وطن اور دین کا دفاع

   
جامعہ اشرفیہ، لاہور
۵ ستمبر ۲۰۱۳ء

(عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام منعقدہ ختم نبوت کانفرنس سے خطاب۔)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جامعہ اشرفیہ لاہور اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت دونوں آج کی اس عظیم الشان ختم نبوت کانفرنس کے انعقاد پر شکریہ اور تبریک کے مستحق ہیں اللہ تعالیٰ ہمارے ان دینی و علمی مراکز کی قیادتوں کو جزائے خیر سے نوازیں اور ہم سب کے مل بیٹھنے کو قبول فرماتے ہوئے اسے دنیا و آخرت میں ہمارے لیے سعادتوں اور برکتوں کا ذریعہ بنائیں، آمین یا رب العالمین۔

ستمبر کے پہلے عشرہ کے دوران اس کانفرنس کا اہتمام بطور خاص توجہ کے لائق ہے کہ اس عشرہ سے دفاعِ پاکستان اور دفاعِ عقیدہ دونوں کے حوالہ سے ہمارے اہم واقعات کے یاد وابستہ ہے۔ ۶ ستمبر ۱۹۶۵ء کو بھارت افواج نے لاہور پر قبضہ کے لیے بین الاقوامی سرحد پار کی تھی اور پاکستان کی سر حدوں پر یلغار کر دی تھی جسے پاکستان کی افواج اور قوم نے متحد ہو کر کرنا کام بنایا تھا، اس موقع پر قوم نے جس اتحاد و اتفاق اور جوش و جذبہ کا اظہار کیا تھا اس کی یاد آج تک ذہنوں میں تازہ ہے۔ جبکہ ۷ ستمبر ۱۹۷۴ء کو ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے عقیدہ ختم نبوت کا دستوری طور پر تحفظ کرتے ہوئے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا تاریخی فیصلہ کیا تھا اور پاکستان کی نظریاتی سرحدوں اور اسلامی شناخت کے تحفظ کا فریضہ سر انجام دیا تھا۔ ستمبر کا پہلا عشرہ ہمیں ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سر حدوں کی تحفظ کی طرف توجہ دلاتا ہے اور یاد دلاتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی دونوں سر حدوں کا تحفظ ضروری ہے اور دونوں آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ بلکہ میں یہ عرض کروں گا کہ جغرافیائی سرحدوں کے تحفظ کا دارومدار نظریاتی سرحدوں کے تحفظ پر ہے، اگر نظریاتی سر حدوں کا تحفظ ہوگا تو جغرافیائی سرحدیں بھی محفوظ رہیں گی اور اگر خدانخواستہ نظریاتی سرحدوں کو خطرہ لاحق ہوا تو جغرافیائی سرحدوں کا دفاع بھی مشکل ہو جائے گا۔

جبکہ آج کی صورتحال یہ ہے کہ ملک کی یہ دونوں سرحدیں خطرات سے دوچار ہیں بلکہ یلغار کی زد میں ہیں۔ ڈرون حملے ہماری جغرافیائی سرحدوں کو مسلسل پامال کر رہے ہیں، سینکڑوں شہریوں کی جانیں اس کی نذر ہو چکی ہیں۔ دوسری طرف ملک کی نظریاتی شناخت اور اسلامی تشخص کے خلاف بین الاقوامی سیکولر لابیوں کی مہم جاری ہے، قرارداد و مقاصد، تحفظ ختم نبوت کے دستوری فیصلے، ناموس رسالتؐ کے تحفظ کے قانون اور ملک میں نافذ شرعی قوانین کو غیر مؤثر بنانے کی ناکام کوششوں کے بعد اب سرے سے سزائے موت کو ختم کر دینے کی تازہ مہم ملک کی نظریاتی سرحدوں پر براہ راست حملہ ہے اور تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ اب تک پاکستانی قوم سے مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ گستاخ رسولؐ کے لیے موت کی سزا کا قانون تبدیل کیا جائے جسے قبول کرنے سے پاکستان کی عوام نے دوٹوک انکار کر دیا ہے۔ اب عالمی سیکولر قوتوں نے سزائے موت کے قانون کو ہی ختم کر دینے کا مطالبہ کر دیا ہے اور اس کے لیے یورپی یونین کی طرف سے مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے، حتٰی کہ روزنامہ جنگ لاہور کی آج کی رپورٹ کے مطابق ہمارے رخصت ہونے والے صدر محترم آصف علی زرداری صاحب نے جاتے جاتے یہ فرما دیا ہے کہ اگر ہمیں یورپی مارکیٹ تک رسائی حاصل کرنی ہے تو اس کے لیے پھانسی کا قانون ختم کرنا ہو گا۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں پر کس قدر دباؤ ہے اور اس حوالہ سے ہمیں کیا کچھ کرنا ہو گا۔ لیکن آج کے اس اجتماع کی وساطت سے میں یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اگر ایک قانون کے حوالہ سے موت کی سزا کو ختم کرانے کی بات پاکستانی قوم سے نہیں منوائی جا سکی تو باقی قوانین اور جرائم میں موت کی سزا ختم کرانے کا مطالبہ بھی پاکستانی قوم سے تسلیم نہیں کروایا جا سکتا۔ قصاص کا قانون قرآن کریم کا قانون ہے، اس کے خلاف بین الاقوامی سیکولر لابیوں کی اس مہم کا تمام دینی حلقے متحد ہو کر مقابلہ کریں گے اور ایسی کسی کوشش کو ان شاء اللہ کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔

دوسری بات میں آج کی کانفرنس کے موقع پر عرض کرنا چاہتا ہوں کہ تحریک ختم نبوت اور قادیانیت کے تعاقب کے ساتھ ساتھ پاکستان کی نظریاتی شناخت کے تحفظ اور اسلامی قوانین و احکام کے دفاع کی جدوجہد ہم سے کیا تقاضے کرتی ہے اور ہم کون سے طریقوں سے اس جدوجہد کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں جدوجہد اور محنت کے مختلف دائروں کا ذکر کروں گا۔

پہلا دائرہ تو یہی عوامی جدوجہد کا ہے کہ جلسہ، جلوس، عوامی اجتماعات، جمعۃ المبارک کے خطبات اور پبلک بیانات کی یہ مہم جاری رہے اور اس کا دائرہ وسیع کیا جائے۔ یہ عوامی بیداری کی محنت ہے جو ہماری جدوجہد کے لیے اساس کی حیثیت رکھتی ہے، اس کے لیے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی جدوجہد قابل قدر ہے کہ اس نے ملک بھر میں عوامی بیداری کا یہ محاذ مسلسل گرم رکھا ہوا ہے۔ مجلس احرار اسلام اور انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ اس مہم میں مصروف ہیں اور مختلف مکاتب فکر کی دینی جماعتیں بھی اپنے اپنے دائروں میں تحریک ختم نبوت کے حوالہ سے عوامی محنت کا کام کر رہی ہیں جو مسرت اور اطمینان کا باعث ہے۔

دوسرا دائرہ دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کی تعلیم و تربیت کا ہے، اس لیے کہ قادیانی گروہ نے اسلامی عقائد بالخصوص عقیدہ ختم نبوت اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور رفع الی السماء کے بارے میں دجل و تلبیس کا جو جال پھیلا رکھا ہے اس سے علماء کرام اور خاص طور پر دینی مدارس کے اساتذہ و طلبہ کا آگاہ ہونا ضروری ہے۔ اس لیے دینی مدارس کے طلبہ کو ان کے نصاب میں قادیانیت کا موضوع باقاعدہ پڑھانے کی ضرورت ہے اور مساجد کے آئمہ و خطباء کے لیے بھی تربیتی کورسز ضروری ہیں۔

تیسرا دائرہ کالج اور یونیورسٹی کا ہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ و اساتذہ کو اس مہم میں شریک کرنا انتہائی ضروری ہے۔ گزشتہ شب (۴ ستمبر) میں ڈسکہ ضلع سیالکوٹ میں اس سلسلہ میں ایک اجتماع میں شریک تھا، حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب اور برادرم طاہر عبد الرزاق بھی موجود تھے، یہ اجتماع ایک شادی ہال میں ’’ختم نبوت یوتھ فورس‘‘ کے زیراہتمام منعقد ہوا اور یوتھ فورس کے ایک راہنما فیصل گجر نے ایک اچھی بات کی، اس نے کہا کہ ہم نے ختم نبوت یوتھ فورس کو دینی مکاتب فکر اور مساجد و مدارس کے ماحول سے الگ رکھا ہے اور کالجوں کے طلبہ اور کاروباری لوگوں کو اس میں شریک کیا ہے، اس لیے کہ قادیانیوں کی دعوت و تبلیغ کا ہدف دینی مدارس کے طلبہ نہیں بلکہ کالجوں کے طلبہ ہیں اور ان کا شکار بھی عام طور پر دینی مدارس کے طلبہ کی بجائے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ اور اساتذہ ہوتے ہیں چنانچہ ہم نے بھی اس میدان کو اپنی محنت کے لیے چنا ہے۔ مجھے اس نوجوان کی یہ بات اچھی لگی، میں نے کل ڈسکہ کی کانفرنس میں اسے سراہا ہے اور آج کی کانفرنس میں بھی یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ صرف ڈسکہ کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہر شہر میں اسی جذبہ سے کام ہونا چاہیے اور ملک بھر کے دوستوں کورس طرف توجہ دینی چاہیے۔

تحریک ختم نبوت کی محنت کا چوتھا دائرہ میڈیا ہے، میڈیا کے مختلف شعبوں میں جو صحیح العقیدہ اور دینی جذبہ رکھنے والے حضرات کام کر رہے ہیں، انہیں باہمی ربط و تعاون سے مشترکہ حکمت عملی طے کرنی چاہیے اور ایک دوسرے کا تعاون کرتے ہوئے مل کی نظریاتی سرحدوں کے دفاع اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔ میڈیا کا دوسرا شعبہ ’’سوشل میڈیا‘‘ کا ہے جس کے دائرہ دن بدن وسیع ہو رہا ہے اور یہ ہر پڑھے لکھے نوجوان کی دسترس میں ہے۔ کمپیوٹر، انٹرنیٹ، فیس بک، یوٹیوب اور موبائل میسج تک کس نوجوان کی رسائی نہیں؟ یہ ایک کھلا میدان ہے جس میں ہر شخص اپنی صلاحیتوں کا استعمال کر سکتا ہے، اس لیے میں تمام نوجوانوں سے یہ گزارش کروں گا کہ وہ سوشل میڈیا کے ان تمام ذرائع کا دینی مقاصد کے لیے بھرپور استعمال کریں اور خاص طور پر عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کا دائرہ وسیع سے وسیع تر کرنے کے لیے محنت کریں۔

اس حوالہ سے جد و جہد کا پانچواں دائرہ بین الاقوامی اور قومی سطح پر لابنگ کا ہے۔ قرارداد مقاصد، تحفظ ناموس رسالتؐ اور تحفظ ختم نبوت کے حوالہ سے بین الاقوامی لابیاں، سیکولر حلقے اور این جی اوز جس طرح محنت کر رہی ہیں ان کا صحیح طور پر ادراک کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا یہ محاذ بالکل خالی ہے، بین الاقوامی اداروں میں ہمارا کام نہ ہونے کے برابر ہے، عالمی رائے عامہ کی توجہ اور حمایت حاصل کرنے کی طرف ہماری توجہ نہیں ہے اور قادیانی گروہ جس دجل و فریب کے ساتھ بین الاقوامی قوانین، معاہدات اور اداروں کو پاکستان کے خلاف، امت مسلم کے خلاف اور عقیدۂ ختم نبوت کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ ہم اس کی اہمیت اور نزاکت سے ابھی تک واقف نہیں ہیں، یہ اس جدوجہد کا مستقل اور سب سے اہم میدان ہے جس میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جو حضرات اس کا ذوق رکھتے ہیں اور اس کے لیے ضروری وسائل سے بہرہ ور ہیں ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ لابنگ کے بین الاقوامی ذرائع تک رسائی حاصل کریں، اس کے لیے لوگوں کو تیار کریں اور اس محاذ پر جدوجہد کی ترتیب قائم کریں اور اس کام کا ذوق رکھنے والوں کو وسائل اور مواقع مہیا کریں۔

حضرات محترم! میں نے پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کے تحفظ و دفاع کے بارے میں موجودہ صورتحال اور اس کے ضروری تقاضوں کے سلسلہ میں چند گزارشات پیش کی ہیں، میری سب شرکاء سے گزارش ہے کہ وہ اس کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیں اور ہر شخص یہ کوشش کرے کہ وہ اپنے دائرہ میں کچھ نہ کچھ خدمت ضرور سرانجام دے اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح محنت کرنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter