مسلم شریف میں حضرت مستورد قرشیؓ کی روایت میں قیامت کی نشانیوں کے حوالہ سے مذکور ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’والروم اکثر الناس‘‘ رومیوں کی لوگوں میں کثرت ہو گی۔ یہاں رومیوں سے مراد مغربی قومیں اور اکثریت سے غلبہ مراد لیا جائے تو اس کا منظر ہم ایک عرصہ سے دیکھ بلکہ بھگت رہے ہیں کہ دنیا میں ہر طرف مغربی اقوام و ممالک کا غلبہ اور اجارہ داری ہے۔ جس کے سامنے دنیا کی زیادہ تر اقوام بے بسی اور غلامی کی تصویر بنی ہوئی ہیں، اور ہم خود بھی اسی کا شکار ہیں۔ اس کے اسباب و عوامل کا جائزہ لینا اور ان سے نکلنے کے راستے تلاش کرنا ہماری ملی و قومی ذمہ داری ہے مگر ہمارے پاس اس کام کے لیے نہ وقت ہے اور نہ ہی اس کی ضرورت کا کسی درجہ میں احساس نظر آتا ہے۔
مغرب کے حوالے سے کام کرنے کے تین الگ الگ دائرے ہیں: (۱) مغرب پر کام کرنا (۲) مغرب میں کام کرنا (۳) اور مغرب کے لیے کام کرنا۔ جن میں سے تیسرے دائرے میں محنت کرنے والے تو ہر طرف، ہر شعبہ زندگی اور ہر سطح پر دکھائی دیتے ہیں مگر پہلے دو دائروں کی طرف ہم متوجہ نہیں ہو پا رہے اور آج اسی حوالہ سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔
(۱) جہاں تک مغرب پر کام کرنے کی بات ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا پر بالخصوص عالم اسلام میں مغربی اقوام و ممالک کے ہمہ نوع غلبہ کے اسباب و عوامل کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے اور جذبات و عقیدت سے ہٹ کر معروضی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ واضح کرنے کی کوشش کی جائے کہ ہماری کون کون سی کوتاہیاں اس کا باعث بنی ہیں۔ یہ بات اصولاً درست ہے کہ قرآن و سنت کی راہنمائی سے اجتماعی طور پر ہٹ جانا اس کا سب سے بڑا سبب ہے مگر اتنا کہہ دینا کافی نہیں ہے بلکہ اس کی عملی صورتوں کو سامنے لانا بھی ضروری ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے قرآن کریم میں غزوہ احد کے موقع پر مسلمانوں کی وقتی پسپائی کے اسباب کا تجزیہ کیا گیا ہے اور اس پر مسلمانوں کو ڈانٹ پلائی گئی ہے۔
(۲) ہمارے ہاں مغرب کے حوالہ سے کسی بھی علمی و فکری کام کو پہلے دو دائرے منظم نہ ہونے کی وجہ سے آخری دائرے میں ہی شمار کر لیا جاتا ہے جس کی مثال میں یہ دیا کرتا ہوں کہ جس طرح بعض حضرات ’’کلر بلائنڈ‘‘ ہوتے ہیں کہ وہ مختلف رنگوں کے درمیان فرق نہیں کر سکتے اور انہیں صرف سیاہ اور سفید کا فرق ہی نظر آتا ہے، اسی طرح مغرب کے حوالے سے مختلف نوع کے ملی کاموں کو ’’بلیک اینڈ وائیٹ‘‘ مزاج کے لوگ ایک ہی رنگ میں دیکھتے ہیں اور اس میں وہ عموماً معذور ہوتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ہم نے لندن میں ’’ورلڈ اسلامک فورم‘‘ کے نام سے کام شروع کیا تو اس میں ایک شعبہ ’’ویسٹ واچ‘‘ کے نام سے اس مقصد کے لیے تجویز کیا کہ جس طرح مغرب کے سینکڑوں دانشوروں نے ’’استشراق‘‘ کے عنوان سے مشرقی اور اسلامی علوم پر عبور حاصل کر کے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف علمی و فکری محنت کے راستے نکالے تھے اور اس پر خاصی پیشرفت کی ہے، اسی طرح ہمارے ہاں ’’استغراب‘‘ کی محنت ہونی چاہیے، جس میں مغربی قوموں کی برتری اور مشرقی و اسلامی قوتوں کی پسپائی کے اسباب و عوامل کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ مغربی فکر و فلسفہ اور نظام و معاشرت کی کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اسلام کی برتری کے پہلو سامنے لائے جائیں۔ ہم نے اس کے لیے لندن میں متعدد نشستیں کیں اور مختلف اصحاب علم و دانش کو اظہار خیال کی زحمت دی مگر عمومی ماحول نہ ہونے کی وجہ سے کوئی مؤثر پیشرفت نہ ہو سکی، بلکہ اس نفسیاتی ردعمل کا روایتی انداز میں سامنا کرنا پڑا کہ یہ بھی شاید مغرب کے لیے ہی کام کرنا چاہ رہے ہیں، چنانچہ یہ بات اب صرف خواہش اور تمنا کے درجہ میں رہ گئی ہے اور اس کے آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نہیں مل رہا۔
(۳) تیسرا دائرہ مغرب میں کام کرنے کا ہے کہ ہمارے کچھ اصحاب علم و فکر مغرب میں بیٹھ کر اس کی بالادستی اور برتری سے مرعوب ہوئے بغیر اس کی فکری و تہذیبی یلغار کا علمی و فکری طور پر سامنا کریں اور مغربی دانش کی مختلف سطحوں کے سامنے اسلام کی افادیت و ضرورت کو اجاگر کرنے کا ماحول بنائیں۔ اس کے لیے مختلف مسلم معاشروں کے درجنوں اہل علم نے گزشتہ صدی کے دوران محنت کی ہے جن میں ڈاکٹر حمید اللہؒ کو آئیڈیل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے اور ان کا وہ علمی، فکری اور دعوتی کام اس محنت کے لیے اساس کی حیثیت رکھتا ہے جو انہوں نے حیدر آباد (دکن) سے ہجرت کے بعد پیرس میں بیٹھ کر کئی عشروں تک جاری رکھا اور جو ہماری علمی و فکری تاریخ کا اہم باب ہے۔
گزشتہ روز اسلام آباد کے سفر میں حافظ سید علی محی الدین نے محترم صاحبزادہ ڈاکٹر ساجد الرحمان کی طرف سے ڈاکٹر حمید اللہؒ پر ان کی تصنیف پیش کی تو اس کی ورق گردانی کرتے ہوئے یہ ساری باتیں ایک بار پھر ذہن میں تازہ ہو گئیں اور جی چاہا کہ ان جذبات و احساسات میں قارئین کو بھی شریک کر لیا جائے۔ ڈاکٹر ساجد الرحمان نقشبندی سلسلہ کی معروف خانقاہ بگھار شریف کے سجادہ نشین ہیں، صاحب علم و فکر اور حامل فہم و دانش ہیں، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اور اسلامی نظریاتی کونسل میں ان کی خدمات ہمارا علمی سرمایہ ہیں اور وہ ہمارے محترم اور فاضل دوستوں میں سے ہیں۔ اس کتاب کا ہدیہ بھیجنے پر محترم ڈاکٹر ساجد الرحمان کا دو حوالوں سے شکرگزار ہوں۔ ایک اس لیے کہ ڈاکٹر حمید اللہؒ کی بہت سی باتیں ایک بار ذہن میں تازہ ہو گئی ہیں، اور دوسرا یہ کہ اس بہانے مجھے قارئین کے سامنے اپنا ایک پرانا سبق پھر سے دہرانے کا موقع مل گیا ہے۔
اس موقع پر میں نوجوان اہل علم سے یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ مغرب کے لیے کام کرنے کے نمونے تو انہیں ہر طرف مل جائیں گے مگر وہ مغرب پر کام کرنے کے راستے تلاش کریں اور اس کے لیے حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ اور ڈاکٹر حمید اللہؒ کا سنجیدگی سے مطالعہ کریں جس سے انہیں اعتماد و حوصلہ بھی ملے گا اور کام کے راستے بھی واضح دکھائی دیں گے، ان شاء اللہ تعالٰی۔