شیخ الازھر اور پاپائے روم کی ملاقات

   
تاریخ : 
جون ۲۰۱۶ء

روزنامہ انصاف لاہور ۲۵ مئی ۲۰۱۶ء کی ایک خبر کے مطابق جامعہ الازھر کے سربراہ الشیخ احمد الطیب نے گزشتہ روز ویٹی کن سٹی میں پاپائے روم پوپ فرانسس سے ملاقات کی ہے اور دونوں راہنماؤں نے بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے عالمی کانفرنس کے انعقاد پر اتفاق کیا ہے۔ الشیخ احمد الطیب عالم اسلام کی محترم علمی شخصیت ہیں جبکہ پوپ فرانسس کیتھولک مسیحی دنیا کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا ہیں، اس لیے ان کی باہمی ملاقات جو خبر کے مطابق تاریخ میں پہلی بار ہوئی ہے یقیناً بہت اہمیت کی حامل ہے جس کے دور رس اثرات ہوں گے۔ اور اگر ان کے اتفاق رائے کے مطابق بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے مذکورہ بالا عالمی کانفرنس انعقاد پذیر ہوئی تو وہ مذاہب کی تاریخ میں ایک اہم واقعہ ثابت ہوگی۔

بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے ایک عرصہ سے بین الاقوامی حلقوں میں کام ہو رہا ہے اور مختلف سطحوں پر اس حوالہ سے کانفرنسوں کے انعقاد کا سلسلہ جاری ہے جن میں سے بعض پروگراموں میں راقم الحروف کو بھی شرکت کا موقع ملا ہے۔ چنانچہ اپنے مشاہدات و تاثرات کی بنیاد پر کچھ معروضات پیش کرنا چاہ رہا ہوں۔ بین المذاہب مکالمہ کے مختلف دائرے ہیں جن کو سمجھنا اور اس سلسلہ میں کسی علمی و فکری محنت کے لیے انہیں سامنے رکھنا ضروری ہے۔ مثلاً

  1. ایک دائرہ ’’اتحاد بین المذاہب‘‘ کا ہے کہ تمام مذاہب کی مشترکہ باتوں کو لے کر ایک متفقہ مذہبی ماحول بنانے کی کوشش کی جائے اور اختلافی باتوں کو پس پشت ڈال دیا جائے۔ ہمارے ہاں اکبر بادشاہ کا ’’دین الٰہی‘‘ اسی کی ایک عملی شکل تھا۔ یہ بات بظاہر بہت خوشنما لگتی ہے لیکن غیر فطری ہونے کی وجہ سے قابل عمل نہیں ہے۔ مجھے حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کے ساتھ شکاگو میں ایک ایسے مرکز میں جانے کا موقع ملا تھا جس میں ایک بڑے ہال کی وسیع چھت کے نیچے مسجد، چرچ، سینی گاگ، مندر، اور گوردوارے کا ماحول ایک ہی چار دیواری کے اندر قائم کیا گیا تھا۔ اس پر میرا تاثر دریافت کیا گیا تو میں نے عرض کیا کہ مسجد اور گرجا تو ایک چھت کے نیچے جمع کر دیے گئے ہیں لیکن صرف ایک خدا اور تین خداؤں کے دو متضاد عقیدوں کو کیسے جمع کیا گیا ہے؟
    ظاہر بات ہے کہ جب تک انسانی ذہن و عقل اور احساسات و جذبات کے دائرے مختلف ہیں، جو یقیناً مختلف ہی رہیں گے، اس قسم کی کوئی کوشش صلاحیتوں اور وقت کے ضیاع کے سوا اور کیا نتیجہ دے سکتی ہے؟
  2. دوسرا دائرہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں مذاہب کے حوالہ سے مشترکہ آبادیاں اور سوسائٹیاں وجود میں آرہی ہیں اور دن بدن بڑھتی جا رہی ہیں۔ ان کے درمیان باہمی رواداری اور برداشت کی ایسی فضا ناگزیر ضرورت کا درجہ رکھتی ہے کہ سب لوگ اپنے اپنے عقیدہ و مذہب پر قائم رہتے ہوئے مل جل کر رہ سکیں اور ان کے عقائد و روایات کا اختلاف ان کے معاشرتی میل جول میں رکاوٹ نہ بنے۔ یہ دائرہ بہرحال قابل توجہ اور وقت کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ایسی سنجیدہ علمی، فکری اور معاشرتی محنت ضروری ہے جس میں تمام مذاہب کے معتدل مزاج حضرات شریک ہوں۔
  3. تیسرا دائرہ عقائد و نظریات کے بارے میں مکالمہ کا بھی ہے جو ہمیشہ سے موجود رہا ہے اور اب بھی اس کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ مختلف عقائد و افکار اور اعمال و روایات میں حق کے زیادہ قریب کون سی بات ہے اور انسان کی دنیوی و اخروی نجات کے لیے زیادہ افادیت کس میں ہے ، اس کے لیے مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان مناظرہ و مجادلہ چلتا آرہا ہے۔ خود قرآن کریم کے بنیادی موضوعات میں ’’مجادلہ‘‘ ایک اہم موضوع کی حیثیت رکھتا ہے، یہ نسل انسانی کی صحیح راہنمائی کے لیے ضروری ہے مگر شرط یہ ہے کہ ’’وجادلھم بالتی ھی احسن‘‘ (النحل ۱۲۵) کے قرآنی اصول کے مطابق علم، دلیل، اور افہام و تفہیم کے ماحول میں ہو۔ اور حکمت و دانش کے ساتھ ہر شخص کو اپنا مذہب و موقف پیش کرنے کا موقع دیا جائے۔
  4. مذاہب کے درمیان مکالمہ اور باہمی ہم آہنگی کا ایک دائرہ اور بھی ہے جس کی طرف عام طور پر توجہ نہیں دی جاتی جبکہ ہمارے نزدیک وہ آج کے دور میں سب سے زیادہ ضروری ہے۔ وہ یہ کہ انسانی سوسائٹی نے اپنے معاشرتی، معاشی، اور خاندانی ماحول میں آسمانی تعلیمات سے کنارہ کشی کا جو ماحول قائم کر رکھا ہے اور جس کے تلخ نتائج روحانی سکون سے محرومی کے ساتھ ساتھ خاندانی نظام کے سبوتاژ ہو جانے کی صورت میں بھی واضح ہوتے جا رہے ہیں، وہ مذاہب کے عالمی راہنماؤں کی اس وقت زیادہ توجہ کا طلبگار ہے۔ انسانی معیشت حلال و حرام کے تصور سے بیگانہ ہو گئی ہے، خاندانی نظام میں رشتوں کا تقدس قصہ پارینہ بن گیا ہے، اور انسان کا اپنے خالق و مالک کے ساتھ تعلق کمزور تر ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے خیال میں مذاہب کے عالمی راہنماؤں کو سب سے زیادہ توجہ اسی بات کی طرف دینی چاہیے کہ:
    • انسان کا اپنے خالق و مالک کے ساتھ صحیح ربط و تعلق بحال ہو۔
    • خاندانی نظام کو دوبارہ رشتوں کے تقدس کے ماحول کی طرف واپس لایا جائے۔
    • حلال و حرام کا ذوق پھر سے انسانی معاشرہ میں بیدار کیا جائے۔ اور
    • اخلاقیات کا وہ ماحول انسانی سوسائٹی میں زندہ کیا جائے جس کی بنیاد خدا خوفی اور اخروی حساب کتاب کے عقیدہ پر ہو۔

چنانچہ ہم شیخ الازھر اور پاپائے روم کی اس ملاقات کا خیرمقدم کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کرنا چاہیں گے کہ دنیا کے دو بڑے مذہبی راہنما اپنی اس مجوزہ عالمی کانفرنس کو آسمانی تعلیمات کی طرف انسانی سوسائٹی کی واپسی کا ذریعہ بنانے کے لیے بھی مؤثر کردار ادا کریں گے۔

   
2016ء سے
Flag Counter