یونیورسٹیوں میں ترجمہ قرآن کی لازمی تعلیم

   
۱۷ جون ۲۰۲۰ء

پنجاب کے گورنر محترم چودھری محمد سرور کی طرف سے یونیورسٹیوں میں ترجمہ قرآن کریم کو لازمی قرار دینے کی خبر یقیناً سب کے لیے خوشی کا باعث بنی ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ پنجاب کی یونیورسٹیوں میں کسی طالب علم کو ترجمہ قرآن کریم پڑھے بغیر ڈگری نہیں ملے گی۔ پنجاب حکومت اور اسمبلی کی طرف سے اس قسم کے اعلانات اس سے قبل بھی مختلف مواقع پر سامنے آتے رہے ہیں۔ بلکہ ہماری یادداشت کے مطابق صوبائی اسمبلی نے ایک مرحلہ میں بل بھی منظور کیا تھا کہ قرآن کریم کا ترجمہ کالجوں میں لازمی پڑھایا جائے گا مگر وہ بل شاید قانون سازی کی منزل حاصل نہیں کر سکا تھا۔ البتہ چودھری محمد سرور چونکہ اپنے منصب کے لحاظ سے ریاستی یونیورسٹیوں کے چانسلر بھی ہیں اس لیے ان کا یہ اعلان پہلے اعلانات سے مختلف نظر آتا ہے اور اس سے یہ توقع پیدا ہو گئی ہے کہ اب عملاً ایسا ہونے کی کوئی صورت پیدا ہو جائے گی۔

چودھری محمد سرور کے ساتھ کسی دور میں ہماری بھی شناسائی رہی ہے، گلاسگو کی مرکزی جامع مسجد کے حجرہ میں حافظ محمد شفیقؒ کے ’’حقہ کی محفل‘‘ میں متعدد بار چودھری صاحب کے ساتھ شریک ہونے کا اتفاق ہوا۔ اور ابھی رمضان المبارک سے قبل کرونا بحران میں مساجد کھلی رکھنے کے معاملہ میں گورنر ہاؤس میں منعقد ہونے والے اجلاس میں شرکت ہوئی تو چودھری صاحب کا خطاب سامنے بیٹھ کر سنا، لیکن جب آمنے سامنے سے گزرے تو فضا میں ’’تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو‘‘ کی گنگناہٹ سنائی دینے لگی۔ بہرحال اس سے قطع نظر گورنر پنجاب کا یہ اعلان لائق تحسین و تبریک ہے بلکہ مجھے تو چودھری محمد سرور کے گورنر بننے کے بعد سے انتظار تھا کہ وہ اس قسم کا خیر کا کوئی کام ضرور کریں گے جس کا شاید انہیں موقع اب ملا ہے۔
گزشتہ دنوں ایک محفل میں بات چل رہی تھی کہ پنجاب میں سرکاری سطح پر فلاں کام ہونے والا ہے اور وہ کام بظاہر خیر کا نہیں لگ رہا تھا، میں نے دوستوں کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ بزدار صاحب سے میں ذاتی طور پر واقف نہیں ہوں، مگر جب تک صوبائی سیٹ اپ میں چودھری محمد سرور اور چودھری پرویز الٰہی موجود ہیں مجھے اطمینان ہے کہ ان کے علم میں ہوتے ہوئے یہ کام نہیں ہو سکے گا۔

قرآن کریم کی تعلیم ہر مسلمان کی بنیادی ضرورت ہے، اس کی تلاوت، اس کا فہم اور اس کے احکام پر عمل ہر مسلمان مرد اور عورت کی ذمہ دری ہے، جبکہ قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنا اور پڑھ کر سمجھنا ہمارے ان فرائض میں شامل ہے جن کی طرف قرآن کریم نے خود توجہ دلائی ہے۔ ایک جگہ ارشاد باری تعالٰی ہے کہ ’’حتٰی تعلموا ما تقولون‘‘ قرآن کریم پڑھتے ہوئے تمہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ اس آیت اور جملہ کا مفہوم کیا ہے۔ ویسے بھی کامن سینس کی بات ہے کہ جب ہم قرآن کریم کو اللہ تعالٰی کا کلام و پیام مانتے ہیں اور خود کو اس کا مخاطب سمجھتے ہیں تو اللہ رب العزت کے پیغام کو سمجھنا اور اس کے مفہوم سے واقف ہونا لازمی طور پر اس کا حق اور ہماری ذمہ داری بنتا ہے۔

چنانچہ قرآن کریم نے اس کے دائرے الگ الگ بیان کیے ہیں۔ ’’یتلوا علیہم آیاتہ‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم پڑھ کر سناتے ہیں، اسی لیے قرآن کریم کی تلاوت و قراءت مستقل عبادت ہے۔ جبکہ اس کے ساتھ ’’یعلمہم الکتاب‘‘ بھی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کی تعلیم دیتے ہیں، یعنی اس کا مطلب و مفہوم بھی سمجھاتے ہیں۔ بلکہ اس سے آگے ’’یبین للناس‘‘ بھی ہے کہ اس مطلب و مفہوم کی ضرورت کے مطابق وضاحت بھی فرماتے ہیں۔

اس حوالہ سے ہم پاکستانی مسلمانوں کی ذمہ داری دہری ہے کہ پاکستان کا قیام مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت اور اسلامی شناخت کو محفوظ رکھنے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا جس کے لیے بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے دوٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ اس میں قرآن کریم کے احکام و ہدایات کی عملداری کا نظام ہو گا۔ اس کے علاوہ ہمارے دستور میں بھی یہ صراحت ہے کہ قرآن و سنت کی ہدایات کو تمام معاملات میں بالادستی حاصل ہو گی۔ اس کا منطقی تقاضہ یہ ہے کہ ملک کا نظام چلانے والے افراد اور مختلف محکموں میں فرائض سرانجام دینے والے افسران اور اہلکار قرآن کریم اور سنت رسولؐ کی ہدایات و تعلیمات سے آگاہ ہوں۔ جبکہ عملی صورتحال یہ ہے کہ دستور کے مطابق تو قومی زندگی کے ہر شعبہ میں قرآن کریم کی ہدایات کی پابندی ضروری ہے مگر قومی زندگی کے مختلف شعبوں کا نظم چلانے کے لیے جو افراد کار ریاستی تعلیمی اداروں میں تیار کیے جاتے ہیں ان کے لیے قرآن و سنت کی تعلیم لازمی نہیں ہے۔ اس معاملہ میں اصل ضرورت تو اس امر کی ہے کہ ملک کے ریاستی تعلیمی نظام میں (۱) قرآن کریم (۲) حدیث و سنت (۳) فقہ و شریعت اور (۴) عربی زبان کو لازمی مضامین کا درجہ دیا جائے تاکہ کسی بھی عہدہ پر بیٹھے افسر و ملازم کو معلوم ہو کہ اس نے اپنی ڈیوٹی کس دائرے میں سرانجام دینی ہے۔ قرآن کریم کا ترجمہ تو اس کا صرف ایک ناگزیر حصہ ہے جو بطور مسلمان ہر ایک کو پڑھنا چاہیے۔

ان گزارشات کے ساتھ ہم گورنر پنجاب کے اس مستحسن اقدام کا خیر مقدم کرتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ اس سلسلہ کے پہلے اعلانات سے ہٹ کر اس اعلان پر عملدرآمد بھی ہو گا، ان شاء اللہ تعالٰی۔

   
2016ء سے
Flag Counter