دین کی تبلیغ اور جدید ذرائع ابلاغ

   
۷ جنوری ۲۰۱۳ء

کوہِ طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب اللہ تعالیٰ نے نبوت و رسالت کے شرف سے نوازا اور فرعون کی طرف یہ پیغام دے کر بھیجا کہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں سرکشی چھوڑ دو اور بنی اسرائیل کو آزادی کے ساتھ اپنے وطن واپس جانے دو تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس موقع پر اللہ رب العزت سے دو درخواستیں کیں۔ ایک یہ کہ میرے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبی بنا کر میرا شریک کار بنا دیں، اس لیے کہ ”ھو افصح منی لسانا“ وہ زبان میں مجھ سے زیادہ فصیح ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دین کی دعوت و تبلیغ میں ”فصاحت“ کو اہم حیثیت حاصل ہے اور یہ ابلاغ اور تفہیم کا مؤثر ذریعہ ہونے کی وجہ سے دین کے ضروری تقاضوں میں ہے۔ جناب نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کی دعوت و تبلیغ کے مؤثر ہونے کا ایک بڑا سبب بھی یہی تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فصاحت کے اعلیٰ ترین مقام سے نوازا تھا اور آپؐ کی گفتگو کی اثر انگیزی دیکھ کر مخالفین کے پاس اسے ”جادو“ قرار دینے کے سوا اور کوئی بہانہ آپ سے عام لوگوں کو دور رکھنے کے لیے باقی نہیں رہ گیا تھا۔

فصاحت ادب کا ایک حصہ ہے، جبکہ ادب انسانی جذبات و احساسات، ما فی الضمیر اور تاثرات کے اظہار اور دوسروں تک اپنی بات پہنچانے اور سمجھانے میں بہتر سے بہتر اسلوب اختیار کرنے کا نام ہے۔ اس اسلوب کے دائرے، لہجے اور تقاضے ہر دور میں مختلف رہے ہیں اور زمانے میں تغیر اور تبدل کے ساتھ ساتھ ان میں بھی تنوع اور تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں۔ خود ہمارے ہاں اردو زبان میں اب سے پون صدی قبل خطابت اور انشاء کا معیار مولانا ابو الکلام آزادؒ تھے، جن کے کلام میں نادر الفاظ، مشکل تراکیب، انوکھے محاوروں اور بھاری بھر کم جملوں کی بھرمار ہوتی تھی، اس اسلوب کو ہی اس دور میں ”حُسن کلام“ کی علامت سمجھا جاتا تھا، مگر اب یہ اسلوب قصۂ ماضی بن چکا ہے۔ اسی طرح اس زمانے میں خطابت کی دنیا میں امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی حکمرانی تھی، جو رات کو عشاء کے بعد بیان شروع کرتے تھے اور فجر کی اذانیں سن کر سامعین کو احساس ہوتا تھا کہ ساری رات امیر شریعت کی سحر بیانی کی نذر ہو چکی ہے۔ مگر اب خطابت کا معیار یہ ہے کہ آپ کتنے سادہ لہجے اور عام فہم اسلوب میں اپنی بات کہہ سکتے ہیں اور کتنے مختصر وقت میں کتنی جامع اور مکمل گفتگو کر سکتے ہیں۔

ادب کی اصناف اور اسالیب میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔ ایک دور میں خطابت، شاعری اور انشاء پردازی ابلاغ کی بنیادی قسمیں شمار ہوتی تھیں، مگر اب اس میں تصویر، ویڈیو، ماڈلنگ اور دیگر پہلو بھی موجود ہیں اور ان کا تناسب روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ دین کی دعوت، اسلامی احکام کی تبلیغ اور اسلامی اقدار و روایات کے فروغ کا کام بھی ابلاغ کے کسی ایک دائرے میں محدود نہیں رہ سکتا اور ابلاغ و تاثیر کے تمام دائروں کو سامنے رکھ کر حلال و حرام کا فرق ملحوظ رکھتے ہوئے دین کی دعوت اور اسلامی اقدار کے تحفظ و ترویج کی جدوجہد کو وسیع تناظر میں منظم کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ مگر معروضی صورت حال یہ ہے کہ دین کے علمبرداروں کے بیشتر حلقوں میں زمانے کے ان تغیرات اور تقاضوں کی طرف توجہ دیکھنے میں نہیں آ رہی، جس سے یہ شکایت پیدا ہو رہی ہے کہ ذرائع ابلاغ کا زیادہ استعمال دینی حوالے سے غلط مقاصد کے لیے ہو رہا ہے اور فحاشی و بے راہ روی پھیل رہی ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ دینی حلقوں کو دوسروں سے شکایت کرنے کی بجائے اپنے طرز عمل کا جائزہ لینا چاہیے کہ وہ ابلاغ کے مروجہ اور ممکنہ ذرائع کو دینی مقاصد کے حوالے سے استعمال کرنے کے لیے کیا کر رہے ہیں؟

جائز اور ناجائز کا فرق ضرور سامنے رکھنا چاہیے، لیکن جو ذرائع ابلاغ جائز اور مناسب ہیں، ان کے صحیح اور بھرپور استعمال کی منصوبہ بندی بھی دینی حلقوں میں نظر نہیں آ رہی۔ اس پہلو سے ہمارا کام شکووں شکایات تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ ادب اور ابلاغ کے بیسیوں پہلو ہیں، جو آج کے دور میں مروج اور مؤثر ہیں، مگر ہماری اس طرف توجہ نہیں ہے۔ اس پس منظر میں ”عالمی رابطہ ادب اسلامی“ کے عنوان سے ایسے ادیبوں اور شاعروں کا فورم وجود میں آنا ایک خوش کن بات ہے جو اسلام کی خدمت کا ذوق رکھتے ہیں۔ ادب تو کسی مذہب تک محدود نہیں ہوتا اور اس کا دائرہ بہت وسیع اور متنوع چلا آ رہا ہے، لیکن ادب اور اس کی مختلف اصناف کو اسلام کی خدمت کے لیے استعمال کرنا اور خطابت و شاعری، انشاء پردازی کی متنوع قسموں اور ابلاغ کے مؤثر ذرائع سے اسلام کی دعوت و ترویج کے لیے استفادہ کرنا ”ادب اسلامی“ کا عنوان بن سکتا ہے اور میرے خیال میں یہ فورم اسی مقصد کے لیے وجود میں آیا ہے۔

رابطہ ادب اسلامی کی تحریک برصغیر کے ممتاز مفکر اور دانش ور مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ نے کی تھی، انہی کے توجہ دلانے پر مختلف ممالک کے اسلامی جذبہ رکھنے والے ادبیوں اور دانشوروں نے جنوری ۱۹۸۶ء کے دوران لکھنؤ (انڈیا) میں جمع ہو کر ”عالمی رابطہ ادب اسلامی“ کی بنیاد رکھی تھی اور طے کیا تھا کہ اسلام دوست ادیبوں کی تخلیقات کی اشاعت اور ان کے درمیان رابطوں کو فروغ دینے کے لیے اس عنوان کے ساتھ محنت کی جائے گی۔ اس جدوجہد کے اہم مراکز بھارت، بنگلہ دیش، پاکستان، ترکی اور سعودی عرب میں ہیں اور اب تک اس سلسلے میں مختلف سطحوں کے متعدد اجلاس، کانفرنسیں اور سیمینار منعقد ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں بھی اس کا حلقہ موجود و متحرک ہے، جس میں مولانا فضل الرحیم، ڈاکٹر سعد صدیقی، ڈاکٹر محمود الحسن عارف، ڈاکٹر زاہد ملک، مولانا مفتی محمد زاہد، ڈاکٹر ظہور احمد اظہر، پروفیسر ڈاکٹر قاری محمد طاہر، ڈاکٹر زاہد اشرف، مجیب الرحمٰن انقلابی، ڈاکٹر حافظ سمیع اللہ فراز، ڈاکٹر محمد ارشد اور دیگر اربابِ علم و دانش شامل ہیں۔ مجھے بھی ان کی مجالس میں شرکت کا موقع ملتا رہتا ہے۔ اس وقت ڈاکٹر سعد صدیقی ”عالمی رابطہ ادب اسلامی“ کے حلقۂ پاکستان کی صدارت اور ڈاکٹر محمود الحسن عارف سیکرٹری جنرل کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

اب اس فورم نے اپنا دائرہ لاہور کے علاوہ دوسرے شہروں تک وسیع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کا آغاز گزشتہ روز (3 جنوری) الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں منعقدہ ایک تقریب سے ہوا۔ یہ سیمینار رابطہ ادب اسلامی کے تعارف اور اس کی سرگرمیوں کے تذکرے کے لیے منعقد ہوا، جس کی صدارت راقم الحروف نے کی، جبکہ برطانیہ سے تشریف لانے والے ممتاز عالم دین اور دانشور مولانا مفتی برکت اللہ مہمان خصوصی تھے۔ مولانا مفتی برکت اللہ بھارت سے تعلق رکھتے ہیں، فاضل دیوبند ہیں۔ گزشتہ تین عشروں سے لندن میں مقیم ہیں، جہاں وہ تعلیمی اور تدریسی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل ہیں اور اسلامک بینکنگ کے عالمی سطح کے ماہرین میں شمار ہوتے ہیں۔ سیمینار سے مولانا مفتی برکت اللہ، مولانا مفتی محمد زاہد، ڈاکٹر سعد صدیقی، ڈاکٹر محمود الحسن عارف، ڈاکٹر محمد ارشد، ڈاکٹر پروفیسر محمد اکرم ورک، ڈاکٹر سمیع اللہ فراز اور جناب خالد صابر نے خطاب کیا۔

مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ اسلامی تعلیمات کے فروغ، اسلامی اقدار کے تحفظ ، دین کی دعوت و ترویج اور قرآن و سنت کے احکام و قوانین کی تفہیم و تشریح کے لیے ادب کی مختلف اصناف اور ابلاغ کے مؤثر ذرائع کو اختیار کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس کے لیے ایسا ذوق رکھنے والے علمائے کرام، ادیبوں، شاعروں اور میڈیا و تعلیم کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین کو باہمی رابطہ و تعلق کا اہتمام کرنا چاہیے، جس کے لیے ”عالمی رابطہ ادب اسلامی“ کام کر رہا ہے۔

اس موقع پر گوجرانوالہ ڈویژن میں رابطہ کی شاخ قائم کرنے کی ذمہ داری گفٹ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک کو سونپی گئی۔ وہ کنوینر کی حیثیت سے مختلف شعبوں کے اصحاب فکر سے رابطے قائم کر کے رابطہ ادب اسلامی کو مقامی سطح پر منظم کرنے کا اہتمام کریں گے۔ مہمان خصوصی مولانا مفتی برکت اللہ نے اپنے خطاب میں علمائے کرام، ادیبوں، دانش وروں، شاعروں، اساتذہ اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے اصحابِ فکر پر زور دیا کہ وہ موجودہ عالمی تہذیبی و فکری کشمکش کا ادراک کرتے ہوئے اسلام کی خدمت کے راستے تلاش کریں اور باہمی مشورہ و رابطہ کے ساتھ فکری جدوجہد کو منظم کریں۔

   
2016ء سے
Flag Counter