ایوننگ دینی مدرسہ کا تجربہ

   
تاریخ : 
یکم فروری ۲۰۱۴ء

گزشتہ روز مغرب کے وقت مولانا محمد ادریس اور حافظ سید علی محی الدین کے ہمراہ راجہ بازار راولپنڈی میں دارالعلوم تعلیم القرآن کے سامنے سے گزرا تو دل سے اک ہوک سی اٹھی اور اس علمی و دینی مرکز کے بارے میں ماضی کی کئی یادیں ذہن میں تازہ ہوتی چلی گئیں۔ اس سے قبل ظہر کے بعد ایف ٹین ٹو اسلام آباد کی مسجد امیر حمزہؓ میں علماء کرام کی ایک فکری نشست تھی۔ اس مسجد میں مولانا محمد ادریس اور ان کے رفقاء نے منفرد نوعیت کا دینی مدرسہ ’’کلیۃ الدراسات الدینیۃ‘‘ کے نام سے قائم کر رکھا ہے جس میں سرکاری ملازمین تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ درس نظامی کا آٹھ سالہ مکمل کورس پڑھایا جاتا ہے، نماز مغرب کے بعد دو گھنٹے تعلیم ہوتی ہے اور مختلف سرکاری محکموں کے ملازمین اس میں ترتیب کے ساتھ درس نظامی کے اسباق پڑھتے ہیں۔ مولانا محمد ادریس کا تعلق علماء لدھیانہ کے معروف خاندان سے ہے اور عمدہ تعلیمی و تدریسی ذوق سے بہرہ ور ہیں۔ سرکاری ملازمین کا ایک گروپ آٹھ سال کے نصاب کی تکمیل کر کے گزشتہ سال دورہ حدیث سے فارغ ہو چکا ہے اور بخاری شریف کے آخری سبق کی تقریب میں حاضری کی سعادت مجھے بھی حاصل ہوئی تھی۔ جبکہ اس کے بعد کے درجات میں تسلسل کے ساتھ تعلیم جاری ہے۔

میں ’’ایوننگ دینی مدرسہ‘‘ کے اس کامیاب تجربے کا اکثر تذکرہ کرتا رہتا ہوں اور اصحابِ ذوق کو شوق دلاتا ہوں کہ جہاں حالات مناسب ہوں اس کی پیروی کرنی چاہیے۔ سرکاری ملازمین بلکہ غیر سرکاری ملازمین، وکلاء اور تاجر حضرات میں بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جو باقاعدہ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر انہیں ان کی سہولت کے اوقات میں درسِ نظامی کے مکمل نصاب یا کم از کم ’’دراسات دینیہ‘‘ کے مختصر نصاب کی تعلیم کے مواقع فراہم کر دیے جائیں تو دینی تعلیم کے اس دائرہ کو مزید وسیع کیا جا سکتا ہے۔

’’کلیۃ الدراسات الدینیہ‘‘ میں وقتاً فوقتاً علماء کرام اور خطباء کے لیے فکری نوعیت کی مجالس کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس روز ظہر کے بعد کی نشست اسی نوعیت کی تھی جس میں راقم الحروف نے اس پہلو پر تفصیلی گفتگو کی کہ اس وقت دنیا میں اصل حکومت ’’بین الاقوامی معاہدات‘‘ کی ہے جن کے دائرے میں کم و بیش سب ممالک کی حکومتیں اپنا اپنا نظام چلاتی ہیں، بلکہ ممالک کو اپنے نظام و قوانین میں بھی بین الاقوامی معاہدات کے دائرے میں رہنا پڑتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ طاقتور ممالک بہت سے معاملات میں اپنی مرضی کر لیتے ہیں اور ان بین الاقوامی معاہدات کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں جبکہ کمزور ممالک ایسا نہیں کر پاتے۔ اس لیے علماء کرام اور خاص طور پر دینی تحریکات سے وابستہ راہنماؤں اور کارکنوں کو ان بین الاقوامی معاہدات اور ان پر عملدرآمد کے طریق کار سے واقف ہونا چاہیے تاکہ وہ دینی جدوجہد کے مراحل اور ترجیحات کا صحیح طور پر تعین کر سکیں۔ یہ بین الاقوامی معاہدات عالمِ اسلام کے کون سے معاملات میں دخل انداز ہوتے ہیں اور شریعت اور اس کے احکام و قوانین کے نفاذ میں ان معاہدات کے ذریعے کہاں کہاں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں؟ ان کا بھی کچھ واقعاتی مثالوں کے حوالہ سے تذکرہ کیا اور علماء کرام بالخصوص دینی مدارس کے اساتذہ سے گزارش کی کہ وہ ان معاملات سے آگاہی حاصل کریں اور انہیں سامنے رکھ کر اپنے طلبہ اور سامعین کی ذہن سازی کریں۔

وہاں سے فارغ ہو کر ہمیں مغرب کی نماز چوک فوارہ میں واقع سول ہسپتال کی مسجد میں ادا کرنا تھی جہاں ہمارے ایک عزیز شاگرد مولانا محمد ادریس (فاضل نصرۃ العلوم) خطابت و امامت کے فرائض سر انجام دیتے ہیں اور انہوں نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک عنوان پر جلسہ کا اہتمام کر رکھا تھا۔ ہم نے وہاں جانے کے لیے راجہ بازار کا راستہ اختیار کیا تاکہ ایک نظر اس جگہ پر بھی ڈال لیں جہاں دارالعلوم تعلیم القرآن دین و علم کے ایک بڑے مرکز کے طور پر آباد تھا مگر اب بدترین دہشت گردی اور بربریت کا نشانہ بن کر ویرانی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ نماز کا وقت لیٹ ہو رہا تھا اور ویسے بھی ظاہری منظر دیکھ کر اندر جانے کا حوصلہ نہیں پا رہا تھا۔ اس لیے اس خلا کو دیکھ کر حسرت کے ساتھ پرانی یادیں ذہن میں تازہ کرتے ہوئے ہم سول ہسپتال کی مسجد میں جا پہنچے۔ دارالعلوم تعلیم القرآن کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ایک قومی المیہ سے کم نہیں ہے۔ مسجد و مدرسہ اور مارکیٹ دن کی روشنی میں کھلے بندوں سب کے سامنے وحشت و بربریت کا نشانہ بنے۔ اس پر ملک گیر سطح پر شدید احتجاج ہوا، دینی جماعتیں اکٹھی ہوئیں، تاجر حضرات نے اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا، عوام کے ہر طبقہ کے لوگ اس غم و غصہ میں بھرپور انداز میں شریک ہوئے اور حکمرانوں نے بھی اس کا نوٹس لیا۔ مسجد و مدرسہ اور مارکیٹ کی دوبارہ تعمیر کے وعدے ہوئے، مذاکرات کے کئی دور چلے، دہشت گردی کے اسباب کو کنٹرول کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا، ملزمان کی گرفتاری اور تلاش کے مراحل سامنے آئے اور متاثرین کے نقصانات کی تلافی کے ساتھ ساتھ ان کے غم میں شرکت اور آنسو پونچھنے کی باتیں اخبارات کی زینت بنیں۔ مگر موقع پر جا کر دیکھنے سے اندازہ ہوا کہ ابھی ان مراحل سے گزرنے کے بارے میں صرف سوچا ہی جا رہا ہے اور عملی حوالہ سے معاملات ابھی تک ’’زیرو پوائنٹ‘‘ پر کھڑے ہیں۔

دارالعلوم تعلیم القرآن کے مہتمم مولانا اشرف علی سے ملاقات اور تازہ صورت حال معلوم کرنے کی خواہش تھی، رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ ملتان گئے ہوئے ہیں، البتہ ان کے بھانجے مولانا شاکر محمود سے ملاقات ہوئی اور کچھ معلومات حاصل ہوئیں۔ ان سے پتہ چلا کہ ۱۵ فروری سے تعمیر نو کے سلسلہ کا آغاز متوقع ہے، خدا کرے کہ ایسا ہو جائے، مگر اس المناک دہشت گردی کے اسباب و عوامل کی نشاندہی، مجرموں کو قرار واقعی سزا دلوانے اور آئندہ اس قسم کی دہشت گردی کے امکانات کو روکنے کے بارے میں سوالیہ نشان بدستور قائم ہے اور اضطراب و کرب میں کمی کی بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔ اسلام آباد میں ایک دوست کہہ رہے تھے کہ اگر دارالعلوم تعلیم القرآن جیسے ملکی سطح کے علمی و دینی مرکز کا سانحہ بھی روایتی طرز عمل کی نذر ہوگیا تو باقی مدارس کا کیا بنے گا اور مراکز کا تحفظ کیسے ہوگا؟ ایک صاحب نے پوچھا کہ اس مسئلہ پر راولپنڈی میں علماء کرام اور دینی جماعتیں کا قومی سطح پر ایک بڑا اجتماع ہوا تھا اور اس میں کچھ فیصلے ہوئے تھے، ان کا کیا بنا؟ مگر میں ان سے اس کے سوا کیا عرض کر سکتا تھا کہ

رموز مملکت خویش خسرواں دانند

البتہ یہ معلوم کر کے کسی حد تک امید قائم ہوئی ہے کہ کالعدم سپاہ صحابہؓ کے قائدین اس سلسلہ میں فروری کے وسط میں مختلف دینی جماعتوں کے درمیان اعلیٰ سطحی مشاورت کا اہتمام کر رہے ہیں، دل سے بے ساختہ دعائیں نکل رہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس عزم کو مبارک کریں اور اس کا کوئی مؤثر نتیجہ ہمارے لیے مقدر فرما دیں، آمین۔ بہرحال راجہ بازار سے گزرتے ہوئے دل کے زخم پھر سے تازہ ہوئے ہیں تو یہ معروضات قارئین کی خدمت میں پیش کر دی ہیں۔ وہاں سے گزر کر جب ہم سول ہسپتال کی مسجد میں پہنچے تو ملک کے معروف نعت خواں اور شاعر حکیم سید اعجاز شاہ کاظمی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں نذرانۂ عقیدت پیش کر رہے تھے، ان کے بعد میں نے بھی کچھ معروضات پیش کیں اور واپس گوجرانوالہ کے لیے روانہ ہوگیا۔

   
2016ء سے
Flag Counter