دینی مدارس کے بارے میں پانچ سوالات کے جوابات

   
تاریخ : 
۱۳ تا ۱۵ اکتوبر ۲۰۰۲ء

پچھلے دنوں پاکستان کے مختلف شہروں میں دینی مدارس کے سالانہ اجتماعات سے خطاب کا موقع ملا اور عام طور پر دینی مدارس کے جداگانہ تشخص اور کردار کے حوالے سے عام ذہنوں میں پائے جانے والے شکوک و شبہات اور سوالات کا جائزہ لیا گیا۔ ان میں جامعہ عبد اللہ بن مسعودؓ خانپور، جامعہ مفتاح العلوم سرگودھا، دارالعلوم ربانیہ ٹوبہ ٹیک سنگھ، مدرسہ اسلامیہ محمودیہ سرگودھا، جامعہ رشیدیہ ساہیوال، جامعہ عثمانیہ شورکوٹ، جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن کراچی، جامعہ مدینۃ العلم فیصل آباد، جامعہ فاروقیہ شیخوپورہ اور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ ان اجتماعات میں ہونے والی گفتگو کا خلاصہ قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔

دینی مدارس کے بارے میں عام طور پر چار پانچ سوالات ذہنوں میں پائے جاتے ہیں اور ورلڈ میڈیا کے منفی پروپیگنڈا کے ساتھ ساتھ قومی سطح پر بھی ان کے بارے میں شکوک و شبہات اور تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان سوالات اور شبہات کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لے لیا جائے۔ وہ سوالات یہ ہیں:

  1. دینی مدارس اپنے نصاب میں جدید علوم اور آج کی ضروریات مثلاً سائنس، ریاضی، انگلش زبان، اور کمپیوٹر وغیرہ کو شامل کیوں نہیں کر رہے اور انہیں اس سلسلہ میں کیا رکاوٹ اور حجاب ہے؟
  2. جب ملک کے ہزاروں تعلیمی ادارے حکومتی انتظام کے تحت چل رہے ہیں اور حکومت کے مختلف شعبے ان کا کامیابی کے ساتھ انتظام چلا رہے ہیں تو دینی مدارس کو سرکاری کنٹرول میں آنے سے انکار کیوں ہے اور وہ اپنا جداگانہ نظام اور تشخص قائم رکھنے پر کیوں مصر ہیں؟
  3. اگر ورلڈ اسٹیبلشمنٹ یا ریاستی ادارے دینی مدارس کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو دینی تعلیم کے جس جداگانہ تشخص کی بات کی جاتی ہے اس کا مستقبل کیا ہوگا اور دینی حلقے اپنا روایتی کردار کس طرح برقرار رکھ سکیں گے؟
  4. دینی مدارس میں دی جانے والی تعلیم کے بارے میں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس تعلیم کے حصول کے بعد ملازمت کی کوئی گارنٹی نہیں ہے اور روزگار کے تحفظ کی کوئی صورت نہیں ہے، اس کا حل کیا ہے؟
  5. دینی مدارس اپنے خلاف ملکی اور عالمی سطح پر پائی جانے والی مہم کو موجودہ عالمی صورتحال میں کس نظر سے دیکھتے ہیں اور موجودہ عالمی تہذیبی کشمکش میں ان کا موقف کیا ہے؟

جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے کہ دینی مدارس اپنے نصاب میں انگلش زبان، سائنس، ریاضی اور دیگر جدید ضروری علوم و فنون کو شامل کرنے سے کیوں انکاری ہیں؟ اس کے جواب میں تین گزارشات پیش خدمت ہیں۔

پہلی گزارش یہ ہے کہ دینی مدارس کو جائز حد تک ان علوم و فنون کو اپنے نصاب میں شامل کرنے سے کوئی انکار نہیں ہے۔ اب تک مسئلہ زیادہ تر وسائل کا رہا ہے کہ دینی مدارس کے وسائل محدود ہوتے ہیں اور انہیں تھوڑے وسائل کے ساتھ اپنا کام چلانا پڑتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود دینی مدارس نے انگریزی، ریاضی، سائنس اور کمپیوٹر ٹریننگ وغیرہ کے مضامین کو اپنے نصاب میں بتدریج شامل کرنے کا سلسلہ کچھ عرصہ سے شروع کر رکھا ہے اور دینی مدارس کے تمام وفاق میٹرک کی سطح تک کے نصاب میں یہ مضامین شامل کر چکے ہیں۔

دوسری گزارش یہ ہے کہ ان مضامین کو نصاب میں شامل کرنے کی جائز حد دینی مدارس کے ارباب حل و عقد کے نزدیک میٹرک ہے، اس کے بعد کے نصاب میں ان مضامین کی شمولیت ضروری نہیں بلکہ بعض حوالوں سے نقصان دہ ہے، اس لیے میٹرک کے بعد کے درجات میں ان مضامین کو شامل نصاب کرنے کے لیے دینی مدارس تیار نہیں ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کے بعد عمومی تعلیم کے دائرے بھی تقسیم ہو جاتے ہیں اور ہر دائرہ میں اسی شعبہ کی تعلیم ہوتی ہے اس میں دوسرے شعبوں کو شامل نہیں کیا جاتا۔ مثلاً لاء کالج میں صرف قانون کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں اور اس میں سائنس پڑھانے کا مطالبہ نہیں کیا جاتا، انجینئرنگ میں صرف اس سے متعلقہ مضامین کی تعلیم ہوتی ہے اور اس میں قانون پڑھانے کا کوئی تقاضا نہیں ہوتا، اور میڈیکل کالج میں صرف طب سے متعلقہ مضامین شامل نصاب ہوتے ہیں اور اس میں انجینئرنگ کے مضامین کی تعلیم کو ضروری خیال نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح دینی تعلیم بھی ایک مستقل شعبہ ہے اور بنیادی تعلیم کی حد میٹرک ہو یا ایف اے، اس کے بعد دینی علوم کے نصاب میں دیگر شعبوں کے مضامین شامل کرنے کا مطالبہ ہمارے نزدیک ایسا ہی ہے جیسے لاء کالج میں سائنس پڑھانے کا مطالبہ کیا جائے یا میڈیکل کالج میں قانون پڑھانے کا تقاضا کیا جائے۔

اس سوال کے جواب میں تیسری گزارش ذرا تلخ سی ہے لیکن اس موقع پر ضروری معلوم ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ ہمارے محترم گورنر پنجاب جنرل (ر) خالد مقبول گزشتہ دنوں جامعہ اشرفیہ لاہور میں تشریف لے گئے اور اساتذہ و طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی میں دوسری قوموں سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں جس کی وجہ سے ہم معاصر اقوام کے سامنے ذلیل ہو رہے ہیں اس لیے دینی مدارس کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ اس کے جواب میں راقم الحروف نے ایک مضمون میں تفصیل کے ساتھ گزارش کی کہ ان کے اس ارشاد سے مجھے سو فیصد اتفاق ہے کہ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی میں معاصر قوموں سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور اسی کی مسلسل مار کھا رہے ہیں لیکن اس کا ذمہ دار دینی مدارس کو قرار دینے اور ان سے سائنس اور ٹیکنالوجی کی طرف توجہ دینے کے تقاضے سے مجھے اتفاق نہیں ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی میں معاصر قوتوں سے بہت زیادہ پیچھے رہ گئے ہیں اور اس کا احساس ان لوگوں کو زیادہ ہے جو مسلمانوں کے عقیدہ و ثقافت کے تحفظ کی جنگ میں مغرب کے مقابلہ میں عملی طو رپر صف آرا ہیں۔ اور صرف ایک مثال سے اس صورتحال کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ آج سے ایک صدی قبل اللہ تعالیٰ نے ہمارے زوال و ادبار کے دور میں ہمیں خلیج عرب میں تیل کے چشموں کی عظیم دولت سے نوازا تھا مگر ہماری نا اہلی کی صورتحال یہ تھی کہ:

  • ہم زمین کھود کر تیل نکالنے کی صلاحیت سے محروم تھے،
  • تیل نکال کر اسے ریفائن کرنے کی اہلیت ہم میں نہیں تھی،
  • اور ریفائن کرنے کے بعد اسے دنیا میں بیچنے یعنی مارکیٹنگ کی صلاحیت سے بھی ہم بے بہرہ تھے۔

چنانچہ ہم نے اپنی نا اہلی کو دور کرنے اور ان چیزوں کی صلاحیت حاصل کرنے کے بجائے اس کام کے لیے مغربی ماہرین کو بلایا، ماہرین آئے، ان کے بعد مغرب کی کمپنیاں آئیں، پھر دولت سمیٹنے کے لیے مغرب کے بینک آگئے، ان کے پیچھے کنٹرول حاصل کرنے کے لیے سفارت کاروں اور سیاست کاروں نے چکر لگانا شروع کیے، اور آخر میں مغربی ممالک کی فوجیں آگئیں جو تیل کے چشموں کا گھیرا ڈالے بیٹھی ہیں۔ زمین ہماری ہے، چشمے ہمارے ہیں اور تیل ہمارا ہے لیکن کنٹرول مغربی کمپنیوں کا ہے اور تیل سے حاصل ہونے والی دولت مغربی بینکوں میں ہے جو ہماری نا اہلی اور سائنس اور ٹیکنالوجی کی طرف توجہ نہ دینے کا نتیجہ ہے۔ اور ستم بالائے ستم یہ کہ ہم آج بھی پون صدی گزر جانے کے باوجود ان تینوں صلاحیتوں سے کورے ہیں جبکہ ابھی چند روز قبل امریکی وزارت دفاع کی پینٹاگون میں دی جانے والی ایک بریفنگ میں واضح طور پر کہہ دیا گیا ہے کہ اگر سعودی عرب نے امریکی ہدایات و احکام پر پوری طرح عمل نہ کیا تو تیل کے چشموں پر براہ راست قبضہ کیا جا سکتا ہے اور مغربی ملکوں میں سعودی عرب کے اثاثے ضبط اور مغربی ملکوں میں اس کے اکاؤنٹس منجمد کیے جا سکتے ہیں۔

اس صورتحال کا دکھ اور تکلیف ہم دینی حلقوں سے زیادہ کس کو ہو سکتا ہے لیکن اس بات کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں مسلمانوں کے دوسری قوموں سے پیچھے رہ جانے کی ذمہ داری کس پر ہے اور اس میں دینی مدارس کا قصور کیا ہے؟ ۱۸۵۷ء میں دہلی پر تاج برطانیہ کی حکومت قائم ہو جانے کے بعد جب متحدہ ہندوستان میں ہمارے صدیوں سے چلے آنے والے نظام تعلیم کو کلیتاً ختم کر دیا گیا اور تمام تر تعلیمی اور تہذیبی نظام کو تلپٹ کر کے رکھ دیا گیا تو اس وقت تعلیمی محاذ پر دو طبقے سامنے آئے:

  • ایک علماء کرام کا گروہ تھا جس نے مسجد و مدرسہ کو آباد رکھنے، قرآن و سنت کی تعلیم کا سلسلہ باقی رکھنے، مسلمانوں کے عقیدہ و اعمال کے تحفظ اور اسلامی تہذیب و ثقافت کا تسلسل جاری رکھنے کی ذمہ داری قبول کی اور اس کے لیے کسی قسم کے ریاستی وسائل اور حکومتی تعاون سے بے نیازی اختیار کرتے ہوئے عام مسلمانوں کے رضاکارانہ تعاون سے دینی مدارس کے آزادانہ نظام کی بنیاد رکھی۔
  • جبکہ دوسری طرف انگریزی زبان اور سائنس و ٹیکنالوجی جیسے جدید علوم کی ترویج و تعلیم کے لیے ایک دوسرا طبقہ سامنے آیا جس نے سائنس و ٹیکنالوجی اور دیگر علوم میں مسلمانوں کو دوسری اقوام کے برابر لانے کی ذمہ داری قبول کی اور ایک مستقل نظام تعلیم کی بنیاد رکھی۔ اگرچہ اس نظام کا آغاز بھی رضاکارانہ چندہ سے ہوا تھا لیکن اسے بتدریج ریاستی وسائل اور حکومتی تعاون حاصل ہوتا چلا گیا اور بہت جلد ریاست و حکومت نے اس نظام کی تمام تر ذمہ داری اور اخراجات اپنے کھاتے میں ڈال لیے۔

دینی مدارس نے اپنا نظام عام مسلمانوں کے چندہ سے چلایا اور کسی حکومت سے نہ مالی امداد طلب کی اور نہ ہی کسی حکومت کی مالی مدد اس درجہ میں قبول کی کہ اس پر مدارس کے نظام کا انحصار ہو جائے۔ علماء کرام نے اپنی عزت نفس کی پروا نہ کرتے ہوئے زکوٰۃ مانگی، صدقات مانگے، خیرات مانگی، عطیات مانگے، حتیٰ کہ ایک ایک دروازے پر دستک دے کر روٹیاں مانگیں۔ میں نے خود اپنے طالب علمی کے دور میں گوجرانوالہ کے مختلف محلوں میں گھروں سے روٹیاں مانگی ہیں، ہم چند طالب علم گھروں کے دروازے کھٹکھٹا کر روٹیاں مانگ کر لاتے تھے اور مدرسہ نصرۃ العلوم کے سب طلبہ وہ روٹیاں کھا کر تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ برصغیر کے طول و عرض کے اکثر مدارس میں ایک عرصہ تک جاری رہا اور اس طریقہ سے دینی مدارس نے نہ صرف عام مسلمانوں تک قرآن و حدیث کی تعلیم کو پہنچایا بلکہ ان کی مسجدیں اور مدرسوں کو آباد رکھا، ملک بھر کی لاکھوں مساجد میں نماز پڑھانے والے امام مہیا کیے، قرآن کریم کی تعلیم دینے والے اور رمضان المبارک میں تراویح میں قرآن کریم سنانے والے لاکھوں حافظ اور قاری فراہم کیے، دینی علوم کی تعلیم دینے والے لاکھوں مدرسین تیار کیے، مسائل بتانے والے ہزاروں مفتی پیدا کیے، خطبات دینے والے خطیب، مقرر اور واعظ تیار کیے، کتابیں لکھنے والے مصنفین دیے، دنیا بھر میں دین اسلام کی دعوت دینے والے لاکھوں مبلغین بھیجے اور اس سب سے بڑھ کر میدان جنگ میں کفر و ظلم کے خلاف ہتھیار اٹھا کر جنگ کرنے والے ہزاروں مجاہدین بھی ان مدارس نے فراہم کیے۔

اس لیے اپنی ذمہ داری اور مشن کے حوالے سے دینی مدارس پر کوتاہی کا کوئی الزام عائد نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ملک کے کسی حصے میں نماز پڑھانے کے لیے امام میسر نہیں ہے، جمعہ پڑھانے کے لیے خطیب نہیں مل رہا، قرآن کریم پڑھانے والا قاری اور رمضان المبارک میں قرآن کریم سنانے کے لیے حافظ موجود نہیں ہے، دینی علوم کی تعلیم و تدریس کے لیے مدرسین کی کمی ہے، مسئلہ بتانے والے مفتی حضرات کا فقدان ہے، یا دین کی دعوت دینے والے مبلغ کی آواز نہیں پہنچ رہی تو اس کے لیے دینی مدارس کو مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے اور ان کی کوتاہی شمار کیا جا سکتا ہے۔ لیکن سائنس اور ٹیکنالوجی میں دوسری قوموں سے پیچھے رہ جانے کی ذمہ داری دینی مدارس پر ڈالنا انصاف کی بات نہیں ہے، اس کے بارے میں ان لوگوں سے دریافت کیجئے جنہوں نے مسلمانوں کو جدید علوم سے بہرہ ور کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی اور سائنس و ٹیکنالوجی میں مسلمانوں کو دوسری قوموں کے برابر لانے کا عہد کیا تھا۔ جبکہ اس کے لیے کم از کم ایک صدی سے انہیں ریاستی وسائل میسر چلے آرہے ہیں اور قومی بجٹ کا ایک بڑا حصہ ان کے لیے وقف ہوتا ہے، ان سے پوچھیے کہ وہ قوم کو سائنس اور ٹیکنالوجی میں دوسری قوموں کے برابر لانے میں کیوں کامیاب نہیں ہوئے؟ بلکہ میری گزارش ہے کہ اس مقصد کے لیے قومی تعلیمی کمیشن قائم کیا جائے جو اس بات کا جائزہ لے کہ ریاستی نظام تعلیم ملی اور قومی مقاصد کے حصول میں کیوں ناکام رہا ہے، اس کی ذمہ داری کا تعین کیا جائے اور اس عظیم ناکامی کی تلافی کے لیے اقدامات و تجاویز طے کی جائیں۔

چنانچہ میں نے گورنر پنجاب سے اپنے مضمون میں گزارش کی کہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں قوم کے پیچھے رہ جانے کا رونا ضرور روئیں اور ان علوم کی طرف توجہ کی تلقین بھی ضرور کریں لیکن اس شکوہ اور تلقین کی جگہ جامعہ اشرفیہ نہیں بلکہ پنجاب یونیورسٹی ہے، وہاں کھڑے ہو کر یہ گلے شکوے دہرائیں اور اپنی ناکامی کی سیاہی غریب مولوی کے چہرے پر ملنے کی کوشش نہ کریں۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ جب ملک کے دیگر ہزاروں تعلیمی ادارے حکومتی کنٹرول میں چل رہے ہیں تو دینی مدارس کو سرکاری نظام و کنٹرول کے دائرہ میں آنے سے کیوں انکار ہے؟ اس کے جواب میں دو باتیں عرض کی جا رہی ہیں، ایک تو اصولی بات ہے اور دوسری واقعاتی۔

اصولی بات یہ ہے کہ تعلیم صرف ایک پیشہ وارانہ کام نہیں بلکہ مشن ہے جس کے کچھ اہداف ہوتے ہیں اور جس کا کوئی مقصد ہوتا ہے۔ دونوں کے درمیان مشرق اور مغرب جیسی دوری ہے اور دونوں کا ہدف اور ٹارگٹ ایک دوسرے سے الگ بلکہ ایک دوسرے سے متضاد ہے۔ اس لیے دینی مدارس کے نظام کو عملاً سیکولر ریاستی تعلیمی نظام کے تابع کرنے کا مطلب اس ہدف و مشن اور مقصد سے دستبرداری ہوگا جس کے لیے دینی مدارس کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ اگر ریاستی نظام تعلیم اپنا قبلہ درست کرے جو ایک نظریاتی اسلامی ریاست اور حکومت قائم ہونے کے بعد ہی ممکن ہے تو ایک خالص اسلامی نظریاتی ریاست و حکومت کے نظام کی بالادستی قبول کرنے سے دینی مدارس کو قطعی طور پر کوئی انکار نہیں ہو سکتا۔ لیکن سیکولر اہداف اور پالیسیاں رکھنے والے ریاستی نظام کے کنٹرول کو قبول کرنا دینی مدارس کے لیے اپنے بنیادی مشن اور ہدف سے محروم ہو جانا ہوگا اس لیے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

دوسری بات واقعاتی ہے جو اس اصولی گزارش کی تصدیق کرتی ہے کہ بعض دینی مدارس کو سرکاری نظام کے تحت چلانے کا تجربہ ہم اس سے قبل کر چکے ہیں جو ناکام ثابت ہوا ہے۔ صدر ایوب خان مرحوم کے دور میں محکمہ اوقاف قائم ہوا تھا جس نے ملک بھر میں ہزاروں مساجد، مزارات اور ان کے ساتھ بیسیوں مدارس کو تحویل میں لے لیا تھا اور یہ کہا تھا کہ ان کا نظام صحیح نہیں ہے اور ان کی مالیات میں گڑبڑ ہوتی ہے اس لیے انہیں سرکاری تحویل میں لے لیا گیا ہے تاکہ ان کے نظام کو زیادہ بہتر طریقہ سے چلایا جائے۔ لیکن عملاً یہ ہوا کہ نظام پہلے سے بھی خراب ہوگیا جس کا مشاہدہ محکمہ اوقاف کے زیر انتظام مساجد اور عام مسلمانوں کی آزادانہ کمیٹیوں کے تحت قائم مساجد کے نظاموں کا کسی بھی شعبہ میں تقابل کر کے کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ محکمہ اوقاف نے کتنے ہی دینی مدارس بھی اس وقت تحویل میں لیے جن کا اب وجود تک باقی نہیں رہا اور اس کی ایک واضح مثال اوکاڑہ کے گول چوک کی جامع مسجد میں قائم جامعہ عثمانیہ کی شکل میں موجود ہے جس کا مشاہدہ کوئی بھی شخص کسی بھی وقت جا کر کر سکتا ہے۔ محکمہ اوقاف کی تحویل میں جانے سے قبل یہ مدرسہ ملک کے اہم مدارس میں شمار ہوتا تھا اور اس میں سینکڑوں طلبہ ہاسٹل میں رہتے تھے مگر اب وہاں کوئی درسگاہ نہیں ہے جبکہ مدرسہ کے کمرے محکمہ اوقاف نے مختلف اداروں اور لوگوں کو کرائے پر دے رکھے ہیں۔

صدر محمد ایوب خان مرحوم ہی کے دور میں ریاست بہاولپور باقاعدہ طور پر پاکستان میں ضم ہوئی تو وہاں کا سب سے بڑا دینی مدرسہ جامعہ عباسیہ تھا جسے محکمہ تعلیم نے اپنی تحویل میں لیا اور اسے اسلامی یونیورسٹی کا درجہ دیا۔ دینی نصاب تعلیم اور سرکاری نصاب کو ملا کر ایک مشترکہ نصاب تعلیم مرتب کیا گیا، علامہ شمس الحق افغانی، مولانا سید احمد سعید کاظمی، مولانا عبد الرشید نعمانی جیسے بہت سے علمائے کرام کو مختلف شہروں سے اٹھا کر بہاولپور میں بٹھایا گیا اور ایک ماڈل دارالعلوم یا ماڈل اسلامی یونیورسٹی کا اعلان کیا گیا۔ لیکن آج اس کی حالت یہ ہے کہ دینی نصاب تعلیم کے مضامین اس کے نصاب سے بتدریج خارج ہو چکے ہیں اور اس کا نصاب وہی ہے جو ملک کی دیگر سرکاری یونیورسٹیوں کا ہے جبکہ اس کے معیار کا یہ حال ہے کہ جس طالب علم کو ملک کی کسی اور یونیورسٹی میں داخلہ نہیں ملتا اس کے لیے اسلامی یونیورسٹی بہاولپور کے دروازے کھلے رہتے ہیں۔

محکمہ تعلیم اور محکمہ اوقاف دونوں کے ہاتھوں مختلف دینی مدارس کا یہ حشر دیکھنے کے بعد بھی اگر دینی مدارس سے یہ توقع رکھی جا رہی ہے کہ وہ سرکاری کنٹرول کو قبول کر لیں گے اور محکمہ تعلیم یا محکمہ اوقاف کے نظام میں شامل ہونے کے بعد ان کی حالت پہلے سے بہتر ہوگی تو اسے سادگی اور بھول پن کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے؟ اس لیے بڑے ادب سے گزارش ہے کہ ہم ماضی قریب میں ماڈل دارالعلوم اور سرکاری نظام کا تلخ تجربہ کر چکے ہیں اور اس تجربہ کو دہرانے کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ مومن کا وصف یہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔

تیسرا سوال یہ ہے کہ جیسا کہ ورلڈ اسٹیبلشمنٹ اس بات پر تلی بیٹھی ہے اور ریاستی ادارے بھی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ دینی مدارس کو اجتماعی دھارے میں شامل کرنے کے سنہرے عنوان اور انہیں جدید وسائل اور سہولتیں فراہم کرنے کی خوشنما ترغیب کے ساتھ سرکاری کنٹرول میں لایا جائے، تو اگر خدانخواستہ یہ عناصر اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر آزادانہ دینی تعلیم کا مستقبل کیا ہوگا؟

اس کے جواب میں گزارش ہے کہ ایسا ہونا ممکن نہیں کیونکہ طاقت کا استعمال اور چیز ہے اور فکر و عقیدہ کو تبدیل کرنا اس سے بالکل مختلف بات ہے۔ آج کی عالمی اسٹیبلشمنٹ اور اس کا لیڈر امریکہ طاقت اور جبر و تشدد کے ذریعے جسموں کو ختم کر سکتا ہے، وہ ڈیزی کٹر کی بارش کر سکتا ہے، بلڈنگوں اور آبادیوں کو تہس نہس کر سکتا ہے لیکن کسی کے ذہن و عقیدہ کو تبدیل کرنا اس کے لیے ممکن نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں امریکہ کے وزیرخارجہ کولن پاول پاکستان تشریف لائے، آنے سے قبل ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ وہ پاکستانی معاشرے کو سیکولر بنانے کے ایجنڈے پر بھی بات کریں گے۔ ایک مضمون میں راقم الحروف نے ان سے گزارش کی کہ وہ اس پر اپنا وقت ضائع نہ کریں، ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ ان سے قبل اب سے دو صدیاں پہلے برطانیہ بھی اسی ایجنڈے پر جنوبی ایشیا میں آیا تھا، اس نے ہزاروں دینی مدارس بند کر دیے تھے، ان کی جائیدادیں ضبط کر لی تھیں، بلڈنگیں قبضہ میں لے لی تھیں اور بہت سی عمارات بلڈوز کر دی تھیں، ہزاروں علماء کرام کو شہید کر دیا تھا اور ہزاروں کو جیل میں ڈال دیا تھا۔ ۱۷۵۷ء میں سراج الدولہ کی شہادت کے بعد سے ۱۹۴۷ء تک ایک سو نوے برس برطانیہ یہاں اسی ایجنڈے پر کام کرتا رہا لیکن آج نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ مدارس کی تعداد پہلے سے زیادہ ہے۔ مولوی، حافظ، قاری، خطیب، مدرس، مبلغ اور مجاہد اپنی تعداد اور کارکردگی دونوں حوالوں سے پہلے سے بہتر پوزیشن میں ہیں۔ اسی لیے کسی بھی طاقتور کو یہ غلط فہمی ذہن سے نکال دینی چاہیے کہ وہ طاقت اور جبر کے ذریعے دینی تعلیم کو ختم کر سکتا ہے اور بلڈنگوں پر قبضہ کر کے، علماء کرام کو گرفتار کر کے یا ان کے ایک حصے کو ملازمتوں اور سہولتوں کے نام پر جال میں پھانس کر دینی تعلیم اور اس کے آزادانہ کردار کو ختم کیا جا سکتا ہے۔

پھر یہ بات بطور خاص قابل توجہ ہے کہ دینی مدرسہ بلڈنگ یا زمین کا نام نہیں ہے بلکہ مولوی اور سوسائٹی کے تعلق کا نام ہے۔ یہ تعلق اگر قائم ہے تو دینی مدرسہ بھی قائم ہے، اسے دنیا کی کوئی طاقت ختم نہیں کر سکتی۔ اس پر میں ایک مثال دیا کرتا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں مولوی اور سوسائٹی کا تعلق قائم ہے، یہ تعلق لین کا بھی ہے اور دین کا بھی ہے۔ دین کا تعلق یہ ہے کہ ہمارے معاشرہ میں کسی شخص کو اگر نماز پڑھتے ہوئے کسی بات پر شک ہوگیا ہے کہ نماز خراب تو نہیں ہوگئی، تو اس کا یہ شک مولوی نے ہی دور کرنا ہے۔ یہ شک عام مسلمان کو ہوا ہے یا پارلیمنٹ کے ممبر کو ہوا ہے، ہائی کورٹ کے جسٹس کو ہوا ہے یا پولیس کے آئی جی کو ہوا ہے، اسٹیٹ بینک کے گورنر کو ہوا ہے یا معاشرے میں کسی طبقہ کے کسی بھی شخص کو نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج یا کسی دینی معاملہ میں اگر شک ہوگیا ہے تو اس کا شک بہرحال کسی مولوی صاحب سے پوچھ کر ہی دور ہوگا، اس کے سوا اس کی تسلی کی اور کوئی صورت نہیں ۔ حتیٰ کہ اگر کوئی صاحب سارا دن دفتر یا دکان میں کرسی پر بیٹھ کر مولوی کو برا بھلا کہتے رہے ہیں، مولوی کے عیوب اور اس کمزوریاں بیان کرتے رہے ہیں، اور غریب مولوی کو بات بات پر کوستے رہے ہیں مگر شام کو گھر گئے تو کسی بات پر اہلیہ محترمہ سے توتکار ہوگئی، غصہ میں منہ سے کوئی الٹی سیدھی بات نکل گئی اور شک میں پڑ گئے کہ اب ہم میاں بیوی رہے یا نہیں، تو ان صاحب کا یہ شک بھی کسی مولوی نے ہی دور کرنا ہے، وہ اس شک سے نجات پانے کے لیے کسی تھانے میں نہیں جائیں گے اور نہ ہی پارلیمنٹ یا ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے بلکہ اسی مولوی کے حجرے میں جائیں گے جسے سارا دن بیٹھے کوستے رہے ہیں۔

یہ تو مولوی کا سوسائٹی کے ساتھ دین کا تعلق ہے اور یہ وہ چیز ہے جو مولوی معاشرے کو دیتا ہے۔ دوسرا تعلق لین کا ہے کہ سوسائٹی مولوی کو کیا دیتی ہے؟ کسی گھر میں کوئی مصیبت یا پریشانی آگئی اور صاحب خانہ نے یہ حدیث مبارکہ سن رکھی ہے کہ صدقہ دینے سے بلائیں ٹلتی ہیں اور پریشانیاں دور ہوتی ہیں، ان صاحب نے صدقہ دینے کا ارادہ کیا اور شہر کی بکرا منڈی میں گئے، وہاں سے انہوں نے صدقہ دینے کے لیے بکرا خریدا اور اس کی رسی پکڑے آرہے ہیں؟ کیا خیال ہے وہ یہ بکرا کسی تھانے میں پہنچائیں گے؟ پارلیمنٹ میں لے جائیں گے؟ ہائی کورٹ کے دروازے پر باندھیں گے؟ یا سیکرٹریٹ کے کسی افسر کی نذر کریں گے؟ نہیں بلکہ وہ کسی مسجد یا مدرسہ کا رخ کریں گے جہاں کوئی مولوی دس بارہ طلبہ کو پڑھا رہے ہوں اور بکرا ان کے سپرد کر کے ہی ان صاحب کو اطمینان ہوگا کہ ان کا صدقہ صحیح جگہ پہنچ گیا ہے۔ یہ بکرا مولوی کا حق ہے اور مولوی نے ہی کھانا ہے۔ اس لیے میں عرض کیا کرتا ہوں کہ اس معاشرے میں دین کا مسئلہ صرف مولوی نے بتانا ہے اور صدقہ کا بکرا مولوی نے ہی کھانا ہے، اس لیے جب تک مولوی اور سوسائٹی کا یہ دو طرفہ تعلق قائم ہے ورلڈ اسٹیبلشمنٹ اور اس کا لیڈر امریکہ جو بس میں ہو کر لیں دینی مدرسہ ہمارے معاشرہ میں بند نہیں ہو سکتا۔

چوتھا سوال یہ ہے کہ دینی مدارس میں دی جانے والی تعلیم پر روزگار کا تحفظ اور ملازمت کی گارنٹی موجود نہیں ہے اور دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے جو نوجوان خود کو وقف کرتا ہے اس کے بارے میں عام طور پر یہ سوال ہوتا ہے کہ یہ کرے گا کیا؟ مولوی تو بن جائے گا لیکن کھائے گا کہاں سے؟ اس کے جواب میں دو باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔

ایک یہ کہ ایسا کہنے والوں سے میرا سوال ہے کہ کیا آج تک کسی مولوی یا حافظ کو انہوں نے بھوکا مرتے دیکھا ہے؟ کسی مولوی، حافظ یا قاری کو بھوک اور فاقہ کی وجہ سے خودکشی کرتے دیکھا ہے؟ یا پاکستا ن کی پوری تاریخ میں مولوی، قاریوں یا حافظوں کا کوئی جلوس سڑک پر آیا ہے کہ ان کا گزارہ نہیں ہوتا ان کی تنخواہیں بڑھائی جائیں اور انہیں سہولتیں فراہم کی جائیں۔ کبھی مولویوں یا قاریوں نے ہڑتال کی ہو کہ وہ تنخواہیں نہ بڑھانے کی وجہ سے نماز پڑھانے سے انکار کر رہے ہیں۔ اکا دکا شخصی واقعات سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن مجموعی طور پر طبقاتی حیثیت سے دینی حلقوں میں کبھی اس حوالہ سے ہڑتال، جلوس، قرارداد یا مطالبات کی فضا دیکھنے میں نہیں آئی۔ میرے ان سوالات کا مطلب یہ ہے کہ جب مولوی خود اپنے افلاس، فقر اور محتاجی کا ڈھنڈورا نہیں پیٹ رہا تو کسی دوسرے کو اس کے لیے پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟

دوسری گزارش ہے کہ اس صورتحال کی وجہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ دین کی برکت سے مولوی، بلکہ دین اور مسجد سے تعلق رکھنے والے ہر شخص کو ضروریات کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور مل جاتا ہے اور یہ عملی تجربہ و مشاہدہ کی بات ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص بحمد اللہ تعالیٰ بھوکا نہیں مرتا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ مولوی اور حافظ کو صرف تعلیم نہیں دی جاتی بلکہ اس بات کی ذہنی تربیت بھی دی جاتی ہے کہ نماز پڑھانا اور قرآن کریم کی تعلیم دینا اس کا پیشہ نہیں بلکہ مشن اور دینی خدمت ہے۔ اس لیے وہ قناعت کرتا ہے، ضروریات کو ضروریات تک محدود رکھتا ہے اور اتنے تھوڑے وظیفہ پر کام کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے بلکہ عملاً کر کے دکھا دیتا ہے جتنے وظیفہ میں کسی دوسرے شعبہ کا کوئی فرد اتنا کام کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اگر آپ نے مشاہدہ کرنا ہو تو اپنے قریب ہی کسی مسجد کے امام یا کسی مدرسہ کے مدرس سے اس کی تنخواہ اور سہولتوں کے بارے میں پوچھ لیں اور اس کی ڈیوٹی کی نوعیت اور اوقات کار کے بارے میں بھی دریافت کر لیں آپ کو صحیح طور پر اندازہ ہوگا کہ غریب مولوی طعنہ، تحقیر اور تذلیل کے ہر وار کو برداشت کرتے ہوئے کتنے معمولی وسائل کے ساتھ معاشرہ کی کتنی بڑی خدمت سرانجام دے رہا ہے۔

پانچواں سوال موجودہ عالمی تہذیبی کشکش کے حوالہ سے دینی مدارس کے موقف اور کردار کے بارے میں ہے اور میں اس پس منظر میں آج کی عالمی اسٹیبلشمنٹ سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ یہ بات درست ہے کہ آپ لوگوں کو دینی مدرسہ کے کردار اور اس کے وجود سے سخت تکلیف ہے اور تم بجا طور پر یہ سمجھتے ہو کہ دنیا بھر میں انسانی معاشرہ پر مذہب کے اثرات کو ختم یا محدود کر دینے میں گزشتہ دو صدیوں کے درمیان تم نے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں حتیٰ کہ اسلام کے سوا ہر مذہب کے پیروکاروں کو تم نے مذہب کے اجتماعی کردار سے دستبرداری پر آمادہ کر لیا ہے، ان کامیابیوں کے عمل کو اسلامی معاشرہ میں آکر بریک لگ گئی ہے اور تم دنیا کے کسی بھی حصے میں عام مسلمانوں کو دین اسلام کی بنیادوں سے ذہنی طور پر دستبردار کرانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے۔ جیسا کہ آج کی صورتحال یہ ہے کہ مسلمان دین سے عملاً کتنا دور کیوں نہ ہو اور دین کی کسی ایک بات پر بھی اس کا عمل نہ ہو لیکن اس کی ذہنی کمٹمنٹ قرآن کریم کے ساتھ اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے ساتھ آج بھی بے لچک ہے۔ آپ عملی تجربہ کر کے دیکھ لیجئے، دنیا کے کسی بھی حصے میں کسی بھی عام مسلمان سے ہاں یا ناں کے طور پر سوال کیجئے کہ قرآن کریم کا یہ ارشاد ہے اور آج کی عالمی برادری اس کے خلاف یہ تقاضا کر رہی ہے، یا جناب نبی اکرمؐ کی یہ تعلیم ہے اور اقوام متحدہ کی فلاں قرارداد میں اس کے برعکس یہ تقاضا ہے، اس کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ اس مسلمان کا اسلام کی کسی بات پر عمل ہو یا نہ ہو لیکن اس سوال کے جواب میں وہ کوئی توقف کیے بغیر دوٹوک جواب دے گا کہ عالمی برادری اور اقوام متحدہ کا تقاضا غلط ہے اور قرآن کریم اور جناب نبی اکرمؐ کا ارشاد بالکل صحیح اور بجا ہے۔

قرآن و سنت کے ساتھ عام مسلمان کی یہ بے لچک کمٹمنٹ آج کی ورلڈ اسٹیبلشمنٹ اور عالمی استعمار کے لیے چیلنج بنی ہوئی ہے۔ حتیٰ کہ امریکہ کے سابق صدر کلنٹن کو ابھی چند ماہ قبل مکہ مکرمہ کے پڑوس جدہ میں ورلڈ اکنامک فورم سے خطاب کرتے ہوئے سعودی حکمرانوں سے یہ کہنا پڑا ہے کہ اگر تم دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں ہمارے ساتھ مخلص اور سنجیدہ ہو تو تمہیں اپنے نظام تعلیم میں تبدیلی کرنا ہوگی اور دینی امور کم کرنے کے ساتھ ساتھ عقیدہ کی تلقین بھی ختم کرنا ہوگی۔ ہم عالمی استعمار کی اس تکلیف کو سمجھتے ہیں کہ مذہب اور دین کے خلاف اس کی صدیوں کی مہم اسلامی معاشرہ میں آکر ناکامی سے دوچار ہو رہی ہے جس کی وجہ دینی تعلیم اور دینی درسگاہ ہے۔ اور اسی وجہ سے ورلڈ اسٹیبلشمنٹ اور اس کی ہدایات پر چلنے والی مسلم ریاستیں دینی مدارس کے آزادانہ کردار کو ختم کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہیں۔ لیکن ورلڈ اسٹیبلشمنٹ سے میرا سوال یہ ہے کہ تم دینی تعلیم کو ختم کرنے کا تجربہ کتنی بار دہراؤ گے؟ گزشتہ دو صدیوں میں تم نے عالمی سطح پر اس کام کے لیے تین تجربے کیے ہیں اور تینوں میں تمہیں ناکامی ہوئی ہے۔

تم نے سب سے پہلا تجربہ جنوبی ایشیا میں کیا جس کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں کہ برطانوی حکومت نے اس خطہ میں ہزاروں دینی مدارس کو بند کیا، جائیدادیں ضبط کیں، عمارات مسمار کیں اور پڑھنے والوں کو ہزاروں کی تعداد میں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ لیکن تمام تر جبر کے باوجود دینی تعلیم موجود ہے بلکہ پہلے سے زیادہ ہے۔

تم نے دوسرا تجربہ ترکی میں کیا، وہاں خلافت کا خاتمہ کرایا، عربی زبان ختم کرائی، رسم الخط تبدیل کرایا، عدالتوں سے شرعی قوانین ختم کرائے، مدارس بند کرائے، قرآن کریم اور اذان تک کو عربی میں پڑھنا ممنوع قرار دلوایا، شرعی پردہ کو قانوناً ختم کرایا، حتیٰ کہ ایک خاتون منتخب رکن پارلیمنٹ کو صرف سکارف سر پر لینے کی وجہ سے پارلیمنٹ کی رکنیت سے محروم ہونا پڑا۔ لیکن ان تمام اقدامات اور جبر و تشدد کے باوجود پون صدی گزر جانے کے بعد بھی ترکی کے عام مسلمانوں میں نہ صرف دینی تعلیم موجود ہے بلکہ دینی روایات و شعائر کے ساتھ ساتھ سوسائٹی میں دینی اقدار کے دوبارہ غلبہ کی خواہش بھی پائی جاتی ہے جس پر قابو پانے کے لیے تمہارے پاس فوجی جبر کے سوا کوئی راستہ موجود نہیں۔ اور تم اچھی طرح جانتے ہو کہ ترکی کے عوام کو فوجی جبر سے آزاد کر کے آج بھی کھلی فضا میں اپنی حکومت منتخب کرنے کا موقع دیا جائے تو وہی لوگ منتخب ہوں گے جو اسلامی اقدار پر یقین رکھتے ہیں اور سوسائٹی میں اسلام کے اجتماعی کردار کی بحالی کے خواہش مند ہیں اس لیے ترکی میں بھی تمہارا تجربہ ناکام ثابت ہوا۔

تم نے مسلم معاشرہ کو دینی تعلیم سے محروم کرنے کا تیسرا تجربہ وسطی ایشیا میں کیا جہاں بخارا، تاشقند اور سمرقند جیسے اسلامی تہذیب کے مراکز میں ہزاروں مساجد و مدارس کو جبرًا بند کر دیا گیا، مسجدوں اور دینی درسگاہوں کو تالے لگ گئے، میں نے تاشقند میں وہ مسجد دیکھی ہے جو چالیس سال تک سیمنٹ کا گودام رہی ہے اور سمرقند کی اس جامع مسجد میں ایک رات گزاری ہے جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس کا مین ہال نعوذ باللہ نصف صدی تک سینما ہال بنا رہا ہے۔ ہم نے خرتنگ میں امام بخاریؒ کے مزار سے باہر ایک بڑھیا خاتون کو قرآن کریم کا نسخہ دیا تو وہ اسے سینے سے لگا کر زارو قطار رونے لگی کہ ستر سال کے بعد قرآن کریم کی زیارت نصیب ہوئی ہے۔ جہاں جبر و تشدد کا یہ ماحول تھا کہ تاشقند کی قوقل تاش کی مسجد کے امام نے بتایا کہ ہم اگر دو بھائی اپنے گھر کے صحن میں نماز پڑھتے تھے تو ایک بھائی دروازے پر پہرا دیتا کہ کوئی شخص ہمیں نماز پڑھتے دیکھ نہ لے۔ لیکن پون صدی کے اس خوفناک ریاستی جبر کے باوجود وسطی ایشیا میں دینی تعلیم آج بھی موجود ہے اور میں نے ان ہزاروں خفیہ درسگاہوں میں سے ایک کی زیارت کی ہے جو زیر زمین تہہ خانوں میں قائم تھیں اور جہاں رات کے پچھلے پہر طلبہ خفیہ طور پر آکر وہی کتابیں اور علوم پڑھتے تھے جو ہمارے دینی مدارس میں رائج ہیں اور جن کی تعلیم حاصل کر کے حافظ، قاری اور عالم دین بنتے ہیں۔ چنانچہ آج صورتحال یہ ہے کہ وسطی ایشیا میں سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد مسلم ریاستیں آزاد ہوئی ہیں اور ہزاروں مساجد و مدارس کے تالے کھلے ہیں تو انہیں نماز پڑھانے اور قرآن کریم کی تعلیم دینے کے لیے باہر سے افراد درآمد نہیں کرنا پڑے بلکہ خفیہ درسگاہوں میں پڑھنے والے ہزاروں طلبہ نے ہی مساجد و مدارس کا نظام سنبھال لیا اور عملاً صرف اتنا فرق پڑا ہے کہ زیر زمین خفیہ تہہ خانوں میں چلنے والے مدارس زمین کے اوپر ان مساجد و مدارس میں واپس آگئے ہیں جنہیں ساٹھ یا ستر سال کے بعد آزادی نصیب ہوئی۔

اس لیے میں عالمی استعمار اور ورلڈ اسٹیبلشمنٹ سے دوٹوک عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جبر و تشدد کے ایک نئے دور سے بھی تمہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا، اس سے ہماری مشکلات میں یقیناً اضافہ ہوگا اور آزمائش کے نئے مراحل ہمارے لیے بلاشبہ صبر آزما ہوں گے لیکن اس سے دینی تعلیم کے تسلسل میں کوئی فرق نہیں آئے گا، وہ باقی رہے گی اور قیامت تک باقی رہے گی اس لیے کہ یہ خدا کا دین ہے اور اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین ہے جس نے قیامت تک باقی رہنا ہے اور محفوظ رہنا ہے۔ یہ ہمارے عقیدہ کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو قیامت تک دنیا میں محفوظ رکھنے کا اعلان فرمایا اور وہ کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔ ہمارا ایمان ہے کہ جب وہ قرآن کریم اور اس کی تعلیم کی حفاظت کرے گا تو اس کے اسباب کی بھی حفاظت کرے گا۔ ظاہر بات ہے کہ مجھے اگر دودھ کی حفاظت کے لیے کہا جائے گا تو میں صرف دودھ کی حفاظت نہیں کروں گا بلکہ اس پیالے کی حفاظت بھی کروں گا جس میں وہ دودھ ہے، کیونکہ عالم اسباب میں اس پیالے کی حفاظت سے ہی دودھ کی حفاظت بھی ہوگی۔ اس لیے یہ دینی مدارس قرآن کریم کی تعلیم کے اسباب ہیں جن کی حفاظت قرآن کریم کے ساتھ خود بخود ہوتی رہے گی بلکہ یہ تو کشتیٔ نوح کی حیثیت رکھتے ہیں اور فتنوں اور آزمائشوں کے اس ہمہ گیر سیلاب اور طوفان میں وہی شخص نجات حاصل کر سکے گا جو اس کشتی میں سوار ہو جائے گا۔ اس لیے جہاں میں عام مسلمانوں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے اس کشتی میں آجائیں اس کے بغیر وہ ایمان نہیں بچا سکیں گے، اسی طرح ورلڈ اسٹیبلشمنٹ سے بھی میری گزارش ہے کہ وہ حقائق کو تسلیم کرے اور چٹان کے ساتھ ٹکراتے رہنے کی بجائے اس چٹان کا وجود تسلیم کرلے۔

باقی رہی بات انسانی سوسائٹی کے لیے بہتر سسٹم اور نظام کی تو اس سے زیادہ یقین کے ساتھ ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ آج کی ورلڈ اسٹیبلشمنٹ کے بجائے نسل انسانی کے بہتر مستقبل کی ضمانت دینے والا نظام ہمارے پاس ہے۔ عالمی استعمار کے لیڈر چاہیں تو ہم اس پر ان کے ساتھ گفتگو کے لیے تیار ہیں مگر اس کے لیے انہیں محاذ آرائی ترک کر کے مذاکرات کی میز پر آنا ہوگا اور یہ تو بہرحال طے ہے، آج نہیں تو کل کیونکہ اس کے بغیر آج کی دنیا کے پاس کوئی متبادل راستہ اور چوائس موجود نہیں ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter