لفظوں کی میناکاری کے ذریعے قرآنی اصطلاحات کے اجماعی مفہوم کو مشکوک کرنے کی مہم کے بارے میں گزشتہ ایک کالم میں کچھ معروضات پیش کر چکا ہوں۔ ان دنوں خود مجھے اس قسم کی صورتحال کا سامنا ہے، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ صاحب نے ایک میسج میں بتایا کہ وزیرآباد کے کوئی بزرگ ’’ربوٰا‘‘ کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں، میں نے انہیں آپ کا فون نمبر دے دیا ہے وہ آپ سے اس سلسلہ میں ملیں گے۔ ایک روز کے بعد ان صاحب کا فون آگیا، وہ ملاقات کے لیے تشریف لائے، متشرع، نمازی اور ذاکر و شاغل دکھائی دینے والے بزرگ ہیں، ان کی گفتگو سے خلوص اور والہانہ پن جھلکتا ہے البتہ سماعت کمزور ہونے کے باعث آلۂ سماعت کا سہارا لیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے ساتھ تفصیلی گفتگو میں مشکل پیش آتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ قرآن کریم نے ربوٰا کا جو لفظ فرمایا ہے اس کا ترجمہ علماء کرام سود کرتے ہیں جو کہ غلط ہے۔ ربوٰا اور سود کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے اور قرآن کریم نے سود کو حرام قرار نہیں دیا۔ میں نے عرض کیا کہ اب تک تو علماء کرام ربوٰا کا ترجمہ سود ہی کرتے آرہے ہیں، جیسے صلاۃ کا ترجمہ نماز اور صوم کا ترجمہ روزہ کیا جاتا ہے۔ اگر وہ درست ہے تو یہ بھی درست ہے۔ فرمانے لگے کہ نماز اور روزے کا لفظ قرآن کریم میں نہیں ہے اور یہ دونوں الفاظ عربی نہیں ہیں اس لیے یہ معنیٰ درست ہے لیکن ’’سود‘‘ کا لفظ عربی کا لفظ ہے اور قرآن کریم میں موجود ہے جو کسی اور معنیٰ میں ہے اس لیے ربوٰا کا ترجمہ سود کرنا درست نہیں ہے۔ میں نے حوالہ پوچھا تو بتایا کہ سورۃ الفاطر کی آیت ۲۷ میں ہے ’’وغرابیب سود‘‘ جس میں کالے پہاڑ کو سود کہا گیا ہے، اس لیے ربوٰا کا معنٰی سود نہیں کیا جا سکتا۔ ظاہر بات ہے کہ اس دلیل کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
البتہ اس پر مجھے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا وہ مکالمہ یاد آگیا جو بادشاہ ِ وقت نمرود سے ہوا تھا اور جس کا تذکرہ قرآن کریم میں موجود ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بادشاہ کے سامنے فرمایا کہ میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے یعنی جس کے قبضے میں موت و حیات ہے تو اس نے جھٹ سے کہا کہ ’’انا احی وامیت‘‘ کہ زندگی اور موت دینے کا کام تو میں بھی کرتا ہوں۔ حضرت ابراہیمؑ نے یہ دیکھ کر کہ یہ صاحب دلیل کی دنیا کے آدمی نہیں ہیں، انہیں اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور گفتگو کا رخ بدل دیا۔ میں نے بھی اسی میں عافیت سمجھی اور کہا کہ چلیں سود کے لفظ کو چھوڑیں، آپ یہ بتائیں کہ قرآن کریم نے ربوٰا کو حرام قرار دیا ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ربوٰا کو معاشرے سے ختم کر دیا تھا۔ وہ چیز جو آنحضرتؐ نے اس قرآنی حکم کی روشنی میں ختم کر دی تھی وہ کیا تھی؟ کہنے لگے کہ وہ یہ سود نہیں تھا جسے آپ لوگ حرام کہہ رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ بات تو طے ہے کہ جناب رسول اکرمؐ نے ربٰوا کے نام سے کچھ چیزیں سوسائٹی سے ختم فرما دی تھیں ان کی عملی شکل کیا تھی؟ کہا کہ یہ آپ بتائیں مجھے تو معلوم نہیں ہے۔
میں نے گزارش کی کہ جب آپ کو ربوٰا کی عملی شکل اور اس کا وہ معنٰی جو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول اور عمل دونوں کے ساتھ متعین کر دیا تھا، معلوم نہیں ہے تو آپ اتنی لمبی چوڑی بحث کیوں کر رہے ہیں؟ انہوں نے اپنی بات پھر دہرائی کہ آپ لوگ ربوٰا کا ترجمہ سود کر رہے ہیں وہ غلط ہے اور سود کو کسی طرح بھی قرآن کریم نے حرام قرار نہیں دیا۔ اس پر میں نے کہا کہ آپ پہلے یہ معلوم کر لیں کہ جس ربوٰا کو قرآن کریم نے حرام قرار دیا اور آنحضرتؐ نے اس کی تمام عملی صورتوں کو ختم کر دیا وہ کیا تھا؟ اس لیے کہ جب تک آپ کو وہ پوری طرح معلوم نہ ہو اس بحث کا کوئی فائدہ نہیں۔ جناب رسول اللہؐ نے مختلف مقامات پر ربوٰا کی عملی صورتیں بیان فرمائی ہیں اور انہیں ختم کیا ہے، بیسیوں احادیث میں ان کا تذکرہ موجود ہے اور پوری صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ کہنے لگے کہ میرا حدیث کا زیادہ مطالعہ نہیں ہے اس لیے اب معلوم کرنے کی کوشش کروں گا اور مطالعہ کر کے پھر آپ کے پاس اس بحث کو آگے بڑھانے کے لیے دوبارہ آؤں گا۔ میں کہا آپ جب بھی تشریف لائیں میں حاضر ہوں۔
یہ ہماری اب تک کی گفتگو کی مختصر روداد ہے لیکن میں اس سلسلہ میں دو الجھنوں کا شکار ہوگیا ہوں۔ ایک یہ کہ جن دانشوروں نے (۱) خاتم (۲) توفیّ (۳) سنت اور (۴) ربوٰا جیسے قرآنی الفاظ و اصطلاحات کو لفظی گورکھ دھندوں میں الجھا کر ان کے اجماعی مفہوم کو دھندلا کر دینے کی مہم شروع کر رکھی ہے ان کے استدلال اور ان وزیرآبادی بزرگ کے اسلوب میں کوئی فرق مجھے دکھائی نہیں دے رہا، اور میں چاہتا ہوں کہ کوئی دانشور دوست مجھے یہ فرق، اگر موجود ہے، تو سمجھا دیں۔ دوسری الجھن میری یہ کمزوری ہے جو مجھ پر حسب معمول غالب آرہی ہے کہ مذکورہ وزیرآبادی بزرگ کی اس کج بحثی کو یکبارگی گمراہی قرار دے کر انہیں دوسری طرف دھکیل دینے اور ان سے پیچھا چھڑا لینے کا حوصلہ اپنے اندر نہیں پاتا بلکہ اسے ’’مغالطہ‘‘ سمجھ کر اسے دور کرنے کی کوشش کو ترجیح دے رہا ہوں۔ اور اسی لیے انہیں بحث کے لیے دوبارہ آنے سے میں نہیں روکا۔ البتہ اس بات کا خدشہ محسوس ہو رہا ہے کہ کوئی ’’باحمیت بزرگ‘‘ میری اس کوشش کو گمراہی کی سرپرستی کا عنوان دے کر کہیں میرا نام بھی اسی فہرست میں نہ درج فرما دیں۔