مسئلہ قومی زبان اردو کا

   
۱۸ جولائی ۲۰۱۵ء

گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شمس محمود مرزا نے جناب اے کے ڈوگر ایڈووکیٹ کی درخواست پر وفاقی حکومت سے اردو زبان کو تدریسی نصاب اور عدالتی زبان کے طور پر رائج کرنے کے بارے میں ۱۸ اگست تک جواب طلب کر لیا ہے۔ درخواست گزار نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ قومی زبان اردو کو اس کا جائز مقام نہیں دیا جا رہا۔ کسی بھی قوم کی پہچان اس کی زبان سے ہوتی ہے، عدالت سے استدعا ہے کہ اردو زبان کو سکولوں و کالجوں میں تدریسی نصاب کا حصہ بنانے اور تمام عدالتی کاروائی کو اردو زبان میں کرنے کا حکم دیا جائے تاکہ لوگوں کو انصاف کی فراہمی میں آسانی پیدا ہو سکے۔

اس سے چند روز قبل سپریم کورٹ آف پاکستان میں عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر وفاقی حکومت کی طرف سے ایک رپورٹ پیش کی جا چکی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صدر، وزیر اعظم سمیت تمام وفاقی وزراء اندرون و بیرون ملک سرکاری تقریبات میں تقاریر اردو زبان میں کریں گے۔ نیز وفاق کے زیر انتظام سرکاری و نیم سرکاری ادارے تین ماہ کے اندر پالیسیاں اور قوانین کا اردو ترجمہ شائع کریں گی۔ علاوہ ازیں سیکرٹری اطلاعات نے بتایا کہ وزیر اعظم نے اردو کے دفاتر میں استعمال کا انتظامی حکم ۶ جولائی کو جاری کر دیا تھا جس کے مطابق وفاقی حکومت کے تمام ادارے اپنی ویب سائیٹس تین ماہ میں اردو میں منتقل کر دیں گے۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے تمام وفاقی اداروں کو اپنی پالیسیاں اور قوانین کا اردو ترجمہ شائع کرنے کا حکم دیا ہے۔

اردو ہماری قومی زبان ہے جس کی ترویج و نفاذ کا دستور پاکستان میں وعدہ کیا گیا ہے۔ ہماری اعلیٰ عدالتیں اسی دستوری فیصلے پر عملدرآمد کے لیے مختلف حوالوں سے احکامات جاری کر رہی ہیں۔ جبکہ اردو صرف ہماری قومی زبان نہیں بلکہ بین الاقوامی رپورٹوں کے مطابق پوری دنیا کی دوسری بڑی زبان شمار ہوتی ہے۔ اپریل ۲۰۱۵ء کے دوران ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ نے ایک یونیورسٹی کی پندرہ سالہ مطالعاتی رپورٹ شائع کی تھی جس میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں بولی اور سمجھی جانے والی زبانوں میں پہلے نمبر پر چینی، دوسرے نمبر پر اردو اور تیسرے نمبر پر انگریزی ہے۔ یہ رپورٹ عددی اعتبار سے ہے کہ انسانی آبادی میں تعداد کے لحاظ سے سب سے زیادہ لوگ چینی بولتے ہیں، دوسرے نمبر پر اردو اور تیسرے نمبر پر افراد انگریزی بولتے، پڑھتے اور سمجھتے ہیں۔ جبکہ پھیلاؤ کے اعتبار سے چند سال قبل ایک بین الاقوامی سروے میں اردو کو پہلی زبان قرار دیا گیا تھا کہ دنیا کے ہر حصے میں بولی اور سمجھی جانے والی سب سے وسیع زبان اردو ہے۔ اس لیے اردو زبان کا یہ جائز حق ہے کہ اسے دفتری، عدالتی اور تدریسی زبان کے طور پر ملک بھر میں ہر سطح پر رائج و نافذ کیا جائے اور حکومتی ادارے اس سلسلہ میں مؤثر کردار ادا کریں۔

مگر اس موقع پر اردو زبان کی ترویج کی کوشش کرنے والے اداروں اور شخصیات سے ایک گزارش ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ اردو کو خالص رکھنے اور دوسری زبان بالخصوص انگریزی کی بے تحاشا ملاوٹ سے پاک کرنے کے لیے بھی اقدامات کی ضرورت ہے جس کے لیے یونیورسٹیاں اور دینی مدارس زیادہ اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ کیونکہ اردو زبان میں انگریزی الفاظ اور جملوں کی شمولیت اس کثرت کے ساتھ ہو گئی ہے، اور ہو رہی ہے کہ ’’آدھا تیتر آدھا بٹیر‘‘ کی صورت حال بنتی جا رہی ہے۔ اردو میں انگریزی کی در اندازی یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ خود مجھے گزشتہ دنوں ایک دوست نے توجہ دلائی ہے کہ تمہاری گفتگو میں انگریزی کے الفاظ کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔ میں نے خود غور کیا تو محسوس ہوا کہ یہ شکایت بلا وجہ نہیں ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ اس میں میرا کوئی زیادہ قصور بھی نہیں ہے اس لیے کہ خود اردو اپنے اندر انگریزی الفاظ کو تیزی کے ساتھ سموتی جا رہی ہے۔ لاہور میں رائے ونڈ روڈ پر واقع حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی زید مجدہم کے عقیدت مندوں کی قائم کردہ ’’آس اکیڈمی‘‘ میں ایک بار جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں ایک نوجوان عالم دین ملے جو اکیڈمی میں طلبہ کو انگلش پڑھاتے ہیں۔ میرے پوچھنے پر انہوں نے کہا کہ وہ تو ’جدید اردو‘‘ پڑھاتے ہیں اس لیے کہ اردو میں انگلش الفاظ اس کثرت کے ساتھ شامل ہوگئے ہیں کہ رفتہ رفتہ وہ انگریزی ہی بنتی جا رہی ہے۔

ایک دور تھا کہ اردو میں عربی اور فارسی الفاظ کی بہتات تھی۔ عربی ہماری دینی و تعلیمی زبان تھی جبکہ فارسی کو دفتری اور عدالتی زبان کا درجہ حاصل تھا اس لیے اردو میں ان دونوں زبانوں کے اثرات غالب تھے اور کہا جاتا تھا کہ جو شخص عربی اور فارسی سے واقف نہیں ہے وہ اردو صحیح طور پر نہیں بول سکتا۔ مگر یہ صورت حال اب انگریزی زبان نے اختیار کر لی ہے اور وجہ وہی ہے کہ انگریزی دفتری اور عدالتی زبان ہونے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی رابطہ کی زبان بھی ہے۔ اور جوں جوں عالمی سطح پر فاصلے سمٹ رہے ہیں اور باہمی رابطوں میں اضافہ ہو رہا ہے اسی تناسب سے انگریزی بھی اپنے دائرہ کو بڑھاتی جا رہی ہے۔ جبکہ اس میں ہمارے انگلش میڈیم اسکولوں اور مغربی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والی رولنگ کلاس کی مخصوص نفسیات کا بھی اچھا خاصا دخل ہے۔ ظاہر ہے کہ زبان جب آتی ہے تو اکیلی نہیں آتی بلکہ اس کے پیچھے پیچھے تہذیب و ثقافت کے اثرات بھی بڑھتے چلے آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زبان کے ساتھ ساتھ ہمارا کلچر بھی مشرقی اور مغربی اقدار کا ملغوبہ بن کر رہ گیا ہے۔ اور جب تک انگریزی کو (۱) دفتری (۲) عدالتی اور (۳) بین الاقوامی رابطہ کی زبان کے طور پر برتری حاصل ہے اس صورت حال میں تبدیلی کا اسباب کی دنیا میں کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ اور طوعاً یا کرھاً ہمیں اس کے ساتھ بہرحال چلنا ہی پڑ رہا ہے۔

البتہ میری انگریزی ایک لطیفہ سے کم نہیں ہے، اس لیے کہ اے بی سی کے حروف تک مجھے یاد نہیں ہیں، حتیٰ کہ چھوٹی انگریزی میں لکھے ہوئے ہوں تو انہیں پہچاننا میرے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ البتہ مختلف سیاسی اتحادوں میں سیاسی راہ نماؤں کے ساتھ وسیع میل جول، یونیورسٹیوں اور کالجوں میں کثرت کے ساتھ آمد و رفت اور مغربی ممالک بالخصوص امریکہ اور برطانیہ کے مسلسل اسفار کے باعث انگریزی الفاظ اور محاورے میری گفتگو کا حصہ بن گئے ہیں اور جب وہ کسی تحریر یا بیان کے دوران استعمال میں آتے ہیں تو دوستوں کو گمان ہونے لگتا ہے کہ میں انگریزی پر بھی دست رس رکھتا ہوں۔

تقریباً چار عشرے قبل کی بات ہے میں ان دنوں پاکستان قومی اتحاد کا صوبائی سیکرٹری جنرل تھا اور مجھے مولانا مفتی محمودؒ ، نواب زادہ نصر اللہ خان مرحوم، مولانا شاہ احمد نورانیؒ ، جناب حمزہ، اقبال احمد خان مرحوم، چودھری ظہور الٰہی مرحوم، خواجہ محمد صفدر مرحوم، جناب ایس ایم ظفر، اور اس سطح کے بہت سے دیگر سیاستدانوں کے ساتھ مسلسل رفاقت میسر تھی۔ اس دور کا ایک چھوٹا سا واقعہ مجھے نہیں بھولتا،وزیر آباد میں کسی قومی مسئلہ پر صحافیوں سے گفتگو کر رہا تھا، ایک بزرگ صحافی نے جو ’’پاکستان ٹائمز‘‘ کی نمائندگی کر رہے تھے، سیاسی جماعتوں کے اتحاد پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پارٹیاں آپس میں مرج ہوگئی ہیں۔ میں نے انہیں ٹوکا کہ مرج نہیں ہوئیں بلکہ ایڈجسٹ ہوئی ہیں۔ اس پر وہ صاحب اس قدر مرعوب ہوئے کہ مجلس سے فارغ ہونے کے بعد مجھ سے دریافت کیا کہ آپ نے انگلش میں ماسٹر ڈگری کون سی یونیورسٹی سے کی ہے؟ میں نے کہا کہ میرے بھائی میں تو ’’پرائمری پاس‘‘ بھی نہیں ہوں، اس لیے کہ میں گکھڑ کے ایک پرائمری سکول میں چوتھی جماعت کا طالب علم تھا جب الحاج سیٹھی محمد یوسف صاحب مرحوم کی توجہ سے حضرت والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی مسجد میں حفظ قرآن کریم کا مدرسہ قائم ہوا تو حضرت والد صاحبؒ نے مجھے اسکول سے اٹھا کر حفظ قرآن کریم کی کلاس میں بٹھا دیا۔ اور اس کے بعد آج تک کسی سکول یا کالج میں پڑھنے کے لیے نہیں گیا۔ بحمد اللہ تعالیٰ مجھے اس معاملہ میں بھی حضرت والد محترمؒ کی نسبت و وراثت حاصل ہے کہ پاکستان بننے کے بعد جب پہلی بار انتخابات کے ووٹروں کی فہرستیں بنیں تو ووٹر کے لیے ’’خواندہ‘‘ ہونا شرط تھا اور اس کا معیار پرائمری پاس ہونا تھا۔ جبکہ والد محترمؒ کا نام ووٹروں کی فہرست میں اس لیے شامل نہیں ہو سکا تھا کہ وہ ’’پرائمری پاس‘‘ نہیں تھے۔

یہ تو میری ’’انگریزی دانی‘‘ کا وہ رخ ہے جس کو ہم پنجابی میں ’’جعلی عکس ڈالنا‘‘ کہتے ہیں۔ مگر ’’اندر کی بات‘‘ بتانے کے لیے مجھے دو چھوٹے چھوٹے واقعات کا سہارا لینا پڑے گا۔ ۱۹۸۵ء میں حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ اور حضرت مولانا ضیاء القاسمیؒ کے ہمراہ لندن جانے کا اتفاق ہوا تو ہیتھرو ایئرپورٹ سے باہر نکلنے کے بعد میری کیفیت وہی تھی جو کسی دور دراز گاؤں کے رہنے والے ’’پینڈو‘‘ کی پہلی بار لاہور آنے پر ہوتی ہے۔ اردگرد کے ہر منظر اور ہر بلڈنگ کو بڑے غور اور تعجب سے دیکھتا جا رہا تھا۔ راستہ میں جگہ جگہ ٹولٹ (Tolet) کے بورڈ دکھائی دیے جو اس وجہ سے میرے لیے حیرت و تعجب کا باعث تھے کہ میں انہیں ٹوائلٹ (Toilet) پڑھ رہا تھا اور حیران ہو رہا تھا کہ لندن کی سڑکوں پر اتنی کثرت سے ٹوائلٹ کیوں ہیں؟ بالآخر جب پوچھے بغیر نہ رہ سکا تو مجھے بتایا گیا کہ یہ لفظ ’’ٹوائلٹ‘‘ نہیں بلکہ ’’ٹولٹ‘‘ ہے جس کا معنیٰ یہ ہے کہ یہ بلڈنگ یا جگہ کرائے پر میسر ہے۔
ایک اور لطیفہ بھی شامل کر لیا جائے تو میری انگریزی دانی کا لطف دوبالا ہو جائے گا۔ لندن کے ایک سفر کے دوران استنبول میں ایک دن کا قیام تھا۔ لندن کے لیے میری سیٹ کنفرم تھی جبکہ میں اسے ایک دن آگے بڑھانا چاہتا تھا۔ ترکش ایئرلائن کی فلائٹ تھی، میں اس کے کاؤنٹر پر گیا، وہاں ایک لڑکی ڈیوٹی پر تھی، مجھے کل کا تو پتہ تھا کہ اسے ’’ٹومارو‘‘ کہتے ہیں لیکن پرسوں کے بارے میں نہیں جانتا تھا کہ اس کے لیے انگریزی لفظ کیا ہے۔ میں نے ٹکٹ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ ’’پلیز! ٹومارو کینسل، ٹو ٹومارو اوکے‘‘۔ وہ میری طرف دیکھتے ہوئے سوالیہ نشان بن گئی۔ میں نے اپنا جملہ دہرایا تو بھی اس کے پلے کچھ نہ پڑا۔ میں نے ہاتھ کی انگلیوں کا سہارا لیا، اپنی ایک انگلی پکڑ کر کہا ٹوڈے، دوسری انگلی پر ٹومارو کہا، اور جب تیسری انگلی پکڑ کر ٹوٹو مارو کہا تو وہ ’’انڈر اسٹینڈ‘‘ کہہ کر مسکرائی اور میرا مسئلہ حل ہوگیا۔

بات اردو زبان میں انگریزی الفاظ کے کثرت کے ساتھ استعمال پر ہو رہی تھی جو انگریزی زبان سے مرعوبیت کی علامت تو ہے ہی، مگر ایک ضرورت اور مجبوری کا درجہ بھی اختیار کر چکی ہے کہ جس طرح مغل دور میں فارسی نے اجنبی زبان ہونے کے باوجود ہماری قومی زندگی کی رگ و پے پر تسلط حاصل کر لیا تھا اور خواہی نخواہی ہمیں اس درجہ میں اسے قبول کرنا پڑا تھا کہ دینی مدارس میں بھی وہ تعلیم و تدریس کی زبان بن گئی تھی۔ اسی طرح انگریزی زبان بھی بہت سے حوالوں سے ہماری ضرورت اور مجبوری بن کر رہ گئی ہے۔ اس کی ایک ہلکی سی جھلک سپریم کورٹ آف پاکستان میں اردو کو دفتری زبان قرار دینے کے دستوری فیصلے پر عملدرآمد کے حوالہ سے جاری بحث میں دیکھی جا سکتی ہے کہ ہماری بد قسمتی سے اردو زبان اپنے تحفظ و بقا کے لیے عدالت عظمیٰ کے دروازے پر کھڑی ہے اور دستور کا پرچم اس کے ہاتھ میں ہے۔ مگر عصر حاضر کی بالا دست زبان و ثقافت سے مرعوبیت اور معروضی ضروریات کے دو پہیوں پر کھڑی اسٹیبلشمنٹ انگریزی کے حصار سے نکلنے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہے۔ جبکہ ہماری قومی قیادت بھی ابھی تک تذبذب میں ہے کہ اس دوراہے پر وہ کس طرف کا رخ کرے؟

   
2016ء سے
Flag Counter