حضرت مولانا عبد الرحمن قاسمیؒ کے ساتھ میرا تعارف جمعیۃ علماء اسلام کے حوالے سے ہوا۔ ان دنوں چکوال ضلع جہلم کا حصہ ہوتا تھا اور قاسمی صاحبؒ جمعیۃ کے ضلعی جنرل سیکرٹری تھے جبکہ میں صوبائی سیکرٹری اطلاعات تھا۔ لاہور اور جہلم کی مختلف جماعتی محفلوں میں ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ میں ان کی صاف گوئی، جرأت اور محنت شعار مزاج سے متاثر تھا اور وہ بھی ایک کارکن کے طور پر مجھے احترام سے نوازتے تھے۔ رفتہ رفتہ یہ تعلق دوستی اور پھر برادرانہ مراسم تک پہنچ گیا جو ان کے آخری لمحات تک الحمد للہ قائم رہا۔ کافی عرصہ بعد ایک دن ان کا شناختی کارڈ دیکھا تو چونک سا گیا کہ اس پر ان کی تاریخ ولادت ۲۸ اکتوبر ۱۹۴۸ء درج تھی جبکہ میری تاریخ پیدائش بھی یہی ہے۔ میں نے انہیں بتایا تو خوش ہوئے اور اس احساس نے ذہنی ہم آہنگی میں اور اضافہ کر دیا کہ ہم دونوں ایک ہی روز اس عالم رنگ و بو میں وارد ہوئے تھے۔ جماعتی زندگی میں بہت اتار چڑھاؤ آئے اور جماعتی سیاست نے کئی پلٹے کھائے مگر مزاج اور ذہن کی ہم آہنگی نے ہمیں ہر دور میں ایک ہی کیمپ میں رکھا اور فکر و مزاج کی یگانگت بحمد اللہ قائم رہی۔
میں فکر و سیاست کی دنیا کا آدمی ہوں لیکن ذکر و سلوک کے شعبہ کے مخلصین سے محبت ہمیشہ رہی ہے۔ کوئی اللہ والا میسر آجائے تو حسب موقع استفادہ کی کوشش بھی کرتا ہوں مگر یہ رنگ مجھ پر نہ چڑھ سکا۔ حتیٰ کہ خود میرے شیخ و مرشد حضرت مولانا عبید اللہ انور قدس اللہ سرہ العزیز نے بھی شاید میری اسی افتاد طبع کو دیکھتے ہوئے ایک روز یہ کہہ کر مجھے چھٹی دے دی کہ جو کچھ تم کر رہے ہو یہی تمہارا سبق ہے۔ جبکہ مولانا عبد الرحمن قاسمیؒ کا نسبی تعلق ایک ایسے باصفا بزرگ سے تھا جن کے متوسلین و معتقدین ہزاروں کی تعداد میں دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ اس مشن میں اپنے والد بزرگوار حضرت مولانا حافظ غلام حبیب نور اللہ مرقدہ کے ساتھ ان کے شریک کار تھے اور بعد میں ان کے جانشین بھی بنے۔ مگر اس فرق و امتیاز کے باوجود ہماری سیاسی رفاقت میں کوئی فرق نہ آیا بلکہ میں نے قاسمی صاحبؒ میں یہ خوبی دیکھی کہ سیاسی پیش قدمی، جماعتی جدوجہد اور قید و بند تک کے مراحل سے گزرنے میں پیرزادگی کبھی ان کے آڑے نہیں آئی۔ اور دینی تحریکات میں انہوں نے جفاکش کارکن اور ایثار پیشہ کے طور پر ہمیشہ سرگرم کردار ادا کیا جس کی یادیں بہت دیر تک ذہن میں تازہ رہیں گی۔
حضرت مولانا حافظ غلام حبیبؒ کے ساتھ میرا تعلق قاسمی صاحبؒ کی وساطت سے تھا۔ ابتدا میں قاسمی صاحبؒ کے دوست کے طور پر اور پھر جمعیۃ علماء اسلام کے سرگرم کارکن کی حیثیت سے ان کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا۔ انہوں نے ہمیشہ مجھے بزرگانہ شفقت اور دعاؤں سے نوازا۔ مجھے ان کی تین باتوں نے بطور خاص متاثر کیا۔
پہلی بات ان کی حق گوئی اور اس معاملہ میں کسی کی پرواہ نہ کرنا ہے۔ وہ غلط بات پر فی الفور ٹوک دیا کرتے تھے اور کسی رعایت سے کام نہیں لیتے تھے۔ اس حوالے سے مجھے دو بزرگ ہمیشہ یاد رہیں گے۔ ایک حضرت مولانا مفتی بشیر احمد پسروری قدس اللہ سرہ العزیز جن کے ساتھ نیاز مندانہ تعلق تو عرصہ سے تھا مگر جب ان کے مدرسہ کے سالانہ جلسہ میں حاضری کا موقع ملا اور ان کی اسٹیج پر موجودگی کے دوران مجھے خطاب کی دعوت دی گئی تو ایک بزرگ نے خطاب سے پہلے میرے کان میں کہا کہ یہاں ذرا سنبھل کر بات کرنا، باباجی تقریر کے دوران اٹھ کر ٹوک دیا کرتے ہیں۔ یہ نصیحت میرے کام آئی اور میں نے گفتگو کی تکنیک ہی یہ اختیار کرلی کہ کوئی بات کہنے کے بعد مڑ کر باباجی سے پوچھ لیا تھا کہ ’’کیوں حضرت ٹھیک ہے؟‘‘
یہی بات مجھے مولانا عبد الرحمن قاسمیؒ نے اس دن کہی جب میں پہلی دفعہ دارالعلوم حنفیہ چکوال کے جلسہ سے خطاب کرنے کے لیے کھڑا ہوا جب کہ حضرت مولانا حافظ غلام حبیب نقشبندی قدس اللہ سرہ العزیز اسٹیج پر تشریف فرما تھے۔ چنانچہ پسرور والی تکنیک کسی حد تک میں نے یہاں بھی دہرائی اور ڈانٹ ڈپٹ کی بجائے باباجی کی دعاؤں اور شفقتوں سے فیضیاب ہوا۔
حضرت حافظ صاحبؒ کی دوسری بات جس نے مجھے بطور خاص متاثر کیا ان کی تواضع اور انکساری تھی۔ ہزاروں افراد کے محبوب روحانی پیشوا ہونے کے باوجود وہ مجھ جیسے کارکنوں کو جس انداز سے ملتے اس سے خود ہی ہمیں شرمساری ہوتی۔ لیکن ان کے انداز میں تواضع اس طرح جھلکتی جیسے یہ ان کی طبیعت ثانیہ بن چکی ہو۔ مجھے وہ منظر کبھی نہیں بھولے گا جب ایک موقع پر مسجد حرام میں تھا اور مغرب کے بعد مختلف علماء کے حلقوں میں گھوم پھر کر اس منظر سے محظوظ ہو رہا تھا۔ اسی دوران ایک طرف خاصا بڑا حلقہ دیکھ کر متوجہ ہوا تو معلوم ہوا کہ حضرت مولانا حافظ غلام حبیب نقشبندیؒ مریدوں کے درمیان تشریف فرما ہیں۔ میں بھی وہاں بیٹھ گیا اور آہستہ آہستہ کھسکتے ہوئے ان کے قریب جا پہنچا، انہوں نے دیکھتے ہی خوشی کا اظہار کیا، سینے سے لگایا اور اپنی جگہ سے اٹھ کر مجھے وہاں بیٹھنے کو کہا۔ یہ میرے لیے انتہائی شرمندگی کا مقام تھا مگر انہوں نے زبردستی ساتھ بٹھا لیا۔ جبکہ اس سے اگلا مرحلہ میرے لیے اور زیادہ امتحان اور آزمائش کا مرحلہ ثابت ہوا جب انہوں نے سب شرکاء محفل کو میری طرف متوجہ کر کے میرا تعارف کرایا اور فرمایا کہ میں ان کے سامنے حج کے ضروری مسائل بیان کروں گا۔ میرے لیے یہ بات قطعی طور پر خلاف توقع تھی کہ حرم پاک تھا، سامنے بیت اللہ شریف تھا، حلقہ حضرت حافظ صاحبؒ کے معتقدین کا تھا۔ اس لیے معذرت کی مگر معذرت قبول نہ ہوئی اور مجھے ان حضرات کے سامنے کچھ نہ کچھ کہنا پڑا۔ یہ حضرت حافظ صاحبؒ کی شفقت، تواضع، اور چھوٹوں کی حوصلہ افزائی کا مزاج تھا جس کا نقش ابھی تک ذہن پر مرتسم ہے۔
ان کی تیسری بات جس نے مجھے بہت متاثر کیا وہ قرآن کریم کے ساتھ ان کا شغف اور قرآنی مضامین پر ان کا عبور تھا۔ موضوع پر خطاب کرتے ہوئے وہ اپنے مضمون کے مطابق قرآن کریم کی آیات اس ترتیب کے ساتھ پڑھتے چلے جاتے تھے جیسے کوئی پختہ کار حافظ تراویح میں قرآن پاک سناتا ہے۔ مجھے کئی بار اس کا اتفاق ہوا اور مضامین کے لحاظ سے قرآنی آیات پر ان کے اس قدر استحضار پر خوشگوار حیرت ہوتی۔ اس حوالہ سے بھی ایک ذاتی واقعہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ دوران سفر میری طبیعت ذکر و اذکار کی بجائے مسائل پر غور و خوض اور فکر و تدبیر کی طرف زیادہ مائل ہوتی ہے۔ اور سفر کا بیشتر حصہ دینی و قومی مسائل پر سوچتے ہوئے خاموشی کے ساتھ گزرتا ہے۔ مگر ایک بار حضرت حافظ صاحبؒ کی علالت کے دوران بیمار پرسی کے لیے چکوال حاضر ہوا اور کچھ دیر ان کی خدمت میں بیٹھا تو واپسی پر بس میں بیٹھتے ہی زبان پر بے ساختہ قرآن کریم کی مختلف سورتوں کی تلاوت جاری ہوگئی اور راولپنڈی پہنچنے تک مسلسل تلاوت کرتا رہا جو میری زندگی کا منفرد تجربہ تھا۔ اس وقت بھی میرے ذہن میں یہی تاثر ابھر رہا تھا کہ یہ حضرت حافظ صاحبؒ کی صحبت کا اثر ہے۔
میں دعا گو ہوں کہ رب العزت حضرت حافظ صاحبؒ اور برادرم قاسمی صاحبؒ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں اور ان کے خاندان اور متوسلین کو ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔