سودی نظام اور ہمارا افسوسناک رویہ

   
مرکزی جامع مسجد، شیرانوالہ باغ، گوجرانوالہ
۲۲ اپریل ۲۰۲۲ء

۲۰ رمضان المبارک ۱۴۴۳ھ کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں جمعۃ المبارک کے اجتماع سے خطاب کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ کچھ عرصہ سے جمعۃ المبارک کے خطبات میں قرآن کریم کے حوالہ سے مختلف پہلوؤں پر بات چل رہی ہے، گزشتہ جمعہ اس پہلو پر گفتگو ہوئی تھی کہ قرآن کریم اور جنابِ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے کاموں کے کرنے کا حکم دیا ہے اور بہت سی باتوں اور کاموں سے منع کیا ہے جنہیں اوامر اور نواہی کہا جاتا ہے، ان کے بارے میں کچھ حلقوں کی طرف سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان کی حیثیت آرڈر اور حکم کی نہیں بلکہ راہنمائی اور مشورہ کی ہے، اس کا ذکر حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں کیا ہے اور آج بھی یہ بات اِسی انداز میں سامنے لائی جا رہی ہے۔ اس پر یہ عرض کیا تھا کہ قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام آپشنز نہیں بلکہ آرڈرز ہیں اور ان پر عمل کے بارے میں قیامت کے دن ہر شخص جواب دہ ہو گا اور اس پر سزا و جزا کا مدار ہو گا۔

آج کی گفتگو اس حوالے سے ہو گی کہ قرآن کریم نے بہت سے کاموں سے منع کیا ہے مگر ان میں سے بعض امور پر سخت لہجہ اختیار کیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے کاموں سے بہرحال بچنا ضروری ہے، ان میں سے ایک کام سود کا لین دین بھی ہے اور اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ ’’ان کنتم مومنین‘‘ اگر تم مسلمان ہو تو سود کا لین دین ترک کر دو۔ اور منع کے باوجود سودی کاروبار کو جاری رکھنے کو اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ سے سے تعبیر کیا ہے، جس سے اس کبیرہ گناہ کی سنگینی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

سود کا لین دین پہلی امتوں میں بھی حرام تھا بلکہ قرآن کریم نے بنی اسرائیل پر خدا کی لعنت کے اسباب میں ذکر کیا ہے کہ ’’واخذھم الربوٰا وقد نہوا عنہ‘‘ انہیں سود سے منع کیا گیا تھا مگر اس کے باوجود وہ سود کا لین دین کرتے تھے جس پر ’’لعناھم‘‘ ہم نے ان پر لعنت مسلط کر دی۔ یہود کے لیے سود حرام ہونے کا تذکرہ آج کی بائبل میں بھی موجود ہے۔ جناب نبی اکرمؐ جب مبعوث ہوئے تو عرب معاشرہ میں سود کا لین دین عام تھا جو ذاتی قرضوں میں بھی تھا اور تجارت میں بھی تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کی ساری قسموں کو ممنوع قرار دے دیا اور عملاً بھی ختم کیا، اس موقع پر یہ سوال اٹھایا گیا جس کا ذکر قرآن کریم میں اس طرح ہے کہ ’’انما البیع مثل الربوٰا‘‘ تجارت بھی تو سود کی طرح ہے کہ اشیا کا تبادلہ تجارت ہے جس پر منافع جائز ہے، تو رقوم کا تبادلہ بھی اسی طرح ہے اس پر منافع میں کیا حرج ہے؟

اللہ نے قرآن کریم میں اس کا واضح جواب دیا کہ ’’واحل اللّٰہ البیع وحرم الربوٰا‘‘ یہ دونوں مختلف معاملات ہیں، اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کے مکمل خاتمہ کا اعلان فرمایا بلکہ حجۃ الوداع کے موقع پر اس کے عملی آغاز کے لیے اپنے چچا محترم حضرت عباسؓ کو، جو سود کا کاروبار کیا کرتے تھے، اپنے ساتھ کھڑا کر کے سب صحابہ کرامؓ کے سامنے اعلان کیا کہ انہوں نے لوگوں کو جو سود پر قرضے دے رکھے ہیں ان میں اصل رقم واپس ہو گی اور سود کی رقم کی ادائیگی نہیں کی جائے گی۔ گویا نبی اکرمؐ نے سود کی حرمت کے اعلان سے قبل دیے گئے قرضوں پر بھی سود ختم کرنے کا اعلان فرمایا۔ سیرت طیبہ کی کتابوں میں طائف کے قبیلہ بنو ثقیف کے قبولِ اسلام تفصیل پڑھی جا سکتی ہے، بلکہ میرا مشورہ یہ ہے کہ اصحابِ ذوق اس کا ضرور مطالعہ کریں، جس میں بتایا گیا ہے کہ بنو ثقیف کا وفد اپنی قوم کی طرف سے نبی اکرمؐ کی خدمت میں اسلام قبول کرنے کیلئے مدینہ منورہ آیا تو انہوں نے قبولِ اسلام کے لیے کچھ شرائط پیش کیں۔ جن میں ایک یہ تھی کہ چونکہ دوسری قوموں اور قبائل کے ساتھ ان کی تجارت سود کے ذریعے ہوتی ہے اس لیے وہ سود نہیں چھوڑ سکیں گے۔ اسی طرح انہوں نے کہا کہ وہ نماز کے اوقات کی پابندی نہیں کر سکیں گے، ان کا بت ’’لات‘‘ نہیں توڑا جائے گا۔ ان کے علاقہ میں انگور کی پیداوار زیادہ ہوتی ہے جس سے شراب بنتی ہے اور اس پر ان کی معیشت کا مدار ہے اس لیے شراب ترک کرنا بھی ان کے لیے مشکل ہو گا، وغیرہ وغیرہ۔ مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود والی شرط سمیت تمام شرائط مسترد فرما دیں اور بنو ثقیف کو اپنی شرائط سے دستبردار ہو کر غیر مشروط طور پر مکمل اسلام قبول کرنا پڑا۔

میں عرض کیا کرتا ہوں کہ بنو ثقیف کی شرائط کو مسترد کر کے جناب رسول اللہ نے انہیں غیر مشروط طور پر تمام احکامِ اسلام قبول کرنے کے لیے کہا تو انہوں نے صرف ایک رات میں باہمی مشورہ کر کے ان شرائط سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ مگر ہماری صورتحال یہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے اپنے خطاب میں واضح طور پر کہا تھا کہ ہم اپنی معیشت کی بنیاد مغرب کے اصولوں پر نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات و احکام پر رکھیں گے۔ جبکہ دستور پاکستان میں سود کو اسلام کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ کم از کم مدت میں ملک سے سودی نظام کا خاتمہ کرے۔ اس کے بعد وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی دو ٹوک فیصلہ دیا کہ ملک میں رائج تمام سودی قوانین قرآن و سنت سے متصادم ہیں، اس لیے انہیں یکسر ختم کر دیا جائے، مگر ہم قومی سطح پر ابھی تک تذبذب کا شکار ہیں اور ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں جو یقینا اللہ تعالیٰ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کا سبب ہے۔ حتیٰ کہ اس سودی نظام کی نحوست ہے کہ ہم اسٹیٹ بینک آف پاکستان پر آئی ایم ایف کا کنٹرول تسلیم کر کے اپنی قومی خودمختاری کو بھی داؤ پر لگا چکے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے اور ہمیں توبہ و استغفار کی توفیق دیتے ہوئے قرآن و سنت کی عملداری کی طرف واپس جانے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

(ماہنامہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ ۔ مئی ۲۰۲۲ء)
2016ء سے
Flag Counter