بعد الحمد والصلوٰۃ۔ بیس روزہ خطابت کورس کے منتظم مرکزی جامع مسجد کورنگ ٹاؤن اسلام آباد کے خطیب مولانا شبیر احمد عباسی کا شکر گزار ہوں کہ علماء و خطباء کے اس اجتماع میں کچھ گزارشات پیش کرنے کا موقع عطا کیا، اللہ تعالیٰ ہمارے اس مل بیٹھنے کو ہم سب کے لیے با مقصد اور با برکت بنائیں ،آمین یا رب العالمین۔
’’نطق‘‘ انسان کے امتیازات اور خواص میں سے ہے جس کی وجہ سے مناطقہ کے ہاں انسان کو حیوانِ ناطق کہہ کر دوسرے حیوانات سے ممتاز کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو قوت گویائی سے نوازا ہے جس کے مختلف مدارج ہیں اور ایک انسان جب بہت سے انسانوں کو خطاب کر کے اپنے جذبات و احساسات اور ما فی الضمیر کا اظہار کرتا ہے تو اسے خطابت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس خطابت میں جس قدر فصاحت ہو گی اور مخاطبین کو سمجھانے کا بہتر انداز ہو گا اسی قدر و ہ کمال کی حامل ہو گی۔
خطابت زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح دین کی ضروریات میں بھی بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ سیدنا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب اللہ رب العزت نے مَدین سے واپسی پر کوہ طور پر بلا کر نبوت و رسالت سے سرفراز کیا اور انہیں فرعون کے پاس جانے کی ہدایت دے کر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے اظہار اور فرعون کی غلامی سے بنی اسرائیل کی آزادی کو ان کی نبوی ذمہ داری قرار دیا تو حضرت موسٰی علیہ السلام نے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو بھی نبی بنانے اور اپنے معاون و مددگار کا درجہ دینے کی درخواست کی جسے بارگاہ ایزدی میں قبول کر لیا گیا۔اس کی ایک وجہ حضرت موسٰی ؑ نے یہ بیان فرمائی کہ ’’ھو أفصح منی لسانا‘‘ کہ وہ زبان اور گفتگو میں مجھ سے زیادہ فصیح ہیں۔ حضرت موسیٰؑ کی زبان میں قدرے لکنت تھی جسے دور کرنے کی انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی۔ اور فرعون نے حضرت موسیٰؑ کی آمد اور دعوت کے بعد اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے ان پر جو طعن و اعتراض کیے ان میں ایک بات یہ بھی تھی کہ ’’والایکاد یبین‘‘ وہ تو اپنی بات بھی پوری طرح بیان نہیں کر سکتے۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین عرب اور مشرکین مکہ نے ساحر کا جو خطاب دیا تھا، اس کی وجہ قرآن کریم کے اعجاز کے ساتھ ساتھ خود آنحضرتؐ کی فصاحت و بلاغت کا کمال بھی تھا کہ اللہ رب العزت نے آپؐ کو خطابت و فصاحت کے اس اعلیٰ ترین مقام و معیار سے نوازا تھا جسے اپنے الفاظ میں تعبیر کرنے کے لیے منکرین کے پاس ’’جادو‘‘ کے علاوہ کوئی اور لفظ موجود ہی نہیں تھا۔
دینی حوالہ سے خطابت کی ضرورت کے تین بڑے دائرے ہیں:
پہلا دائرہ دعوت کا ہے کہ دنیا بھر کے انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی توحید و بندگی، جناب رسالتمآبؐ کی رسالت و نبوت، اور قرآن کریم کا ہدایت و دعوت کا پیغام پہنچانا ہم مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ اس وقت دنیا کی آبادی سات ارب سے زیادہ بیان کی جاتی ہے جس میں سے پونے دو ارب کے لگ بھگ مسلمانوں کو الگ کر لیا جائے تو کم و بیش سوا پانچ ارب انسان دنیا میں ایسے بستے ہیں جو جناب نبی اکرمؐ کی امت دعوت کا حصہ ہیں مگر وہ اسلام، قرآن کریم اور آپؐ کی ذات گرامی سے متعارف نہیں ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ ان تک توحید، رسالت اور قرآن کریم پہنچانے اور انہیں اسلام سے متعارف کرانے کے لیے آسمان سے فرشتے نہیں اتریں گے، یہ کام اس وقت موجود پونے دو ارب کے لگ بھگ مسلمانوں نے ہی کرنا ہے، انہی پر اس کی ذمہ داری ہے اور وہی اس کے بارے میں عند اللہ مسئول ہوں گے۔ جبکہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ سرکاری یا غیر سرکاری طور پر مسلم دنیا میں کوئی ایسا عالمی نظام موجود نہیں ہے جو اس فریضہ کی سر انجام دہی کے لیے محنت کر رہا ہو۔ بعض علاقوں میں مقامی طور پر ایسے افراد اور حلقے ضرور پائے جاتے ہیں جو یہ کام کر رہے ہیں لیکن جس طرح مسیحیوں کے مشنری ادارے ایک بین الاقوامی نظم کے تحت دنیا بھر میں غیر عیسائیوں کو عیسائی بنانے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں سرگرم عمل ہیں اس طرح کا کوئی ادارہ یا نظام مسلمانوں کی طرف سے متحرک نہیں ہے۔
مسیحی مشنریوں کی کارکردگی کا اس بات سے اندازہ کر لیجیے کہ گزشتہ پون صدی کے دوران انہوں نے افریقہ میں رقبہ کے لحاظ سے مسلمانوں کے سب سے بڑے ملک سوڈان کے جنوب میں بت پرست قبائل کو عیسائی بنا کر اس خطہ میں عیسائی اکثریت قائم کی ہے اور اس کی بنیاد پر اقوام متحدہ کے زیر اہتمام وہاں ریفرنڈم کرا کے جنوبی سوڈان کے نام سے ایک آزاد مسیحی ریاست قائم کر لی ہے۔ اسی طرح کی محنت کر کے وہ انڈونیشیا کے صوبہ تیمور کے ایک حصہ کو ایسٹ تیمور کے نام سے انڈونیشیا سے الگ کر چکے ہیں۔ اور اب بین الاقوامی رپورٹوں کے مطابق پاکستان میں بھی خدانخواستہ ایک آزاد مسیحی ریاست قائم کرنے کے منصوبے پر کام جاری ہے۔ جنوبی سوڈان اور مشرقی تیمور کو جس طرح مسیحی ریاستوں کی شکل دی گئی ہے اور فلسطین کے ایک بڑے حصے کی آبادی کو یہودی اکثریت میں تبدیل کر کے جس طرح اسرائیل قائم کیا گیا ہے اس کے پیش نظر پاکستان کے کسی حصے میں کسی آزاد مسیحی ریاست کے قیام کی بات کو نا قابل عمل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جبکہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ دینی حلقوں میں سے کسی کی سرے سے اس طرف توجہ ہی نہیں ہے۔
خیر میں خطابت کی اہمیت و ضرورت کے بڑے دائرے کا تذکرہ کر رہا تھا کہ ہمیں دنیا میں مسلمانوں کے علاوہ بسنے والے پانچ ارب سے زیادہ انسانوں تک اسلام کی دعوت اور پیغام پہنچانے کے لیے ابلاغ کے دوسرے ذرائع کے ساتھ ساتھ خطابت کی بھی ضرورت ہے اور اس کی ضروریات اور تقاضوں کو پورا کرنا ہماری دینی ذمہ داری ہے۔
خطابت کی اہمیت و ضرورت کا دوسرا دائرہ امت کی اصلاح اور اسے دین کے اعمال اور ماحول کی طرف واپس لانا ہے۔ ہم سب یہ سمجھتے ہیں اور بار بار اس کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ امت مسلمہ کی موجودہ زبوں حالی اور کسمپرسی کا سب سے بڑا سبب امت کا عمومی طور پر دین سے دور ہونا ہے۔ امت کی اکثریت دین کے اعمال پر نہیں ہے اور مسلم معاشروں کا عمومی ماحول دینی نہیں ہے۔ چنانچہ اس اکثریت کی دین کے اعمال و احکام کی طرف واپسی اور مسلم معاشروں میں دینی ماحول دوبارہ قائم کیے بغیر ہم زوال، ذلت اور مشکلات و مسائل کی اس دلدل سے نجات حاصل نہیں کر سکتے۔ اس دائرہ میں اگرچہ تبلیغی جماعت کے نام سے ہمارا ایک بین الاقوامی نظام موجود اور متحرک ہے اور لاکھوں حضرات امت کو دین کے اعمال پر واپس لانے کے لیے دنیا بھر میں محنت کر رہے ہیں جس کے ثمرات و نتائج بھی حوصلہ افزا ہیں۔ لیکن اس دائرہ کی ضروریات کی مختلف سطحوں اور دائروں کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ اس کام کو کہاں کہاں اور کس کس سطح پر منظم و متحرک کرنے کی ضرورت ہے اور کہاں کہاں اس سلسلہ میں خلا اور کمزوریاں پائی جاتی ہیں۔
ہمارے دینی مدارس اور مساجد بھی علاقائی سطح پر یہی کام کر رہے ہیں اور خوب کر رہے ہیں لیکن جب بات عالمی سطح پر اور امت کی مجموعی ضروریات کے حوالہ سے ہو رہی ہے تو اس کام کی ترجیحات اور ترتیب کو اس کے مطابق منظم کرنا بھی اس کی اہم ترین ضرورت ہے۔
خطابت کی ضرورت کا تیسرا دائرہ دفاع کا ہے کہ اسلام پر ،قرآن کریم پر، جناب نبی اکرمؐ کی ذات گرامی پر، اور شریعت کے احکام و قوانین پر جو اعتراضات ہو رہے ہیں ان کا جواب دینا اور شکوک و شبہات کو علمی و تحقیقی طور پر رد کرنا بھی ہماری دینی ذمہ داری ہے اور خطابت اس کا اہم ذریعہ ہے۔ دفاع کو میں دو حصوں میں تقسیم کروں گا۔ ایک حصہ عالمی سطح پر دوسری اقوام ،مذاہب اور فکری و تہذیبی تحریکات کی طرف سے کیے جانے والے اعتراضات ہیں جن کے ذریعہ قرآن کریم کی حقانیت و صداقت کو چیلنج کیا جا رہا ہے، حضرت محمدؐ کی ذات گرامی کو (نعوذ باللہ) طعن و اعتراض کا ہدف بنایا جا رہا ہے، اور خلافت کے اسلامی نظام اور شرعی احکام و قوانین پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ یہ ایک مستقل میدان کار ہے جو آج کی عالمی فکری و تہذیبی کشمکش کے ماحول میں بہت زیادہ بلکہ میری طالب علمانہ رائے میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ جبکہ دوسرا حصہ امت مسلمہ کے اندر اسلامی احکام و قوانین کے حوالہ سے پائے جانے والے اور پیدا کیے جانے والے شکوک و شبہات ہیں جن کا دائرہ مسلسل پھیلتا جا رہا ہے اور ہماری ہی عدم توجہ کی وجہ سے دن بدن سنگین سے سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے شیخ محترم حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ اسے فکری ارتداد سے تعبیر کرتے تھے۔
ان تین دائروں میں سے آج کی نشست میں اس آخری دائرے کے حوالہ سے کچھ ضروری باتیں عرض کرنا چاہوں گا اور آپ علماء کرام سے، جو خطابت کے محاذ پر موجود ہیں یا اس طرف جانے کا ارادہ رکھتے ہیں، ان امور کی طرف سنجیدہ توجہ کی درخواست کروں گا۔ اسلام، قرآن کریم، جناب نبی اکرمؐ، شرعی احکام و قوانین، اور اسلام کے معاشرتی و سیاسی نظام پر اعتراضات اور ان کے جوابات کا سلسلہ اسلام کے آغاز سے جاری ہے اور ہر دور کے علمائے کرام اس دور کے تقاضوں اور ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے اس محنت میں مصروف چلے آرہے ہیں۔ اس پس منظر میں ہمیں آج کے عصری تقاضوں اور ضروریات کو پیش نظر رکھنا ہو گا تاکہ ہم یہ ذمہ داری اچھے طریقہ سے نباہ سکیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ ہمیں یہ کام چیلنج سمجھ کر قبول کرنا ہو گا اور پوری ذمہ داری اور حوصلہ سے کرنا ہوگا۔ اسلام کے دفاع کے حوالہ سے خطابت اور شاعری ہمارے لیے جناب نبی اکرمؐ کے دور میں بھی چیلنج رہی ہے ، جس کی دو شہادتیں آپ حضرات کو یاد دلانا چاہتا ہوں۔
غزوۂ احزاب کے موقع پر جب قریش اور ان کے اتحادی قبائل مدینہ منورہ کے محاصرہ میں ناکام ہو کر خائب و خاسر واپس لوٹے، جسے قرآن کریم نے ’’لم ینالوا خیرًا‘‘ سے تعبیر کیا ہے، تو جناب نبی اکرمؐ نے مسجد نبویؐ میں صحابہ کرامؓ سے خطاب کرتے ہوئے دو تاریخی اعلان کیے۔ ایک یہ کہ اب قریش کو مدینہ منورہ پر حملہ آور ہونے کی جرأت نہیں ہو گی، اب ان کے ساتھ جنگ کے لیے ہم ہی ان کی طرف جائیں گے۔ اور دوسرا یہ کہ اب قریش اور ان کے حلیف قبائل ہمارے خلاف تلوار اور ہتھیار کی جنگ نہیں لڑیں گے بلکہ زبان کی جنگ لڑیں گے جس میں خطابت اور شاعری ان کا بڑا ہتھیار ہو گی۔ وہ عرب قبائل کو تمہارے خلاف بھڑکائیں گے، تمہارے خلاف نفرت پھیلائیں گے، اور انہیں تمہارے قریب آنے سے روکیں گے۔ میں اسے میڈیاوار سے تعبیر کیا کرتا ہوں کہ اس وقت کا میڈیا یہی تھا۔ اور عرب قبائل نے مسلمانوں کے خلاف یہی میڈیاوار چھیڑ دی تھی جس کا ذکر جناب نبی اکرمؐ نے صحابہ کرامؓ کے سامنے کیا اور ان سے پوچھا کہ کیا وہ اس جنگ کے لیے تیار ہیں؟ روایات میں آتا ہے کہ اس پر تین شاعر صحابی سامنے آئے اور اعلان کیا کہ یہ جنگ ہم لڑیں گے ، (۱) حضرت حسان بن ثابتؓ (۲) حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ اور (۳) حضرت کعب بن مالکؓ (۴) ان کے ساتھ ایک چوتھے بزرگ حضرت قیس بن ثابت بن شماسؓ کو بھی شامل کر لیں جنہوں نے خطابت کے میدان میں وہی خدمات سر انجام دیں جو پہلے تین بزرگوں نے شاعری کے محاذ پر سرانجام دیں، انہیں خطیب الانصار کہا جاتا تھا اور سب سے پہلے ’’خطیب الاسلام‘‘ کا خطاب انہی کو ملا تھا۔
ان شعراء اور خطیب اسلام نے اس محاذ کو کس شان اور ذوق کے ساتھ سنبھالا اس کی دو تین جھلکیاں آپ دوستوں کو یاد دلانا مناسب سمجھتا ہوں۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ حضرت حسان بن ثابتؓ مسجد نبویؐ میں منبر رسولؐ پر کھڑے ہو کر جناب نبی اکرمؐ کی مدح کرتے تھے اور کافروں کی طرف سے کی گئی ہجو کا جواب دیتے تھے جبکہ آپؐ سامنے صحابہ کرامؓ کے ساتھ بیٹھ کر انہیں داد اور دعا دیا کرتے تھے۔
جناب نبی اکرمؐ جب عمرۃ القضاء پر ڈیڑھ ہزار صحابہ کرامؓ کے ہمراہ تشریف لے گئے تو مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے ہوئے آپؐ کی اونٹنی کی مہار حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ کے ہاتھ میں تھی۔ وہ بھی احرام کی حالت میں تھے اور عمرہ کے لیے آئے تھے لیکن ان کی زبان پر تلبیہ کی بجائے رجزیہ اشعار تھے اور وہ جنگی ترانوں کے لہجے میں رجزیہ اشعار پڑھتے ہوئے حالت احرام میں عمرہ کے لیے مکہ مکرمہ میں داخل ہو رہے تھے۔ حضرت عمر بن الخطابؓ نے انہیں ایسا کرتے دیکھ کر اشارے سے بیت اللہ کی طرف توجہ دلائی اور رجزیہ اشعار پڑھنے سے روکا تو جناب نبی اکرمؐ کی نظر پڑ گئی۔ آپؐ نے ’’دعہ یا عمر‘‘ کہہ کر حضرت عمرؓ کو منع کرنے سے روک دیا اور فرمایا کہ اسے پڑھنے دو، اس کے اشعار کافروں کے سینوں میں تمہارے تیروں سے زیادہ نشانے پر لگ رہے ہیں۔
بنو تمیم عرب کا ایک مغرور قبیلہ تھا جنہیں اپنی خطابت، شاعری اور فصاحت و بلاغت پر بہت ناز تھا، ان کا وفد مدینہ منورہ آیا تو جناب نبی اکرمؐ سے ملاقات کر کے خطابت و شاعری میں مقابلہ کا چیلنج دے دیا۔ حضورؐ نے چیلنج قبول کیا اور مقابلہ کی باقاعدہ مجلس منعقد کی جس میں بنو تمیم کے شاعر و خطیب نے اپنی فصاحت، شاعری اور خطابت کے جوہر دکھائے جس کے جواب میں حضرت حسان بن ثابتؓ اور حضرت ثابت بن قیس بن شماسؓ نے شاعری اور خطاب کے ذریعہ اسلام کے محاسن اور جناب نبی اکرمؐ کے خصائل و محامد کا تذکرہ کیا۔ بنو تمیم کے سردار حضرت اقرع بن حابسؓ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ مسلمانوں کا شاعر اور خطیب دونوں ہمارے شاعر اور خطیب سے برتر ہیں اور پھر بنو تمیم نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کر دیا۔
میں عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ آج بھی یہ میڈیا وار ہمارے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے اور ہمیں اسے چیلنج سمجھ کر ہی اس کا مقابلہ کرنا چاہیے۔
دوسری بات آپ حضرات سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ خطابت و فصاحت کے معیار دور کے بدلنے کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ ہم درس نظامی میں حریری اور ہمدانیؒ کے مقامات درساً پڑھتے ہیں اور ان کے کلام اور خطبات سے محظوظ ہوتے ہیں، یہ ماضی کے ادبی ماحول سے شناسائی اور قدیم لٹریچر تک رسائی کے لیے تو بہت مفید ہیں لیکن اگر آج آپ اس اسلوب میں خطبہ دیں گے تو آپ کے سامنے بیٹھے ہوئے سامعین یہ سوچ کر آنکھیں اور کان بند کر لیں گے کہ مولوی صاحب شاید کوئی وظیفہ پڑھ رہے ہیں۔
آج سے پون صدی پہلے خطابت کا معیار مولانا ابو الکلام آزاد ؒ تھے اور ان کا اسلوب خطابت کی دنیا کا حکمران تھا۔ اس دور میں نادر الفاظ اور مشکل تراکیب کے ساتھ بلند آہنگ لہجہ اور بلند پایہ محاورے خطابت کے ضروری عناصر شمار ہوتے تھے۔ آج وہ دور نہیں ہے آج کے دور میں آپ جتنے سادہ الفاظ، سہل تراکیب اور عام فہم اسلوب میں بات کر سکیں اتنے ہی آپ کامیاب خطیب سمجھے جائیں گے۔ ہمارے ایک مخدوم و محترم بزرگ حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ خطابت کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ سامنے بیٹھے ہوئے لوگ اگر تمہاری بات سمجھ رہے ہیں تو تم خطیب ہو ورنہ کچھ بھی نہیں ہو۔
اسی طرح اب سے پون صدی قبل خطابت پر امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی حکمرانی تھی اور ان کی خطابت کا نقطۂ عروج یہ تھا کہ وہ ہزاروں کے اجتماع میں عشاء کے بعد خطاب کے لیے بیٹھتے تو صبح کی اذانیں سن کر لوگوں کو احساس ہوتا تھا کہ رات بیت چکی ہے اور امیر شریعت کی خطابت کے سحر نے انہیں پوری رات جگائے رکھا ہے۔ آج خطابت کا کمال یہ نہیں ہے، آج اگر آپ مختصر وقت میں مکمل اور جامع بات کہنے اور سمجھا دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو آپ کامیاب خطیب ہیں ورنہ لوگوں کے پاس اب اتنا وقت نہیں رہا اور نہ ہی انہیں اتنی دلچسپی ہے کہ وہ زیادہ دیر بیٹھے آپ کا خطاب سنتے رہیں۔
تیسری بات اس حوالہ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہماری زبان اور خطابت میں ابھی تک مناظرے اور فتوے کا اسلوب غالب ہے۔ ہم دار الافتاء، مسند تدریس اور خطابت کے منبر میں کوئی فرق نہیں کر پا رہے۔ ہمارے ہاں عمومی طور پر یہ ذوق پایا جاتا ہے کہ جس انداز میں ہم مسند تدریس پر گفتگو کرتے ہیں، عوامی خطابت اور درس میں بھی کم و بیش ہمارا وہی انداز ہوتا ہے۔ اور جو اسلوب کسی شرعی سوال کا جواب دیتے ہوئے ہم فتویٰ نویسی میں اختیار کرتے ہیں، اسی اسلوب میں ہم عام مسلمانوں کو خطبہ اور درس میں مسائل سمجھانے کے درپے ہو جاتے ہیں۔ مجھے فتویٰ اور تدریس میں سے کسی کی اہمیت سے انکار نہیں ہے لیکن خطابت کا دائرہ بہرحال ان سے مختلف ہے اور اس کی ضروریات الگ ہیں کیونکہ خطابت میں کسی پر حکم لگانے کی بجائے اسے حکم سمجھانے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔
چوتھی بات اس ضمن میں آپ دوستوں سے یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ آج کی دنیا معلومات کی دنیا کہلاتی ہے اور معلومات کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ دینی حوالہ سے اب سے نصف صدی قبل لوگوں کے پاس معلومات کا ذریعہ صرف ہم (علماء و خطباء) ہوتے تھے، ہم کسی دینی مسئلہ میں انہیں جو معلومات مہیا کرتے تھے وہی ان کا مبلغ علم ہوتا تھا اور اسی پر انحصار کر کے وہ ہماری رائے اور فتوؤں کو آنکھیں بند کر کے قبول کر لیتے تھے۔ آج یہ صورت حال نہیں ہے کیونکہ اخبارات، جرائد، کتابوں کے اردو تراجم اور سب سے بڑھ کر انٹرنیٹ کی صورت میں لوگوں کے پاس معلومات کے متبادل ذرائع موجود ہیں۔ وہ وہاں سے معلومات حاصل کرتے ہیں، ہماری مہیا کردہ معلومات کے ساتھ ان کا تقابل کرتے ہیں اور اس تقابل میں جو بات ان کے ذہن کے قریب ہو وہ اسے قبول کر لیتے ہیں۔ یہ صورت حال آئیڈیل نہیں ہے بلکہ میں علم کے بغیر معلومات کی وسعت کو فتنہ کا باعث سمجھتا ہوں۔ لیکن ہم اس صورت حال کو تبدیل نہیں کر سکتے، یہ اسی طرح جاری رہے گی اور اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ عام پڑھے لکھے لوگ خصوصاً نوجوان حضرات جب دوسرے ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کے مقابلہ میں ہماری مہیا کردہ معلومات کو کمزور پاتے ہیں تو ان کے ذہنوں میں ہماری ثقاہت مشکوک ہو جاتی ہے جو صرف ہمارا نہیں بلکہ دین کا بھی نقصان ہے۔
ہمیں اس تبدیلی پر نظر رکھنا ہو گی اور اس مشکل کا حل اس کے سوا کوئی نہیں ہے کہ ہم اپنے خطبوں میں لوگوں کو مستند مواد فراہم کریں۔ ہمارے سامعین اب ہم سے لفاظی کی بجائے مواد اور معلومات کا تقاضہ کرتے ہیں اور ان کے ذہنوں میں اس مواد کے لیے حوالہ اور استثنا کا سوال بھی ضرور موجود ہوتا ہے۔ اس لیے ایک کامیاب خطیب کو زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرنا چاہیے اور مستند معلومات کو اس انداز سے پیش کرنے کی مشق کرنی چاہیے کہ اس کے سامعین اس سے وہی نتائج اخذ کریں جو نتائج وہ ان کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہے۔ یہ ایک مستقل فن ہے جو خطابت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس حوالہ سے دین کی خدمت کرنے اور اپنی ذمہ داریاں صحیح طریقہ سے سرانجام دینے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔