’’کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے‘‘

   
۱۵ نومبر ۲۰۱۲ء

بھارتی پنجاب کے معروف قانون دان ہرچند سنگھ باٹھ نے، جو وکلاء کی انٹرنیشنل کانفرنس میں شرکت کے لیے لاہور آئے ہوئے تھے، گزشتہ روز ’’پاکستان فورم‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ

’’دونوں ملکوں کے قانونی نظام میں کوئی خاص فرق نہیں ہے کیونکہ یہ انگریز کا بنایا ہوا ہے۔ ہم آج تک اس میں اپنی ضروریات کے مطابق تبدیلی نہیں کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ انگریز نے تمام قوانین اپنی حاکمیت کو قائم رکھنے کے لیے بنائے تھے، ہمیں چاہیے تھا کہ ہم وقت کے ساتھ ساتھ اس میں ضرورت کے تحت تبدیلیاں کرتے، لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔‘‘

یہ بات نئی نہیں ہے اور ہم فقیر لوگ ایک عرصے سے یہ گزارش کرتے آرہے ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد وقتی ضرورت کے تحت تعطل اور خلا سے بچنے کے لیے تو ’’انڈیا ایکٹ‘‘ کو برقرار رکھنا شاید ہماری مجبوری تھی لیکن اسے ملک کے مستقل قانون کی حیثیت دے دینا ہماری معاشرتی ضروریات اور تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے، اور نہ ہی یہ اسلامی نظریے کے تحت ایک الگ ملک پاکستان کے قیام کے اہداف سے مطابقت رکھتا ہے۔ ہمارا مروجہ قانونی نظام اور نافذ شدہ قوانین ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے نتیجے میں برطانوی حکومت کی براہ راست عملداری قائم ہونے کے بعد نوآبادیاتی مقاصد کے لیے نافذ کیے گئے تھے اور یہ نوآبادیاتی نظام ہی سے مطابقت رکھتے تھے۔ یہ بات کسی دلیل کی محتاج نہیں ہے کہ نوآبادیاتی حکمرانوں کو ایسے ہی نظام قانون اور قوانین کی ضرورت تھی جو ان کی حکمرانی کو طول دے سکیں اور جن کے ذریعے وہ اپنے نوآبادیاتی عزائم کی تکمیل کر سکیں۔

یہ بات خود ایک انگریز بیوروکریٹ پینڈرل مون (Penderel Moon) نے بھی اپنی آپ بیتی اور یادداشتوں میں واضح کی ہے،ؔ جو کئی بار چھپ چکی ہے۔ پینڈرل مون نے سالہا سال تک برطانوی سول سروس کے تحت پنجاب اور دیگر علاقوں میں انتظامی اور عدالتی خدمات انجام دی ہیں اور طویل تجربے اور مشاہدات کے بعد اس امر کا کھلے بندوں اعتراف کیا ہے کہ برطانوی دور کا نافذ کردہ قانونی نظام برصغیر پاک و ہند اور بنگلہ دیش کے لوگوں کے مزاج و نفسیات سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ اور وہ ان کے مسائل و تنازعات کو حل کرنے کی بجائے مزید الجھانے اور پیچیدہ بنانے کا کام کرتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ کوئی نوآبادیاتی حکومت اپنی نوآبادی کو قبضے میں رکھنے کے لیے یہی کچھ کر سکتی ہے۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ نوآبادیاتی تسلط سے آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی اسی قانونی نظام اور قوانین کو باقی رکھا گیا ہے اور خود اپنی ضروریات کے مطابق بھی اس میں کسی قسم کے رد و بدل کو روا نہیں رکھا جا رہا ہے۔ ہرچند سنگھ باٹھ نے اسی حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے اور حسرت کا اظہار کیا ہے کہ ہم ابھی تک اپنی ضروریات کے تحت ان قوانین میں کوئی رد و بدل نہیں کر سکے۔

بھارت میں عام لوگوں کی ضروریات کیا تقاضہ کرتی ہیں اس کے بارے میں تو ہرچند سنگھ باٹھ ہی بہتر طور پر رہنمائی کر سکتے ہیں، لیکن ہمارے ہاں پاکستان میں ہماری ضروریات کا دائرہ کیا ہے؟ اس کے حوالے سے ہم خود کچھ عرض کرنے کی بجائے بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی زبان سے ان ضروریات کو سمجھنے کی کوشش کر سکتے ہیں کہ قانونی نظام اور قوانین کے دائرے میں اس نئے ملک میں ان کے نزدیک کیا تبدیلیاں رونما ہونا ضروری تھیں۔ قائد اعظمؒ نے ۱۹۴۴ء میں آل انڈیا نیشنل کانگریس کے لیڈر گاندھی کے نام اپنے معروف خط میں فرمایا تھا کہ

’’قرآن مسلمانوں کا ضابطۂ حیات ہے، اس میں مذہبی و مجلسی، دیوانی و فوجداری، عسکری و تعزیری، معاشی و معاشرتی، غرض کہ سب شعبوں کے احکام موجود ہیں۔ مذہبی رسوم سے لے کر روزانہ امور حیات تک، روح کی نجات سے لے کر جسم کی صحت تک، جماعت کے حقوق سے لے کر فرد کے حقوق و فرائض تک، اخلاق سے لے کر انسداد جرم تک، زندگی میں سزا و جزا سے لے کر عقبیٰ کی جزا و سزا تک ہر ایک فعل، قول اور حرکت پر مکمل احکام موجود ہیں۔ لہٰذا میں جب یہ کہتا ہوں کہ مسلمان ایک قوم ہے تو حیات اور مابعد الممات کے ہر معیار اور ہر مقدار کے مطابق کہتا ہوں‘‘۔

جناب محمد علی چراغ نے اپنی تصنیف ’’قائد اعظم کے مہ و سال‘‘ میں ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے قائد اعظمؒ کے خطاب کا ذکر کیا ہے جس میں انہوں نے فرمایا کہ

’’اسلام کے اصول و ضوابط آج بھی اسی طرح قابل عمل ہیں جس طرح آج سے تیرہ سو سال پہلے تھے۔ اسلام محض رسوم، روایات، اور روحانی نظریات کا مجموعہ نہیں بلکہ ہر مسلمان کے لیے ضابطۂ حیات ہے۔ اسلام میں انسان اور انسان میں کوئی فرق نہیں ہے، مساوات اور آزادی و اخوت اسلام کے اساسی اصول ہیں۔ ہم دستور پاکستان بنائیں گے اور دنیا کو بتائیں گے کہ یہ اعلیٰ آئینی نمونہ ہے۔‘‘

’’قائد اعظمؒ کے مہ و سال‘‘ میں ہی ان کا وہ خطاب مذکور ہے جو انہوں نے یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے کیا تھا اور اس میں کہا تھا کہ

’’مغرب کے نظام معاشیات نے متعدد مسائل پیدا کر رکھے ہیں۔ میں اسلامی نظریات کے مطابق آپ کے یہاں نظام معیشت دیکھنے کا متمنی ہوں۔‘‘

قائد اعظمؒ کے ان ارشادات اور ان کے دیگر درجنوں فرمودات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پاکستان میں قانونی نظام اور قوانین کے حوالے سے کس قسم کی تبدیلیوں کی خواہش رکھتے تھے۔ وہ اسلام کے معاشی اور معاشرتی قوانین کو بروئے کار لانے کے متمنی تھے اور مغرب کے نظام معیشت پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسلام کے معاشی اصولوں کے مطابق ملک میں ایک نئے معاشی نظام اور اقتصادی ڈھانچے کی تشکیل چاہتے تھے۔ لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ نصف صدی سے زیادہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک ’’انڈیا ایکٹ‘‘ سے چمٹے ہوئے ہیں اور دستور میں اسلامی نظام حیات اور اسلامی قوانین کی ترویج کی گارنٹی واضح طور پر موجود ہونے کے باوجود قوم کو قرآن و سنت کے احکام و قوانین کے نفاذ کی منزل سے ہمکنار کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم قومی سطح پر خلفشار کا شکار ہیں۔

ہم ایمان و یقین کا اظہار قرآن و سنت کے ساتھ کرتے ہیں لیکن ہماری وفاداری نوآبادیاتی نظام و قوانین کے ساتھ ہے۔ ہم نے دستور میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کر رکھا ہے لیکن اس حاکمیت اعلیٰ کو اپنے قانونی نظام اور معاشرتی و معاشی سسٹم میں دخل اندازی کا حق دینے کے لیے ابھی تک تیار نہیں ہیں۔ یہ دہری وفاداری ہمارے قومی مزاج کا حصہ بنتی جا رہی ہے جس کی ایک جھلک دہری شہریت کے حوالے سے ہونے والی بحث میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ ہمارے بہت سے دوستوں بلکہ دانشوروں کو بھی اس بات میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہو رہی کہ ایک شخص ملکہ برطانیہ کا وفادار بھی ہو اور اس وفاداری کو پوری طرح قائم رکھتے ہوئے دستور پاکستان کے تحت اللہ تعالیٰ کی وفاداری کا حلف بھی اٹھا لے، اور پھر زندگی بھر دونوں وفاداریوں کا تمغہ اپنے سینے پر سجائے رکھے۔

مجھے اس موقع پر شکاگو میں قائم بہائیوں کا ایک مرکز یاد آرہا ہے جس میں وحدت ادیان کے تصور کے تحت ایک بڑے ہال میں مسجد، مندر، چرچ، گوردوارہ، اور سینی گاگ کے الگ الگ پورشن ایک ہی چھت کے نیچے بنائے گئے ہیں۔ ۱۹۸۹ء میں یہ مرکز دیکھنے کا اتفاق ہوا تو مرکز کے انچارج نے بتایا کہ ہم نے مسجد اور مندر کو ایک ہی چھت کے نیچے جمع کر دیا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ مسجد اور مندر کو تو آپ نے ایک چھت کے نیچے جمع کر لیا ہے لیکن مجھے یہ سمجھائیں کہ توحید اور شرک کو آپ نے اس چھت کے نیچے آخر کس طرح اکٹھے کر دیا ہے؟ اسی چھت کے نیچے اللہ تعالیٰ ’’وحدہ لا شریک لہ‘‘ بھی ہے اور اسی ہال میں اس کے ساتھ دیگر شریکوں کی پوجا بھی کی جا رہی ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے کہ ہم پاکستانی بھی کم و بیش اسی طرح کی صورتحال اختیار کیے ہوئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کا دامن بھی ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں اور برطانوی نوآبادیاتی دور کی یادگار معاشی، معاشرتی، اور قانونی نظام کی وفاداری سے دستبردار ہونے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ بقول غالب

ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے، کلیسا میرے آگے
   
2016ء سے
Flag Counter