افغانستان میں طالبان کی حکومت اور برطانیہ کے مسلم دانشور

   
۱۴ نومبر ۱۹۹۶ء

کابل پر طالبان کے قبضہ کے بعد جہاں ان کے خلاف مغرب کی ’’میڈیا وار‘‘ میں تیزی آگئی ہے وہاں مغرب میں مقیم مسلم دانشوروں اور علماء میں بھی حرکت پیدا ہوئی ہے اور اس میڈیا وار میں شرکت کا احساس بڑھتا جا رہا ہے۔ برطانیہ میں اس وقت تک اس سلسلہ میں تین اجتماعات ہو چکے ہیں۔ پہلا اجتماع ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام ۵ اکتوبر کو نارتھ لندن کی مرکزی جامع مسجد فنس بری پارک میں ہوا۔ دوسرا اجتماع پاکستان شریعت کونسل برطانیہ کے زیراہتمام ۱۳ اکتوبر کو مدرسہ قاسم العلوم واش وڈ ہیتھ برمنگھم میں ہوا۔ جبکہ تیسرا اجتماع ۱۹ اکتوبر کو مسلم کمیونٹی سنٹر الفورڈ لندن میں مسلم لیگ اصلی کے زیر اہتمام منعقد ہوا۔ ان اجتماعات میں مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے دانشوروں نے شرکت کی جن میں سعودی عرب کے جلا وطن اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر محمد المسعری، ممتاز شامی عالم اور المہاجرون کے امیر الشیخ عمر بکری محمد، ابادان یونیورسٹی نائجیریا کے پروفیسر داؤد نویبی، ڈاکٹر خالد علوی، بیرسٹر یوسف اختر، مولانا محمد عیسیٰ منصوری، ڈاکٹر اختر الزمان غوری، بیرسٹر محمد فاروق، اور فیاض عادل فاروقی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔

راقم الحروف کو بھی ان تینوں اجتماعات میں شرکت کا موقع ملا۔ ان ارباب فکر و دانش نے طالبان اور افغانستان کے حوالہ سے جن خیالات کا اظہار کیا انہیں تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

طالبان کی کامیابی پر دینی حلقوں کا اطمینان

ایک حصہ اس مسرت اور اطمینان کے اظہار پر مشتمل ہے جو طالبان کی کامیابیوں پر دنیا بھر کے دینی حلقوں میں پایا جا رہا ہے۔ اس سلسلہ میں ان حضرات کا کہنا یہ ہے کہ طویل عرصہ کے بعد کسی مسلمان ملک میں یہ عزم سننے میں آیا ہے کہ وہاں قرآن و سنت کی بالادستی پر مبنی مکمل شرعی نظام قائم کیا جائے گا۔ اور اعلان کرنے والے بھی دینی مدارس کے طلبہ اور اساتذہ ہیں جن کی تعلیم و تربیت دینی ماحول میں ہوئی ہے، اس لیے ان کے دعویٰ اور عزم کی تکمیل کے بارے میں اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ بعض مقررین کا کہنا تھا کہ خلافت، امیر المومنین، اور اسلامی حکومت کا نام سننے کے لیے مسلمانوں کے کان ترس گئے تھے اور اب طالبان کی صورت میں اہل اسلام کا یہ دیرینہ خواب پورا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔

طالبان کی طرف سے اسلام کے نام پر ناقابل قبول اقدامات کا خدشہ

دوسرے نمبر پر مقررین نے اس بات پر اپنی تشویش کا اظہار کیا کہ طالبان کے تمام تر خلوص، جدوجہد اور قربانیوں کے باوجود کسی نظام کی تشکیل اور اس پر عملدرآمد کے بارے میں تجربہ نہ ہونے کے باعث خدشہ ہے کہ وہ اسلام کے نام پر ایسے اقدامات نہ کر بیٹھیں جو آج کی دنیا میں اسلامی نظام کے بہتر تعارف کی بجائے اس کی بدنامی کا باعث بن جائیں۔ ان اہل دانش کا کہنا ہے کہ آج کے دور میں اسلامی نظام کے حوالہ سے بہت سے امور کا طے ہونا باقی ہے جو ظاہر ہے کہ اجتہاد کے ذریعے اہل اجتہاد کے ہاتھوں طے ہوں گے۔ لیکن ایسا کوئی بھی اجتہاد کسی ایک ملک کے مخصوص حالات اور مسائل کے پس منظر میں نہیں ہونا چاہیے بلکہ پوری دنیا اور عالم اسلام کے اجتماعی اصول اور ضروریات کو سامنے رکھ کر اس عمل کو آگے بڑھنا چاہیے۔ ورنہ اگر ہر ملک کی اسلامی تحریک اجتہادی امور کے حوالہ سے الگ الگ تعبیر پر کھڑی ہوگئی تو عالمی سطح پر اسلام کے عالمگیر مذہب اور نظام ہونے کا تصور دھندلا پڑ جائے گا۔ اس ضمن میں ارباب فکر و دانش نے دو تجاویز پیش کی ہیں۔

  1. ایک پاکستان کے علماء کرام اور اہل دانش کے لیے ہے، بالخصوص ان علماء کرام کے لیے جن کے اثرات افغانستان کے علماء اور طالبان میں موجود ہیں کہ یہ اہل علم و اہل دانش باہمی مشاورت کے ساتھ طالبان کی علمی و فکری راہنمائی کا اہتمام کریں۔
  2. دوسری تجویز طالبان کے لیے ہے کہ وہ خود دنیائے اسلام کی علمی شخصیات، دینی اداروں، اور اسلامی تحریکات کے ساتھ اس قسم کے روابط اور مشاورت کا اہتمام کریں کہ ان کا قائم کردہ نظام دنیا بھر کے رہنما اداروں اور علمی حلقوں کے اعتماد سے بہرہ ور ہو اور دنیا کے ہر مسلم ملک کے لیے مثال بن سکے۔

مغربی میڈیا کی جانب سے طالبان کی کردار کشی

ان اجتماعات میں شرکت کرنے والے اہل دانش نے طالبان کے حوالہ سے مسئلہ کے جس تیسرے پہلو پر اظہار خیال کیا وہ طالبان کے خلاف مغربی ذرائع ابلاغ کی عیارانہ مہم ہے جس کا مقصد طالبان کی کردار کشی کے سوا کچھ نہیں۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ مغربی میڈیا نے ایک عرصہ سے اسلام اور دیندار مسلمانوں کو اپنا ہدف بنا رکھا ہے کیونکہ مغرب اسلام سے خوفزدہ ہے۔ اور یہ خوف اس کے ذہن پر سوار ہوگیا ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں اگر صحیح اسلامی نظام نافذ ہوگیا اور ایک مثالی اسلامی حکومت اور سوسائٹی تشکیل پا گئی تو مغرب کا کھوکھلا فلسفہ اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکے گا۔ اس لیے مغرب کی یہ طے شدہ پالیسی ہے کہ کسی مسلم ملک میں صحیح اسلامی حکومت قائم نہ ہونے دی جائے اور اسلام کے نفاذ کی علمبردار تحریکات کو اس قدر بدنام کیا جائے کہ رائے عامہ ان کی بات سننے کو تیار نہ ہو۔ آج کل طالبان بھی مغرب کی اسی مہم کا سب سے بڑا نشانہ ہیں اور ان کے بارے میں طرح طرح کی باتیں مغرب کے پریس میں چھپ رہی ہیں اور ان پر دلچسپ تبصرے سامنے آرہے ہیں۔

مثلاً ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ طالبان نے پولیس کے اہلکاروں کو وردی کے ساتھ نکٹائی پہننے سے منع کر دیا ہے اور اس حکم کی خلاف ورزی کرنے والے افسران کو زدوکوب کیا گیا ہے۔ اس پر ایک صاحب نے بے ساختہ تبصرہ کیا کہ ’’یہ سب جھوٹ ہے کیونکہ ہم نے کسی فورس کی وردی میں آج تک نکٹائی نہیں دیکھی۔‘‘

اسی طرح چند روز قبل ایک خبر چھپی کہ طالبان نے کابل میں ایسے خوش نوا پرندے جبراً آزاد کرا دیے ہیں جن کے مالکان نے ان پرندوں کو موسیقی اور گانے کی تربیت دے رکھی تھی اور وہ ان سے محظوظ ہوتے تھے۔ اس خبر پر ایک صاحب کا تبصرہ یہ تھا کہ ’’دیکھو! آزادی کے ان ٹھیکیداروں کو پرندوں کو آزاد کرنے پر بھی تکلیف ہو رہی ہے۔‘‘

الغرض طرح طرح کی خبریں اور عجیب و غریب تبصرے سامنے آرہے ہیں۔ اس سارے قصے میں مذکور بالا ارباب فکر و دانش کے لیے باعث تشویش بات یہ ہے کہ طالبان کے خلاف تو بہت کچھ چھپ رہا ہے اور عالمی میڈیا ان کے خلاف منظم اور مربوط جنگ میں مصروف ہے مگر طالبان کو اپنے موقف اور پالیسیوں کو عالمی سطح پر پیش کرنے اور ان کو اپنی باتوں کی خود وضاحت کرنے کا موقع نہیں دیا جا رہا۔

   
2016ء سے
Flag Counter