ان دنوں بسنت کی وباء ہر طرف عام ہے اور مختلف شہروں میں اسے جشن کے طور پر منانے کی تیاریاں جاری ہیں۔ کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ یہ خالصتاً ہندوانہ تہوار ہے جو ایک گستاخ رسول کی یاد میں منایا جاتا ہے جبکہ منانے والوں کا خیال ہے کہ یہ صرف موسم بہار کے آغاز کا ایک تہوار ہے اور اس کا مذہب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
گزشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی بعض حضرات نے اس کی بندش کے لیے عدالت عالیہ سے رجوع کیا ہے اور لاہور ہائی کورٹ نے ایک فیصلہ میں حکومت کو شاہی قلعہ اور شالامار باغ میں بسنت کا جشن منانے سے روک دیا ہے۔ جبکہ ایک اور رٹ میں ہائی کورٹ کے دو جج صاحبان نے شرعی عدالت سے رجوع کرنے کو کہا ہے۔ یہ رٹ معروف قانون دان ایم ڈی طاہر کی طرف سے دائر کی گئی تھی جس میں انہوں نے بسنت پر پابندی لگانے کی درخواست کی تھی مگر پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل جناب مقبول انور ملک نے صوبائی حکومت کی طرف سے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اس سلسلہ میں کوئی قانون موجود نہیں ہے جس کے تحت بسنت پر پابندی لگائی جا سکے اور عدالت کو چونکہ قانون سازی کے اختیارات حاصل نہیں ہیں اس لیے وہ بھی بسنت پر پابندی لگانے کی مجاز نہیں ہے۔
دوسری طرف بسنت کے حوالہ سے صرف لاہور میں ایک دن کے دوران تین واقعات پیش آچکے ہیں۔ ایک واقعہ اقبال ٹاؤن کا ہے جہاں سول انجینئر محمد اشفاق اپنے تین سالہ بچے کو موٹرسائیکل پر بٹھا کر جا رہا تھا کہ بچے کے گلے پر پتنگ کی ڈور پھر گئی جس سے اس کی شہ رگ کٹ گئی۔ محمد اشفاق اپنے معصوم بچے عبد اللہ یاسر کے گلے پر ہاتھ رکھ کر خون روکنے کی کوشش کرتا رہا مگر اس میں کامیاب نہ ہوا اور بچہ اس کی گود میں دم توڑ گیا۔ دوسرا واقعہ اعظم مارکیٹ کا ہے کہ سولہ سالہ شہزاد آصف دکان کی چھت پر گیا اور اس نے ایک پتنگ کی کٹی ہوئی ڈور کو پکڑ لیا، یہ ڈور دھات کی تھی جس نے بجلی کی تاروں کو چھوتے ہی کرنٹ پکڑ لیا اور شہزاد آصف کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہوگیا۔ اس نوجوان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنے خاندان کا واحد کفیل تھا۔ تیسرا واقعہ عوامی کالونی کوٹ لکھپت کا ہے جہاں ایک ۱۸ سالہ محنت کش شہزاد حسین چھت پر تھا کہ کسی طرف سے اندھی گولی آئی اور اس کا چراغ حیات گل کر گئی۔
یہ ایک شہر کے واقعات ہیں اور ایک دن کے ہیں۔ یہ واقعات پڑھ کر مجھے اپنے ایک دوست ماسٹر مقبول احمد کا بچہ یاد آگیا۔ ماسٹر مقبول احمد مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے قریب محلہ گورونانک پورہ میں رہتے ہیں، ان کا تیرہ سالہ بچہ محمد صدیق مدرسہ نصرۃ العلوم میں قرآن کریم یاد کر رہا تھا اور پچیس پارے حفظ کر چکا تھا۔ دو سال قبل کی بات ہے کہ بسنت کے موقع پر وہ اپنے مکان کی چھت پر چڑھا تو کسی طرف سے آنے والی اندھی گولی نے اس کی زندگی کی ڈور کاٹ دی۔
ایک خبر کے مطابق اس قسم کے واقعات روکنے کے لیے انتظامیہ بظاہر بہت مستعد دکھائی دے رہی ہے، چنانچہ چیف سیکرٹری پنجاب کے حکم پر ڈپٹی کمشنر لاہور حسن نواز تارڑ نے بسنت کے موقع پر جن اقدامات کا اعلان کیا ہے ان کے مطابق
- بسنت کا اہتمام کرنے والوں سے پانچ پانچ لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے لیے جا رہے ہیں تاکہ وہ قوانین کی خلاف ورزی نہ کر سکیں،
- کسی مکان کی چھت سے فائرنگ ہونے پر مالک مکان کی گرفتاری کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں،
- دھاتی ڈور کے استعمال پر پابندی لگا دی گئی ہے،
- اور شہر کی ۱۵۶ بلند عمارتوں پر نگرانی کے انتظامات کیے گئے ہیں جہاں سے دوربین اور وائرلیس کے ذریعہ پتنگ بازی کے دوران فائرنگ اور ڈیک کی بلند آوازوں کو واچ کیا جائے گا۔
دوسری طرف اس تہوار کی سرکاری سرپرستی کا یہ عالم ہے کہ ریلوے نے اس کے لیے خصوصی ٹرینیں اور پی آئی اے نے خصوصی پروازیں چلانے کا اعلان کیا ہے اور ثقافت کے فروغ کے نام پر ذرائع ابلاغ اسے جشن بہار کے طور پر متعارف کرا کے اس کی اہمیت کو دن بدن بڑھاتے چلے جا رہے ہیں۔
ہمارے نزدیک اس سارے قصے کی اصل وجہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر اسلامی ثقافت، جہادی جذبات، اور دینی روایات کے ساتھ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی سے پریشان ہو کر علاقائی تقاضوں کو ابھارا جا رہا ہے تاکہ عالمگیر اسلامیت کے رنگ کو پھیکا کیا جا سکے اور ڈھول ڈھمکے میں الجھا کر مسلمانوں کی نئی نسل کو اس کی اصل روایات و اقدار سے ہٹایا جا سکے۔ بالکل اسی طرح جیسے مکہ مکرمہ میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اور تلاوت قرآن کریم سے پریشان ہو کر ایک مشرک سردار نضر بن حارث نے لوگوں کا رخ تبدیل کرنے کے لیے ناچ گانے کی محفلوں کا اہتمام کیا تھا۔ اب اس کام کا بیڑا ورلڈ اسٹیبلشمنٹ نے اٹھایا ہے اور ہماری مقامی اسٹیبلشمنٹ بھی اس کے ساتھ اس پروگرام میں پوری طرح شریک و معاون بن گئی ہے۔
ہمیں حیرت پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل مقبول انور ملک صاحب کے اس ارشاد پر ہوتی ہے کہ انہیں بسنت پر پابندی لگانے کے لیے کوئی قانون نہیں مل رہا۔ اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ ان کے سامنے شریعت اسلامیہ کے قوانین نہیں ہیں۔ ورنہ انہیں یہ بات معلوم ہوتی کہ فقہاء اسلام نے ’’سد ذرائع‘‘ کا ایک مستقل اصول بیان کیا ہے کہ جو چیز کسی غلط نتیجہ کا باعث بن رہی ہو اور جس سے کسی نقصان کا واضح خطرہ نظر آرہا ہو اسے جائز ہونے کے باوجود شرعاً ممنوع قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس لیے ہمارے حکمرانوں کو اگر لوگوں کے مال و دولت کے وسیع نقصان کا احساس نہیں ہو رہا اور اس نام نہاد جشن کی دوسری قباحتوں پر ان کی نظر نہیں ہے تو کم از کم ان معصوم جانوں کا ہی خیال کر لیں جو ہر سال چند لوگوں کی اس تفریح کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ جناب رسول اللہؐ نے تو کتوں کو آپس میں لڑانے سے اس لیے منع کر دیا تھا کہ اس سے کسی جاندار کی جان بلاوجہ ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔ کیا ہمارے حکمران اپنے شہریوں کی جانوں کو اتنی اہمیت دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں؟