سعودی باشندوں کو ملوث کیا جا رہا ہے، تو کیا اس حوالے سے امریکی حکومت اس حادثہ کی تحقیقات میں سعودی عرب کو شریک کرنے کے لیے تیار ہے؟ اور امریکہ میں مصری طیارہ کی تباہی کی تحقیقات میں امریکی حکومت مصری حکومت کو شریک کرنا قبول کرے گی؟
سہیلہ زین العابدین حماد نے لکھا ہے کہ امریکی مضمون نگار نے سعودی حکومت پر الزام لگایا ہے کہ اس نے ۱۹۹۶ء میں اسامہ بن لادن کو امریکی حکومت کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا تھا، جو امریکہ دشمن رویہ ہے۔ اس پر سہیلہ حماد کا کہنا ہے کہ ہم کس الزام اور کس جرم میں اسامہ کو امریکی حکومت کے حوالے کرتے؟ اس کے خلاف تو آج تک کوئی الزام ثابت نہیں کیا جا سکا، اور اگر اس پر کوئی الزام تھا بھی تو اس کی تحقیقات کا حق صرف سعودی حکومت کو تھا، امریکہ کو اس میں مداخلت کرنے کا کوئی حق نہ تھا۔
مضمون نگار خاتون نے لکھا ہے کہ امریکی مضمون نگار کی طرف سے سعودی عرب پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ وہ فلسطینی مجاہدین کی مدد کر رہا ہے اور فلسطینی مجاہدین کے لیے سعودی عرب میں مالی امداد جمع کی جاتی ہے جو دہشت گردی میں تعاون ہے اور امریکہ کے ساتھ دشمنی ہے۔ سہیلہ زین العابدین حماد کا کہنا ہے کہ فلسطین میں اسرائیل کے خلاف لڑنے والے دہشت گرد نہیں، بلکہ مجاہد ہیں جو اپنے وطن اور قوم کی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اور اگر آزادی کے لیے لڑنے والے بھی دہشت گرد ہوتے ہیں تو اس دہشت گردی کا ہراول دستہ خود امریکی قوم ہے جس نے برطانوی استعمار کے خلاف مسلح جنگ لڑ کر آزادی حاصل کی تھی۔ پھر فرانسیسی قوم بھی دہشت گرد قرار پاتی ہے جس نے نازیوں کے تسلط کے خلاف ہتھیار اٹھائے تھے اور ان سے آزادی حاصل کی تھی۔ بلکہ دنیا کی اکثر اقوام اس تعریف کے مطابق دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہو جائیں گی اور صرف استعماری اور قابض حکومتوں اور قوموں کو ہی غیر دہشت گرد قرار دیا جا سکے گا۔
سہیلہ زین العابدین حماد نے امریکی دانش ور مائیکل بارن سے کہا ہے کہ وہ مسلمانوں اور عربوں کے خلاف الزام تراشی کرنے کے بجائے اپنے طرز عمل کا جائزہ لیں، صہیونیت کے دائرہ اثر سے نکل کر انصاف اور عدل سے کام لیتے ہوئے اسرائیل کی اندھی حمایت ترک کریں، اور اسلام اور مسلمانوں کی کردار کشی کی مہم بند کریں۔
العالم الاسلامی نے جنوبی فلپائن کے ایک مسلم لیڈر ماہید موتیلان کا انٹرویو شائع کیا ہے جو وہاں کی جمعیت علماء اسلام کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے مورو کے مسلمانوں کی جدوجہد آزادی پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا ہے کہ جنوبی فلپائن میں مسلمان آبادی فلپائن کے کم و بیش سینتیس فیصد علاقہ میں موجود ہے جس کی تعداد بارہ ملین کے لگ بھگ ہے اور اس خطہ میں بہت سے جزیرے خالص مسلم آبادی پر مشتمل ہیں جو ایک عرصہ سے داخلی خودمختاری کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے گروہ مورو کی مکمل آزادی کا نعرہ لگا رہے ہیں، لیکن ہم اس حق میں نہیں ہیں، بلکہ فلپائن کے وفاق میں رہتے ہوئے داخلی خودمختاری حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا تعلیمی تعلق زیادہ تر جامعہ ازہر سے ہے اور وہ خود بھی ازہر کے تعلیم یافتہ ہیں۔ جنوبی فلپائن میں عربی مدارس کثرت سے موجود ہیں اور مسلمان آبادی کا کم و بیش نوے فیصد حصہ عربی بولتا اور سمجھتا ہے۔ جبکہ ساڑھے تین ہزار کے لگ بھگ مساجد کے خطباء اپنے خطبات اور درس میں عربی زبان کو ذریعۂ اظہار بناتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ۱۹۶۷ء میں موتمر اسلامی کی مساعی سے فلپائن حکومت کے ساتھ مورو کی داخلی خودمختاری کا سمجھوتہ طے پا گیا تھا، جس پر سعودی عرب، سینیگال، لیبیا اور صومالیہ کے نمائندوں نے بھی دستخط کیے تھے، لیکن مکمل آزادی کے نعرے میں شدت آجانے کی وجہ سے اس معاہدہ پر عملدرآمد نہیں ہو سکا تھا۔
العالم اسلامی نے بوسنیا کے نوجوان حافظ قرآن کریم احمد بوکفیتش کا انٹرویو بھی اس شمارہ میں شائع کیا ہے جس نے صرف ایک سال کے عرصہ میں قرآن کریم مکمل حفظ کر لیا ہے، اور اس نے بتایا ہے کہ اس کے والد کی طرف بھرپور ہمت افزائی اور اساتذہ کی شب و روز محنت کی وجہ سے اس نے صرف ایک سال میں قرآن کریم حفظ کر لیا ہے اور وہ اس نعمت خداوندی کے حصول پر بہت خوش ہے۔