قرآن و سنت کو دستوری طور پر ملک کا سپریم لاء قرار دینے کی صورت میں بعض حلقوں کو یہ خدشہ ہے کہ اگر اس پر عملدرآمد ہوا تو ملک کا پورا نظام تبدیل ہو جائے گا۔ چنانچہ ایک دانشور نے اس کا اظہار ایک بڑے خطرے کی صورت میں کیا ہے جس کے جواب میں ہم نے عرض کیا کہ قرآن و سنت کی بالادستی یا شریعت کے نفاذ سے نظام ہی کی تبدیلی تو مقصود ہے۔ ورنہ اگر نظام جوں کا توں رہنا ہے تو پھر اسلام اور شریعت کی بات کرنے یا سرے سے پاکستان کے نام سے الگ ملک کے قیام ہی کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ قرآن و سنت کو ملک کا سپریم لاء قرار دینے اور تیرہویں آئینی بل کی سینٹ آف پاکستان سے منظوری کے بعد بھی ملک کی موجودہ اسٹیبلشمنٹ سے اس قسم کی کوئی توقع نہیں ہے کہ اس کے ہاتھوں اس ملک میں اسلام نافذ ہو جائے گا اور شرعی احکام کی عملداری کی راہ ہموار ہوگی۔
پھر وزیراعظم اور ان کے وزراء نے مسلسل یقین دہانیوں کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے کہ شریعت کے نفاذ سے فلاں شعبہ متاثر نہیں ہوگا اور فلاں فلاں شعبوں میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، اس پر عام لوگ ایک دوسرے سے حیران ہو کر پوچھ رہے ہیں کہ یہ کون سی شریعت ہے جو نافذ تو ہوگی لیکن اس سے قومی زندگی کا کوئی شعبہ بھی متاثر نہیں ہوگا۔ ہمارے حکمران ایک طرف ملک کے عوام کو پندرہویں آئینی ترمیم کی سینٹ سے منظوری کی صورت میں نفاذ شریعت کی خوشخبری سنا رہے ہیں اور ملک کے نظام میں انقلابی تبدیلیوں کی نوید دے رہے ہیں جبکہ دوسری طرف مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو یہ تسلیاں بھی دے رہے ہیں کہ اس انقلاب سے ان کا شعبہ متاثر نہیں ہوگا۔
اس پر مولانا رومیؒ کی بیان کردہ ایک حکایت یاد آرہی ہے کہ ایک صاحب کو اپنے بازو پر شیر کی تصویر گدوانے کا شوق تھا وہ اس کے لیے تصویر گودنے والے ماہر کے پاس گئے اور اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ اس نے سوئی پکڑی اور ان کے ہاتھ پر تصویر بنانا شروع کر دی۔ اب ظاہر ہے کہ بازو یا جسم کے کسی حصے پر تصویر یا نام گودنے کے لیے پہلے نقشہ کے مطابق سوئی چبھوئی جاتی ہے اور پھر اس میں رنگ بھر دیا جاتا ہے جو جلد میں پیوست ہو کر مطلوبہ شکل اختیار کر لیتا ہے۔ لیکن جب سوئی چبھی اور درد محسوس ہوا تو ان صاحب نے پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ شیر کی تصویر بنانا شروع کی ہے۔ پوچھا کہ کون سا حصہ بنانے لگے ہو؟ اس نے کہا کہ دم بنانا شروع کی ہے۔ فرمانے لگے کہ اس کو رہنے دو بعض شیر دم کے بغیر بھی ہوتے ہیں۔ اس نے کہا کہ ٹھیک ہے اب دوسری طرف سے شروع کرتا ہوں۔ اب جو اس نے سوئی چبھوئی تو سوئی بھی وہی تھی اور جسم بھی وہی تھا اس لیے درد بھی ویسا ہی ہونا تھا۔ چنانچہ تکلیف محسوس ہوئی تو پوچھا کہ اب کیا کرنے لگے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ اب کان بنانے لگا ہوں۔ ان صاحب نے کہا کہ اس کو بھی چھوڑ دو کیونکہ بعض شیر کان کے بغیر بھی ہوتے ہیں۔ الغرض دو چار دفعہ ایسا ہوا کہ وہ شیر کی تصویر کا جو حصہ بنانے کے لیے بھی سوئی کو حرکت دیتا تو یہ صاحب تکلیف کے باعث کہہ دیتے کہ اس حصہ کو چھوڑ دو اور باقی تصویر بنا دو۔ اس پر اس ماہر فن نے سوئی زمین پر رکھ دی اور کہا کہ میرے بھائی جس قسم کا لولا لنگڑا اور اندھا بہرا شیر تم بنانا چاہتے ہو ایسا شیر تو دنیا میں کسی نے نہ دیکھا ہوگا۔
وزیراعظم اور ان کے رفقاء سے گزارش ہے کہ وہ پاکستان میں نفاذ شریعت کے مسئلہ کو ’’مثنوی‘‘ کا یہ قصہ بنانے کی کوشش نہ کریں کیونکہ اسلام جب نافذ ہوگا تو زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہوگا اور اسلام کے ہر حکم کے نفاذ سے سوئی چبھے گی اور اگر ہم واقعی اسلام کی بالادستی اور نفاذ میں سنجیدہ ہیں تو نفاذ کا عمل مکمل ہونے تک سوئی کی مسلسل چبھن برداشت کرنا ہوگی۔
نظام کی تبدیلی کے حوالہ سے اس موقع پر تین گزارشات پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔
- ایک یہ کہ فرنگی حکمرانوں نے جب مغلوں سے اقتدار چھین کر برصغیر پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور برما پر مشتمل وسیع ترین خطے کا کنٹرول سنبھالا تو اس سے پہلے اتنے بڑے ملک کے انتظامی، عدالتی اور مالیاتی شعبوں میں ایک مکمل نظام کی حکمرانی تھی جو اورنگزیب عالمگیر کے دور میں پانچ سو اصحاب علم و دانش کی کونسل نے قرآن و سنت اور فقہ حنفی کی روشنی میں مرتب کیا تھا، اور یہ نظام سیاسی شعبے کو چھوڑ کر قومی زندگی کے باقی تمام شعبوں پر محیط تھا۔ فرنگی حکمرانوں نے اقتدار سنبھالتے ہی اس پورے نظام کو لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا اور اس کی جگہ انتظامی، عدالتی، مالیاتی اور تعلیمی شعبوں میں اپنا نظام رائج کر دیا۔ یہ نظام پاکستان کی صورت میں مسلمانوں کو اقتدار واپس ملنے کے بعد بھی نصف صدی سے بدستور رائج چلا آرہا ہے جو باقی حوالوں سے قطع نظر قومی غیرت کی رو سے بھی کوئی جواز نہیں رکھتا۔ یہ بات عام آدمی کے فہم سے بالاتر ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ انگریزوں نے تو اقتدار سنبھالنے کے بعد ہمارے نظام کو گوارا نہیں کیا اسے اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا مگر ہم انگریزوں سے اقتدار واپس لینے کے بعد انہی کے نظام کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔
- دوسری گزارش یہ ہے کہ اگر ہمارے بعض دانشوروں کے خیال کے مطابق یہی نظام باقی رہنا چاہیے اور اسے چھیڑنا ٹھیک نہیں تو اس نظام کو چلانے کے لیے ہماری موجودہ اسٹیبلشمنٹ کی بجائے خود انگریز زیادہ بہتر تھے کہ وہ اس نظام کو زیادہ بہتر طور پر سمجھتے تھے اور اس کے ساتھ ان کی کمٹمنٹ بھی زیادہ واضح تھی، اس لیے اسے چلانے کے لیے وہ ہمارے موجودہ حکمرانوں سے کہیں زیادہ اہلیت اور تجربہ رکھتے تھے اور نصف صدی کا تجربہ شاہد ہے کہ یہ نظام انگریز خود جس کامیابی کے ساتھ چلا رہے تھے ان کے جانشینوں سے وہ اس طرح نہیں چل رہا۔ اس لیے اگر ان کی اس سوچ کو تسلیم کر لیا جائے تو تحریک آزادی اور تحریک پاکستان دونوں کا کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا۔
- تیسری گزارش ہے کہ موجودہ نظام سے ملک کا ہر شہری تنگ ہے اور وزیراعظم سے لے کر اپوزیشن لیڈر تک ہر شخص اس کی ناکامی کا رونا رو رہا ہے۔ لیکن جب اس نظام کی تبدیلی بات ہوتی ہے تو ہمارے لیڈر تحفظات کا دامن تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں تاکہ اس کی پناہ لے سکیں، وزیراعظم اور ان کے رفقاء مختلف شعبوں کو متاثر نہ ہونے کی یقین دہانیوں میں لگ جاتے ہیں اور اپوزیشن لیڈر دنیا بھر کے حکمرانوں کو خط لکھ کر موجودہ سسٹم کے تحفظ کےلیے دھائی دینے لگتی ہیں جس سے نوآبادیاتی سسٹم کے ساتھ ان کی ’’وفاداری‘‘ کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
اس لیے ملک کے حکمرانوں، سیاستدانوں اور دانشوروں سے ہماری گزارش ہے کہ جب مروجہ سسٹم ہمارا اپنا سسٹم نہیں ہے اور یہ ہمارے معاملات کو چلانے میں مکمل طور پر ناکام ہوگیا ہے تو پھر اس کے تحفظ کے لیے اتنے بے چین نہ ہوں اور حوصلے کے ساتھ اس کی تجہیز و تکفین کی تیاری کریں کیونکہ اسلام اس نوآبادیاتی نظام کے رخصت ہونے کے بعد ہی ہماری قومی زندگی میں داخل ہو سکے گا اور اب اس کے سوا ہمارے مسائل کا اور کوئی حل باقی نہیں رہا۔