قاہرہ پر برطانوی فوج کے قبضے کا پس منظر

   
۱۴ اکتوبر ۱۹۹۹ء

گزشتہ ایک کالم میں مصر کے سابق حکمران اسماعیل پاشا مرحوم کے حوالہ سے اختصار کے ساتھ مصر میں برطانوی فوجوں کے داخلہ کا پس منظر بیان کیا تھا، اس کے بعد اپنی معلومات کے لیے اس عنوان پر کچھ مزید پڑھنا چاہا تو بہت سی ایسی دلچسپ باتیں سامنے آئیں جن سے قارئین کو آگاہ کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

عثمانی خلیفہ سلطان عبد الحمید مرحوم کی سوانح اور ان کے عہد خلافت کے اہم واقعات پر الاستاذ اور خان محمد علی کی عربی تصنیف کم و بیش پونے چار سو صفحات پر مشتمل ہے اور اسے دار الوثائق پوسٹ بکس نمبر ۸۶۳۱ السالمیۃ ۲۲۰۵۷ کویت نے شائع کیا ہے۔ اس میں مصر اور اسماعیل پاشا مرحوم کے بارے میں ضروری تفصیلات موجود ہیں جبکہ پنجاب یونیورسٹی کے دائرہ المعارف الاسلامیہ کو سامنے رکھتے ہوئے اس دور کا ایک ہلکا سا خاکہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

اسماعیل پاشا مصر کے حکمران خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ۱۸۶۲ء سے ۱۸۷۹ء تک وہ خلافت عثمانیہ کی طرف سے مصر کے والی رہے۔ ان کے دور میں مصر کو پہلے نیم خود مختاری اور پھر مکمل اندرونی خود مختاری ملی۔ انہی کے دور میں نہر سویز کا افتتاح ہوا اور عثمانی خلیفہ کی طرف سے سب سے پہلے انہیں ’’خدیو مصر‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ اسماعیل پاشا نے عثمانی خلیفہ سلطان عبد العزیز مرحوم کے دور میں مرکز کو دیے جانے والے محصولات میں اضافہ کر کے ان کی تعداد پونے چار لاکھ پونڈ سے سوا سات لاکھ پونڈ کر دی جس سے سلطان کے ہاں ان کی عزت اور توقیر میں خاصا اضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ اسماعیل پاشا نے سلطان کے لیے ہدایا و تحائف اور شاہی عملہ کے لیے تحائف کا سلسلہ جاری رکھا جس سے دربار عالی میں ان کا اثر و رسوخ بہت بڑھ گیا اور اس کے عوض وہ سلطان عبد العزیز مرحوم سے دو خصوصی مراعات حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

ایک یہ کہ عثمانی خاندان کا دستور تھا کہ خلیفہ کی وفات یا خلافت سے علیحدگی کی صورت میں خاندان کا سب سے سینئر فرد اس کا جانشین بنتا تھا مگر مصر کے لیے یہ ترمیم کر دی گئی کہ والی مصر کی وفات یا علیحدگی کی صورت میں اس کا حقیقی بیٹا جانشین بنے گا۔ دوسری رعایت اسماعیل پاشا نے یہ حاصل کی کہ ۱۸۷۲ء میں سلطان عبد العزیز مرحوم سے اجازت نامہ حاصل کر لیا کہ وہ مصر کے لیے اپنے طور پر بھی بیرونی ممالک سے قرض حاصل کرنے کے مجاز ہوں گے۔ چنانچہ انہوں نے دس سال کے اندر بیرونی ملکوں سے دس کروڑ پونڈ کے لگ بھگ قرضے لے لیے جو اس وقت دولت عثمانیہ کے مجموعی بیرونی قرضوں کے برابر بنتے ہیں۔ قرض کی اس رقم کو انہوں نے مصر کے ترقیاتی کاموں پر صرف کیا، سڑکیں بنوائیں، سکول تعمیر کرائے، صنعتیں لگائیں، اور بڑی بڑی بلڈنگیں بنوائیں۔ لیکن استاذ اورخان کے بقول ذاتی نمود و نمائش اور آرائش و سہولت پر بھی خاصی رقم صرف کر دی۔

مصر کی مالی حالت کمزور تھی اور اس قرض کی ادائیگی کا کوئی بندوبست موجود نہیں تھا۔ حتیٰ کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ روز مرہ اخراجات کی ادائیگی کے لیے بھی حکومت مصر کے پاس رقم باقی نہ بچی۔ چنانچہ اسماعیل پاشا نے نہر سویز کی ملکیت میں مصری حکومت کے حصے، جو ۴۴ فیصد تھے، سب کے سب فروخت کر دیے۔ نہر سویز کی کھدائی فرانسیسی ماہرین نے کی تھی اور فرانسیسی حکومت ان حصص کی خریداری میں دلچسپی رکھتی تھی لیکن حکومت برطانیہ پہل کر گئی اور اس نے یہ حصص خرید لیے۔ مگر نہر سویز کے یہ حصص فروخت کر کے بھی قرضوں کی ادائیگی نہ ہو سکی جس کے نتیجہ میں اسماعیل پاشا نے ۱۸۷۶ء میں سرکاری ہنڈیوں پر لوگوں کو رقوم کی ادائیگی روک دی اور ملک میں خلفشار کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ قرض دینے والے یورپی ملکوں نے قرض خواہوں کے مفادات کے تحفظ کے عنوان سے مشترکہ طور پر ایک نگران کمیشن قائم کر لیا جس نے مصر کے مالی معاملات میں مداخلت کر کے دباؤ بڑھانا شروع کر دیا۔

اس دوران اسماعیل پاشا نے خلیفہ عثمانی کی اجازت سے مصر میں فوج کی تعداد ۱۸ ہزار سے بڑھا کر ۳۰ ہزار کر دی۔ مگر مالی معاملات کے نگران یورپی کمیشن کی مداخلت سے ۱۸۷۸ء میں اسماعیل پاشا کو اپنی کابینہ میں دو غیر ملکی وزیر شامل کرنا پڑے جن میں ایک انگریز اور دوسرا فرانسیسی تھا۔ مالیات اور اخراجات کی نگرانی کے محکمے ان دونوں کو دیے گئے اور انہوں نے فوج کی تعداد کم کر کے ۱۱ ہزار کر دی۔ تقریباً ۱۷ ہزار سپاہیوں کے ساتھ اڑھائی ہزار سے زائد افسران کو فارغ کر دیا جس سے داخلی خلفشار میں مزید اضافہ ہوگیا۔ حتیٰ کہ سبکدوش ہونے والے سپاہی اور افسران نے احمد عرابی پاشا کی قیادت میں بغاوت کر دی جس کے نتیجے میں اس وقت کے خلیفہ سلطان عبد الحمید مرحوم نے اسماعیل پاشا کو معزول کر کے اس کے بیٹے توفیق پاشا کو مصر کا والی بنا دیا۔ نئے والی نے احمد عرابی پاشا کو وزارت میں شامل کر لیا اور احمد عرابی پاشا نے مصر کے معاملات میں یورپی ممالک کی مداخلت کو کم کرنے اور فوج کو مضبوط بنانے کے لیے اقدامات شروع کر دیے جس سے یورپی ملکوں میں ہیجان پیدا ہوگیا اور یورپی ممالک نے استنبول میں مشترکہ کانفرنس منعقد کر کے سلطان عبد الحمید مرحوم سے مطالبہ کیا کہ وہ مصر میں بغاوت پر قابو پانے اور پہلے جیسے حالات بحال کرنے کے لیے فوج کشی کریں۔ جس سے سلطان عبد الحمید نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ اپنی ہی مسلم رعایا کے خلاف فوج کشی نہیں کر سکتے۔ اس دوران فرانس اور برطانیہ نے اپنے جنگی جہاز اسکندریہ کے ساحل پر لا کھڑے کیے اور براہ راست فوجی مداخلت کی دھمکی دے دی۔

مصر پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے خود برطانیہ اور فرانس میں بھی داخلی کشمکش موجود تھی، چنانچہ فرانس نے برطانیہ کو پیشکش کی کہ دونوں مل کر مصر کو خلافت عثمانیہ سے آزاد کرانے کے لیے مشترکہ حملہ کر دیں۔ مگر برطانیہ مصر کے معاملات سے فرانس کو دور رکھنا چاہتا تھا اس لیے اس نے اس وقت حملہ کی تجویز رد کر دی اور یورپی ملکوں کی کانفرنس استنبول میں بلا لی جس میں خلافت عثمانیہ کو تین ماہ کا الٹی میٹم دیا گیا کہ وہ فوج کشی کر کے مصر کی موجودہ حکومت کو ختم کرے اور سابقہ حالات بحال کرے۔ لیکن جب عثمانی خلیفہ اس کے لیے تیار نہ ہوئے تو ۱۲ جولائی ۱۸۸۲ء کو نہر سویز کے حوالہ سے برطانوی مفادات کے تحفظ کے عنوان سے برطانوی فوجیں اسکندریہ میں داخل ہوگئیں اور اسی سال ۱۵ ستمبر کو انہوں نے احمد عرابی پاشا کی فوج کو شکست دے کر قاہرہ کا کنٹرول سنبھال لیا۔

   
2016ء سے
Flag Counter