دینی مدارس اور وفاقی وزیر داخلہ کی خوش آئند باتیں

   
نومبر ۲۰۱۶ء

گزشتہ روز دفاع پاکستان کونسل کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے مولانا سمیع الحق کی قیادت میں وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان سے ملاقات کی اور ان سے ملک کی عمومی دینی صورت حال اور دینی حلقوں کے خلاف بڑھتے ہوئے دباؤ کے حوالہ سے بات چیت کی ، وفد میں مولانا شاہ محمد اویس نورانی، مولانا محمداحمد لدھیانوی، مولانا فضل الرحمن خلیل، قاری محمد یعقوب شیخ، میاں محمد اسلم اور دیگر حضرات شامل تھے۔

روزنامہ ’’امت‘‘ راولپنڈی میں ۲۲ اکتوبر کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق

  • مولانا سمیع الحق نے وزیر داخلہ کو ملک کی دینی جماعتوں، مدارس، ائمہ مساجد اور علماء کرام کو درپیش مشکلات اور مسائل سے تفصیل سے آگاہ کیا اور کہا کہ ان حالات نے دینی قوتوں کا پیمانۂ صبر لبریز کر دیا ہے کیونکہ انہیں دانستہ طور پر ہر محاذ پر دیوار کے ساتھ لگانے کی سازش کی جا رہی ہے جبکہ دینی حلقوں نے ہمیشہ ملکی دفاع، سلامتی اور استحکام کے لیے مسلسل مثبت کردار ادا کیا ہے مگر اب انہیں سڑکوں پر نکلنے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے حالات میں حکومت کی طرف سے دینی شخصیات کی شہریت منسوخ کرنے ، شناختی کارڈ بلاک کرنے، بینک اکاؤنٹ منجمد کرنے اور ملک سے باہر جانے پر پابندی کے اعلانا ت و اقدامات نے جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا ہے اس لیے حکومت اپنے اس طرز عمل پر نظر ثانی کرے اور دینی حلقوں کی قیادت کو اعتماد میں لے۔
  • رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ نے وفد کی تفصیلی شکایات سننے کے بعد کہا کہ دین اسلام پاکستان کی طاقت، حرمت اور مان ہے ، دنیا کی کوئی طاقت دین کو پاکستان سے الگ نہیں کر سکتی، پاکستان اسلامی نظریے پر قائم ہوا تھا اور ان شاء اللہ اسی نظریے پر قائم و دائم رہے گا، میں اپنے آپ کو دینی قوتوں کا سپاہی سمجھتا ہوں اور تمام نازک حالات میں ہر فورم پر آپ کے ساتھ کھڑا رہوں گا، یہ طے شدہ بات ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا تھا اور اس ملک کا نظریاتی تشخص ہر حالت میں قائم رکھا جائے گا۔

ہم دفاع پاکستان کونسل اور اس کے سربراہ مولانا سمیع الحق کے اس اقدام کا خیر مقدم کرتے ہیں کہ انہوں نے ملک بھر کے دینی حلقوں کے جذبات کی صحیح ترجمانی کی ہے اور وزیر داخلہ سے خود ملاقات کر کے انہیں ان کی مشکلات ، مسائل اور جذبات و احساسات سے آگاہ کیا ہے، یہ وقت کی اہم ضرورت تھی کہ دینی مدارس، شخصیات اور کارکنوں کے بارے میں بعض ریاستی اداروں کی طرف سے یکطرفہ کاروائیوں کا جو سلسلہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے اس پر مشترکہ موقف اختیار کیا جائے اور ذمہ داران حکومت تک اسے پہنچایا جائے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کاروائیاں دراصل اس عالمی ایجنڈے کا حصہ ہیں جو پاکستان کے نظریاتی تشخص کو مجروح کرنے اور پاکستان کی دینی قوتوں کو مسلسل اور شدید دباؤ میں رکھنے کے لیے طے کر لیا گیا ہے اور جس کا ہدف یہ ہے کہ دینی حلقوں کو اس حد تک پریشان رکھا جائے کہ وہ ملک کے نظریاتی تشخص کے تحفظ اور دینی تعلیم و تربیت کے نظام کو باقی رکھنے کی جد و جہد کو اپنی روایات کے مطابق جاری نہ رکھ سکیں۔ جبکہ ان کاروائیوں کو مختلف ریاستی اداروں میں گھسے ہوئے وہ لادین سیکولر عناصر سازش کے ذریعہ آگے بڑھا رہے ہیں جن کی وفاداری اپنے ملک کے نظریے اور دستور کے ساتھ قائم دکھائی نہیں دیتی۔ یہ انتہائی تعجب کی بات ہے کہ وطن عزیز میں ایسے عناصر و افراد بھی ملک کے کلیدی مناصب پر فائز ہیں جو پاکستان کے اسلامی تشخص و تعارف پر یقین تو نہیں رکھتے مگر دستور کی وفاداری کا منافقانہ حلف اٹھا کر اسی دستور کی نظریاتی بنیادوں کے خلاف متحرک رہتے ہیں۔ اصل مسئلہ دستور کی بالا دستی اور اس پر عملدرآمد کا ہے، پاکستان کا دستور بنیادی طورپر تین اصولوں پر استوار ہے۔

  • حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے،
  • حکومت کا حق عوام کے منتخب نمائندوں کو ہے، اور
  • حکومت قرآن و سنت کے احکام کی پابند ہے۔

مگر آج تک قومی زندگی میں ان اصولوں کی پاسداری کا کوئی اہتمام دکھائی نہیں دیا حتیٰ کہ دستور کی بالادستی کے نام پر ووٹ لینے والے حکمران دستور کی اسلامی دفعات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کے بارے میں اس عالمی سیکولر ایجنڈے کے لیے مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں جس کے بارے میں اب کوئی ابہام باقی نہیں رہا کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ دستور پاکستان کی اسلامی بنیادوں کو خدانخواستہ سرے سے ختم کر دیا جائے یا کم از کم انہیں غیر موثر بنا دیا جائے، اور پاکستان میں دین کی سربلندی اور دینی اقدار و روایات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے حلقوں اور افراد کو مسلسل خوف و ہراس کے ماحول میں رکھا جائے۔

اس کے ساتھ ہم وفاقی وزیر داخلہ کے ان ریمارکس کو بھی خوش آئند سمجھتے ہیں جوا نہوں نے دفاع پاکستان کونسل کے وفد کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے دیے ہیں۔ ان کا کہنا بالکل بجا ہے مگر مصیبت یہ ہے کہ الفاظ کی حد تک تو یہ باتیں حکمران کیمپ کے ہر سنجیدہ شخص کی زبانوں پر وقتاً فوقتاً آتی رہتی ہیں لیکن حکومتی پالیسیوں، ریاستی اداروں کے طرز عمل اور میڈیا کے نقار خانے میںیہ آواز کہیں سنائی نہیں دیتی۔ حکمران کیمپ میں اس وقت بھی ملک اور دین سے محبت رکھنے والے حضرات کی کمی نہیں ہے اور ہم چودھری نثار علی خان کو انہی میں شمار کرتے ہیں لیکن ان سے ہماری شکایت یہ ہے کہ وہ اپنی صفوں میں گھسے ہوئے ایسے افراد کی منفی سرگرمیوں سے بے پرواہ نظر آتے ہیں جو پاکستان کے داخلی ماحول میں بیرونی ایجنڈے کے لئے شعوری یا غیر شعوری طور پر آلۂ کار کا کردار ادا کر رہے ہیں اور ملک و قوم کی کمزوری اور بے وقاری کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ چودھری نثار علی خان صاحب کا یہ ارشاد سو فیصد درست ہے کہ ’’دین اسلام پاکستان کی طاقت، حرمت اور مان ہے‘‘ لیکن سوال یہ ہے کہ ملک کا اس طاقت کو کمزور کرنے، حرمت کو پامال کرنے اور مان کو توڑنے کے لیے جو عناصر اور لابیاں سرگرم عمل ہیں وفاقی وزیر داخلہ ان کے سد باب کے لیے کیا کر رہے ہیں؟

   
2016ء سے
Flag Counter