فیس بک پر میرے نام سے ایک پوسٹ چل رہی ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ جامعہ عباسیہ بہاولپور کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔ یہ پوسٹ میری نہیں ہے اور بات بھی خلاف واقعہ ہے۔
دراصل میں نے ایک وائس میسج میں بتایا تھا کہ درس نظامی کے ایک بڑے ادارہ جامعہ عباسیہ بہاولپور کو صدر محمد ایوب خان مرحوم کے دور حکومت میں محکمہ تعلیم کی تحویل میں دیا گیا تھا، اور اسے اسلامی یونیورسٹی کا نام دے کر عصری تعلیم اور درس نظامی کو یکجا کر کے کچھ عرصہ چلایا گیا تھا، مگر آہستہ آہستہ درس نظامی کے پورے نصاب کو اس سے خارج کر دیا گیا اور آج وہ درس نظامی کے ادارہ جامعہ عباسیہ کی بجائے عصری علوم کی یونیورسٹی بن چکا ہے۔ میں نے اس وائس میسج میں سوال کیا تھا کہ دینی مدارس کو محکمہ تعلیم کی تحویل میں دینے کا حالیہ اعلان بھی کہیں اسی کا تسلسل تو نہیں ہے؟ اور یہ گزارش کی تھی کہ جامعہ عباسیہ بہاولپور کے ساتھ روا رکھی جانے والی اس کاروائی کے بارے میں قوم کو اعتماد میں لینا اور اس کی وضاحت کرنا ان قوتوں کی ذمہ داری ہے جو ملک بھر کے دینی مدارس کو محکمہ تعلیم کے کنٹرول میں دینے کی بات کر رہے ہیں۔
اس لیے جامعہ عباسیہ کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے والی مجھ سے منسوب بات کو مسترد کرتے ہوئے میں اپنے اس سوال پر قائم ہوں اور متعلقہ اداروں سے جواب اور وضاحت کی درخواست کرتا ہوں۔
سودی نظام کے خلاف قومی اسمبلی میں بل کی حمایت
پاکستان شریعت کونسل پنجاب کے امیر مولانا قاری جمیل الرحمان اختر نے ۲ مئی کو مختلف دینی جماعتوں کے راہنماؤں کی ایک مشترکہ مشاورت کا اہتمام کیا، کونسل کے دفتر سے جاری کردہ اس کی رپورٹ ملاحظہ فرمائیں:
’’پاکستان شریعت کونسل پنجاب کے زیر اہتمام مختلف دینی جماعتوں کے رہنماؤں کے مشترکہ اجلاس میں قومی اسمبلی میں مولانا عبدا لاکبر چترالی کی طرف سے سودی نِظام کے خلاف پیش کردہ بل کی مکمل حمایت کا اعلان کیا گیا ہے اور یہ طے پایاہے کہ رمضان المبارک کے بعد اس سلسلے میں رائے عامہ کی بیداری اور دینی حلقوں کو منظم کرنے کی باقاعدہ مہم شروع کی جائے گی۔ یہ اجلاس جامع مسجد امن باغبانپورہ لاہور میں تحریک انسدادِ سود پاکستان کی مرکزی رابطہ کمیٹی کے کنوینر مولانا زاہد الراشدی کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں مختلف دینی جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی جبکہ مولانا سید کفیل شاہ بخاری،مولانا عبدا لرؤف فاروقی، پروفیسر ڈاکٹر محمد امین، مولانا قاری جمیل الرحمن اختر، مولانا محمد رمضان ،حافظ محمد نعمان، مولانا محمد اسلم ندیم اور دیگر حضرات نے خطاب کیا ۔
اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعہ پارلیمنٹ کے ارکان سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ملک کو سودی نظام کی لعنت سے نجات دلانے کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کریں اور سودی نظام کے خلاف پیش ہونے والے بِل کو منظور کرکے اس کی طرف عملی پیشرفت کریں۔
اجلاس میں سندھ اسمبلی میں قبولِ اسلام کو اجازت نامے کے ساتھ مشروط کرنے کے حوالہ سے پیش کیے جانے والے بِل کو اسلامی تعلیمات اور انسانی حقوق دونوں کی خلاف ورزی قرار دیا گیا اور پیر آف بھرچونڈی شریف کی طلب کردہ قومی مشاورت کے فیصلوں کی تائید کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس بل کو مسترد کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔
اجلاس میں دینی مدارس کو محکمہ تعلیم کی تحویل میں دینے کے سرکاری اعلان کو مبہم قرار دیتے ہوئے مقتدر حلقوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس سلسلہ میں دینی مدارس کے وفاقوں کو اعتماد میں لیا جائے اور اتحادِ تنظیمات مدارس دینیہ کی مشاورت و اعتماد کے بغیر کوئی عملی قدم نہ اٹھایا جائے۔
اجلاس میں سینٹ میں کم سِنی کی شادی پر پابندی کو شرعی قوانین کے منافی قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ عوام اس قسم کے قوانین کو قبول نہیں کریں گے۔
اجلاس میں ملک بھر کے علماء کرام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ رمضان المبارک کے دوران خطبات جمعۃ المبارک میں سود کی حرمت کو اہمیت کے ساتھ بیان کریں اور اجتماعی دینی مسائل کی طرف لوگوں کو توجہ دلائیں۔‘‘