وکلا تحریک کے قائدین کی خدمت میں چند معروضات

   
تاریخ : 
جنوری ۲۰۰۸ء

چودھری اعتزاز احسن صاحب ہمارے ملک کے نامور وکلاء اور معروف سیاستدانوں میں سے ہیں اور قومی حلقوں میں ان کا تعارف ایک شریف النفس، شائستہ اور دانشور راہنما کے طور پر ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب جسٹس افتخار محمد چودھری جب دستور کی بالادستی اور عدلیہ کے وقار کی بحالی کے لیے میدان میں آئے تو ان کے قریبی رفیق کار کے طور پر مسلسل ان کا ساتھ دے کر چودھری اعتزاز احسن نے اپنی عزت میں مزید اضافہ کیا اور اسی کے نتیجے میں انہیں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا صدر چن کر ملک بھر کے وکلاء نے دستور کی بحالی اور عدلیہ کی بالادستی کے لیے اپنی تحریک کی قیادت سونپ دی ہے جو فی الواقع ایک بڑے اعزاز کی بات ہے اور ہم اس پر چودھری صاحب موصوف کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے دعا گو ہیں کہ اللہ رب العزت انہیں دستور پاکستان کی بحالی اور عدلیہ کی بالادستی کی ایک تحریک میں سرخروئی اور کامیابی سے ہمکنار کریں، آمین یا رب العالمین۔

وکلاء اس تحریک کے لیے کئی ماہ سے میدانِ عمل میں ہیں اور عدالتوں کے بائیکاٹ، عوامی مظاہروں اور عام انتخابات کے بائیکاٹ کی صورت میں دستور کی بحالی اور پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے محترم جج صاحبان کی ان کے دستوری مناصب پر واپسی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں جس میں ملک کا ہر باشعور شہری ان کے ساتھ ہے۔ چودھری اعتزاز احسن ایمرجنسی اور پی سی او کے نفاذ کے بعد سے مسلسل زیر حراست ہیں اور انہیں اس بات سے روکنے کے لیے کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ وکلاء کی اس تحریک کی عملاً قیادت کریں۔ چنانچہ بظاہر ایمرجنسی ختم ہو جانے کے باوجود ان کی حراست کا تسلسل جاری ہے مگر وہ اپنے عزم پر قائم نظر آتے ہیں جس کا اظہار انہوں نے عید الاضحی کے موقع پر اپنی ’’عارضی رہائی‘‘ کے دوران یہ کہہ کر کیا ہے کہ ۸ جنوری کے انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومت کو اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی بحالی کے لیے تین ہفتوں کا وقت دیا جائے گا اور اگر اس وقت تک چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور ان کے ساتھی ججوں کو بحال نہ کیا گیا تو حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز کر دیا جائے گا۔

ہم چودھری اعتزاز احسن صاحب کے اس عزم اور اعلان کا خیر مقدم کرتے ہیں اور دستور کی بالادستی اور عدلیہ کے محترم ججوں کی بحالی کے لیے وکلاء کی جدوجہد کی بھرپور حمایت کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ اسی حوالے سے ہم دو گزارشات وکلاء کی اس تحریک کی قیادت، بالخصوص چودھری اعتزاز احسن صاحب کی خدمت میں پیش کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں۔

ایک یہ کہ قوم کے دوسرے طبقات کو ساتھ لیے بغیر صرف وکلاء کے فورم پر اس تحریک کو منظم کرنے اور آگے بڑھانے کی حکمت عملی ہمارے نزدیک محل نظر ہے، اصولاً بھی کہ جب یہ قومی مسئلہ ہے تو اس کے لیے منظم کی جانے والی تحریک میں قوم کے تمام طبقات کی نمائندگی نظر آنی چاہیے، اور عملاً بھی کہ کسی ایک طبقے کی بنیاد پر چلائی جانے والی تحریک کی کامیابی کے امکانات ہمارے خیال میں زیادہ روشن دکھائی نہیں دیتے۔ اس لیے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اس تحریک کی قیادت اور کنٹرول بے شک اپنے ہاتھ میں رکھے لیکن اس میں ملک کے دینی و سیاسی حلقوں کی نمائندگی کا اہتمام ضرور کرے۔

دوسری گزارش یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ کے تمام تر احترام کے باوجود اس کے ساٹھ سالہ مجموعی کردار کے بارے میں ملک کے عوام اور مختلف طبقات کو جو شکایات ہیں اور ان کے جو تحفظات ہیں، تحریک کے اہداف طے کرتے وقت ان سب کو سامنے رکھنا ضروری ہے اور اسی صورت میں اس تحریک کو پوری قوم کی حمایت حاصل ہو سکتی ہے۔ مثلاً ملک کے جمہوری حلقوں کا شکوہ ہے کہ جسٹس محمد منیر مرحوم نے دستور ساز اسمبلی کے توڑے جانے کے غیر جمہوری عمل کو جواز کی جو سند بخشی تھی، اسے اس کے بعد روایت ہی کا درجہ دے دیا گیا ہے اور اب تک ہر آمر کے دستور شکن اقدامات کو ’’عدالتی تحفظ‘‘ مل رہا ہے۔ یہ صورتحال ملک کے ہر شہری کے لیے پریشان کن اور باعث اضطراب ہے اور وکلاء کی موجودہ دستوری جدوجہد بھی اسی کا فطری رد عمل ہے۔ اسی طرح ملک کے دینی حلقوں کو بھی شکایت ہے کہ ملک میں اسلامی نظام و قوانین کی عملداری کے لیے، جسے قیام پاکستان کا اہم ترین مقصد ہونے کے ساتھ ساتھ دستور پاکستان کی بنیاد اور اس کی طرف سے فراہم کی گئی ضمانت کا درجہ حاصل ہے، عدالت عظمیٰ کا اب تک کا مجموعی رول حوصلہ افزائی کا نہیں ہے۔ اور جس طرح جمہوری اقدار کی سربلندی کے خواہاں حلقوں کو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی طرف سے اب تک وہ ’’ریلیف‘‘ نہیں ملا جو جمہوریت کی عملداری کے لیے ضروری ہے، اسی طرح اسلامی اقدار کی بالادستی کے لیے بھی قوم اسی طرح عدالت عظمیٰ کی طرف سے دیے جانے والے ’’ریلیف‘‘ کا انتظار کر رہی ہے اور اس کا یہ انتظار اب رفتہ رفتہ حسرت میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔

اسلام اور جمہوریت دونوں ملک کی نظریاتی اساس ہیں۔ دستور پاکستان کی بنیاد بھی انہی دو اصولوں پر رکھی گئی ہے اور ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ یہ بات دستور میں ہمیشہ کے لیے طے کر دی گئی ہے کہ ملک میں حکومت کا حق عوام کے منتخب نمائندوں کو ہوگا اور پارلیمنٹ کو ہی قانون سازی کا اختیار حاصل ہوگا لیکن وہ قرآن و سنت کے اصولوں کی پابند اور اسلامی قوانین کے نفاذ کی ذمہ دار ہوگی۔ اس لیے جہاں جمہوری اقدار کی سربلندی کا اہتمام کرنا اعلیٰ عدالتوں کی ذمہ داری ہے، وہاں اسلامی اصولوں کی بالادستی کا خیال رکھنا بھی ان کے فرائض میں شامل ہے، لیکن اب تک کی معروضی صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ملک کے مجموعی عدالتی کردار میں اسلام اور جمہوریت دونوں سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں۔

ملک کے دینی حلقوں کا عمومی تاثر یہ ہے کہ

  • قرارداد مقاصد کی بالادستی کو تسلیم نہ کرنے کا عدالتی فیصلہ،
  • سود کے خاتمہ کے لیے شریعت کورٹ کے فیصلے کا تعطل، اور
  • صوبہ سرحد میں حسبہ ایکٹ کے نفاذ کو عدالتی طور پر روک دینے کا عمل،

اپنے نتائج و ثمرات کے حوالے سے جسٹس محمد منیر محروم کے اس فیصلے سے مختلف نہیں ہے جس کے ذریعے انہوں نے دستور ساز اسمبلی کو توڑنے کے غیر جمہوری اقدام کو ’’نظریہ ضرورت‘‘ کا شیلٹر مہیا کر دیا تھا۔ بلکہ ہماری معلومات کے مطابق اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی بحالی کی تحریک کے سلسلے میں مولانا فضل الرحمن کا گریز کا عمل بھی حسبہ ایکٹ کے بارے میں عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کے پس منظر میں ہے، جس کا دکھ صرف مولانا فضل الرحمن کو نہیں ہے بلکہ ملک میں نفاذ اسلام کی خواہش رکھنے والا ہر شخص اس کی کسک اپنے دل میں محسوس کر رہا ہے اور اعلیٰ عدالتوں سے جسٹس محمد منیر مرحوم کے فیصلے کی طرح مذکورہ بالا فیصلوں کی تلافی کی بھی بجا طور پر توقع رکھتا ہے جس پر اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان اور ملک کے سینئر وکلاء کو پوری سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینی چاہیے۔

ہم مولانا فضل الرحمن کے موجودہ سیاسی کردار اور پالیسیوں کا دفاع نہیں کر رہے اور بہت سے دیگر سیاسی حلقوں کی طرح ہم بھی ان کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں، البتہ ’’حسبہ ایکٹ‘‘ کے بارے میں مولانا فضل الرحمن کے تحفظات کو ہم بے جا نہیں سمجھتے، اس لیے اس کا ذکر ان گزارشات میں ہم نے مناسب سمجھا ہے اور ہم امید رکھتے ہیں کہ وکلاء تحریک کی اعلیٰ قیادت اس کا ضرور جائزہ لے گی۔

ان گزارشات کے ساتھ ہم سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی قیادت، بالخصوص چودھری اعتزاز احسن صاحب کی طرف سے دستور کی بالادستی اور اعلیٰ عدالتوں کے معزول ججوں کی بحالی کے لیے تحریک کے اعلان کا ایک بار پھر خیر مقدم کرتے ہیں اور انہیں یقین دلاتے ہیں کہ دستور پاکستان اور اس کی دونوں بنیادوں یعنی اسلام اور جمہوریت کی بالادستی کی اس جدوجہد میں انہیں ہمارا ہر ممکن تعاون حاصل ہوگا۔

   
2016ء سے
Flag Counter