وفاقی وزیر اطلاعات جناب پرویز رشید صاحب نے گزشتہ روز سینٹ آف پاکستان میں مولانا عطاء الرحمٰن کی تحریک پر اپنے ان ریمارکس کی وضاحت کی جو انہوں نے چند دن قبل آرٹس کونسل کراچی کے ادبی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے دینی مدارس پر تبصرہ کرتے ہوئے دیے تھے اور جن پر ملک بھر میں احتجاج و اضطراب کا سلسلہ جاری ہے۔ پرویز رشید صاحب کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ باتیں ان مدارس کے بارے میں کہی تھیں جو دہشت گرد پیدا کرتے ہیں اور علماء حق کے بجائے انہوں نے نصاب پر تنقید کی تھی، جبکہ علماء حق کا وہ احترام کرتے ہیں اور اگر ان باتوں سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو وہ اس پر معذرت خواہ ہیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات کی یہ وضاحت سینٹ آف پاکستان کے ارکان نے قبول کر لی ہو تو ان کی مرضی، لیکن فہم و دانش کی دنیا میں اسے قابلِ قبول قرار دینا اتنا آسان نہیں جتنا پرویز رشید نے سمجھ لیا ہے۔ اپنے موقف کی وضاحت کے لیے ہم ان کے کراچی والے بیان کا وہ حصہ پورا نقل کر رہے ہیں جس پر بحث ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا تھا:
’’ہماری نفسیات کا حصہ ہے کہ بچوں کو بھی علم سے محروم رکھو اور بڑوں کو بھی علم سے محروم رکھو، اب کتاب تو وجود میں آچکی، اسکول تو وجود میں آ چکے، جب پاکستان بنتا ہے، یہ انگریز کا تحفہ ہے، اس کو بند نہیں کیا جا سکتا، اس سے جان نہیں چھڑائی جا سکتی، پھر اس کا متبادل تلاش کیا گیا کہ کتاب چھپتی رہے، لیکن وہ کتاب نہ چھپے جو آپ تحریر کرتے ہیں، وہ فکر عام نہ ہو جس کی شمع آپ جلاتے ہیں، لوگوں کو پڑھنے کے لیے کتاب دی جائے تو کون سی دی جائے؟ ”موت کا منظر عرف مرنے کے بعد کیا ہو گا؟“ جہالت کا وہ طریقہ جو پنڈت جواہر لال نہرو کو سمجھ نہیں آیا وہ ہمارے حکمرانوں کو سمجھ آ گیا کہ لوگوں کو جاہل کیسے رکھا جا سکتا ہے کہ فکر کے متبادل فکر دو، لیکن فکر کے متبادل ’’مردہ فکر‘‘ دے دو۔ پھر منبع جو فکر پھیلاتا ہے کیا ہو سکتا تھا؟ لاؤڈ اسپیکر۔ لاؤڈ اسپیکر بھی اُس کے قبضے میں دے دو، دن میں ایک دفعہ کے لیے نہیں بلکہ پانچ دفعہ کے لیے دے دو۔ اب آپ کے پاس اتنے اسکول اور اتنی یونیورسٹیاں نہیں ہیں، جتنی ’’جہالت کی یونیورسٹیاں‘‘ ان کے پاس ہیں (تالیاں) اور بیس پچیس لاکھ طالب علم جن کو وہ ’’طالب علم‘‘ کہتے ہیں۔
آپ کو تو یہ شکایت ہے کھوڑو صاحب! کہ سندھی سے سندھ کی زبان چھین لی گئی، پختون سے پختون کی زبان چھین لی گئی، پنجابی سے پنجاب کا ورثہ چھین لیا گیا، بلوچستان سے اس کی تہذیب اور ثقافت چھین لی گئی، لیکن مجھے یہ بتائیے کہ یہ جو ’’یونیورسٹیاں‘‘ ہیں، جن کو ہم سب چندہ بھی دیتے ہیں، عید بقر عید پر فطرانے اور چندے اور کھالیں بھی دیتے ہیں۔ خود پالتی ہے ہماری سوسائٹی یہ جو ’’جہالت کی یونیورسٹیاں“ ہیں۔ پنجابی، سندھی، مہاجر، پٹھان بھائی! ان مسئلوں کا تو کوئی حل نکل سکتا ہے، ان مسئلوں کا حل پاکستان کے آئین میں بھی موجود ہے۔ بدقسمتی یہ کہ چونکہ آئین پر عمل نہیں ہوتا اس لیے جھگڑا باقی رہ جاتا ہے، لیکن جو فکر انہوں نے دے دی، جو نفرت، تعصب، تنگ نظری انہوں نے پھیلا دی اور جو روز پھیلاتے ہیں اور جو تقسیم انہوں نے ڈال دی، اسکول میں ایک کلاس میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو تقسیم کر دیا گیا، ایک فرقے کا نصاب یہ ہوگا کہ زکوٰۃ کیسے دینی ہے اور دوسرے فرقے کا یہ نصاب ہوگا کہ زکوٰۃ کیسے نہیں دینی۔ یہ پڑھایا جائے گا بچوں کو! ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے ان کو پاکستانی بنانا ہے، ہم ان کو پاکستانی تو نہیں بنا پائیں گے یہ دو چیزیں پڑھا کر۔ یہ حاوی ہوا آپ کی کتاب پر جہالت کا علم۔‘‘
پرویز رشید صاحب سے گزارش ہے کہ وہ وزارت اطلاعات کے ویڈیو ریکارڈ میں خود کو یہ خطاب کرتے ہوئے اور بات بات پر قہقہے لگاتے ہوئے سامنے بیٹھ کر ایک بار پھر دیکھ اور سن لیں اور اپنے ضمیر سے دریافت کر لیں کہ کیا اس میں کہیں دہشت گردی یا علماء سوء کا ذکر ہے؟ کیا ان کے کسی جملہ میں علماء حق کے احترام کا شائبہ بھی پایا جاتا ہے؟ اور کیا دینی مدارس میں پڑھائے جانے والے علم بالخصوص قرآن و سنت کی ضرورت کا کوئی اشارہ بھی تلاش کیا جا سکتا ہے؟
ان کا سارا فوکس دینی مدارس میں دی جانے والی مجموعی تعلیم پر ہے، جسے وہ ”مردہ فکر“ سے تعبیر کر رہے ہیں اور انہیں سب سے زیادہ اعتراض اس بات پر ہے کہ قوم کے بچوں کو موت کا وقت کیوں یاد کروایا جا رہا ہے اور ان کے ذہنوں میں آخرت کا عقیدہ، جنت و دوزخ کے مناظر کیوں راسخ کیے جا رہے ہیں؟ ان کے نزدیک سکول، کالج اور یونیورسٹی میں دی جانے والی تعلیم انگریز کا تحفہ ہے اور وہی زندہ فکر ہے، جسے وہ پاکستانی قوم کے لیے ناگزیر سمجھتے ہیں۔ جبکہ دینی مدارس میں پڑھائے جانے والے علوم ”مردہ فکر“ ہیں اور ”جہالت کا علم“ ہیں، جس سے قوم کے بچوں کو محفوظ رکھنے کی فکر میں وہ اس قدر بے چین ہیں۔
ہم نے اسکول، کالج، یونیورسٹی کی تعلیم سے کبھی انکار نہیں کیا، البتہ قرآن و سنت اور اسلامی روایات کے علم کو بھی اسی طرح قوم کے بچوں کے لیے ضروری سمجھتے ہیں اور ان دونوں قومی ضرورتوں کو ایک تعلیمی نظام و نصاب میں یکجا اور ایڈجسٹ کرنے کی آواز ایک عرصہ سے لگا رہے ہیں۔ اس لیے اگر پرویز رشید صاحب کی گفتگو فرقہ وارانہ تعصب، تنگ نظری اور دیگر منفی پہلوؤں پر تنقید کے دائرے میں محدود رہتی اور طنزیہ قہقہوں کے بجائے سنجیدگی کے ساتھ کی گئی ہوتی تو شاید ہم بھی ان کی حمایت کرتے، لیکن انہوں نے دینی مدارس کے پورے نظام و نصاب کے ساتھ ساتھ اسلامی عقائد اور اذان جیسے دینی شعائر کو تنقید بلکہ طنز و استہزا کا نشانہ بنایا ہے، اس لیے اسے ہلکے پھلکے انداز میں نہیں لیا جا سکتا۔
عالمی سطح پر ہمارا یہ موقف واضح ہے کہ ناموس رسالت اور دینی شعائر کی توہین اور ان کے ساتھ استہزا اور تمسخر کے رویے کو برداشت نہیں کیا جا سکتا اور نہ ایسی کسی بات کو تنقید اور اختلاف کے پردے میں چھپایا جا سکتا ہے تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے کسی وزیر کو یہ حق کیسے دیا جا سکتا ہے کہ وہ طنز و استہزا اور تمسخر کے لہجے میں دینی شعائر کا استخفاف کرے؟ ہمیں بحث و مکالمہ سے کبھی انکار نہیں رہا اور نہ ہی ہم نے کبھی سنجیدہ اختلاف اور بامقصد تنقید کی ضرورت و اہمیت کی نفی کی ہے، مگر توہین، استہزا اور تمسخر کو نہ بین الاقوامی ماحول میں قبول کیا ہے اور نہ ہی قومی دائرے میں اس کو برداشت کیا جا سکتا ہے۔
ہم پرویز رشید صاحب کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ جس دستور کے تحت انہوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وفاقی وزیر کی حیثیت سے حلف اٹھا رکھا ہے اور اس کے فوائد و ثمرات اور پروٹوکول سے مسلسل فیض یاب ہو رہے ہیں، اس دستور کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور قرآن و سنت کی بالادستی پر ہے اور اس میں یہ ضمانت دی گئی ہے کہ قوم کے بچوں کو قرآن و سنت کی تعلیم سے آراستہ کیا جائے گا۔ اس لیے اگر ان باتوں پر ان کا یقین نہیں ہے اور وہ انہیں ”جہالت کا علم“ اور ”مردہ فکر“ سمجھتے ہیں تو انہیں ازخود رضاکارانہ طور پر اس کی چھتری سے نکل جانا چاہیے اور ”اخلاقی جرأت“ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اصلی روپ میں قوم کے سامنے آنا چاہیے۔ آخر شعور و آگہی کی نمائندگی کے لیے جہالت کی اوٹ میں کھڑا ہونا یہ تو دانشمندی نہیں ہے۔