سنت نبویؐ اور رائے عامہ کا احترام

   
تاریخ : 
۲۱ نومبر ۱۹۹۸ء

گزشتہ ایک کالم میں اس موضوع پر اظہار خیال کیا تھا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے معاملات میں، جن میں وحی کا نزول نہیں ہوتا تھا، ساتھیوں سےمشورہ کرتے تھے۔ عام لوگوں سے متعلقہ امور میں عام لوگوں کو شریک مشاورت کرتے تھے اور لوگوں کی رائے کو قبول بھی فرماتے تھے۔ آج اسی مسئلے کے ایک اور پہلو پر کچھ عرض کرنا مقصود ہے، وہ یہ کہ جناب رسول اللہؐ کو اس بات کا بھی خیال رہتا تھا کہ ان کے کسی کام سے لوگوں میں بلاوجہ غلط فہمیاں نہ پھیلیں او رپبلک تاثر درست رہے۔ عوامی زندگی میں اپنے بارے میں لوگوں کے تاثرات کو درست رکھنا اور مختلف کاموں کے بارے میں لوگوں کے احساسات و جذبات کا جائزہ لیتے رہنا اور انہیں ملحوظ رکھنا ضروری ہوتا ہے اور یہ سنت نبویؐ بھی ہے۔ اس بارے میں دو واقعات پیش کرنا چاہتا ہوں۔

ایک واقعہ بیت اللہ کی تعمیر کے سلسلہ میں ہے جسے امام بخاریؒ نے ام المومنین حضرت عائشہؓ کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ خانہ کعبہ کی موجودہ تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تعمیر کردہ بیت اللہ کے نقشہ کے مطابق نہیں ہے۔ ابراہیمی تعمیر میں حطیم سمیت پورے بیت اللہ پر چھت تھا، دروازہ زمین کے برابر تھا، اور آمنے سامنے دو دروازے تھے جس سے عام لوگوں کو یہ سہولت ہوتی تھی کہ وہ ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے دروازے سے نکل جاتے تھے اور انہیں بیت اللہ شریف کے اندر جانے کا موقع مل جاتا تھا۔ حضورؐ کی بعثت سے پہلے جب قریش مکہ نے بیت اللہ شریف کی دوبارہ تعمیر کی تو اعلان کے مطابق حلال کی کمائی کا چندہ اس قدر جمع نہیں ہو سکا کہ پورے بیت اللہ پر چھت ڈالی جا سکے۔ اس لیے ایک حصہ چھت سے باہر نکال دیا گیا جو حطیم کہلاتا ہے۔ دو کی بجائے ایک دروازہ کر دیا گیا اور وہ بھی زمین کے برابر رکھنے کی بجائے اونچا کر دیا گیا جس کی وجہ آنحضرتؐ نے یہ بیان فرمائی کہ قریش کے سردار یہ چاہتے تھے کہ کعبہ کے اندر وہی شخص داخل ہوسکے جسے وہ چاہیں اور اسی مقصد کے لیے ایک دروازہ ختم کر کے دوسرا اونچا کر دیا گیا۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب آپؐ نے ان سے یہ تفصیل بیان فرمائی تو انہوں نے دریافت کیا کہ وہ کعبہ کو گرا کر ازسرنو حضرت ابراہیمؑ والی بنیادوں پر دوبارہ تعمیر کیوں نہیں کر دیتے؟ اس پر جناب رسول اللہؐ نے فرمایا کہ ان کا اپنا جی بھی چاہتا ہے لیکن چونکہ قریش والے نئے نئے مسلمان ہوئے ہیں اس لیے خدشہ ہے کہ وہ اسے محسوس کریں گے، اس لیے وہ ایسا نہیں کر رہے۔

اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جناب نبی اکرمؐ کو پبلک تاثرات کا کس قدر لحاظ رہتا تھا۔ بعد میں جب مکہ مکرمہ پر حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کی امارت قائم ہوئی تو انہوں نے حضورؐ کی خواہش کو سامنے رکھتے ہوئے بیت اللہ کو گرا کر اسے ابراہیمی بنیادوں پر تعمیر کر دیا۔ لیکن جب حضرت عبد اللہ بن زبیر شہیدؓ ہوگئے اور حجاج بن یوسف نے مکہ مکرمہ کا چارج سنبھالا تو ابن زبیرؓ کا تعمیر کردہ کعبہ گرا کر اسے دوبارہ قریش کے نقشہ کے مطابق بنا دیا۔ اس کے بعد عباسی خلفاء کا دور آیا تو ان کی خواہش ہوئی کہ حجاج کی تعمیر کو گرا کر پھر سے بیت اللہ کو ابراہیمی بنیادوں پر ازسرنو تعمیر کیا جائے۔ مگر اس وقت کے سب سے بڑے عالم امام اہل سنت حضرت امام مالکؒ نے یہ محسوس کیا کہ اس طرح تو بیت اللہ سیاسی گروپوں کے درمیان بازیچۂ اطفال بن جائے گا اور جو حکمران بھی آئے گا وہ پہلے کی تعمیر گرا کر اسے ازسرنو تعمیر کرنا چاہے گا۔ چنانچہ انہوں نے فتویٰ دے دیا کہ بیت اللہ شریف قیامت تک اسی نقشہ کے مطابق رہے گا او راب اسے گرا کر نئے سرے سے بنانا جائز نہیں ہے۔ یوں انہوں نے اپنی مومنانہ فراست کے ساتھ خانہ کعبہ کو سیاسی گروپوں کی مخاصمت کا نشانہ بننے کے سے ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا۔

مگر اس واقعہ سے جو بات ہم عرض کرنا چاہتے تھے وہ یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عام لوگوں کے احساسات و تاثرات کا اس حد تک خیال رکھا ہے کہ ایک کام کی خواہش کے باوجود اسے محض لوگوں کے احساسات کی وجہ سے روک دیا۔ اور اللہ تعالیٰ کو حضورؐ کی یہ ادا اس قدر پسند آئی کہ تکوینی طور پر اسی صورت کو قیامت تک محفوظ رکھنے کا سامان کر دیا جسے رسول اکرمؐ نے صرف لوگوں کے احساسات و تاثرات کی وجہ سے بظاہر وقتی طور پر باقی رکھا تھا۔

دوسرا واقعہ بھی صحیح بخاری میں ہے اور وہ مدینہ منورہ میں منافقوں کے سردار عبد اللہ بن ابی کے بارے میں ہے جس کی سازش اور شرارتیں سب کے سامنے عیاں ہو چکی تھیں۔ اس نے کئی موقع پر صحابہ کرامؓ کو آپس میں لڑانے کی سازش کی، قریش کے خلاف آنحضرتؐ کے غزوات میں اس نے درپردہ دشمنوں کی معاونت کی، ام المومنین حضرت عائشہؓ کے بارے میں نعوذ باللہ قذف کے جھوٹے الزام کی تشہیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، اور ایک غزوہ کے موقع پر سفر کے دوران اپنے ساتھیوں کے ساتھ یہ شر انگیز مشورہ کیا کہ مدینہ منورہ واپس پہنچ کر وہ انصار مدینہ پر زور دیں گے کہ وہ مہاجرین پر خرچ کرنا بند کر دیں اور حضرت محمدؐ اور ان کے مہاجر ساتھیوں کو مدینہ سے نکال دیں۔ اس سازش اور مذموم مشورہ کی خبر حضورؐ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی ایک مستقل سورت نازل کر کے دی۔ اور اس ساری صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے جب حضرت عمر بن الخطابؓ نے رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی تاکہ وہ اس منافق کی گردن اڑا دیں تو آپؐ نے انہیں ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ اور بخاری شریف کی روایت کے مطابق اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ اس سے لوگ خواہ مخوا باتیں بنائیں گے کہ محمدؐ اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں۔

اس واقعہ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کام سے پہلے اس بات کا لحاظ رکھتے کہ اس سے عام لوگوں کا تاثر خراب نہ ہو۔

   
2016ء سے
Flag Counter