لال مسجد اور جامعہ حفصہؓ کے خلاف حکومت کے وحشیانہ آپریشن کے بعد اس کی صدائے بازگشت پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے اور مختلف اداروں میں اس کے اسباب و عوامل اور نتائج و عواقب پر بحث جاری ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان اپنے سو موٹو نوٹس اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی طرف سے دائر کردہ رٹ کو غازی عبدالرشید شہیدؒ کے اہل خاندان کی طرف سے دی گئی درخواستوں کے ساتھ جمع کرتے ہوئے اس کیس کو آگے بڑھا رہی ہے، جس کے نتیجے میں سپریم کورٹ کے حکم پر لال مسجد نمازوں کے لیے کھل گئی ہے اور جامعہ حفصہؓ کی ایک سال کے اندر دوبارہ تعمیر کا حکم بھی صادر ہوگیا ہے، مگر اس شرط کے ساتھ کہ جامعہ حفصہؓ اس کے لیے باقاعدہ طور پر الاٹ شدہ جگہ میں تعمیر کیا جائے گا جس کی مقدار دو سو پانچ مربع گز بتائی جاتی ہے جبکہ جامعہ حفصہؓ کی جس عمارت کو آپریشن کے دوران شہید کیا گیا ہے وہ نو ہزار مربع گز رقبہ کو محیط تھی۔ اسی طرح جامعہ فریدیہ میں دوبارہ تعلیمی سلسلہ کے آغاز کا مسئلہ بھی تعطل کا شکار ہے اور اس سلسلہ میں ڈیڈلاک کو ختم کرنے کے لیے اسلام آباد اور راولپنڈی کے سرکردہ علماء کرام مسلسل محنت کر رہے ہیں۔
اس دوران یہ خبر آئی ہے کہ اقوام متحدہ نے بھی اس مسئلہ کا نوٹس لیا ہے اور روزنامہ پاکستان لاہور میں ۲۳ اکتوبر ۲۰۰۷ء کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق اقوام متحدہ کے نمائندہ فلپ اسلسٹن نے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل سفیر مسعود خان کو ایک سوالنامہ ارسال کیا ہے جس میں پوچھا گیا ہے کہ:
- لال مسجد کی انتظامیہ کے خلاف اس آپریشن میں تین اور دس جولائی کے درمیان ایک سو دو سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں بچے، شدت پسند اور سکیورٹی اہلکار شامل تھے، وہ لوگ کون تھے، اس کی تفصیل بتائی جائے۔
- مسجد کی انتظامیہ نے کتنے لوگوں کو یرغمال بنایا، کتنے لوگ سیکیورٹی اہلکاروں اور کتنے لوگ شدت پسندوں کی گولیوں کا نشانہ بنے؟
- کاروائی کے دوران جانی نقصان کم سے کم رکھنے کے لیے کیا احتیاطی تدابیر اختیار کی گئیں؟
- آپریشن کے دوران استعمال ہونے والے اسلحہ کی تفصیل کیا ہے؟
- اس طرح کی کاروائی کے لیے فوج کے قواعد و ضوابط کی تفصیل کیا ہے؟
- اس آپریشن کے بعد ہونے والی پولیس تحقیقات کی تفصیل اور کسی دیگر انکوائری کی تفصیل کیا ہے؟
حکومت پاکستان اقوام متحدہ کو ان سوالات کے کیا جوابات فراہم کرتی ہے اس سے قطع نظر یہ سوالات ہمارے خیال میں بنیادی اہمیت کے حامل ہیں اور جس طرح سپریم کورٹ آف پاکستان میں اس کیس کی مختلف حلقوں کی طرف سے پیروی کی جا رہی ہے، اقوام متحدہ کے فورم پر بھی اس کیس کی مناسب انداز میں پیروی کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں اس بات کی ہمیشہ سے کمی محسوس ہوتی آرہی ہے کہ بین الاقوامی فورموں پر دینی نوعیت کے معاملات کی صحیح پیروی نہ ہونے کے باعث بہت سے کیس بلاوجہ خراب ہو جاتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ بین الاقوامی فورموں کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں اور ہم عام طور پر ان کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے لیکن کسی بھی فورم پر صحیح موقف اور صحیح صورتحال کو صحیح انداز میں پیش کرنا بھی ایک اہم ضرورت ہے جو شاید ہماری ذمہ داری بھی بنتی ہے۔ خدا کرے کہ کوئی ادارہ، جماعت یا حلقہ اس ضرورت کا احساس کرتے ہوئے اس کے لیے پیشرفت کی کوئی صورت نکال سکے، آمین یا رب العالمین۔