ختم بخاری شریف کی تقریبات میں غیر ضروری تکلفات کا رواج

   
تاریخ اشاعت: 
۲۰ جون ۲۰۱۱ء

۱۲ جون کو مجھے جامعہ عبد اللہ بن مسعودؓ خانپور کے سالانہ جلسہ کی آخری نشست میں عشاء کے بعد شریک ہونا تھا مگر اس روز ظہر کے بعد وفاقی اردو یونیورسٹی کراچی کے شعبہ عربی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی قومی سیرت کانفرنس میں کچھ دیر کے لیے حاضر ہونا پڑا، وہاں سے واپسی پر رات نو بجے پی آئی اے کی بہاولپور کے لیے فلائٹ تھی جو پونے گیارہ بجے بہاولپور پہنچتی ہے، پاکستان شریعت کونسل کے امیر حضرت مولانا فداء الرحمان درخواستی میرے انتظار میں تھے، پروگرام یہ تھا کہ ہم خانپور ایک دو بجے کے لگ بھگ پہنچ جائیں گے اور جامعہ عبد اللہ بن مسعودؓ کے سالانہ جلسے کی آخری نشست میں جو عام طور پر صبح کی نماز تک جاری رہتی ہے اختتامی مرحلے میں شریک ہو جائیں گے۔ مگر پی آئی اے کے طیارے نے جب رحیم یار خان کراس کیا تو پائلٹ نے اعلان کیا کہ بہاولپور کا موسم خراب ہے، ہم وہاں اترنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اس لیے کراچی واپس جا رہے ہیں۔ چنانچہ کراچی واپس پہنچنے پر میں نے مولانا درخواستی کو فون کیا کہ آپ تشریف لے جائیں میں تو اب خانپور کے جلسے میں شرکت سے محروم ہی رہوں گا۔

اسی روز متبادل طیارے سے رات دو بجے کے لگ بھگ بہاولپور پہنچا اور قاری عبد القادر صاحب کے مدرسہ میں رات قیام کر کے اگلے دن ظہر کے بعد ان کے ہاں ایک اجتماع سے خطاب کرنے کے بعد وہاڑی کے لیے روانہ ہوگیا جہاں جامعہ خالد بن ولیدؓ میں برادر مکرم مولانا ظفر احمد قاسم کے حکم پر مجھے ایک روز قیام کرنا تھا، مولانا موصوف سے میرا پرانا تعلق جماعتی اور تحریکی ہونے کے ساتھ ساتھ شیرانوالہ لاہور سے وابستگی کا بھی ہے اور ہم دونوں حضرت مولانا عبید اللہ انور قدس سرہ العزیز کے خوشہ چینوں میں سے ہیں۔ مولانا ظفر احمد قاسم نے اساتذہ اور طلبہ کے ساتھ الگ الگ نشستوں کا اہتمام کر رکھا تھا اور ان کے حکم پر دورۂ حدیث شریف کے طلبہ کو بخاری شریف کے ایک باب کا سبق بھی پڑھایا۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ وفاق المدارس العربیہ کے سربراہ استاذ العلماء شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان دامت برکاتہم جو دارالعلوم عیدگاہ کبیر والا میں ختم بخاری شریف کے لیے تشریف لائے ہوئے تھے، رات آرام کے لیے جامعہ خالد بن ولیدؓ میں تشریف لا رہے ہیں تو بے حد خوشی ہوئی اور حاضری کا لطف دوبالا ہوگیا۔ ان کے ساتھ ان کے فرزند مولانا عبید اللہ خالد، مولانا مفتی طاہر مسعود اور مولانا مفتی عبد القدوس ترمذی بھی تھے۔ رات آرام کے بعد دوسرے روز صبح ناشتے کے موقع پر اچھی خاصی محفل جم گئی، حضرت الشیخ دامت برکاتہم کی زیارت اور ان سے استفادہ کے لیے ہم میں ہر شخص جستجو میں تھا اور انہوں نے بھی شفقتوں اور دعاؤں سے سب کو نوازا۔

حضرت مولانا سلیم اللہ خان دامت برکاتہم نے دورانِ گفتگو فرمایا کہ ختم بخاری شریف کی تقریبات میں خرابیاں بڑھتی جا رہی ہیں اس لیے ہم نے جامعہ فاروقیہ کراچی میں اس کا سلسلہ موقوف کر دیا ہے اور طے کیا ہے کہ بخاری شریف کا آخری سبق بھی معمول کے عام اسباق کی طرح ہوا کرے گا اور اس کے لیے کوئی خاص اہتمام نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے اس سلسلہ میں میری رائے دریافت کی تو میں نے عرض کیا کہ ہم نے تو جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں یہ سلسلہ کئی سال پہلے ختم کر دیا تھا اور اب ہمارے ہاں اس کے لیے کوئی خاص تقریب نہیں ہوتی، البتہ صرف اتنا ہوتا ہے کہ ختم بخاری شریف کی دعا میں شرکت کے لیے مدرسہ ہی کے اساتذہ اور طلبہ جمع ہو جاتے ہیں اور آخری سبق کے بعد ہم سب مل کر دعا کر لیتے ہیں۔

ہمارے ہاں ختم بخاری شریف کی تقریبات ہوتی رہی ہیں اور ان میں مختلف اوقات میں حافظ الحدیث حضرت مولانا عبد اللہ درخواستیؒ، شیخ التفسیر حضرت علامہ شمس الحق افغانیؒ، حضرت مولانا سید حسن جان شہیدؒ اور حضرت مولانا ڈاکٹر علی شیر شاہ مدظلہ بھی تشریف لاتے رہے ہیں۔ لیکن جامعہ نصرۃ العلوم کے بانی اور ہمارے عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ نے چند سال قبل فرمایا تھا کہ ختم بخاری شریف کی تقریبات میں مفاسد بڑھتے جا رہے ہیں اور رفتہ رفتہ یہ بدعت کا روپ اختیار کر رہی ہے اس لیے اسے بند کر دینا چاہیے۔ چنانچہ اس کے بعد سے ہم نے یہ سلسلہ ختم کر دیا، معمول کا سبق ہوتا ہے اور اس میں دعا کے لیے دیگر اساتذہ و طلبہ بھی شریک ہو جاتے ہیں۔ البتہ دستار بندی کا سالانہ جلسہ ہم ضرور کرتے ہیں اور پورے اہتمام کے ساتھ کرتے ہیں جو اس سال ۲۹ جون کو منعقد ہو رہا ہے، ان شاء اللہ تعالٰی۔ حضرت مولانا سلیم اللہ خان کی رائے یہ معلوم ہو رہی تھی کہ بخاری شریف کے آخری سبق کے لیے مدرسہ کے دیگر اساتذہ و طلبہ کو جمع کرنا اور اس کا اعلان کرنا بھی شاید مناسب نہیں ہے اور ان کے خیال میں اس سے بھی گریز کرنا چاہیے۔

ختم بخاری شریف کی تقریبات میں راقم الحروف ایک عرصہ سے شریک ہو رہا ہے اور اس سال بھی درجنوں تقریبات میں شرکت کا موقع ملا ہے مگر اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ بہت سے مقامات پر ان تقریبات کا حال ختم بخاری شریف کے شایان شان نہیں رہا کیونکہ بخاری شریف کی آخری حدیث کے درس کا جو اصل مقصد ہوتا ہے بعض جگہ ثانوی حیثیت اختیار کر گیا ہے اور دوسرے متعلقات و لوازم نے اصل مقصد پر غلبہ پا لیا ہے۔ جیسے شادی کی تقریبات میں مسنون خطبہ اور ایجاب و قبول دیگر رسوم و روایات میں دب کر رہ جاتاہے اسی طرح بخاری شریف کی بعض تقریبات میں درس حدیث کا اصل سبق باقی رسوم و متعلقات، جنہیں حضرت مولانا سلیم اللہ خان مدظلہ مفاسد اور خرافات سے تعبیر فرماتے ہیں، دبا دبا سا دکھائی دینے لگا ہے۔

چند سال قبل ایک بڑے مدرسہ میں ختم بخاری شریف کی تقریب میں حاضری کا موقع ملا جو باقاعدہ جشن کی صورت میں رات گئے تک جاری رہی، میں نے منتظمین میں سے ایک صاحب سے عرض کیا کہ تھوڑی دیر کے لیے تصور کریں کہ اگر بالفرض اس جشن میں خود امام بخاریؒ بطور مہمان خصوصی تشریف لے آئیں (جو شرعاً اور عقلاً ممکن نہیں ہے) تو اس غریب کا کیا حال ہوگا اور وہ ہمارے بارے میں کن تاثرات و جذبات کا اظہار کریں گے؟ بخاری شریف کی قراءت مکمل ہونے پر دعا کی اہمیت سے انکار نہیں ہے اور مجھے ذاتی طور پر ایسے موقع پر کسی بزرگ شخصیت کو زحمت دینے میں بھی کوئی حرج محسوس نہیں ہوتا بشرطیکہ معاملہ صرف یہیں تک محدود رہے۔ لیکن بخاری شریف کے اختتام کی تقریبات کو ہم نے جس تیز رفتاری کے ساتھ جشن کا رنگ دینا شروع کر رکھا ہے اس کے پیش نظر حضرت مولانا سلیم اللہ خان دامت برکاتہم کے اس ارشاد پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اس سلسلہ کو اب موقوف ہو جانا چاہیے۔ میرے ناقص خیال میں اگر کلیتاً موقوف کرنا ممکن نہ ہو تو بھی اسے اس دائرہ تک تو بہرحال محدود ہونا چاہیے جو حدیث نبویؐ کے درس اور بخاری شریف کے شایان شان ہے، ورنہ فائدہ کی بجائے نقصان کا احتمال زیادہ ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter