قادیانیوں کی نئی چال

   
۲۲ اگست ۲۰۰۸ء

امریکا میں ان دنوں قادیانیوں کی دعوتی مہم پورے عروج پر ہے، یہاں سے شائع ہونے والے پاکستانی اردو اخبارات میں قادیانی اجتماعات کی رپورٹوں اور قادیانی راہ نماؤں کے بیانات کے علاوہ ان کی طرف سے اشتہارات کے ذریعہ بھی مسلمانوں کو قادیانی جماعت میں شامل ہونے کی دعوت و ترغیب دی جا رہی ہے اور اس کے لیے ان کی تکنیک وہی ہے کہ قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ کرنے والے عقائد اور تعلیمات کو پس منظر میں رکھتے ہوئے مرزا غلام احمد قادیانی کی ایسی تحریرات کو لوگوں کے سامنے لایا جا رہا ہے کہ جن میں مسلمانوں کے عقائد کے ساتھ ان کی ہم آہنگی نظر آتی ہے اور اس طرح قادیانی تعلیمات اور قادیانی امت کے کردار سے بے خبر مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ مسلم علماء کرام قادیانیوں کی طرف جن عقائد کی نسبت کرتے ہیں اور جن کی بنیاد پر قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک غیر مسلم گروہ قرار دیا جاتا ہے وہ محض اختراء اور بہتان ہے اور قادیانیوں کے وہ عقائد نہیں ہیں۔ اس کے بعد یہ بات لوگوں کے ذہنوں میں ڈالی جاتی ہے کہ پاکستان میں قادیانیوں کو ”غیر مسلم اقلیت“ قرار دینے کا جو دستوری فیصلہ ۱۹۷۴ء میں قومی اسمبلی نے کیا تھا وہ درست نہیں ہے، اس کے ذریعہ قادیانیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے اور ان کے مذہبی اور شہری حقوق پامال کیے جا رہے ہیں۔

اس وقت ہمارے سامنے دو اخباری اشتہار ہیں جو ہفت روزہ ”پاکستان ایکسپریس“ نیویارک یکم اگست ۲۰۰۸ء کی اشاعت میں اور ہفت روزہ ”نیویارک عوام“ نیویارک کے ۱۱ جولائی تا ۱۷ جولائی ۲۰۰۸ء کے شمارے میں شائع ہوئے ہیں، دونوں پورے صفحے کے اشتہار ہیں اور ان میں مرزا غلام احمد قادیانی کی ایسی عبارتیں پیش کی گئی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ وہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا آخری نبی مانتے ہیں، عقیدہ ختم نبوت پر مکمل ایمان رکھتے ہیں، قرآن کریم کو آخری اور ناقابل ترمیم و تنسیخ کتاب سمجھتے ہیں اور اس کے خلاف عقیدہ رکھنے والوں کو جماعت مومنین سے خارج اور ملحد اور کافر قرار دیتے ہیں۔

ظاہر بات ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے الفاظ میں اس عقیدہ کے اظہار کے بعد ایک خالی الذہن عام قاری کا ذہن یہی بنے گا کہ قادیانیوں کو خواہ مخواہ ختم نبوت کا منکر قرار دیا جاتا ہے اور انہیں غیر مسلموں کے دائرے میں شامل کرنا ان کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔ لیکن یہ مسلسل فریب کاری کی قادیانی تکنیک ہے، جس سے علماء کرام اور تحریک ختم نبوت کے راہ نماؤں نے عام مسلمانوں کو ہر دور میں تفصیل کے ساتھ آگاہ کیا ہے اور اب چونکہ ایسی کسی عمومی مہم کو خاصا عرصہ گزر جانے کے باعث یہ تفصیلات لوگوں کے ذہنوں میں نہیں ہیں، اس لیے ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ اس فریب کاری کو عوامی سطح پر بے نقاب کرنے کی ایک بار پھر مہم چلائی جائے اور نئی نسل کو بتایا جائے کہ قادیانیوں کے اصل عقائد اور ان کا کردار کیا ہے؟ انہیں کن وجوہ کی بنا پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا تھا اور کون سے اسباب و عوامل ہیں جن کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمان قادیانیوں کو ملت اسلامیہ کا حصہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں؟ اس کے لیے تحفظ ختم نبوت کے محاذ پر کام کرنے والی جماعتوں اور اداروں کو سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینی چاہیے اور باہمی مشاورت اور منصوبہ بندی کے ساتھ منظم محنت کرنی چاہیے۔

سرِدست ان دو اشتہارات کو سامنے رکھتے ہوئے صرف اس پہلو پر ہم کچھ گزارشات پیش کر رہے ہیں کہ کیا مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کے پیروکاروں کا عقیدۂ ختم نبوت پر ایمان ہے؟ اور کیا واقعتاً وہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نئی وحی اور نئی نبوت کے دعوے کو کفر تصور کرتے ہیں؟ یہ بات درست ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے ابتدائی دور میں عقائد وہی تھے جو عام مسلمانوں کے تھے، جیسا کہ اکتوبر ۱۸۹۱ء کو ان کی طرف سے شائع ہونے والے ایک مطبوعہ اعلان میں، جو ان کی تصنیف ”تبلیغ رسالت“ کے حصہ دوم میں موجود ہے، مرزا صاحب نے کہا تھا کہ

”میں ان تمام امور کا قائل ہوں جو اسلامی عقائد میں داخل ہیں اور جیسا کہ اہل السنت والجماعت کا عقیدہ ہے، ان سب باتوں کو مانتا ہوں جو قرآن و حدیث کی رو سے مسلم الثبوت ہیں اور سیدنا و مولانا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت اور رسالت کو کاذب اور کافر جانتا ہوں۔ میرا یقین ہے کہ وحی رسالت آدم صفی اللہ سے شروع ہوئی اور جناب رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گئی۔“

لیکن بعد میں مرزا صاحب کے عقائد تبدیل ہو گئے، جس کا اعتراف ان کے فرزند مرزا بشیر الدین محمود نے قادیانی جريدہ ”الفضل“ میں چھ ستمبر ۱۹۴۱ء کو شائع ہونے والے اپنے خطبہ جمعہ میں ان الفاظ میں کیا ہے کہ

”نبوت اور حیاتِ مسیح کے متعلق آپ کا عقیدہ پہلے عام مسلمانوں کی طرح تھا، مگر پھر دونوں میں تبدیلی فرمائی گئی۔“

بلکہ مرزا صاحب کی کتاب ”انجام آتھم“ ۷/۶۷ میں اس تبدیلی کا یوں ذکر کیا گیا ہے کہ

”پہلے صرف توریت، انجیل، زبور، قرآن شریف اور دوسرے مصحف پر ایمان لانا ضروری تھا اور ایسا ایمان لانے والا ابدی راحت کا مستحق تھا، لیکن مرزا صاحب کی شریعت نے اس فیصلے کو منسوخ کر دیا اور اب یہ حکم ہو گیا کہ مرزا صاحب کی وحی پر ایمان لانا بھی فرض ہے جس طرح قرآن شریف پر اور دوسری کتابوں پر اور ایسا ایمان نہ لانے والا جہنمی ہے۔“

اپنی کتاب ”حقیقۃ الوحی“ شائع شدہ ۱۹۰۷ء میں صفحہ ۱۵۰ کے حاشیہ پر مرزا صاحب خود لکھتے ہیں کہ

”اوائل میں میرا عقیدہ یہی تھا کہ مجھ کو مسیح بن مریم سے کیا نسبت ہے، وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا ہے تو میں اس کو ایک جزوی فضیلت قرار دیتا۔ مگر بعد میں خدا تعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی، اس نے مجھے اس عقیدے پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا۔“

مرزا صاحب کا کہنا ہے کہ وہ وحی کے نزول کے بعد نبوت اور مسیحیت دونوں کے بارے میں اپنے سابقہ عقیدے پر قائم نہ ر ہے اور مرزا بشیر الدین محمود کے جس خطبہ جمعہ کا روزنامہ ”الفضل“ کے حوالہ سے اوپر ذکر کیا گیا ہے اس میں انہوں نے بھی یہ کہا ہے کہ

”دعوائے مسیحیت کی بابت تبدیلی جبراً بذریعہ وحی ہوئی اور نبوت کے متعلق بھی سابقہ عقیدہ میں وحی کے ذریعے تبدیلیاں کی گئیں۔“

وحی کے بارے میں مرزا غلام احمد قادیانی کا کہنا ہے کہ جو ”تبلیغ رسالت“ ۱۰/۱۸ میں مذکور ہے کہ

’’جیسا کہ قرآن شریف کی آیات پر ایمان رکھتا ہوں ایسا ہی بغیر فرق ایک ذرہ کے خدا کی اس کھلی کھلی وحی پر بھی ایمان لاتا ہوں جو مجھے ہوئی۔“

اسی بنیاد پر مرزا قادیانی نے دعویٰ کیا ہے کہ

”ہر اس شخص کی جسے میری دعوت پہنچی اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے۔“ (بحوالہ حقیقۃ الوحی: ۱۶۳)

مرزا بشیر الدین محمود نے، جو مرزا قادیانی کے فرزند اور قادیانیوں کے دوسرے خلیفہ تھے، اس پر قناعت نہیں کی، بلکہ ایک قدم اور آگے بڑھ کر اعلان کیا کہ

”کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے، خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود کا نام بھی نہیں سنا، وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ میرے عقائد ہیں۔“ (بحوالہ آئینہ صداقت: ۳۵)

مرزا بشیر الدین محمود کے فرزند مرزا ناصر احمد، جو قادیانیوں کے چوتھے خلیفہ کہلاتے ہیں، جب ۱۹۷۴ء میں قومی اسمبلی کے سامنے پیش ہوئے اور گیارہ روز تک اپنے موقف اور پوزیشن کی وضاحت میں ارکان اسمبلی کے سوالات کے جوابات دیتے رہے، قومی اسمبلی کے فلور پر اس وقت کے اٹارنی جنرل آف پاکستان جناب یحییٰ بختیار مرحوم کے سوالات پر انہوں نے صراحت کے ساتھ کہا کہ

”وہ نجات اور ایمان کے لیے مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت پر ایمان لانے کو ضروری سمجھتے ہیں اور ان کے نزدیک دنیا بھر کے وہ تمام مسلمان دائرہ اسلام سے خارج اور کافر ہیں جو مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت اور وحی پر ایمان نہیں رکھتے۔“

چنانچہ ان کے اس صریح اور دوٹوک اعلان کے بعد قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا فیصلہ کیا اور دستور پاکستان میں ترمیم کر کے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیتوں میں شامل کر دیا۔

قادیانی جماعت کی موجودہ قیادت اپنے حالیہ بیانات کے حوالہ سے مرزا غلام احمد قادیانی کی ابتدائی زندگی والی پوزیشن پر واپس جانا چاہتی ہے اور ان کے ۱۸۹۱ء والے اعلان کے مطابق اہل السنت والجماعت کے مسلم عقائد کو قبول کرتی ہے تو یہ ہمارے لیے بے حد خوشی کی بات ہو گی، لیکن اس کے لیے قادیانی راہ نماؤں کو ان تمام تبدیلیوں کی صراحتاً نفی کرنا ہو گی اور ان سے برأت کا اعلان کرنا ہو گا جن کا سطور بالا میں باحوالہ ذکر کیا گیا ہے۔ ورنہ اپنے سابقہ اور منسوخ شدہ عقائد و بیانات کی بنیاد پر اپنی موجودہ پوزیشن کو مسلمانوں کو تسلیم کرانے کی یہ مہم دھوکہ دہی اور فریب کاری کے علاوہ اور کوئی درجہ حاصل نہیں کر سکے گی۔

   
2016ء سے
Flag Counter