خلافت کے ادوار

   
خلافتِ اسلامیہ — الشریعہ اکادمی کے محاضرات
۲۰۱۷ء

خلافت کا تاریخی پس منظر، نظریہ امامت و خلافت، خلافت کے مختلف معیارات، خلافت کے نظام کا ابتدائی تعارف، اور اسلام کے رفاہی ریاست کا تصور ذکر کرنے کے بعد خلافت کے جو مختلف ادوار گزرے ہیں ان کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔

خلافتِ راشدہ کے بعد جو تاریخی طور پر خلافت کا دور گنا جاتا ہے وہ خلافتِ بنو امیہ کا دور ہے۔ مؤرخین خلافتِ بنو امیہ کا آغاز سیدنا حضرت امیر معاویہؓ سے کرتے ہیں کیونکہ وہ حضرت حسنؓ کی بیعت کے بعد مسلمانوں کے متفقہ امیر المومنین بنے اور تقریباً بیس سال آپ نے پوری امتِ مسلمہ کے اجتماعی امیر اور خلیفۃ المسلمین کی حیثیت سے دنیا میں حکومت کی۔ اس کے بعد یزید کا دور آتا ہے۔ یزید نے چار سال ۶۰ھ سے ۶۴ھ تک حکومت کی ہے۔ یزید کے زمانے میں بہت جھگڑے ہوئے۔ حضرت حسینؓ خانوادۂ نبوت سمیت کربلا میں شہید ہوئے، واقعہ حرہ پیش آیا، مدینہ والوں نے بغاوت کر دی، قتلِ عام ہوا۔ یزید کے فوت ہونے کے بعد اس کے بیٹے اور حضرت معاویہؓ کے پوتے معاویہ ثانی کو خلیفہ نامزد کیا گیا، لیکن انہوں نے باقاعدہ خلافت نہیں سنبھالی۔ دو تین مہینے خلافت کی لیکن معذرت کرتے ہوئے کہ میں اس کام کو نہیں کر سکتا، میرے باپ کے دور میں امت کے ساتھ بہت زیادتیاں ہوئی ہیں، میں اس میں شریک نہیں ہوتا، چنانچہ معاویہ ثانی نے دو تین مہینے میں ہی خلافت سے دستبرداری اختیار کر لی۔

اس کے بعد ایک نئی بحث چھڑتی ہے کہ حضرت عبداللہ بن زبیؓر نے مدینہ منورہ میں اپنی خلافت کا اعلان کر دیا۔ آپؓ نے ۶۴ھ سے ۷۳ھ تک تقریباً نو سال حکومت کی ہے۔ آپ کی خلافت کا دائرہ گھٹتا بڑھتا رہا۔ ایک زمانے میں عراق، مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور حجاز آپ کے ماتحت تھے جہاں آپ کی خلافت کا دور چلا۔ لیکن پھر آپ کی خلافت سمٹتے سمٹاتے مکہ مکرمہ تک محدود رہ گئی ۔ ادھر حضرت عبداللہ بن زبیرؓ خلیفہ تھے، ادھر مروان بن الحکمؒ نے اپنی امارت کا اعلان کر دیا۔ اس لیے یہ دور بھی محققین کے ہاں متنازع دور کہلاتا ہے۔ حافظ ابن حجرؒ، امام ذہبیؒ اور ابن حجر مکیؒ وغیرہ حضرات کہتے ہیں کہ اس دور میں حضرت عبداللہ بن زبیرؓ چونکہ صحابی تھے اور آپ نے خلافت کا اعلان پہلے سے کیا ہوا تھا، اس لیے آپ ہی امیر المومنین تھے۔ بہت سے محققین حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی موجودگی میں مروان بن الحکمؒ کو امیر المومنین نہیں مانتے۔ لیکن یہ متنازعہ ہے، دونوں موقف ہیں اور دونوں طرف دلائل ہیں۔ مروان بن الحکمؒ نے دو سال حکومت کی ہے۔ پھر جب حضرت عبداللہ بن زبیرؓ مکہ مکرمہ کے محاصرے کے دوران حجاج بن یوسف کے ہاتھوں حرم پاک میں شہید ہوئے تو یہ عبد الملک بن مروان کا دور تھا۔ ۶۵ھ میں عبد الملک بن مروان خلیفہ بنے اور دنیا کے متفقہ امیر المومنین رہے۔ عبد الملک بڑا باہمت خلیفہ تھا۔ اس کے بعد عبد الملک کے بیٹے ولید خلیفہ بنے۔ پھر ان کے بیٹے سلیمان خلیفہ بنے۔ پھر ان کے بھتیجے عمر بن عبد العزیزؒ خلیفہ بنے۔ پھر عبد الملک کے بیٹے یزید خلیفہ بنے۔ پھر ہشام بن عبد الملک خلیفہ بنے۔ پھر ان کے پوتے ولید ثانی خلیفہ بنے۔ تقریباً ۴۱ھ سے ۱۲۶ھ تک بنو امیہ کی خلافت کا دور رہا ہے۔

بنو امیہ کی خلافت کے دوران حضرت حسینؓ تو کوفہ کی طرف آئے تھے اور راستے میں شہید ہو گئے، لیکن ان کے علاوہ اور بھی علویین اور عباسیین وقتاً فوقتاً خروج کرتے رہے ہیں۔ اتباع تابعین کے دور میں حضرت امام زید بن علیؒ، امام محمد ابراہیم نفس زکیہؒ کا خروج چلتا رہا۔ حضرت علیؓ کی اولاد بھی دو تین پشتوں تک مزاحمت کرتی رہی لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے۔

حضرت عباسؓ کی اولاد نے بھی مزاحمت کی۔ بالآخر ۱۲۶ھ کے لگ بھگ بغاوت، خروج اور مزاحمت میں کامیاب ہوئے تو حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے پڑپوتے عبداللہ بن علی سفاح خلیفہ بنے۔ یہ عباسی دور کے پہلے خلیفہ ہیں۔ انہوں نے ۱۳۲ھ میں بنو امیہ کے خلیفہ کو لڑائی میں شکست دے کر کوفہ اور دمشق پر قبضہ کر لیا اور خلافت سنبھال لی۔ یوں بنو عباس کے دورِ خلافت کا آغاز ہوا۔ پھر بنو عباس کے خلافت ۶۵۶ھ تک چلتی رہی۔ یہ تقریباً‌ سوا پانچ سو سال بنتے ہیں۔ ۶۵۶ھ میں آخری عباسی خلیفہ مستعصم باللہ ہلاکو خان کے ہاتھوں بغداد میں شہید ہوئے۔ عباسیوں میں بڑے بڑے نامور خلیفہ آئے ہیں ہارون الرشید، مامون الرشید اور مہدی وغیرہ۔ جب ایک سلسلہ چلتا ہے تو اس میں اچھے لوگ بھی آتے ہیں، کمزور بھی آتے ہیں، لیکن بہرحال ان کا دور تمدن اور ترقی کے اعتبار سے عالمِ اسلام کے عروج کا دور ہے۔

اس زمانے میں خلافت بنو عباس کی دو تین سو سال یہ کیفیت رہی ہے کہ دنیا کی قیادت ان کے ہاتھ میں تھی، عالم اسلام کی قیادت کر رہے تھے، لیکن آہستہ آہستہ زوال کی طرف مائل ہوتے گئے۔ جب تاتاریوں اور ہلاکو خان نے عالمِ اسلام پر یلغار کی اور اس میں بغداد کو نشانہ بنایا تو اس وقت بغداد میں شیعہ سنی تنازع بڑی شدت پر تھا۔ خلیفہ مستعصم باللہ سنی تھا اور اس کا وزیر ابن العلقمی شیعہ تھا۔ ان کی آپس کی اندرون خانہ چپقلش تھی۔ شیعہ سازش بالآخر کامیاب ہوئی، ابن العلقمی ہلاکو کے ساتھ مل گیا، اس سے ساز باز کر کے خلیفہ اور اس کے خاندان کو قتل کروا دیا اور ہلاکو خان کا بغداد پر قبضہ کروا دیا۔ اس دوران بغداد میں بہت بڑی تباہی پھیلی، کئی دن تک قتل عام ہوتا رہا، دریا میں خون بہتا رہا، لائبریریاں جلائی جاتی رہیں، ہلاکو خان نے بغداد کو تہ و بالا کر دیا اور عباسیہ سلطنت کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا۔ دنیا کی تاریخ میں جو بڑی تباہیاں ہیں ان میں سے ایک سقوطِ بغداد کا سانحہ بھی ہے ۔

جب بغداد میں ہلاکو خان نے قبضہ کر کے تباہی پھیلا دی تو ادھر مصر میں عباسی سلطنت ملوک کی آزاد حکومت ہوتی تھی۔ ملک ظاہر بیبرس وہاں کے حکمران تھے۔ انہوں نے خلافت کے تسلسل کو باقی رکھنے کے لیے ان میں سے ایک شہزادے کو بلایا اور اپنا خلیفہ تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔ عباسی خلفاء مصر میں بھی ۶۵۹ھ سے ۹۲۳ھ تک رہے ہیں لیکن یہ برائے نام خلیفہ تھے، ان کی حیثیت صرف سرپرست کی تھی۔ صلاح الدین ایوبیؒ ، مصر اور شام کے علاقے میں ملک ظاہر بیبرس اور دیگر بھی جو حکمران تھے وہ ان کا ٹائٹل استعمال کرتے تھے، یہ عباسی خلفاء صرف تبرک کے لیے ہوتے تھے ۔ان کے پاس کچھ تبرکات تھے یعنی اب عباسی سلطنت برائے نام تھی۔

اصل جو عباسی سلطنت تھی وہ بڑی با ہیبت و باجبروت حکومت تھی اور اپنے دور میں انہوں نے دنیا پر حکومت کی ہے، لیکن ۶۵۶ھ میں مستعصم باللہ کے قتل اور سقوطِ بغداد کے بعد یہ تین سال ادھر ادھر لاوارث پھرتے رہے۔ پھر ملک ظاہر بیبرس نے ان کو مصر اور شام کے علاقے میں بلا لیا اور کہا کہ آپ ہمارے بزرگ ہیں، آپ ہماری سرپرستی کریں، ہم آپ کی سرپرستی میں خلافت کے نام پر حکومت کریں گے۔ پھر نام ان عباسی خلفاء کا ہوتا تھا اور حکومت وہ حکمران کرتے تھے۔ بہرحال عباسی خلفاء کا نام چلتا رہا جو کہ سلطنت عباسیہ مصر کہلاتی ہے۔ یہ دوسرا دور ہے جو عباسیوں کی خلافت کا ہے۔

اندلس یورپ کا ایک حصہ ہے، آج کل اس کو اسپین کہتے ہیں۔ اندلس اُس دور کے ہسپانیہ کا ایک حصہ تھا۔ مراکش جو کہ اقصیٰ مغرب کہلاتا ہے، اس سے آگے یورپ شروع ہوتا ہے، اس میں اندلس ہے۔ افریقہ کی فتوحات حضرت عثمانؓ کے زمانے میں شروع ہو گئی تھیں۔ مراکش بھی افریقہ کا حصہ ہے۔ افریقہ سے یورپ کی طرف بنو امیہ کے دور میں طارق بن زیادؒ اور مسلم بن نصیرؒ وغیرہ جرنیلوں نے پیشرفت کی، جو حملہ آور ہو کر علاقوں پر قبضہ کرتے تھے۔ یہ سلسلہ تقریباً ۹۲ھ سے شروع ہو گیا تھا، یعنی جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے اَسی اکیاسی سال بعد یورپ میں ہمارا داخلہ براستہ اندلس شروع ہو گیا تھا۔

بنو امیہ کی خلافت کے خلاف بنو عباس کی مہم ایک عرصے سے چل رہی تھی، یہ پرانی کشمکش تھی۔ بنو ہاشم بھی بنو امیہ کے خلاف لگے رہے۔ امام زیدؒ اور امام نفس زکیہؒ نے بھی خروج کیا، لیکن اس میں بنو عباس کا دائرہ اپنا تھا اور بنو علی کا دائرہ اپنا تھا۔ بنو علی کو باوجود خروج کے حکومت پر کنٹرول حاصل نہیں ہوا۔ بنو عباس بالآخر بنو امیہ کو گرانے میں اور ان کی جگہ بنو عباس کی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

ہماری سیاسی تاریخ بڑی شاندار بھی ہے لیکن بڑی اندوہناک بھی ہے۔ دونوں پہلو عروج پر ہیں۔ جب ہم شاندار پہلو پر آتے ہیں تو ہماری سیاسی تاریخ بڑی عظمت کی تاریخ ہے، لیکن جب دوسرے پہلو پر آتے ہیں کہ ہم نے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کیا کیا اور ہم نے کیسے تباہیاں کیں تو وہ اندوہناک باب بھی ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ جب بنو عباس کے ہاتھوں بنو امیہ کی حکومت ختم ہوئی اور بنو عباس نے حکومت سنبھالی تو اموی حکمرانوں، شاہی خاندان اور اس بنو امیہ کے خاندان پر، جنہوں نے کم و بیش ایک سو سال حکومت کی تھی، انتقام کی وہ آگ برسائی کہ یہ جان کی امان کے لیے چھپتے پھرتے رہے، کہیں اِدھر کہیں اُدھر، ان کو کوئی پناہ دینے والا نہیں تھا۔ جہاں جاتے، کوئی نہ کوئی دشمن آجاتا۔ ابو عبد اللہ سفاح پہلے عباسی خلیفہ ہیں، ان کو سفاح اسی لیے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بہت زیادہ خونریزی کی تھی۔ اور جب ایک اقتدار گرا کر دوسرا اقتدار میں جگہ لیتا ہے تو یہ فطری بات ہے ایسے ہوتا ہے۔ اور یہ بھی واضح بات ہے کہ سب سے زیادہ قتلِ عام حریف کا ہوتا ہے۔ جیسا کہ ملکہ بلقیس نے کہا تھا ’’ان الملوک اذا دخلوا قریۃ افسدوھا وجعلوا اعزۃ اھلھا اذلۃ و کذلک یفعلون‘‘ (النمل ۳۴) بادشاہوں کا سب سے پہلا ہدف پہلے کی اشرافیہ اور حکمران طبقات کو نیچے لانا ہوتا ہے۔ ضمناً کہہ دوں کہ یہاں بھی جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے اقتدار سنبھالا تھا اور پھر ۱۸۵۷ء کے بعد برطانوی اقتدار آگیا تھا تو چونکہ اقتدار مسلمانوں سے لیا تھا اس لیے سب سے زیادہ نشانہ مسلمانوں کو ہی بنایا گیا۔ یہی بات بنو امیہ کے ساتھ ہوئی کہ بنو عباس نے بنو امیہ کے افراد کو چن چن کر قتل کیا۔

بنو امیہ میں سے ایک شہزادہ سمجھدار نکلا، اس نے مزاحمت نہیں کی۔ اندلس کا علاقہ بنو امیہ کے ہی زمانہ میں فتح ہوا تھا، تو اس نے وہاں رہ کر مزاحمت کرنے کی بجائے ایک طرف ہو کر اندلس کا علاقہ سنبھال لینے کو ترجیح دی۔ وہ شہزادہ عبدالرحمٰن بن معاویہ بن ہشام بن عبد الملک بن مروان تھا۔ یہ چپکے سے وہاں سے نکلا اور بچتا بچاتا اندلس جا پہنچا۔ ظاہر بات ہے ہر آدمی کے کچھ حمایتی بھی ہوتے ہیں۔ چونکہ اندلس کا سارا انتظام انہی کے دور میں ہوا تھا تو اس کا یہ اندازہ صحیح تھا کہ وہ اس کی قدر کریں گے۔ اس نے اندلس کے ساحل پر اترتے ہی اپنی خلافت کا اعلان کر دیا کہ میں خاندانِ خلافت کا فرد ہوں اور خلیفہ کا پوتا ہوں، یہاں میں اپنی امارت کا اعلان کر رہا ہوں۔ وہاں مقامی حکمرانوں سے مزاحمت ہوئی لیکن عبدالرحمٰن نے بڑھتے بڑھتے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا۔

اس کو عبد الرحمٰن الاول اور عبد الرحمٰن الداخل بھی کہتے ہیں۔ یہ اندلس میں بنو امیہ کی سلطنت کا بانی ہے ۱۳۸ھ میں یہ اندلس میں داخل ہوا۔ جس جس اموی کو علم ہوا کہ عبد الرحمٰن الداخل نے اندلس میں حکومت قائم کر لی ہے، وہ وہاں سمٹتے چلے گئے اور ایک مستحکم حکومت قائم ہو گئی۔ اس طرح بنو امیہ کی خلافت اندلس منتقل ہو گئی، پھر اندلس میں بنو امیہ نے صدیوں حکومت کی۔ عبدالرحمٰن کے بعد دوسرے خلفاء آئے، اندلس میں امویوں کا دور بڑا شاندار دور ہے۔ دمشق میں تو یہ پٹ گئے تھے لیکن اندلس میں جا کر امویوں نے حکومت سنبھال لی اور ۳۹۹ھ تک بنو امیہ کی وہاں حکومت رہی، جہاں ان کے دس خلیفہ گزرے ہیں، یہ بھی خلافتِ بنو امیہ کہلاتی ہے۔ فرق یہ پڑا کہ خلافتِ بنو امیہ دمشق سے منتقل ہو کر اندلس چلی گئی، جبکہ اُدھر بنو عباس نے خلافت قائم کر کے بغداد کو اپنا مرکز بنا لیا۔

بعد میں بنو امیہ خلفشار کا شکار ہوئے۔ مختلف خاندان قبضہ کرتے رہے، حکومتیں کرتے رہے، مثلاً بنو حنوط پھر بنو عباد پھر مرابطین پھر موحدین پھر بنو ہود۔ یہ طوائف الملوکی ہو گئی۔

اموی دور میں اندلس کی حکومت مستحکم تھی، اس نے بڑی ترقی کی، اور اس دور کے اندلس کو آج بھی دنیا یاد کرتی ہے۔ اِدھر تہذیب کا مرکز بغداد تھا اور اُدھر تہذیب کا مرکز غرناطہ اور قرطبہ تھا۔ اور تاریخ مانتی ہے یورپ کو تہذیب و تمدن، حقوق اور تعلیم سے روشناس کرانے والا غرناطہ اور قرطبہ تھا۔ انہوں نے تقریباً تین سو سال وہاں حکومت کی، پھر غرناطہ الگ ہو گیا، قرطبہ الگ ہو گیا۔ چھوٹی چھوٹی ریاستیں بنتی گئیں، لیکن مجموعی طور پر یہ اقتدار مسلمانوں کے ہی پاس رہا۔ عیسائیوں کے ساتھ بھی جنگیں ہوتی رہیں، آپس میں بھی جنگیں ہوتی رہیں۔ چلتے چلتے ۸۹۷ھ میں مسلمانوں کو وہاں سے مکمل شکست ہوئی۔ غرناطہ میں ابو عبد اللہ جو ہمارا آخری حاکم تھا، اس کا عیسائی بادشاہ فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا کے ساتھ کے ساتھ معاہدہ ہوا اور وہ وہاں سے نکلا۔

اس طرح ۹۲ھ سے شروع ہو کر ۸۹۷ھ تک تقریباً آٹھ سو سال ہماری وہاں حکومت رہی۔ جس میں سے تین چار سو سال تو مضبوط حکومت تھی، پھر ہم وہاں سے رخصت ہوئے اور رخصت ہی ہو گئے۔

اس دوران یورپ پر اثرات کیا ہوئے اور ہم پر اثرات کیا ہوئے؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ اندلس پر بنو امیہ کی خلافت قائم ہونے کے بعد باقی علاقہ بنو عباس کے لیے آزاد ہو گیا تھا تو یہاں بنو امیہ نے بنو عباس سے مزاحمت نہیں کی۔ پھر بنو عباس سے ہلاکو خان نمٹا ہے، اِدھر تاتاری آئے، لیکن بنو امیہ سمندر پار دوسرے علاقے میں بڑی دلجمعی کے ساتھ حکومت کرتے رہے۔

اس دوران یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ یورپ کی مجموعی صورتحال یہ تھی کہ نہ وہاں تعلیم تھی، نہ ہنر تھا، نہ حقوق تھے، مکمل جاہلیت کا منظر تھا، عرب جاہلیت سے بھی بدتر۔ یورپ میں حکمران بادشاہ تھا، جاگیردار تھا اور پاپائے روم تھا۔ جاگیرداروں کے مزارعین جانوروں سے بدتر زندگی گزارتے تھے۔ بادشاہ مطلق العنان ہوتا تھا، جو کہہ دیا وہی قانون ہے، اور پاپائے روم ان کے پشت پناہ ہوتے تھے، مذہبی قیادت ان کا ساتھ دیتی تھی ۔ وہاں جا کر علم کی بات سب سے پہلے مسلمانوں نے کی ۔ یورپ کا مؤرخ اس بات کو تسلیم کرتا ہے لیکن وہ مسلمان کی بجائے عربوں کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہمیں تعلیم، تہذیب، تمدن اور ثقافت سے عربوں نے روشناس کرایا، ہمیں ایک دوسرے کے حقوق کی پہچان عربوں نے کروائی، سائنس اور ٹیکنالوجی اور صنعت و حرفت کی بنیاد عربوں نے رکھی، یہ بات وہ مانتے ہیں۔

یورپ پر تو یہ اثرات ہوئے کہ یہاں کی تعلیم گاہیں پورے یورپ کی تعلیم کا مرکز تھیں۔ تقریباً تین چار صدیاں یہ ماحول رہا ہے کہ جس طرح آج ہمارے ہاں لوگ اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ، فرانس اور امریکہ جاتے ہیں، اُس زمانے میں پورے یورپ سے اعلیٰ تعلیم کے لیے غرناطہ، اندلس کا رخ کیا جاتا تھا۔ یہ مہذب اور تعلیم یافتہ ملک شمار ہوتا تھا۔ یورپ میں علمی شعور اور حقوق کا شعور داخل کرنے کا سبب اندلس بنا ہے۔ اندلس نے بڑے بڑے علماء پیدا کیے ہیں، مثلاً امام قرطبی، ابن خلدون وغیرہ۔ علم کا تعارف مغرب کو مسلمانوں نے کرایا ہے۔ سائنس اور صنعت و حرفت کی بنیاد بھی مسلمانوں نے فراہم کی ہے، اور حقوق کا تعارف بھی مسلمانوں نے کروایا، مغرب اس کا اعتراف کرتا ہے۔

جب کوئی زمانہ شمار ہوتا ہے تو ابتدائی ایک سو سال اس کے ارتقا کا زمانہ ہوتا ہے، اور آخری سو، سوا سو سال تنزل کا زمانہ ہوتا ہے، عروج کا زمانہ درمیان کا ہوتا ہے۔ جیسے بنو امیہ کے اس آٹھ سو سال کے دور میں عروج کا دور تین سو سال کا تھا۔ علم، تہذیب، تمدن، فلسفہ کے لیے طاقت کی پشت پناہی ضروری ہوتی ہے ورنہ ختم ہو جاتا ہے۔ صرف علم، صرف تہذیب اور صرف فلسفہ کچھ حیثیت نہیں رکھتے۔ ہم نے اگر دنیا پر ہزار سال حکومت کی ہے تو ہماری بنیاد علم اور اخلاقیات پر تھی، لیکن پشت پر طاقت تھی۔ آج اگر دنیا پر مغرب کا فلسفہ حکمرانی کر رہا ہے اور ہماری خواہشات کے علی الرغم کر رہا ہے، ہمارا ایک لمحہ کے لیے بھی جی نہیں چاہتا کہ ہم مغربی فلسفے کو قبول کریں لیکن ہمیں قبول کرنا پڑ رہا ہے، کیونکہ اس کی پشت پناہی طاقت کر رہی ہے۔ مغرب کا فلسفہ تمام تر کمزوریوں کے باوجود، تمام تر اعتراضات کے باوجود، دنیا کی مختلف قوموں کے تمام تر تحفظات کے باوجود آج دنیا کا حکمران ہے۔ جس کے سامنے چائنہ بھی بے بس ہے، چائنہ معیشت کے میدان کے میں ٹکر لے رہا ہے، فلسفے اور تہذیب و تمدن کے محاذ پر وہ وہیں کھڑا ہے جہاں مغرب کھڑا ہے، یہ سب کچھ طاقت کے بل بوتے پر ہو رہا ہے۔ اقبال نے کیا خوب کہا

؎ عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد

نبوت کے ساتھ بھی طاقت ضروری ہے، حضرت داؤدؑ طاقت کے ذریعے ہی خلیفہ بنے۔ خلیفہ بننے کے لیے جالوت کو قتل کیا تھا ’’و قتل داؤد جالوت و اٰتہ اللہ الملک و الحکمۃ و علمہ مما یشاء‘‘ (البقرہ ۲۵۱)۔ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں پہلے انہوں نے جالوت کو قتل کیا پھر میں نے ان کو حکومت، نبوت اور خلافت دی۔ مذہب، دین، عقیدہ آسمان سے آتا ہے اور دنیا میں طاقت ملتی ہے تو نظام چلتا ہے۔ ہم آج مار کھا رہے ہیں کہ طاقت کا توازن ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ جس کے پاس طاقت کا توازن نہیں ہے وہ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی، دوسروں پر حکومت کیا کرے گی۔ قرآن پاک کے ایک نکتے کی طرف اشارہ کروں گا۔ قرآن پاک نے طاقت کا معیار یہ بتایا ہے ’’واعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ ومن رباط الخیل‘‘ (الانفال ۶۰) قوت کا ترجمہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا ’’الا ان القوۃ ھی الرمی‘‘ قوت رمی کا نام ہے۔ رمی کا معنی پھینکنا اور ہتھیار پہنچانے کی صلاحیت ہے۔ آج کی دنیا میں سب سے بڑی دوڑ اس بات میں ہے کہ ایک کہتا ہے میرے میزائل کی چھ ہزار میل تک رسائی ہے، دوسرا کہتا ہے میرے میزائل کی رسائی آٹھ ہزار میل تک ہے۔ آج کی جدید ترین سائنس بھی قوت کا معیار میزائل کی رینج کو قرار دیے ہوئے ہے۔ اور رباط الخیل سے مراد لاجسٹک ریسورسز یعنی نقل و حرکت کے ذرائع ہیں۔ اس زمانے میں گھوڑے، خچر اور اونٹ ہوتے تھے، آج طیارے اور بحری جہاز ہیں۔

اب میزائل کی رینج اور لاجسٹک ریسورسز کے ساتھ ایک اور طاقت کا اضافہ ہو گیا ہے، وہ ہے معلومات تک رسائی اور معلومات کا پھیلاؤ۔ یعنی انٹرنیٹ کہ آپ معلومات پر کتنی جلدی اور کتنی مکمل رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ دشمن کے خلاف کتنی طاقت مہیا کرو؟ اس کا معیار یہ بتایا ’’ترھبون بہ عدواللہ وعدوکم‘‘ اتنی طاقت جس کے ساتھ تم دشمن کو رعب میں رکھ سکو۔ ارہاب دہشت کو کہتے ہیں، دہشت گردوں کو ارہابیین کہتے ہیں۔ اس آیت کا سادا ترجمہ یہ کیا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جتنے تمہارے پاس وسائل ہیں سارے خرچ کرو، قوت پیدا کرو ، لاجسٹک ریسورسز پیدا کرو، طاقت کا توازن تمہارے ہاتھ میں ہو۔ جب طاقت کا توازن ہمارے ہاتھ میں تھا، ہم نے حکمرانی کی ہے۔ ہم نے طاقت کا توازن کھو دیا، اب جس کے پاس ہے وہ حکمرانی کر رہا ہے۔

ہماری حکومتوں میں سے دو حکومتوں نے اس طرف توجہ دی ہے۔ عباسیوں نے بالکل ابتدائی درجے میں کہ سائنسی ایجادات اور سائنسی مطالعہ کا آغاز ان کے دور میں ہوا۔ انہوں نے رصدگاہ بنائی۔ رصدگاہ کیا تھی؟ ہمارے ہاں ستاروں وغیرہ کے علوم عقلیات کے دائرے میں تھے، اس کو مشاہدات کے دائرے میں لانے کے لیے سب سے پہلا کام عباسیوں نے کیا ہے۔ اُدھر اندلس میں بنو امیہ تھے، دونوں معاصر تھے، ان دونوں نے اس طرف توجہ دی۔ اس کے بعد ہماری دو حکومتوں نے اس طرف توجہ نہیں دی جس کی ہم مار کھا رہے ہیں۔ نہ خلافتِ عثمانیہ نے اس کو اپنا ایجنڈا بنایا، نہ مغلوں نے بنایا۔ یورپ نے انگڑائی لی اندلس کی وجہ سے، لیکن اس کے متبادل جو ہماری حکومت یورپ کے ایک حصے ترکی میں بنی، یہ بے خبر رہی، سائنس اور ٹیکنالوجی پر کوئی توجہ نہ دی۔ ادھر مغلوں نے بھی یہی کیا۔

میرا تاریخ کے ایک طالب علم کے طور پر ایک دعوٰی ہے اور بے بنیاد نہیں ہے کہ یورپ کو حقوق، عمرانیات اور سماجیات سے اندلس نے متعارف کرایا، سائنس اور ٹیکنالوجی سے بھی اندلس نے متعارف کروایا۔ یہ تو ہمارا کریڈٹ ہے کوئی اس کا انکار نہیں کر سکتا، لیکن ہماری بدقسمتی کہ جب بنیادیں فراہم کر کے عمارت کی چنائی شروع کرنے کا وقت آیا تو ہم اندلس سے بے دخل ہو گئے۔ ہم اندلس میں ترقی کے راستے پر چل پڑے تھے، لیکن ہم نے سیاسی استحکام کی طرف توجہ نہیں دی۔ علمی ترقی کے ساتھ ساتھ سیاسی استحکام بھی لازمی ہوتا ہے۔ اگر سیاسی استحکام نہ ہو، سلطنت کی بنیادیں قوت کے اعتبار سے کمزور پڑ جائیں تو علم اور ترقی بسا اوقات وبالِ جان بن جاتی ہے۔

جس فلسفے اور نظام کے پیچھے سیاسی اور عسکری قوت نہ ہو، اس کا حال وہی ہوتا ہے جو ہمارا اندلس میں ہوا۔ بنیادیں ہم نے قائم کیں، عمارت یورپ نے کھڑی کر دی۔ اصول ہم نے فراہم کیے، ڈھانچہ انہوں نے بنا لیا۔ آج جو بھی چیز دیکھیں گے اس کے پیچھے اندلس کا غرناطہ اور قرطبہ نظر آئےگا۔ لیکن جب ہم اپنی سیاسی و عسکری قوت برقرار نہیں رکھ سکے تو وہی ہونا تھا جو ہوا۔ بغداد میں ہلاکو خان نے ہماری تباہی کی اور اندلس میں فرڈیننڈ اور ملکہ ازبیلا نے کی ۔

جب ابو عبد اللہ غرناطہ کی پہاڑیوں سے رخصت ہوئے، جلاوطن کر دیے گئے، تو پھر ازابیلا ملکہ تھی اور بادشاہ فرڈیننڈ تھا، ان میاں بیوی نے ہم پر فتح پائی تھی، انہوں نے باقاعدہ نوٹس دے دیا، اعلان کر دیا کہ یا عیسائی ہو جاؤ یا ملک چھوڑ دو ورنہ قتل کر دیں گے۔ یہ مہذب ملکوں کی بنیاد ہے، انہوں نے لاکھوں لوگ قتل کیے، لاکھوں بھاگے، لاکھوں عیسائی ہوئے۔ امریکہ میں جانے والے کالوں کی اور سپینش کی ایک بڑی تعداد مسلمان تھی جو وہاں جا کر تدریجاً‌ عیسائی ہوئے۔ تاریخ کا یہ بھی ایک بڑا عجیب پہلو ہے کہ آج مغرب اور یورپ، جو ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ کہلاتا ہے، ثقافت، کلچر اور سائنس کی ترقی کے نعرے لگاتا ہے، اس سب کی بنیاد اندلس میں امویوں نے رکھی ہے۔ جب انہوں نے اندلس میں حکومت کی تو وہاں یونیورسٹیاں قائم کیں، علمی ادارے اور سائنسی تحقیقات کی لیبارٹریاں قائم کیں، اور اپنے وقت میں ترقیات کے کام کیے جیسے دنیا کی جدید حکومتیں کرتی ہیں۔ برطانیہ، فرانس اور اٹلی سب جہالت کا علاقہ تھا جہاں پرانا قبائلی تمدن تھا اور جاہلیت تھی ۔ وہاں آہستہ آہستہ اسپین کی یونیورسٹیوں نے علم کی روشنی پھیلائی اور انہیں ترقی کا راستہ دکھایا۔ مغربی دانشور اعتراف کرتا ہے کہ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے یہ اندلس کی تعلیم گاہوں، یونیورسٹیوں، تعلیمی اداروں، دانشوروں اور محققین کی خوشہ چینی سے ہمیں ملا ہے۔ میں شہزادہ چارلس کی ایک بات نقل کرنا چاہوں گا۔ شہزادہ چارلس برطانیہ کا ولی عہد ہے ، اس نے ایک لیکچر میں کہا تھا کہ اندلس ہمارا استاد ہے، ہمیں جو علم اور روشنی ملی ہے اندلس سے ملی ہے۔ لیکن ہم مسلمان دوسروں کو روشنی دے کر خود اندھیروں میں بھٹک گئے، یہ ہمارا ایک المیہ ہے ۔ بہرحال اندلس میں یہ کشمکش چلتی رہی، بالآخر وہ غالب آگئے اور ایسے غالب آئے کہ ہر چیز تبدیل کر دی۔ یہ بڑی تلخ داستانیں ہیں دل کڑھتا ہے لیکن واقف تو ہونا ہی پڑتا ہے۔

میں صرف ایک بات سے اشارہ کرنا چاہوں گا کہ امریکہ کو کولمبس نے دریافت کیا ہے، اس سے پہلے امریکہ کا کسی کو پتہ نہیں تھا۔ کولمبس امریکہ دریافت کرنے نہیں نکلا تھا بلکہ وہ ہندوستان کو دریافت کرنے کے لیے سمندر کے راستے سے نکلا تھا، لیکن بحرِ ہند میں وہ دوسری طرف چل پڑا تو اِدھر آنے کی بجائے اُدھر جا نکلا اور اس نے امریکہ دریافت کر لیا۔ آج جو وہاں کے پرانے آثار ملتے ہیں اس کی بنیاد پر تاریخ میں اس بات پر بحث شروع ہو گئی ہے کہ امریکہ مسلمانوں نے دریافت کیا تھا یا عیسائیوں نے؟ عیسائیوں سے پہلے وہاں مسلمان موجود تھے، کولمبس اسی ملکہ ازابیلا کا نمائندہ تھا جس نے سپین کو ہم سے چھینا تھا، اور سپین کی اکثریت کو جبراً‌ عیسائی بنایا تھا یا قتل کر دیا تھا یا باہر دھکیل دیا تھا۔ کولمبس ملکہ ازابیلا کی طرف سے بھیجا گیا تھا۔ تاریخ میں آج یہ بات پھر متنازعہ ہو گئی ہے کہ امریکہ کو کولمبس نے دریافت کیا تھا؟ یا کولمبس سے پہلے مسلمان اسے دریافت کر چکے تھے؟ آج مغرب کی دانشگاہوں میں اس پر بحث جاری ہے اور یہ بات ثابت شدہ ہے کہ کولمبس سے پہلے وہاں مسلمان موجود تھے اور وہاں اس زمانے کے مسلمانوں کے آثار پائے جاتے ہیں۔

خلافتِ راشدہ کے بعد خلافتِ بنو امیہ، خلافتِ بنو عباس، پھر خانہ جنگی اور طوائف الملوکی، پھر سپین پر ہم نے آٹھ سو سال حکومت کی، پھر عیسائی وہاں آگئے۔ اگر سپین جائیں تو وہاں آج بھی گلیوں کے نام فاطمہ سٹریٹ، عمر سٹریٹ اور علی روڈ وغیرہ ملیں گے، آج بھی بلڈنگوں اور سڑکوں کے نام صحابہ کرامؓ میں سے کسی بزرگ کے نام پر ہیں، لیکن شاید آپ کو وہاں کوئی عمر یا علی نام کا آدمی نہ ملے، جو اِن ناموں کے ہیں وہ باہر سے گئے ہوئے ہیں ۔ میں نے لندن میں علی سٹریٹ دیکھی ہے، اس میں کئی دفعہ گیا بھی ہوں۔

اس زمانے میں یہ قصہ چلتا رہا۔ میں نے بنو امیہ کے خلافت کے دو دور ذکر کیے ہیں ایک دمشق والا اور دوسرا اُندلس والا۔ بنو عباس کی خلافت کے بھی دو دور ذکر کیے ہیں ایک بغداد والا اور دوسرا مصر والا۔ خلافت عباسیہ کا خاتمہ ہوا تھا، پھر اس کے بعد سلطنتِ دولتِ فاطمیہ قائم ہوئی۔ پھر ترکی میں تاتاریوں نے خلافت قائم کی جس کے بانی عثمان اول تھے، ان کی نسبت سے خلافتِ عثمانیہ کہلاتی ہے۔ یہ تاتاری اور ترکی تھے لیکن انہوں نے خلافت کا عنوان اختیار کیا تھا۔

اللہ تبارک و تعالیٰ بے نیاز ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنا ضابطہ اور قانون بیان فرمایا ہے ’’وان تتولوا یستبدل قوماً‌ غیرکم ثم لا یکونوا امثالکم‘‘ (محمد ۳۸) کہ اگر تم میرے احکامات پر چلتے رہو گے تو ٹھیک، ورنہ میں تمہیں ہٹا کر دوسروں کو لے آؤں گا۔ چنانچہ پھر اللہ رب العزت نے خلافت کا نظام سنبھالنے کے لیے ہلاکو خان کی اولاد تاتاری خاندان کو منتخب کیا جو کہ آہستہ آہستہ بڑھتے گئے اور انہوں نے خلافتِ عثمانیہ قائم کی۔ امیر عثمان خان غازی کے والد تھے ارطغرل، ان کے والد سلیمان قبیلے کے سردار تھے۔ ان لوگوں کا سلجوقی حکمرانوں کے ساتھ میل جول تھا، کچھ علاقہ ان کے حوالے ہوا تو سرداری سے بڑھتے بڑھتے ایک چھوٹی سی حکومت بنا لی۔ سلطنتِ عثمانیہ ۹۲۳ھ میں قائم ہوئی تھی، امیر عثمان خان غازی نے اس ریاست کے قیام کا اعلان کیا تھا، اس میں یکے بعد دیگرے انتیس خلفاء ہوئے ہیں۔ خلافتِ عثمانیہ ۱۱۸۷ھ تک یعنی اب سے ایک سو سال پہلے ۱۹۲۴ء تک قائم رہی۔

جب سلطنتِ عثمانیہ کا ذکر ہوتا ہے تو عام طور پر لوگوں کے ذہن میں حضرت عثمانؓ آتے ہیں، حالانکہ عثمانی حضرت عثمانؓ کی اولاد نہیں ہیں، یہ تاتاریوں کی اولاد اور ہلاکو خان کا خاندان ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان میں سے ایک صاحب امیر عثمان خان غازی کو منتخب کیا جنہوں نے حکومت قائم کی اور پھر بڑھتے بڑھتے خلافتِ عثمانیہ وجود میں آئی۔ ایک زمانہ تھا کہ آدھا یورپ، افریقہ اور ایشیا کا بہت بڑا علاقہ سلطنتِ عثمانیہ کے تحت تھا۔ خلافتِ عثمانیہ کے عروج کی کیفیت یہ تھی کہ ترکی، مصر، شام، عراق، سعودی عرب، لیبیا، الجزائر، مراکش اور تیونس کے عرب علاقہ کے ساتھ ساتھ افریقہ ، ایشیا اور مشرقی یورپ بھی خلافتِ عثمانیہ کا دائرہ تھا۔ خلافتِ عثمانیہ جو ترکی میں قائم ہوئی تھی اس نے تین براعظموں پر طویل عرصہ حکومت کی` یہ اپنے دور کی دنیا کی بڑی وسیع حکومت تھی۔

امیر عثمان کے دور میں سلطنتِ عثمانیہ کا ایک علاقہ تھا، پھر سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کیا ۔اس علاقہ کا ذکر احادیث میں آتا ہے اور جو بازنطینی سلطنت کا دارالحکومت اور عیسائیوں کا مشرقی چرچ تھا۔ یوں سمجھ لیجیے کہ قسطنطنیہ کو عیسائیوں میں اس دور میں مذہبی طور پر تقدس کے اعتبار سے وہ حیثیت حاصل تھی جو ہمارے ہاں مکہ مکرمہ کو حاصل ہے۔ ان کا آیا صوفیہ کا گرجا استنبول میں ہے۔ استنبول قسطنطنیہ کا ہی دوسرا نام ہے۔ یہ کئی سلطنتوں کا پایہ تخت اور کئی تہذیبوں کا مرکز رہا ہے۔ میں نے آیا صوفیہ کا گرجا دیکھا ہے، میں جس زمانے میں وہاں گیا تو وہ بند تھا ، سنا ہے کہ اب کھل گیا ہے۔ سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کیا تو اس کے بعد قسطنطنیہ دارالحکومت بنا۔ ، اس کی تاریخ بھی بڑی دلچسپ اور عظیم ہے۔ وہاں خلیفہ کا دربار ’’بابِ عالی‘‘ کہلاتا تھا۔ اور یہ اصطلاح اس زمانے میں تین سو سال تک بالکل اسی معنی میں استعمال ہوتی رہی جیسے آج کل وائٹ ہاؤس کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ دنیا پر جو رعب اور دبدبہ آج کل وائٹ ہاؤس کا ہے اور اور اس سے جو ذہنی اور نفسیاتی کیفیت بن جاتی ہے، تین سو سال تک یہ حیثیت بابِ عالی کو حاصل رہی ہے۔ بڑی بڑی سلطنتیں بابِ عالی سے رضا مندی کی سند لینے کے لیے امید کیا کرتی تھی کہ باب عالی سے کیا حکم صادر ہوا ہے، بابِ عالی میں ہمارے بارے میں کیا مشورہ ہوا ہے۔

میں خلافت عثمانیہ کے اس پہلو پر بھی بات کرنا چاہوں گا کہ مغرب کو ان تین اصطلاحات یعنی خلافت، جہاد اور شریعت سے بہت چڑ ہے، ان کے نزدیک بڑی خطرناک اصطلاحیں ہیں۔ لیکن ہماری تو قوت ہی یہی ہے۔ اسلام کا نظام خلافت ہے، اسلام کی قوت جہاد ہے، اور اسلام کا معاشرہ شریعت ہے۔ مغرب کو یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ جب تک یہ تین چیزیں مسلمانوں کے پاس ہیں انہیں زیر نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے مغرب نے ان تین چیزوں کو مٹانے کے لیے دو سو سال اپنا پورا زور لگایا، سیاسی، اقتصادی اور معاشی پروپیگنڈے کیے، ہر حربہ اختیار کیا ،لیکن آج مغرب سر پکڑے بیٹھا ہے اور پریشان ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود ہم مسلم سوسائٹی سے خلافت، جہاد اور شریعت کا تصور ختم نہیں کر سکے۔ اور یہ امرِ واقعہ ہے کہ وہ اس تصور کو نہ ختم کر سکے ہیں اور نہ ختم کر سکیں گے، ان شاء اللہ، کیونکہ یہ زندہ حقیقت ہے اور زندہ حقیقت کو کون ختم کر سکتا ہے؟

خلافت کو ناکام بنانے کے لیے خلافتِ عثمانیہ کے خلاف مغرب نے مسلسل چالیں چلیں۔ خلافتِ عثمانیہ اپنی کمزوریوں کے باعث تو ختم ہوئی لیکن زیادہ بیرونی سازشیں تھیں۔ ایک انگریز کرنل کا کہنا ہے کہ خلافہ مسلمانوں کی سیاسی قوت کی علامت ہے، جب تک خلیفہ موجود ہے ، دنیا میں کہیں بھی کوئی مسئلہ بن جائے اور خلیفہ اعلان کر دے کہ جہاد فرض ہو گیا ہے تو خلیفہ کا اعلان اتنی قوت رکھتا ہے کہ چاہے وہ استنبول میں بیٹھ کر اعلان کرے، دنیا کے ہر کونے میں مسلمان نوجوانوں کے جذبات مچلنے لگتے ہیں کہ امیر المومنین نے جہاد کا اعلان کر دیا ہے تو ہم جہاد میں کیسے شریک ہوں؟ وہ اس کے لیے کوشش کرنے لگ جاتے ہیں۔ چنانچہ خلافت صرف ایک لفظ نہیں ہے بلکہ ایک طاقت ہے۔ اس لیے آج مغرب کی اور ہماری کشمکش یہی ہے جو بڑی شدید ہے اور شدت پکڑتی جا رہی ہے۔ مغرب کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ دنیا کے کسی خطے میں خلافہ قائم نہیں ہونے دیں گے، شریعہ نافذ نہیں ہونے دیں گے اور جہاد کو تو وہ دہشت گردی کہتے ہیں۔

آج سے سو سال پہلے خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہوا تھا، اس کے بہت سے اسباب ہیں۔ اس کے پیچھے دو سو سال کی تاریخ ہے اور یورپ کی سازشیں ہیں، جو بڑی مشکل سے بالآخر ۱۹۲۴ء میں خلافتِ عثمانیہ کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے۔ لیکن اس کا فوری اور آخری سبب کیا تھا، میں اس طرف توجہ دلانا چاہوں گا۔ پہلی جنگِ عظیم جو کہ ۱۹۱۴ء سے ۱۹۲۰ء تک رہی، اس جنگ میں یورپ میں اٹلی، برطانیہ اور روس ایک جانب تھے ، جبکہ جرمنی دوسری طرف تھا۔ اصل لڑائی اُن کی تھی۔ اس جنگ میں خلافتِ عثمانیہ جرمنی کے حق میں فریق بن گئی اور جرمنی کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا۔ جب جرمنی کو شکست ہوئی تو خلافتِ عثمانیہ کو بھی شکست ہو گئی۔ اس شکست کے بعد فاتحین نے سلطنتِ عثمانیہ کے مختلف علاقوں پر قبضہ کر لیا ۔اتحادی فوجیں جرمنی میں گھسیں تو ہمارے ملکوں میں بھی گھس گئیں۔ کوئی مصر میں گھس گیا، کوئی فلسطین میں، کوئی الجزائر اور کوئی ترکی میں۔ شکست خوردہ قوموں کا جو حال ہوتا ہے، ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ مصر، شام، عراق، فلسطین اور انقرہ جہاں کہیں جس کو موقع ملا وہ گھس گیا۔ کچھ حصہ فرانس نے ، کچھ حصہ برطانیہ نے اور کچھ اٹلی نے سنبھال لیا۔ برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کر لیا، مصر فرانس کے حصے میں آگیا۔ یورپ کی فوجیں قبضہ کرنے کے لیے استنبول میں داخل ہوئیں۔ ان کا پروگرام یہ تھا کہ خلافتِ عثمانیہ کے حصے بخرے تقسیم کر دیں گے۔

ایک مستقل پس منظر ہے کہ فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری کے لیے برطانیہ نے یہودیوں سے وعدہ کیا تھا۔ خلافتِ عثمانیہ کے دور میں فلسطین میں یہود کی کوئی زیادہ آبادی نہیں تھی۔ یہودی صرف ویزے پر آتے، اپنے مقدس مقامات کی زیارت کرتے اور چلے جاتے۔ یہودیوں کو فلسطین کی زمین خریدنے، وہاں مکان لینے اور کاروبار کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ یہودیوں نے اس پر بہت زور لگایا۔ سلطنتِ عثمانیہ میں خلیفہ عبد الحمید ثانی کے پاس بہت وفد گئے کہ ہمیں فلسطین میں زمین خریدنے کی اجازت دی جائے۔ ان کا پروگرام یہ تھا کہ زمین خرید خرید کر ہم وہاں اپنی آبادی بنائیں گے اور پھر بیت المقدس پر قبضہ کریں گے۔ سلطان عبد الحمید نے انکار کر دیا۔ یہ ایک لمبی داستان ہے، بہرحال جنگِ عظیم اول میں ترکی اور خلافتِ عثمانیہ کی شکست کے بعد طاقت تقسیم ہو گئی، فلسطین پر برطانیہ نے قبضہ کر لیا اور یہودیوں سے وعدہ کیا کہ یہ ملک تمہیں دلوائیں گے۔ وہ معاہدہ اعلان بالفور کہلاتا ہے۔ بالفور برطانیہ کے اس وزیر خارجہ کا نام ہے جس نے یہودی عالمی تنظیم سے یہ معاہدہ کیا کہ تم ہماری جنگ کے خرچے ادا کرو کیونکہ ہمارا کافی بڑا نقصان ہوا ہے تو پھر ہم فلسطین تمہیں دلوائیں گے۔ چنانچہ جب برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کر لیا تو وہاں یہودیوں کی آباد کاری کا اعلان کیا اور دنیا بھر کے یہودیوں کو اجازت دے دی کہ وہ آ کر زمین خریدیں، مکان بنائیں اور کاروبار کریں ۔ یوں دنیا بھر سے یہودی فلسطین میں آ کر آباد ہونا شروع ہو گئے۔

یہ بھی ایک دلچسپ واقعہ ہے کہ اس وقت فلسطین کے مفتی اعظم الحاج سید امین الحسینی تھے۔ انہوں نے فتوٰی دیا کہ یہودیوں پر فلسطین کی زمین بیچنا حرام ہے کیونکہ وہ زمین خرید کر یہاں آباد ہونا چاہتے ہیں اور پھر بیت المقدس پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ پیسے یہودیوں کے پاس تب بھی تھے ، اب بھی بہت ہیں۔ اس لیے فلسطین کے مفتی اعظم الحاج امین الحسینی نے اعلان کیا کہ فلسطین کی زمین یہودیوں پر بیچنا شرعا جائز نہیں ہے۔ لیکن فلسطینیوں نے اس فتوے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ صرف اتنا فرق پڑا کہ ایک لاکھ کی زمین دو لاکھ کی ہو گئی اور دو لاکھ کی زمین چار لاکھ کی ہو گئی۔ زمین کی قیمتیں کئی گنا بڑھ گئیں تو فلسطینیوں نے اپنی زمینیں اور مکانات کئی گنا زیادہ قیمت وصول کر کے بیچ ڈالے۔ فلسطین کا ایک حصہ یہودیوں نے برطانوی دور میں خرید کر اپنا وطن بنایا، اور آہستہ آہستہ اپنی آبادی بڑھا کر انہوں نے وہاں اسرائیل کے قیام کا راستہ ہموار کیا۔ یہ ایک الگ داستان ہے۔ اس فتوے کی تائید ہمارے برصغیر کے بزرگوں نے بھی کی تھی۔ مثلاً حضرت مفتی کفایت اللہ دہلویؒ، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ وغیرہ۔ حضرت تھانویؒ کی کتاب بوادر النوادر میں ایک مستقل رسالہ ہے جو انہوں نے فلسطین کی زمین یہودیوں کو بیچنے کے عدمِ جواز پر مفتی اعظم فلسطین کی حمایت میں لکھا تھا ۔ اس میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ ہمارے ساتھ یہ المیہ بھی گزرا کہ ہم نے خود اپنی زمینیں یہودیوں پر بیچیں اور یہودیوں کو آباد کاری کا موقع دیا ۔

میں عرض کر رہا ہوں کہ خلافت کیسے ختم ہوئی۔ اتحادیوں نے ترکی پر قبضہ کر لیا تھا۔ فوجیں استنبول میں آ کر بیٹھ گئی تھیں۔ یہ سب شکست خوردہ تھے۔ مصطفیٰ کمال اتاترک اس زمانے میں ترکی کا بڑا قومی لیڈر تھا ،اس نے ایک نیا نعرہ لگایا کہ ترکی ترکیوں کا ہے ، یہاں ترک حکومت کریں گے، ہم ترکی کی زمین کسی اور کے حوالے نہیں کریں گے، وہ اس کے لیے کھڑا ہو گیا اور اس نے جنگ لڑی کہ ترکی میں غیر ملکی فوجیں نہیں ہوں گی۔ اس نے کہا کہ باقی جو ہوا سو ہوا، خلافت وغیرہ کو چھوڑو، لیکن ترکی کو ہم سنبھالیں گے۔ وہ ترکی کی آزادی کے لیے کھڑا ہو گیا اور اس نے اتحادی فوجوں سے باقاعدہ جنگ لڑی۔ اس کا ایک ڈسکریڈٹ ہے کہ اس نے خلافت اور شریعت کا خاتمہ کیا، لیکن اس کا ایک کریڈٹ بھی ہے کہ ترکی کو یورپین ملکوں کے درمیان تقسیم ہونے سے بچا لیا۔

ترکی والے اس کو ایسے ہی اپنا قائد نہیں مانتے، آج بھی اس کو اپنا باپ کہتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ترکی اس نے بچایا تھا، خود مختاری کی جنگ لڑی اور ترکی کی حفاظت کا نعرہ لگایا۔ پھر مذاکرات کی میز بچھی۔ مشرقی یورپ کا شہر لوزان ہے، وہاں جنگوں کے بعد ان کے مذاکرات ہوئے۔ جنگوں کے فیصلے بھی مذاکرات میں ہوتے ہیں اور جنگوں کے نتائج کے فیصلے بھی مذاکرات کی میز پر ہوتے ہیں کہ اب کیا کرنا ہے۔ برطانیہ نے کہا کہ ہم فاتح ہیں، ہم ترکی کو بھی تقسیم کریں گے۔ وہاں مصطفٰی کمال کا مطالبہ یہ تھا کہ ترکی کی حدود میں ترکی کی خود مختاری آپ کو تسلیم کرنا ہو گی۔ اور ترکی اتنی لڑائی لڑ چکا تھا کہ اب ان کے لیے معاہدہ کرنا مجبوری بن گیا تھا۔ چنانچہ لوزان میں ان کی آپس میں شرائط طے ہوئیں۔ مغربی قوتوں نے یہ شرط لگا دی کہ ہم ترکی کی خود مختاری تسلیم کریں گے، اپنی فوجیں واپس بلائیں گے، لیکن اس شرط پر کہ تم خلافت کے ختم کرنے اور شریعت کے منسوخ ہونے کا اعلان کرو۔ کمال پاشا ویسے خود خلافت ختم کرنے کے حق میں نہیں تھا، برائے نام خلافت جس طرح عباسیوں کی مصر میں تھی، ویسے وہ بحال رکھنا چاہتا تھا کہ خلیفہ کا لفظ اور تقدس قائم رہے، ہم اس کے سائے تلے اپنا کام کرتے رہیں۔ لیکن مغربی قوتوں نے ترکی کی آزادی اور خود مختاری تسلیم کرنے کے لیے تین شرطیں لگا دیں:

(۱) پہلی یہ کہ خلافت ختم کرو اور اعلان کرو کہ آئندہ خلافت قائم نہیں ہو گی۔

(۲) دوسری یہ کہ شریعت کا قانون منسوخ کر کے اٹلی کا قانون نافذ کرو اور اعلان کرو کہ آئندہ ہماری حدود میں شریعت نافذ نہیں ہو گی۔

(۳) ترکی خلافتِ عثمانیہ کے دور کے کسی مقبوضہ علاقہ پر دعویٰ نہیں کرے گا۔

ان کے سامنے یہ تین شرطیں رکھی گئیں، ترکی کی خود مختاری تسلیم کرنے اور ترکی سے غیر ملکی فوجیں نکلوانے کے لیے، جو استنبول میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ چنانچہ ان شرطوں پر مصطفی کمال اتاترک نے خلافت بھی ختم کر دی اور شریعت بھی منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا اور اٹلی کا قانون نافذ کیا۔ اس طرح مغربی ملکوں نے جمہوریہ ترکی کو ایک آزاد اور سیکولر ریاست تسلیم کیا اور اپنی فوجیں واپس بلائیں۔

۱۹۲۴ء میں ترکی نے خلافت کے خاتمے کا اعلان کیا تھا ۔ خلافت عثمانیہ کے آخری خلیفہ جو جلا وطن ہوئے وہ سلطان عبد الوحید خان اور ان کے بیٹے سلطان عبدالمجید خان تھے۔ ان کو بحری جہاز پر بٹھا کر جلاوطن کر دیا گیا تھا اور وہ سمندر پار چلے گئے تھے۔ ایک دور میں براعظموں پر حکومت کرنے والی خلافتِ عثمانیہ کا یہ حال ہوا جو تاریخ کا ایک المیہ ہے۔

یہ تو ترکی کے ساتھ ہوا۔ ادھر انہوں نے نئی منطق اختیار کی۔ مغرب نے یہ اعلان کیا کہ ہم دنیا کے کسی خطے میں شریعہ نافذ نہیں ہونے دیں گے اور خلافہ قائم نہیں ہونے دیں گے۔ اس اعلان کی وجہ اس نے یہ ذکر کی کہ لوزان میں جو ہمارے ساتھ معاہدہ کیا گیا تھا وہ معاہدہ عالمِ اسلام کی طرف سے تھا۔ مصطفیٰ کمال اور عصمت انونو خلافت کے نمائندے تھے اور خلافت عالمی تھی، انہوں نے ہمارے ساتھ معاہدہ کیا تھا کہ خلافت ختم کریں گے اور دوبارہ قائم نہیں کریں گے، شریعہ منسوخ کریں گے اور دوبارہ نافذ نہیں کریں گے۔ یہ معاہدہ صرف ترکی کی طرف سے نہیں تھا بلکہ خلافتِ عثمانیہ کے نمائندے کے طور پر عالم اسلام کی طرف سے معاہدہ تھا۔ اس لیے ہم دنیا کے کسی خطے میں نہ خلافہ قائم ہونے دیں گے اور نہ شریعہ نافذ ہونے دیں گے۔

اسی بنیاد پر مسلمان ملکوں میں جہاں نفاذِ اسلام کی بات ہوتی ہے یا شریعہ نافذ کرنے کی بات ہوتی ہے تو سارا مغرب اس کے مخالف کھڑا ہو جاتا ہے کہ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ اس لیے میں عرض کرتا ہوں کہ ہمیں جو رکاوٹیں نظر آتی ہیں یا جو قدم قدم پر بریکر پیش آتے ہیں بسا اوقات ایسے ہوتے ہیں کہ ہمیں نظر نہیں آتا لیکن اچھل کر ایسے جکڑے جاتے ہیں کہ ہمیں پتا نہیں چلتا کہ ہمارے ساتھ کیا ہو گیا ہے۔ اس لیے یہ پہلو بھی ہمیں سامنے رکھنا چاہیے۔ جب ہم بین الاقوامی معاملات پر بات کرتے ہیں تو ظاہری منظر سے پیچھے کے عوامل بھی دیکھنے چاہئیں کہ پیچھے کیا رکاوٹ ہے۔ یہ معاہدہ لوزان اب تک ہمارے حلق میں اٹکا ہوا ہے۔

چند سال پہلے برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر، جو کہ موجودہ مغربی مہم اور عالمِ اسلام کے خلاف مغربی جنگ کا بہت بڑا فکری لیڈر ہے، چار سال برطانیہ کا وزیراعظم رہا ہے۔ عالمِ اسلام کے خلاف مغرب کی تحریک کو جو اس وقت پیچھے بیٹھ کر کمان کر رہے ہیں وہ بش، ٹونی بلیئر اور امریکہ کا سابق نائب صدر ڈک چینی ہیں۔ جب ٹونی بلیئر نے وزارت عظمی چھوڑی تو اس نے اپنی پارٹی کی سالانہ کانگرس میں پالیسی تقریر کی جو کہ بڑی دلچسپ تقریر ہے اور ہمارے ہر دینی تحریک کے کارکن کے علم میں ہونی چاہیے۔ جب ہم نفاذِ اسلام اور نفاذِ شریعت کی بات کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس میں رکاوٹ کون ہے اور کہاں ہے۔ اس میں ٹونی بلیئر کی وہ تقریر بڑی بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اس نے اس کی وجہ بالکل صاف واضح الفاظ میں ذکر کی کہ ہم سے خلیفہ کے نمائندوں نے معاہدہ کیا تھا کہ خلافت دوبارہ قائم نہیں ہو گی اور شریعت دوبارہ نافذ نہیں ہو گی۔ ہمارے ساتھ یہ معاہدہ مصطفی کمال کا نہیں امتِ مسلمہ کا ہے۔ اس معاہدے کی رو سے ہم دنیا میں نہ کہیں خلافت بننے دیں گے اور نہ کہیں شریعت نافذ ہونے دیں گے۔ اوباما نے بھی یہی کہا کہ نہیں ہونے دیں گے، اس کی یہی وجہ ہے۔ یوں معاہدہ لوزان کے نتیجے میں ترکی کو تو خود مختاری مل گئی، لیکن ہم ابھی تک قابو میں آئے ہوئے ہیں اور خدا جانے کب تک قابو میں رہیں گے۔

میں یہ بات گزشتہ تیس سال سے لکھتا آ رہا ہوں کہ معاہدہ لوزان ہماری گردن پر گھٹنا رکھ کر گن پوائنٹ پر کروایا گیا تھا، مغرب کی فوجیں ترکی میں بیٹھی ہوئی تھیں اور ان کا کہنا تھا کہ یہ فوجیں تب نکلیں گی جب آپ اس معاہدہ پر دستخط کریں گے۔ میرا مطالعہ یہ کہتا ہے کہ معاہدہ لوزان مصطفیٰ کمال اتاترک کی مرضی سے نہیں ہوا تھا۔ یہ بات پچھلے سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر طیب اردگان نے کہی ہے کہ ہم سے معاہدہ لوزان گن پوائنٹ پر ہوا تھا اس میں ہماری مرضی شامل نہیں تھی، طاقت کے بل پر ہم سے معاہدہ کروایا گیا تھا۔ لطیفے کی بات یہ ہے کہ ترکی کے صدر کی جنرل اسمبلی کی وہ تقریر میں چار پانچ دن تلاش کرتا رہا لیکن پاکستان کے کسی اخبار میں تلاش کر کے بھی نہیں ملی۔ دلی کے سہ روزہ دعوت نے پوری تقریر چھاپی ہے، اس کے حوالے سے میں نے کالم لکھا کہ میں جو تیس سال سے کہتا آ رہا ہوں طیب اردگان نے بھی وہی کہا ہے۔

ہمیں یہ مغالطہ بھی دور کر لینا چاہیے کہ معاہدہ لوزان کی مدت ۲۰۲۴ء میں ختم ہو رہی ہے تو پتا نہیں کیا ہو جائے گا۔ کچھ نہیں ہو گا، ہم ویسے ہی خوش فہمی میں ہیں۔ اس سے صرف یہ فرق پڑے گا کہ یورپی یونین معاہدے کی پچاس یا سو سال کی توسیع کا ایک ریگولیشن کرے گی، صدر طیب اردگان ہوا تو نہیں مانے گا، کوئی دوسرا ہوا تو مان لے گا، اس کے سوا کوئی فرق نہیں پڑے گا، میرا ذاتی تاثر یہ ہے۔

یہ آج خلافت اور شریعت کے حوالے سے ہماری کشمکش ہے۔ دنیا میں خلافت کی بیسیوں تحریکیں ہیں۔ ہم بھی خلافت کی بات کرتے ہیں لیکن عالمی سطح پر کوئی ایسا فورم جو خلافت اور شریعت کی بات کرے، ہمارا کوئی ایسا فورم نہیں ہے۔ علاقائی تنظیمیں ہیں لیکن کوئی ایسا فورم نہیں ہے جو میز پر بیٹھ کر ٹونی بلیئر اور اوباما سے خلافت کی بات کر سکے۔ جب تک ہم عالمی سطح پر اس لیول پر نہیں آئیں گے بات آگے نہیں بڑھے گی، علاقائی سطح پر ممکن ہے کہیں کوئی امارت قائم ہو جائے۔ لیکن توجہ طلب بات یہ ہے کہ اس کے راستے کہاں سے اور کیسے نکالیں گے؟ یہ ہماری قیادت، ہماری سیاست اور ہماری فراست کا امتحان ہے، ہم ان شاء اللہ سرخرو ہوں گے لیکن وقت لگے گا۔

ایک امید کی کرن نظر آتی ہے، اللہ تعالیٰ پوری کر دیں۔ افغانستان سے امریکہ کے جانے کے بعد اگر طالبان کی حکومت دوبارہ قائم ہوتی ہے، جو بظاہر بہت مشکل دکھائی دیتی ہے، لیکن میری خواہش اور دعا ہے کہ ایسا ہو۔ اگر وہ امارتِ اسلامیہ کا دوبارہ اَحیا کر سکیں تو شاید آئندہ کے لیے خلافت کی بنیاد بن جائے۔ اگر وہ امارت اسلامیہ نئی خانہ جنگی سے بچ جاتی ہے تو شاید دنیا میں کچھ عرصہ کے بعد خلافتِ عثمانیہ کا نقشِ اول بن سکے، ورنہ بظاہر حالات مایوس کن تو نہیں البتہ پریشان کن ہیں۔ افغانستان میں طالبان سمجھداری سے کام لے رہے ہیں کہ خلافت کا لفظ نہیں بول رہے اور وہ بہت ٹھیک کر رہے ہیں۔ طالبان دھیمے دھیمے ٹھنڈے ٹھنڈے چل رہے ہیں، مظلوم اور محصور ہیں۔ پچھلے دنوں میری ان کے بعض ذمہ دار حضرات سے ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے کہا کہ آپ اس وقت شعبِ ابی طالب میں ہیں، آپ کو بھوک برداشت کرنی پڑے گی۔ اگر چند سال افغان قوم بھوک برداشت کر لے تو مجھ فقیر کی پیشگوئی ہے کہ آئندہ خطے کی قیادت آپ کریں گے۔ ہم اہلِ پاکستان کو انہیں سپورٹ کرنا چاہیے ، نعروں سے ہٹ کر سنجیدگی کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ ضرورت یہ ہے کہ ان کو اس قابل بنایا جائے کہ ہماری بنیاد بنے۔ جب تک دنیا میں ہماری کوئی آزاد بنیاد نہیں بنے گی تب تک ہم باتیں ہی کرتے رہیں گے۔ ابھی پچھلے دنوں لاہور میں میٹنگ تھی اس میں بعض علماء کہہ رہے تھے کہ ہم نے افغانستان جانا ہے۔ میں نے ان سے کہا خدا کے لیے طالبان کو آرام سے حکومت کرنے دو، ان کے لیے مسائل نہ کھڑے کرو۔

تحریکِ خلافت جنوبی ایشیا میں پہلی سیاسی تحریک تھی جس نے پورے برصغیر کو متاثر کیا۔ پہلے یہ تحریک علاقائی تھی لیکن پھر اس نے کلکتہ سے پشاور تک پورے ملک کو لپیٹ میں لے لیا اور ایک منظم فورم مہیا کر دیا۔ تحریکِ خلافت کی قیادت مولانا محمد علی جوہرؒ اور مولانا شوکت علیؒ کر رہے تھے جو کہ علی برادران کہلاتے ہیں، یہ پورا خاندان تحریکِ خلافت کا لیڈر تھا۔ اور تحریکِ خلافت پہلی سیاسی تحریک تھی جس میں ہندو مسلمان دونوں اکٹھے تھے، اس کے لیڈروں میں مولانا محمد علی جوہر بھی بڑے لیڈر تھے اور مہاتما گاندھی بھی بڑے لیڈر تھے۔ خلافت کی حمایت میں گاندھی جی کی بھی بڑی زبردست تقریریں ہیں، لیکن برصغیر کی نہیں، ترکی کی خلافت کی حمایت میں۔ ان کا موقف یہ تھا کہ خلافتِ عثمانیہ قائم رہنی چاہیے۔

شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ نے جب مالٹا جزیرہ سے رہائی کے بعد یہاں آ کر حالات کا جائزہ لیا کہ اب عسکری تحریک کے حالات نہیں ہیں، تو آنے کے بعد پہلا اعلان یہ کیا کہ آج کے بعد ہم عدمِ تشدد پر تحریک چلائیں گے۔ یعنی سیاسی جلسہ، جلوس، مظاہرے، مطالبے اور قوت کا مجتمع کرنا۔ اس کے ساتھ ترکِ موالات ہماری تحریک کی بنیاد ہو گی، یعنی ہم ہتھیار نہیں اٹھائیں گے لیکن حکومت سے تعاون بھی نہیں کریں گے۔ یہ نئی سیاسی تحریک کی بنیاد تھی۔

حضرت شیخ الہندؒ نے ہندوستان تشریف لانے کے بعد ۱۹۲۰ء میں ایک تو تحریک کا رخ عسکریت سے عدمِ تشدد کی طرف موڑا۔ اور دوسرا یہ کیا کہ دیوبند اور علی گڑھ میں مصالحت کی بات کی کہ دونوں کو اکٹھا ہونا چاہیے۔ اس کے لیے شیخ الہندؒ خود علی گڑھ گئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ نوجوان بھی مخلص ہیں، ان کی رائے سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن یہ بھی وطن کی آزادی چاہتے ہیں، لہٰذا ان سے بھی استفادہ کرنا چاہیے اور ان کے ساتھ بھی تعاون کرنا چاہیے۔ حضرت شیخ الہندؒ کی اس فکر کے نتیجے میں علی گڑھ سے جو قیادت آئی وہ مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، مولانا ظفر علی خان، ڈاکٹر مختار انصاری اور حکیم اجمل خان رحمہم اللہ تعالیٰ یہ سب علی گڑھ کے لوگ ہیں، ان میں سے کوئی بھی دیوبند کا آدمی نہیں ہے۔ یہ شیخ الہندؒ کی اس پیش قدمی پر ادھر سے آئے اور پھر تحریکِ آزادی کی قیادت کا حصہ نہیں بلکہ مرکز بن گئے۔

حضرت شیخ الہندؒ نے دیوبند اور علی گڑھ کی مصالحت کی بات کی اور پھر ایک نیا جامعہ ملیہ وجود میں آیا جو پہلے علی گڑھ میں کیمپوں اور خیموں میں قائم ہوا، پھر وہاں سے دہلی منتقل ہوا۔ اب بھی جامعہ ملیہ انڈیا کے بڑے تعلیمی اداروں میں ہے، اس کی بنیاد ان دونوں کے ملاپ پر تھی جس سے ایک نئی صورتحال پیدا ہو گئی جس کے نتیجے میں تحریکِ خلافت نے جنم لیا۔ تحریکِ خلافت برصغیر کی تحریکات میں بہت بڑی تحریک تھی جس کے اثرات آج تک محسوس ہو رہے ہیں۔ یہ پہلی سیاسی تحریک تھی۔ اس سے پہلے عسکری تحریکیں تھیں اور آزادی کے لیے عسکری گروپ تھے، سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں بھی آزادی کے لیے مسلح جنگیں ہوئیں۔ تحریکِ خلافت عدمِ تشدد پر مبنی پولیٹیکل تحریک تھی کہ ہم نے ہتھیار نہیں اٹھانے اور جلوس، جلسے، رائے عامہ، سول سوسائٹی اور سٹریٹ پاور کے ذریعے دباؤ ڈال کر باتیں منوانی ہیں۔ یہ برصغیر کی اس طرز کی پہلی تحریک تھی۔ اس تحریک میں پورا برصغیر گونج اٹھا۔ بڑے جذبے اور بڑے جوش و خروش کے ساتھ لوگ سڑکوں پر آتے تھے، جلوس نکالے گئے، گرفتاریاں ہوئیں، تشدد ہوا اور وہ سب کچھ ہوا جو تحریکوں میں ہوتا ہے، لیکن اس کی بنیاد عدمِ تشدد پر تھی کہ ہم نے مقابلے میں ہتھیار نہیں اٹھانا۔

اس تحریک کی قیادت علی گڑھ اور دیوبند دونوں نے مل کر کی ہے۔ حکیم اجمل خان، ڈاکٹر مختار انصاری، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، مولانا ظفر علی خان، چوہدری افضل حق یہ سارے علی گڑھ کے فضلاء ہیں، ان میں سے باقاعدہ مولانا کوئی بھی نہیں ہے۔ جبکہ مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانویؒ، امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، مفتی محمد کفایت اللہؒ اور دوسرے علماء دیوبند کی نمائندگی کر رہے تھے۔ یہ اس تحریک کے لیڈر تھے۔ مولانا ظفر علی خان بھی تحریک خلافت کے بڑے لیڈروں میں سے تھے، یہ وزیر آباد کے تھے، مسلکاً اہلِ حدیث اور تعلیماً علی گڑھی تھے، بہت بڑی شخصیت تھے۔ باغیوں کا پہلا اخبار روزنامہ زمیندار انہی کا ہے۔ ایک زمانے میں مولانا ابو الکلام آزادؒ کا ’’الہلال ‘‘اور مولانا ظفر علی خان کا ’’زمیندار‘‘ آگ برسانے والے پرچے سمجھے جاتے تھے۔ روزنامہ زمیندار کئی دفعہ ضبط ہوا، کئی دفعہ گرفتاریاں ہوئیں، اور کئی دفعہ ضمانتیں لی گئیں لیکن مولانا ظفر علی خان کا اپنا ایک انداز تھا۔ وہ شاعر بھی تھے، خطیب بھی تھے، اس زمانے کے بی اے تھے۔ ایک دن وزیر آباد میں مولانا ظفر علی خان کی یاد میں جلسہ تھا۔ میں نے کہا دیکھو تم کہتے ہو کہ علماء بڑے تنگ دل ہوتے ہیں، دوسرے کو برداشت نہیں کرتے، تم نے مسٹر بھیجا تھا ہم نے مولانا ظفر علی خان بنا کر آگے کیا۔ وہ علی گڑھ یونیورسٹی کے گریجویٹ تھے لیکن ہم نے مولانا کہہ کر سر پر بٹھایا۔ اسی طرح مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی کو بھی سر پر بٹھایا اور ان کی قیادت میں کام کیا، جبکہ تم علماء کو تنگ نظر کہتے ہو۔ ان میں صرف مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ اور ایک دو اور بزرگ علماء کے کیمپ سے تھے لیکن اس کی عمومی قیادت علی گڑھ کے اس گروپ نے کی۔ چنانچہ تحریکِ خلافت میں سب سے بڑا نام مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کا آتا ہے۔ اس خاندان کی تیسری شخصیت جس نے قیادت کی، وہ مولانا جوہر کی اماں ہیں۔ جب یہ دونوں بھائی گرفتار ہوئے تو ان کی اماں میدان میں آ گئیں، وہ جلسوں سے خطاب کیا کرتی تھیں، وہ بڑے زبردست جلسے ہوا کرتے تھے، اس زمانے کا بڑا مشہور ترانہ ہے؎

بولی اماں محمد علی کی
جان بیٹا خلافت پہ دے دو

یہ اس زمانے کا سب سے زیادہ مقبول ترانہ تھا۔ یوں اماں نے آ کر بیٹوں کی جگہ سنبھالی اور پورے ملک میں دورے کیے، تقریریں کیں اور لوگوں کو بھڑکایا۔

تحریکِ خلافت ہندوستان میں خلافت قائم کرنے کی تحریک نہیں تھی بلکہ ترکی کی خلافتِ عثمانیہ کی حمایت میں اس کو بچانے کی تحریک تھی۔ پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کے ساتھ ترکی کو ناکامی ہو گئی تھی، برطانیہ اور فرانس کی متحدہ فوجیں جیسے جرمنی میں داخل ہوئی تھیں ترکی کے مقبوضات میں بھی داخل ہو گئیں، فلسطین اور مصر میں داخل ہو گئی تھیں، علاقوں کو تقسیم کر لیا تھا۔ خلافتِ عثمانیہ کے ساتھ ان کا پرانا صدیوں سے غصہ چل رہا تھا اس لیے ان کا پروگرام یہ تھا کہ خلافتِ عثمانیہ کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اسے بانٹ لیں اور اس کا وجود ختم کر دیں۔ استنبول اور انقرہ میں متحدہ فوجیں داخل ہو گئی تھیں اور ترکی قبضہ کر لیا تھا۔ اس وقت چونکہ برطانیہ لیڈر تھا اور ہم بھی سلطنتِ برطانیہ کا حصہ تھے، تو ہندوستان کے سیاسی اور مذہبی لیڈروں نے برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا کہ خلافتِ عثمانیہ کو ختم نہ کیا جائے بلکہ قائم رہنے دیا جائے۔ ہم خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے حق میں نہیں ہیں۔

تحریکِ خلافت ترکی کی خلافتِ عثمانیہ کے تحفظ، اس کی بقا اور اس کو خاتمے سے بچانے کے لیے ہندوستان میں چلائی گئی تھی۔ تاکہ برطانوی حکومت پر دباؤ ڈالا جائے اور برطانوی حکومت کو مجبور کیا جائے کہ وہ ترکی کی خلافت کے خاتمے کی ترتیب اور تشکیل واپس لے۔ یورپ تلا ہوا تھا کہ خلافت کو ختم کرنا ہے اور عملاً اس نے ختم کی۔ تحریکِ خلافت میں گرفتاریاں، جلسے اور جلوس بہت کچھ ہوا، لیکن خلافت نہیں بچی۔ کیونکہ خلافت ترکی کا مسئلہ تھا، یہاں کا مسئلہ تو تھا ہی نہیں، جب ترکی خود خلافت سے دستبردار ہو گیا تو وہ تحریک ختم ہو گئی۔

آج مصطفی کمال اتاترک کے بارے میں ایک طرف شدید نفرت پائی جاتی ہے خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کی وجہ سے، تو دوسری طرف شدید محبت پائی جاتی ہے کہ اس نے ترکی کو بچا لیا تھا۔ وہ ترک قومیت کے نام پر کھڑا ہو گیا، اس نے متحدہ فوجوں اور یونانی فوجوں سے باقاعدہ لڑائی لڑی۔ وہ اس بات پر جم گیا کہ ہم ترکی نہیں دیں گے، ترکی کی ریاست رہے گی، باقی جو آپ کہتے ہیں وہ ہم مان لیتے ہیں۔ اس پر عصمت انونو، مصطفی کمال اتاترک کے بعد ترکی کا دوسرا بڑا لیڈر تھا، یہ دونوں ڈٹ گئے کہ ہم ترکی کو ختم نہیں ہونے دیں گے۔ اس پر متحدہ فوجوں سے برطانیہ، فرانس وغیرہ سے مذاکرات وغیرہ چلتے رہے۔ متحدہ قوتوں کا موقف یہ تھا کہ اگر خلافت کا ٹائٹل قائم رہتا ہے تو کل کسی وقت ترکی یہ کہہ سکتا ہے کہ مصر بھی ہمارا حصہ ہے، الجزائر اور فلسطین بھی ہمارا حصہ ہے، اس لیے خلافت کا ٹائٹل تو ختم کرنا ہو گا تاکہ ترکی کسی ملک اور کسی علاقے کا دعویدار نہ ہو۔ چنانچہ ۱۹۲۳ء میں لوزان پیکٹ میں یورپ کی فوجوں کے انخلا کے لیے ترکی کو لکھ کر دینا پڑا کہ ہم خلافت ختم کریں گے، خلیفہ کو جلا وطن کریں گے، شریعت کا قانون ختم کر کے اٹلی کا قانون لائیں گے۔ یہاں تک بھی شاید گزارا ہو جاتا، لیکن ان کی یہ بھی شرط تھی کہ ترکی لکھ کر دے کہ آئندہ بھی ہمیشہ کے لیے کبھی ہم خلافت کا نام نہیں لیں گے اور شریعت کا نام نہیں لیں گے۔ چنانچہ پورے ملک میں عدالتوں سے شریعت کے قوانین منسوخ کر کے اٹلی کے قانون لے آئے، مساجد اور تکیے (خانقاہوں) اور مدارس و مراکز پر تالے لگ گئے، عربی زبان منسوخ ہو گئی حتیٰ کہ قرآن پاک عربی زبان میں پڑھنا ممنوع قرار پایا، اذان بھی ترکی زبان میں دے سکتے تھے عربی زبان میں نہیں دے سکتے تھے۔ بہت کچھ ہوا سو ہوا۔ یہ ۱۹۲۴ء کی بات ہے۔

جبکہ ہمارے ہاں خلافتِ عثمانیہ کی حمایت میں تحریکِ خلافت چلتی رہی۔ مختلف شہروں میں جلسے جلوس ہوتے رہے۔ لیکن چونکہ وہاں خلافت ختم ہو گئی تھی اس لیے یہاں تحریک جاری نہ رہ سکی۔ تاہم تحریکِ خلافت کا ایک بڑا فائدہ ہمیں یہ ہوا کہ ہمیں سیاسی جدوجہد کرنے کا طریقہ آگیا۔ میں تحریکِ خلافت کو برصغیر کی سیاسی تحریکاتِ آزادی کی نرسری کہا کرتا ہوں۔ اس کے بعد جتنی جماعتیں بنی ہیں ان کے لیے ساری کھیپ یہاں سے ملی۔ مسلم لیگ کو بھی قیادت یہاں سے ملی، کانگریس اور خاکسار تحریک کو بھی یہاں سے ملی، جمعیت علماء ہند میں بڑی کھیپ تھی جنہوں نے تحریکِ خلافت میں تربیت حاصل کی اور پھر جماعتوں میں آ کر کام کیا۔

اسی تحریک کی ایک بڑی پیداوار ہے جس کا نام امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ ہے۔ جس سال یہ تحریکِ خلافت چلی ہے حضرت سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ خیر المدارس جالندھر میں موقوف علیہ کے طالب علم تھے۔ آپ جلسوں میں تقریروں کے لیے نکلے اور خطابت کے میدان میں آئے۔ ان کی خطابت اور صلاحیت کو دیکھ کر لوگوں نے انہیں ہاتھوں اور سروں پر اٹھا لیا۔ اور پھر آپ دورۂ حدیث نہیں کر سکے، بلکہ آپ خطابت کے میدان میں بڑھے اور بڑھتے چلے گئے حتیٰ کہ اپنے وقت میں ایشیا کے سب سے بڑا خطیب کہلائے۔ ایشیا میں اردو زبان کے سب سے بڑے خطیب سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید پڑھنے کا ذوق بھی دیا تھا، شعر و شاعری کا ذوق بھی تھا۔ انہوں نے موقوف علیہ تک کتابیں پڑھی تھیں لیکن اس زمانے کی موقوف علیہ تک کتابیں آج کے بڑے بڑے متخصصین سے زیادہ علم دیتی تھیں۔ دورۂ حدیث نہ کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ عالم نہیں تھے۔ حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ بڑے عالم تھے ، وہ بھی تحریکِ خلافت کا ثمرہ ہے۔

مجلسِ احرارِ اسلام کیسے بنی؟ جب تحریکِ خلافت ناکام ہو گئی یعنی ترکی میں خلافت ختم ہو گئی اور یہاں تحریک ختم ہو گئی تو اس وقت پنجاب سب سے زیادہ متحرک تھا۔ پنجاب کی تحریکِ خلافت کے لیڈروں نے بیٹھ کر فیصلہ کیا کہ تحریک ختم ہو گئی ہے لیکن ہم تو موجود ہیں۔ مولانا داؤد احمد غزنویؒ، مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانویؒ، امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ اور چوہدری افضل حق مرحوم جو کہ بہت بڑے مفکر اور سیاسی مدبر تھے وہ پہلے انگریز پولیس کے انسپکٹر تھے، شاہ جی کی تقریر سنی اور استعفیٰ دے کر تحریک میں آ گئے تھے اور پھر مفکرِ احرار کہلائے۔ ان اکابر نے فیصلہ کیا کہ اب ہم نئے نام سے کام شروع کرتے ہیں، تو پنجاب میں جو تحریکِ خلافت بنی تھی اس نے ’’احرارِ اسلام‘‘ کا نام اختیار کر کے اپنی جماعت منظم کی اور پورے برصغیر میں پشاور سے کلکتہ تک انہوں نے آزادی کی تحریک اور جوش پیدا کیا۔

خلافتِ عثمانیہ جیسی کیسی بھی تھی، کمزور تھی، لیکن عنوان اور تعارف بہت مضبوط تھا۔ اس کی ایک چھوٹی سی جھلک ذکر کرتا ہوں۔ اس وقت دنیا میں عالمِ اسلام کی جو موجودہ صورتحال ہے، ہماری کسمپرسی اور مشکلات کے بہت سے اسباب ہیں لیکن اس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ ہماری کوئی مرکزیت نہیں ہے جو عالم اسلام کی نمائندہ کے طور پر بات کر سکے۔ اس پر مجھے محترمہ بے نظیر بھٹو کا ایک جملہ یاد آیا۔ میں کسی دینی قائد کی بات نہیں کر رہا، جب ان سے ان کے دوسرے دورِ وزارتِ عظمیٰ میں عالمِ اسلام کے مسائل پر انٹرویو لیا گیا ، تو اس کا ایک جملہ مجھے نہیں بھولتا۔ اس وقت مشرقی یورپ میں بوسنیا اور سربیا میں مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا تھا، ہر مسلمان افسردہ تھا۔ اس پر ہماری وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے عالمِ اسلام کے مصائب اور مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے بڑی حسرت سے یہ جملہ کہا تھا کہ ’’اب تو کوئی اوتومن ایمپائر بھی نہیں ہے جس سے ہم اپنا دکھ بیان کر سکیں کہ ہمارے ساتھ یہ ہو رہا ہے‘‘۔ اوتومن ایمپائر سے مراد خلافتِ عثمانیہ ہے۔ یہ حسرت بھرا جملہ ہمیں اندازہ کرا سکتا ہے کہ خلافتِ عثمانیہ کی اہمیت کیا تھی؟ خلافت عثمانیہ ہماری مرکزیت تھی اور جب تک ہماری کوئی مرکزیت قائم نہیں ہوتی ہمارے مسائل کا کوئی حل نہیں ہے، ہم اسی طرح بکھرے رہیں گے اور اسی طرح مسائل کا شکار رہیں گے۔

جہاں تک خلافت کا تعلق ہے، اس کا قیام فقہائے اسلام کے ارشادات کی روشنی میں عالمِ اسلام کے اجتماعی دینی فرائض میں سے ہے۔ شرعاً ہم پر فرض ہے کہ ہم خلافت قائم کریں اور دنیا میں خلافت کا وجود ہو۔ یہ بات آپ کے علم میں ہونی چاہیے کہ خلافت کے نام سے دنیا میں ایک مسلمان ملک موجود ہے جس کے سربراہ خلافت کے نام پر حکومت کرتے ہیں اور سرکاری طور پر امیر المومنین کہلاتے ہیں، وہ ملک مراکش ہے، جس کی حکومت اس وقت بھی اپنے دستور کے اعتبار سے خلافت کہلاتی ہے۔ لیکن ہمیں یہ امیر المومنین نہیں چاہئیں، عالمی خلافت جو عالمِ اسلام کے مسائل کی نمائندگی کرے، اس کی ضرورت ہے۔

حضرت شاہ ولی اللہؒ نے ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں اس پر تفصیلی بحث کی ہے اور ’’ازالۃ الخفا عن خلافۃ الخلفاء‘‘ ان کی اس موضوع پر مستقل کتاب ہے۔ باقی فقہاء بھی یہی بات کہتے ہیں لیکن شاہ صاحبؒ کا انداز ذرا مختلف ہے، وہ فرماتے ہیں کہ خلافت کا قیام امت کے اجتماعی فرائض میں سے ہے اور یہ فرضِ کفایہ ہے۔ اگر دنیا کے کسی حصے میں شرائط کے مطابق خلافتِ اسلامیہ موجود ہے جو عالمِ اسلام کے مسائل کی نمائندگی کرتی ہے تو یہ فرض امتِ مسلمہ سے ساقط ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر عالمِ اسلام خلیفہ کے وجود سے خالی ہے تو پوری امت بحیثیت امت گنہگار اور تارکِ فرض ہے۔ اس وقت امتِ مسلمہ کی پوزیشن یہ ہے کہ ہم ایک شرعی فریضہ کے تارک ہیں جس کی سزا ہم دنیا میں بھگت ہی رہے ہیں۔ اللہ کرے کہ دنیا میں کہیں خلافت کا وجود ہو۔ خلافت کی اصطلاح تو ہم نے بھی چھوڑ رکھی ہے، ہم بھی نفاذِ اسلام کی بات خلافت کے حوالے سے نہیں کرتے، البتہ دنیا میں خلافت کی تحریکیں ہیں۔

دنیائے اسلام میں بیسیوں تحریکیں ہیں جو خلافت کے عنوان سے کام کر رہی ہیں، میرے بعض سے روابط اور تعلقات ہیں، ان کے بارے میں معلومات بھی ہیں۔ لندن میں ٹریفالیگر اسکوائر ہے، یوں سمجھ لیں جیسے مال روڈ ہے، جہاں لوگ جلوس نکالا کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے وہاں ایک جماعت نے خلافت کی حمایت میں ریلی نکالی، میں اس میں شریک ہوا اور تقریر بھی کی۔ انہوں نے امریکی سفارت خانے کے سامنے مظاہرہ کیا۔ برطانیہ کے کالج کے مسلمان لڑکے اور لڑکیاں ننگے سر ننگے پاؤں امریکی سفارت خانے کے سامنے کھڑے ہو کر مظاہرہ کر رہے تھے اور ”خلافہ خلافہ‘‘ اور ’’جہاد جہاد“ کے نعرے لگا رہے تھے۔ میں بھی ان کے ساتھ کھڑا نعرے لگا رہا تھا، مجھے وہ منظر بڑا اچھا لگا کہ کہیں کوئی خلافت کی بات کرتا تو ہے۔

لیکن لطیفے کی بات یہ ہے جب وہاں یہ سارے مناظر دیکھ رہا تھا تو میں نے دیکھا ایک صاحب کھڑے ہیں، لمبا چوغہ پہنا ہوا ہے، سر پر تاج پہن رکھا ہے، ہاتھ میں عصا پکڑا ہوا ہے۔ وہ مجھے ملے اور کہنے لگے میں امیر المومنین ہوں میرے ہاتھ پر بیعت کرو۔ میں نے کہا تم کدھر سے آ گئے ہو؟ تو اس نے کہا میں ترکی ہوں، عثمانی خاندان سے تعلق رکھتا ہوں۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ خلافت سے اتفاق کرتے ہیں؟ میں نے کہا ’’نتفق علی الخلافۃ لا علی الخلیفۃ‘‘ ہم خلافت پر متفق ہیں، خلیفہ پر متفق نہیں ہیں۔ پہلے خلافت کا ماحول بناؤ، اس طرح کوئی خلیفہ نہیں بنے گا کہ چوغہ پہن کر کہے میرے ہاتھ پر بیعت کرو، ایسا نہیں ہو گا۔ ہم خلافت کے نام پر بھی لطیفے ہی کرتے ہیں۔

ایک دفعہ لاہور میں سیمینار تھا۔ پاکستان میں خلافت کے نام سے کام کرنے والے دس گیارہ گروپوں کو تو میں جانتا ہوں، سب سے میرا رابطہ رہتا ہے، سب نے مل کر لاہور میں ایک سیمینار کیا ”خلافہ سیمینار“۔ اس میں مجھے بھی بلایا، میں نے اس میں لیکچر دیا کہ خلافت کسے کہتے ہیں؟ خلافت کی حدود، تقاضے اور مقاصد کیا ہیں، اور خلافت کیسے بنے گی؟ میری وہ تقریر ’’الشریعہ‘‘ کے کسی پرچے میں چھپی تھی۔ میں نے آخر میں ایک چٹکلہ چھوڑا، جو میری عادت ہے، میں نے کہا کہ آپ خلافت کی بات کریں، خلیفہ کی بات نہ کریں، اس لیے کہ اس وقت جو میرے سامنے ستر پچھتر آدمی بیٹھے ہوئے ہیں ان میں سے گیارہ کو تو میں جانتا ہوں کہ یہ خلیفہ ہیں۔ اگر صرف لاہور میں گیارہ خلیفہ ہیں تو پاکستان میں کتنے ہوں گے؟ پھر دنیا میں کتنے ہوں گے؟ میں نے کہا یہ خلافت نہیں ہے، اس سے امت کو بچاؤ۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم خلافت کی بات اس لیے نہیں کرتے کہ خلافت قائم ہو، اس لیے کرتے ہیں کہ میں خلیفہ بنوں۔ ہم میں سے جو بھی خلافت کی بات کرتا ہے اس کا یہ مطمح نظر ہوتا ہے کہ کسی جگہ میں خلیفہ بن جاؤں، چاہے ایک شہر کا ہی بنوں، لوگ مجھے امیر المومنین کہیں۔

2016ء سے
Flag Counter