دفاع وطن اور اسوۂ حسنہ

   
۶ ستمبر ۲۰۱۶ء

آج ۶ ستمبر کو ملک بھر میں ’’یوم دفاع پاکستان‘‘ منایا جا رہا ہے۔ ۱۹۶۵ء میں اس روز انڈیا کی فوجوں نے بین الاقوامی سرحد عبور کر کے پاکستان پر حملہ کر دیا تھا جس کا مسلح افواج اور پوری قوم نے متحد ہو کر منہ توڑ جواب دیا تھا۔ اُن دنوں قومی جوش و خروش دیکھنے کے قابل تھا۔ میری عمر اس وقت سترہ سال تھی، میں جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں درس نظامی کا طالب علم تھا اور اس جنگ میں سول ڈیفنس کے رضاکار کے طور پر عملاً شریک ہونے کے ساتھ ساتھ میں نے گکھڑ ضلع گوجرانوالہ میں روزنامہ وفاق لاہور کے نامہ نگار کی حیثیت سے جنگ کے مختلف واقعات کی رپورٹنگ بھی کی تھی۔ محکمہ شہری دفاع میں علماء کا ایک مستقل ونگ ہوتا تھا جس کے چیف وارڈن اس وقت ملک کے معروف خطیب مولانا عبد الرحمن جامیؒ تھے جبکہ میں ایک رضاکار کے طور پر اس کا حصہ تھا۔ آج یوم دفاع پاکستان کے حوالہ سے کچھ لکھنے کے لیے قلم ہاتھ میں لیا تو ذہن میں خیال آیا کہ ’’دفاع وطن‘‘ کے بارے میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ اور اسوۂ حسنہ کی کچھ جھلکیاں قارئین کے سامنے پیش کر دی جائیں تاکہ اس سے برکت کے ساتھ ساتھ راہنمائی بھی ملے اور نسبت بھی تازہ ہو جائے۔

نامور مؤرخ و محدث امام ابن سعدؒ کی تحقیق کے مطابق جناب رسول اللہؐ نے مدینہ منورہ کی دس سالہ زندگی میں ستائیس کے لگ بھگ غزوات میں خود شرکت فرمائی۔ ان میں اقدامی جنگیں بھی تھیں اور دفاعی جنگیں بھی شامل تھیں۔ مثلاً (۱) بدر (۲) خیبر (۳) بنو مصطلق اور (۴) فتح مکہ کی جنگیں اقدامی تھیں کہ آنحضرتؐ ان جنگوں میں دشمن پر خود حملہ آور ہوئے تھے۔ جبکہ (۱) احد (۲) احزاب اور (۳) تبوک کی جنگیں دفاعی تھیں کہ حملہ آور دشمنوں سے مدینہ منورہ کے دفاع کے لیے حضورؐ میدان جنگ میں آئے تھے اور دشمنوں کو اپنے ارادوں میں ناکامی ہوئی تھی۔

احد کی جنگ میں قریش کا لشکر مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کے لیے بڑھ رہا تھا جس پر آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے مشورہ کیا کہ شہر کے اندر محصور ہو کر دفاع کرنا چاہیے یا شہر سے باہر نکل کر کھلے میدان میں مقابلہ کرنا چاہیے؟ خود حضورؐ کی رائے شہر میں محصور ہوجانے کی تھی مگر اکثریت کا رجحان کھلے میدان میں نکل کر مقابلہ کرنے کا تھا۔ چنانچہ آپؐ نے اکثریتی رائے کو قبول کرتے ہوئے شہر سے باہر جنگ کرنے کا فیصلہ کیا مگر زیادہ دور نہیں گئے بلکہ اس وقت کے مدینہ منورہ کی آبادی سے تین میل کے فاصلے پر احد کے میدان میں دشمن سے نبرد آزما ہوئے۔ اس میں ایک سبق یہ بھی ہے کہ ملکی دفاع میں رائے عامہ کو اعتماد میں لینا اور قوم کو مشاورت میں شریک کرنا بھی سنت نبویؐ ہے۔

غزوۂ احزاب میں جناب نبی اکرمؐ نے شہر میں محصور ہو کر قریش اور ان کے اتحادیوں کی مشترکہ فوجوں کا راستہ روکا۔ شہر میں ان کے داخلہ کو روکنے کے لیے آبادی کے اردگرد گہری خندقیں کھدوائیں جس کی وجہ سے دشمن افواج کثیر تعداد میں ہونے کے باوجود مدینہ میں داخل نہ ہو سکیں اور کم و بیش ایک ماہ کا ناکام محاصرہ کرنے کے بعد نامراد واپس لوٹ گئیں۔

تبوک کا غزوہ بھی رومی افواج کی مدینہ منورہ کی طرف یلغار کی مسلسل خبروں کے باعث منظم کیا گیا تھا۔ حضورؐ مسلمانوں کے بھاری لشکر کے ساتھ روم کے زیر نگیں صوبہ شام کی طرف بڑھے مگر شام کی سرحد پر تبوک سے آگے بڑھنے کی بجائے وہیں رک کر رومی فوجوں کا انتظار کرتے رہے۔ لیکن جب واضح ہوگیا کہ رومی فوجیں پیش قدمی کا حوصلہ نہیں کر رہیں تو تقریباً ایک ماہ تک وہاں انتظار کرنے کے بعد آپؐ نے مدینہ منورہ کی طرف واپسی کا سفر کیا۔

مدینہ منورہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد ایک باقاعدہ ریاست کی شکل اختیار کر چکا تھا اور اس کے حاکم اعلیٰ خود جناب رسول اللہؐ تھے۔ اس ریاست کو ہر وقت کسی نہ کسی دشمن کے حملہ کا خطرہ درپیش رہتا تھا اور اس کے مقابلہ کے لیے حضورؐ خود بھی تیار رہتے تھے اور ساتھیوں کو بھی چوکنا رہنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ جناب نبی اکرمؐ کی دفاعی حکمت عملی کی ایک جھلک یہ ہے کہ انصار مدینہ کا قبیلہ ’’بنو سلمہ‘‘ مسجد نبویؐ کے راستے میں ایک فاصلے پر آباد تھا۔ ایک موقع پر انہوں نے ارادہ کیا کہ وہ اپنے مکانات فروخت کر کے مسجد نبویؐ کے قریب جگہ خرید کر مکان بنا لیں تاکہ مسجد کے قریب ہو جائیں اور آپؐ کی صحبت سے فیض یاب ہو سکیں۔ لیکن آنحضرتؐ نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا جس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ بنو سلمہ اگر اپنے مکانات بیچ کر مسجد نبویؐ کے قریب منتقل ہو جاتے تو وہ راستہ اور علاقہ مسلمانوں کے وجود سے خالی ہو جاتا جو کہ دفاعی نقطۂ نظر سے مناسب نہیں تھا، اس لیے حضورؐ نے دفاعی حکمت عملی کے تحت بنو سلمہ کو وہ علاقہ خالی کرنے سے منع فرمایا۔

دفاعی سرگرمیوں میں صحابہ کرامؓ کو ہوشیا رکھنے کے ساتھ ساتھ آپؐ خود بھی عملی طور پر ان میں پیش پیش رہتے تھے۔ بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ ایک مرحلہ میں مدینہ منورہ پر بیرونی حملہ آوروں کی در اندازی کا خطرہ بڑھ گیا تھا اور لوگوں کو خدشہ رہتا تھا کہ دشمن کسی وقت بھی حملہ آور ہو سکتا ہے۔ اس دوران ایک رات نصف شب کے لگ بھگ ایک طرف سے شور کی آواز آئی تو بہت سے لوگ بیدار ہو کر صورتحال معلوم کرنے کے لیے مختلف اطراف میں پھیل گئے۔ مگر یہ لوگ ابھی مدینہ کی آبادی سے باہر نکل رہے تھے کہ سامنے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واپس آتے دکھائی دیے جو گھوڑے کی ننگی پشت پر سوار مدینہ میں یہ اعلان کرتے ہوئے داخل ہو رہے تھے کہ گبھرانے کی ضرورت نہیں ہے، میں چاروں طرف گھوم پھر کر دیکھ آیا ہوں اس وقت خطرے کی کوئی بات نہیں ہے۔ دشمن کے حملہ کے ہر وقت خطرہ کے ماحول میں آدھی رات کو اکیلے ہی گھوڑے پر سوار ہو کر آبادی کے چاروں طرف چکر لگانا اور واپس آکر ساتھیوں کو تسلی دینا آنحضرتؐ ہی کا حوصلہ تھا جو دفاع وطن کے لیے آپؐ کے جذبات اور طرز عمل کی صرف ایک جھلک ہے۔

آج وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کو دفاعی حوالہ سے جن خطرات کا سامنا ہے ان کے سد باب کے لیے جناب نبی اکرمؐ کی تعلیمات اور اسوۂ حسنہ سے مسلسل راہ نمائی کی ضرورت ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter