عورت کا مقام اور اسلام

   
۳۰ نومبر ۲۰۰۲ء

گزشتہ دنوں پاکستان سمیت دنیا بھر میں عورتوں پر تشدد کے خلاف عالمی دن منایا گیا۔ یہ دن ہر سال منایا جاتا ہے اور عورتوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور تشدد کو مختلف حوالوں سے اجاگر کیا جاتا ہے، سیمینار ہوتے ہیں، رپورٹیں شائع کی جاتی ہیں، قراردادیں منظور ہوتی ہیں، اخبارات میں بیانات چھپتے ہیں اور عورتوں پر ہونے والے مبینہ تشدد کی روک تھام کے لیے قانونی اقدامات کے مطالبات ہوتے ہیں۔ اس سال بھی یہ سب کچھ ہوا اور خاص طور پر این جی اوز نے اس دن کے حوالہ سے خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا۔ اس سال اس سلسلہ میں اخبارات میں جو رپورٹیں شائع ہوئی ہیں ان میں بطور خاص قابل ذکر باتیں یہ ہیں۔

  • پنجاب اور سندھ میں غیرت اور کاروکاری کے عنوان پر ہر سال سینکڑوں عورتوں کا قتل ہوتا ہے۔
  • بھارت میں اولاد نرینہ کی خواہش میں ہزاروں بچیوں کو قتل کر دیا جاتا ہے۔
  • امریکہ میں اوسطاً روزانہ تین خواتین شوہر یا بوائے فرینڈ کے ہاتھوں قتل ہو جاتی ہیں۔
  • پاکستان میں ہر سال تقریباً تیس ہزار خواتین حمل اور اس کی پیچیدگیوں کے باعث ہلاک ہو جاتی ہیں۔
  • دنیا میں اسقاط حمل کے نتیجے میں ہلاک ہونے والی خواتین کی تعداد اوسطاً پانچ لاکھ سالانہ ہے۔
  • چین میں حکومت کی جانب سے صرف ایک بچے کی اجازت کے قانون کے باعث لڑکے کی خواہش رکھنے والے کئی گھرانے بچی کی پیدائش کی صورت میں نومولود بچی کو کمرے میں مرنے کے لیے بھوکا پیاسا چھوڑ دیتے ہیں۔
  • پاکستان کی مختلف عدالتوں میں عورتوں کی جانب سے ایسے سینکڑوں مقدمات موجود ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ خاوند تشدد کرتا ہے، بچوں کا خرچ نہیں دیتا اور مار پیٹ کر گھر سے نکال دیتا ہے۔
  • عورتوں کو وراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا اور قانونی ذرائع سے اپنا حق وصول کرنے والی خواتین کو پوری زندگی بھائیوں اور خاندان سے قطع تعلق کرنا پڑتا ہے۔
  • عورت کو رائے کا حق نہیں دیا جاتا اور بہت سے معاملات میں ان کی رائے کے حق کا احترام نہیں کیا جاتا۔

یہ صرف چند باتیں ہیں جن کا عورت کی مظلومیت اور اس پر ہونے والے تشدد کے حوالے سے مختلف رپورٹوں میں ذکر موجود ہے، ورنہ ان مظالم کی فہرست اس سے کہیں زیادہ طویل ہے جو ہمارے معاشرے میں بلکہ پوری دنیا میں عورت پر روا رکھے جاتے ہیں۔

اسلام نے آج سے چودہ سو سال قبل اسی قسم کے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی تھی:

  • لڑکی کو زندہ دفن کر دینے کی جاہلی روایت کا خاتمہ کیا تھا۔
  • عورت کو باپ اور خاوند کی وراثت میں حق دلایا تھا۔
  • بیٹی، بہن اور ماں کے رشتے کو مقدس قرار دیا تھا اور شفقت و احترام کا ماحول قائم کیا تھا۔
  • بیوی کو صرف خواہش کی تکمیل کا ذریعہ نہیں بلکہ گھر کی مالکہ اور شریک حیات کا مقام عطا کیا تھا اور گھر کے معاملات میں عورت کو رائے اور مشورہ کے حق سے نوازا تھا۔

اس سلسلہ میں حضرت عمرؒ کا ارشاد ہے کہ مکہ مکرمہ میں ہمارے ہاں یہ ماحول تھا کہ عورت کے لیے کسی معاملہ میں مرد کے سامنے اپنی رائے پیش کرنے اور خاوند کو کسی بات پر ٹوکنے کا کوئی تصور ہی نہیں تھا، لیکن جب ہجرت کر کے ہم مدینہ منورہ پہنچے تو انصار مدینہ کے ہاں یہ ماحول تھا کہ عورت کو رائے دینے اور مرد کی بات ٹوکنے کی آزادی حاصل تھی۔ ایک روز میں نے گھر میں کوئی بات کہی تو میری بیوی نے مجھے ٹوک دیا کہ یہ بات یوں نہیں بلکہ یوں ہونی چاہیے۔ میرے لیے یہ بات نئی تھی، سخت حیرت ہوئی اور میں نے انتہائی غصے میں اسے ڈانٹ دیا کہ تمہیں کیا حق حاصل ہے کہ میری بات میں مداخلت کرو۔ اس نے کہا کہ مجھے کیوں ڈانٹتے ہو؟ جا کر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں حالات معلوم کرو۔ حضور علیہ السلام کی بیویاں بھی انہیں اسی طرح مشورے دیتی ہیں اور کبھی کسی بات پر ٹوک بھی دیتی ہیں۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ میں اسی غصے کی حالت میں اٹھا اور آنحضرتؐ کے حجروں کا رخ کیا۔ سب سے پہلے اپنی بیٹی ام المومنین حضرت حفصہؒ کے پاس گیا اور ان سے پوچھا کہ مجھے یہ بات جو بتائی گئی ہے کیا درست ہے؟ انہوں نے ہاں میں جواب دیا تو میں انہیں سمجھانے لگ گیا کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ حضرت حفصہؒ نے جواب دیا کہ ہم تو نبی کریمؐ کو بسا اوقات کسی بات کو جواب دیتی ہیں اور کسی مسئلہ پر بحث بھی کر لیتی ہیں، آپؐ تو اس پر برا نہیں مناتے۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے اس پر حضرت حفصہؓ کو بہت سمجھایا اور وہ خاموشی سے میری باتیں سنتی رہیں، لیکن جب میں نے یہ ہی بات ام المومنین ام سلمہؓ سے کرنا چاہی تو انہوں نے الٹا مجھے ڈانٹ دیا اور کہا کہ عمرؓ! آپ ہر معاملہ میں مداخلت کرتے ہیں حتیٰ کہ میاں بیوی کے معاملات میں بھی آپ نے دخل دینا شروع کر دیا ہے؟ حضرت عمرؓ کا ارشاد ہے کہ بعد میں جب میں نے اس ساری بات کی رپورٹ حضورؐ کو پیش کی تو حضرت ام سلمہؒ کے ذکر پر آپؐ مسکرائے اور فرمایا ’’آخر ام سلمہؓ ہے‘‘۔

اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلام نے عورت کو کس ماحول سے نکال کر کون سا ماحول فراہم کیا، اور اس کے ساتھ دور جاہلیت میں ہونے والی زیادتیوں کا کس طرح راستہ روکا۔ آج پھر عورت اس جاہلیت کے ماحول میں واپس پہنچ گئی ہے جہاں ایک طرف اسے قتل کیا جاتا ہے، اس کے جائز حقوق سے اسے محروم کیا جاتا ہے اور اسے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اور دوسری طرف اسے آزادی اور حقوق کے نام پر ’’شوپیس‘‘ اور ’’کھلونا‘‘ بنا دیا گیا ہے۔ مغرب عورت کو آزادی اور حقوق دینے کا دعویدار ہے لیکن عملاً وہاں بھی اسے خواہش کی تکمیل کا ذریعہ اور خادمہ سے زیادہ کوئی معاشرتی مقام حاصل نہیں ہو سکا۔ بلوغت کے آثار نمودار ہونے کے بعد کسی کا گھر بسانے تک وہ ان گنت ہم عمر نوجوانوں کے رحم و کرم پر ہوتی ہے۔ شادی اور گھر بسانے کے بعد اسے ملازمت کے دوران باس اور ساتھیوں کو راضی رکھنا پڑتا ہے اور شادی کی عمر سے گزر جانے کے بعد اس کا ٹھکانہ ’’اولڈ پیپلز ہوم‘‘ ہوتا ہے۔ اسے اپنے فطری فرائض کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ دفتر یا کارخانہ کی ملازمت کی صورت میں خاوند کا ہاتھ بھی بٹانا پڑتا ہے، جسے وہ ’’حقوق میں مساوات‘‘ کے خوبصورت عنوان کے ساتھ ہنسی خوشی برداشت کرتی ہے۔ نوعمری میں باپ کا ’’سایہ تحفظ‘‘ اسے بوجھ محسوس ہوتا ہے، جوانی میں وہ خاوند کی وفا کو ترستی ہے، بڑھاپے میں اولاد کی طرف سے خدمت اور احترام کی حسرت اس کے دل میں رہ رہ کر نشتر چبھوتی ہے۔

عورت بے چاری آج بھی مظلوم ہے، بے بس ہے، لاچار ہے اور ترقی و تہذیب کے اس دور میں بھی کسی مسیحا کے انتظار میں ہے جو بڑھ کر اس کے ننگے سر کو اپنی چادر سے ڈھانپ دے، بیٹی کو باپ کے تحفظ کا سایہ، بیوی کو خاوند کی وفا، اور ماں کو اولاد کی خدمت و احترام کا ماحول فراہم کر سکے۔

   
2016ء سے
Flag Counter