حرکۃ الجہاد الاسلامی پاکستان کی دعوت پر مجھے ملک کے سرکردہ علماء کرام کے ایک وفد کے ہمراہ ۳۱ مئی سے ۴ جون تک پانچ روز افغانستان کی سرزمین پر گزارنے کا موقع ملا۔ اس سے قبل بھی چودہ سالہ افغان جہاد کے دوران حرکۃ الجہاد الاسلامی اور حرکۃ المجاہدین کی دعوت اور پروگرام کے مطابق ارگون، باڑی، راغبیلی، ژاور اور خوست کے دیگر محاذوں پر کئی بار گیا ہوں لیکن جہاد افغانستان کی کامیابی اور مجاہدین کی باقاعدہ حکومت کے قیام کے بعد یہ میرا پہلا دورۂ افغانستان تھا۔ حرکۃ الجہاد الاسلامی پاکستان کے غیور نوجوانوں کی تنظیم ہے جس میں زیادہ تر دینی مدارس کے طلبہ اور نوجوان علماء شامل ہیں، اس کے بانی فیصل آباد کے ایک پرجوش نوجوان مولانا ارشاد احمد شہیدؒ تھے جنہوں نے جہاد افغانستان کا آغاز ہوتے ہی پاکستان کے علماء اور دینی مدارس کے طلبہ میں یہ مہم شروع کردی کہ ہمیں اپنے افغان بھائیوں کی مدد کے لیے ان کے ساتھ عملاً شریک جہاد ہونا چاہیے۔ یہ اس نوجوان کے خلوص کی برکت تھی کہ وہ بہت جلد نوجوان علماء اور طلبہ کو اس مقصد کی طرف توجہ دلانے میں کامیاب ہوگیا اور حرکۃ الجہاد الاسلامی کے نام سے ایک باقاعدہ تنظیم وجود میں آگئی۔ اس تنظیم نے ارگون، خوست، جلال آباد اور دیگر محاذوں پر افغان مجاہدین کے شانہ بشانہ جہاد میں حصہ لیا اور سینکڑوں پاکستانی نوجوان اس جہاد میں عروسِ شہادت سے ہمکنار ہوئے جن میں خود مولانا ارشاد احمد شہیدؒ، حرکۃ الجہاد الاسلامی کے کمانڈر خالد زبیر شہیدؒ اور میرا بھانجا حاجی عدیل عمران شہیدؒ بھی شامل تھے۔
مولانا ارشاد احمد شہیدؒ کی شہادت کے بعد یہ تنظیم دو حصوں میں بٹ گئی، ایک حصہ حرکۃ الجہاد الاسلامی کے نام سے مولانا قاری سیف اللہ اختر کی قیادت میں مصروف جہاد رہا اور دوسرا حصہ حرکۃ المجاہدین کے نام سے مولانا فضل الرحمن خلیل اور مولانا محمد فاروق کشمیری کی قیادت میں جہاد کے مختلف محاذوں پر سرگرم ہوگیا۔ ان تنظیموں کا جہاد افغانستان میں بلاشبہ بہت بڑا حصہ ہے اور میں اس بات کا عینی شاہد ہوں کہ جنگ میں اگلے مورچوں اور مشکل مقامات پر یہ پاکستانی علماء اور طلبہ رہتے تھے اور افغان کمانڈر مشکل مورچے ان کے حوالے کر کے مطمئن ہو جایا کرتے تھے کہ اب ان مورچوں پر کسی مزید توجہ کی ضرورت نہیں رہی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق جہاد افغانستان کے مختلف محاذوں پر ان تنظیموں کے ذریعے شریک جہاد ہونے والے پاکستانی علماء ،طلبہ اور نوجوانوں کی تعداد بیس ہزار سے متجاوز ہے جن میں سینکڑوں شہداء اور ہزاروں مجروحین بھی شامل ہیں۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ جہاد افغانستان کے دوران پہلی بار ارگون کے محاذ پر جانے کا موقع بھی حرکۃ الجہاد الاسلامی کے ذریعے ملا اور مجاہدین کی کامیابی کے بعد آزاد افغانستان کا پہلا سفر بھی حرکۃ الجہاد الاسلامی کی دعوت و اہتمام کے ساتھ ہوا جس کے امیر اس وقت حیدر آباد سندھ کے نوجوان عالم دین مولانا سعادت اللہ خان اور ناظم عمومی مولانا عبد الحمید عباسی ہیں اور دونوں حضرات اس سفر میں ہمارے ہمراہ تھے۔ افغانستان جانے والے پاکستانی علماء کے وفد میں ساٹھ سے زیادہ علماء شامل تھے جن میں مولانا سید انور حسین نفیس رقم، مولانا فداء الرحمن درخواستی، مولانا قاضی عبدالکریم آف کلاچی، علامہ ڈاکٹر خالد محمود، مولانا نور محمد آف وانا، مولانا قاضی عصمت اللہ، مولانا قاضی محمد یونس انور، مولانا سجاد بخاری، مولانا حمید الرحمان عباسی، مولانا فیض احمد، مولانا عبد الحمید، مولانا محمد عالم، مولانا قاضی عطاء اللہ، مولانا محمد یعقوب ربانی، مولانا عبد الحمید قریشی، مولانا محمد انور، مفتی فخر الدین عثمانی، مفتی شیر محمد علوی، مولانا مفتی محمد عیسی خان، مولانا شاہ محمد، مولانا لطیف الرحمان، مولانا وکیل احمد شیروانی، مولانا محمد یوسف، مولانا ارشد حسن ثاقب، حاجی امیر نواز خان ایڈووکیٹ، مولانا میاں عبد الرحمان اور حاجی غلام علی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
۳۱ مئی اتوار کو ہم تقریبا ایک بجے طور خم سے سرحد عبور کرکے افغانستان میں داخل ہوئے، ویزے کی پابندی نہ ہونے کی وجہ سے کسی قسم کی کاغذی کاروائی کا سامنا نہیں کرنا پڑا البتہ حرکۃ الجہاد الاسلامی کے امیر مولانا سعادت اللہ خان نے متعلقہ حکام سے ملاقات کرکے انہیں آگاہ کیا کہ پاکستانی علماء کا وفد کابل جا رہا ہے اور وفد کے ارکان کی فہرست بھی انہیں فراہم کردی۔ طورخم کی سرحد پر اپنے وطن واپس جانے والے افغان مہاجرین کی گہماگہمی تھی جو اپنی ہجرت اور جہاد میں کامیابی پر شاداں وخرماں وطن واپس لوٹ رہے تھے۔ متعلقہ حکام سے معلوم ہوا کہ اس راستے سے روزانہ اوسطا چار سو خاندان واپس جارہے ہیں لیکن مہاجرین نے شکایت کی کہ مغرب کے وقت واپسی کا راستہ بند کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کے بعد وہاں پہنچنے والے بیسیوں خاندانوں کو روزانہ رات سرحد پر گزارنا پڑتی ہے جو خاصی پریشان کن بات ہے۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوئی کہ سرحد پر پاکستانی عملہ معمول کے مطابق ہے جو صبح سے شام تک واپس جانے والے خاندانوں کا اندراج کرتا ہے، اگر عملہ ڈبل کر دیا جائے اور دو شفٹوں کی صورت میں اوقات کار بڑھا دیے جائیں تو اس شکایت کا ازالہ ہو سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ سکیورٹی کے نقطۂ نظر سے ایسا کیا جا رہا ہو اور مغرب کے بعد قافلوں کا سفر کرنا مصلحت کے خلاف تصور کیا گیا ہو لیکن کابل تک جاتے ہوئے اور واپسی پر راستہ میں اس کی کوئی وجہ ہمیں نظر نہیں آئی۔
قافلہ تقریباً ساڑھے تین بجے جلال آباد پہنچا جو اس راستہ میں افغانستان کا پہلا شہر ہے اور کابل سے پہلے مجاہدین کے ہاتھوں فتح ہو چکا تھا۔ یہاں مولوی محمد یونس خالص کی حزب اسلامی کے حاجی عبد القدیر عبوری حکومت کی طرف سے گورنر ہیں اور یہ صوبہ ننگر ہار کا صدر مقام ہے۔ ہم نے سپین غر ہوٹل میں دوپہر کا کھانا کھایا اور ظہر کی نماز اد اکی اور اس کے بعد کابل کی طرف روانہ ہوگئے۔ جلال آباد سے کابل تک سٹرک کے دونوں طرف ٹینکوں اور گاڑیوں کے بے شمار تباہ شدہ ڈھانچے بکھرے پڑے ہیں جو افغان مجاہدین کی عزیمت واستقامت کا عنوان نظر آتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ کابل سے جلال آباد کے لیے کمک کے طور پر ہزاروں گاڑیوں پر مشتمل کانوائے کی صورت میں طاقت کے بھر پور مظاہرہ کے ساتھ آتے تھے لیکن راستہ میں مجاہدین سٹرک پر بارودی سرنگیں بچھا کر اور پل تباہ کر کے اس کانوائے کے جلال آباد پہنچنے اور کابل واپس جانے کے راستے مسدود کر دیتے اور پھر مزے سے ٹینکوں اور گاڑیوں کا شکار کرتے۔ عام حالات میں پشاور سے کابل کا سفر چھ گھنٹے کا بیان کیا جاتا ہے لیکن سٹرک مکمل طور پر تباہ ہے، پل ٹوٹے ہوئے ہیں اور ٹینکوں کے چلنے سے جگہ جگہ گڑھے پڑ گئے ہیں اس لیے ہم تقریباً ساڑھے چار بجے جلال آباد سے چل کر رات ایک بجے کے قریب کابل میں داخل ہوئے۔ راستہ میں جگہ جگہ ان تباہ شدہ بستیوں کا منظر دیکھا جو کابل حکومت کی وحشیانہ بمباری کا نشانہ بنیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ جس بستی کے بارے میں یہ پتہ چلتا کہ وہاں کوئی مجاہد موجود ہے بمباری کرکے اس پوری بستی کو تباہ کر دیا جاتا۔ چنانچہ سٹرک کے دونوں طرف ایسی بستیوں کے کھنڈرات سوویت یونین (آنجہانی) اور اس کے حواریوں کی وحشت وبربریت کا ماتم کر رہی ہیں۔
کابل میں ہم وزارت مذہبی امور کے مہمان تھے اور ہمارے لیے انٹرکانٹیننٹل ہوٹل میں قیام کا بندوبست کیاگیا۔ عبوری حکومت کے وزیر مذہبی امور مولانا ارسلان رحمانی ہیں جن کا تعلق افغانستان میں علماء کی سب سے بڑی جماعت حرکت انقلاب اسلامی سے ہے۔ مولانا ارسلان رحمانی صوبہ پکتیا اور ارگون چھاؤنی کے فاتح ہیں اور اپنے علاقے کو کابل کی کمیونسٹ حکومت سے آزاد کرنے کا یہ ہدف انہوں نے دوسال قبل حاصل کر لیا تھا۔ دیکھنے میں سیدھے سادے مولوی لگتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ کسی دینی مدرسہ میں سبق پڑھا کر آرہے ہیں لیکن ان کا شمار مجاہدین کے چند جی دار کمانڈروں میں ہوتا ہے اور دشمن کے حلقوں میں انہیں’’خونخوار مولوی‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا رہا ہے۔
یکم جون کو ہمیں کابل کے مختلف حصوں کی سیر کرائی گئی۔ سب سے پہلے ہم پل خشتی کی تاریخی مسجد میں گئے اور جہاد افغانستان کی کامیابی پر شکرانہ کے نوافل ادا کیے۔ صحابیٔ رسولؐ حضرت تمیم انصاریؓ اور تابعی حضرت لیث بن قیس بن عباسؒ کے مزارات پر گئے۔ کابل میں اسلام حضرت عثمان بن عفانؓ کے دور خلافت میں پہنچ گیا تھا اور یہاں متعدد صحابہ کرامؓ کی قبروں کی موجودگی بیان کی جاتی ہے۔ مذکورہ بالا دونوں بزرگوں کے مزارات کے ساتھ مساجد بھی ہیں۔ حضرت لیث بن قیسؒ کو یہاں شاہ دو شمشیر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور ان کی مسجد بھی اسی نام سے معروف ہے۔
مغرب کی نماز ہم نے مجددی خاندان کی معروف خانقاہ کی مسجد میں پڑھی اور حضرت نور المشائخ فضل عمر رحمہ اللہ تعالٰی کی قبر پر فاتحہ خوانی کی۔ یہ خاندان جو ’’ملا شور بازار‘‘ کے نام سے متعارف ہے مجاہدانہ اور تاریخی کردار کا حامل خاندان ہے اور مجدد الف ثانیؒ کی اولاد میں سے ہیں۔ بیان کیا جاتا ہے کہ پنجاب پر سکھوں کے تسلط کے وقت جب سرہند شریف میں جہاں مجدد الف ثانیؒ کی قبر ہے سکھ حکومت کے مظالم حد سے بڑھے تو یہ خاندان وہاں سے ہجرت کر کے کابل آگیا اور نقشبندی سلسلہ کی خانقاہ آباد کی۔ افغانستان اور وسطی ایشیا کی ریاستوں میں نقشبندی سلسلہ کے وسیع اثرات ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر جناب قاضی حسین احمد سے ایک مجلس میں یہ سنا کہ وسطی ایشیا کی ریاستوں میں جبر کے ستر سالہ دور میں عام مسلمانوں کا تعلق اسلام کے ساتھ قائم رکھنے میں سب سے اہم اور بنیادی کردار نقشبندی سلسلہ کے صوفیاء نے ادا کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بلاشبہ یہ کابل کی اسی نقشبندی خانقاہ کا فیض ہے۔ افغانستان کی عبوری حکومت کے سربراہ پروفیسر صبغت اللہ مجددی کا تعلق اسی خاندان سے ہے۔ یہ خاندان ہمیشہ جرأت واستقامت کی علامت رہاہے اور ہر دور میں حکمران اس کے اثرورسوخ سے خائف رہے ہیں۔ امان اللہ خان کے دور کا واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک روز دربار میں اس نے ایک سے زیادہ بیویوں کی شرعی اجازت پر تبصرہ کرتے ہوئے جناب نبی اکرمؐ کی ازواج مطہراتؓ کا ذکر اس انداز سے کیا جس سے معاذ اللہ اہانت رسولؐ کا پہلو نکلتا تھا۔ نور المشائخ حضرت فضل عمرؒ جو وہاں موجود تھے فورًا کھڑے ہوئے اور تمام درباری آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بادشاہ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ امان اللہ! اگر بقصد گفتی کافر شدی (اے امان اللہ ! اگر تو نے یہ جملہ ارادتاً کہا ہے تو کافر ہو گیا ہے)۔ یہ جملہ کہتے ہی حضرت نو ر المشائخ دربار سے نکلے اور کابل سے ہجرت کر کے ہندوستان آگئے۔ پھر جب افغانستان پر برطانوی استعمار نے حملہ کیا تو اپنے وطن کو انگریزوں سے آزاد رکھنے کے عزم کے ساتھ وطن واپس چلے گئے اور جنگ استقلال وطن میں سرگرم کردار ادا کیا۔
اس دور میں دہلی کی برطانوی حکومت نے پورا زور لگایا کہ کسی طرح حضرت نور المشائخ کو کابل جانے سے روکا جائے لیکن وہ کسی نہ کسی طریقہ سے ان کی کوششوں کو ناکام بناتے ہوئے کابل پہنچ گئے۔ کابل کی اس نقشبندی خانقاہ کے موجودہ سجادہ نشین فضل المشائخ حضرت ابراہیم جان مجددی ہیں جنہیں کمیونسٹ انقلاب (انقلاب ثور) کے پہلے روز ہی خانقاہ میں موجود دو سو افراد سمیت گرفتار کرلیا گیا تھا اور خبر یہ تھی کہ ان سب کو شہید کر دیا گیا ہے۔ لیکن اب یہ خوشگوار خبر کابل میں ملی کہ حضرت فضل المشائخ مدظلہ العالی اپنے رفقاء سمیت بحمد اللہ تعالٰی زندہ ہیں اور وسطی ایشیا کی ریاست ازبکستان میں کسی مقام پر نظر بند ہیں۔ اس خبر نے بلاشبہ ہمارے دورۂ کابل کی خوشیوں کو دوچند کر دیا، فالحمد للہ علٰی ذلک۔ حرکت انقلاب اسلامی کے راہنما مولانا نصراللہ منصور نے بتایا کہ بہت جلد ایک سرکاری وفد ازبکستان جا رہا ہے جو ان مجاہدین آزادی کی رہائی اور وطن واپسی کا اہتمام کرے گا۔ اس عظیم خانوادہ کی داستان عزیمت کے حصار سے نکلنے کو جی نہیں چاہ رہا لیکن مجبوری ہے کہ یہ رپورٹ اس سے زیادہ تذکرہ کی متحمل نہیں ہے، بہرحال میرے لیے وہ لمحات زندگی کے چند گنے چنے پر مسرت لمحات میں سے ہیں جو اس خانقاہ میں گزرے۔
ہمارے قافلہ نے کابل میں جنگی اسلحہ کا میوزیم بھی دیکھا جہاں برطانوی استعمار کے خلاف جنگ میں استعمال ہونے والا اسلحہ بطور یادگار رکھا گیا ہے اور موجودہ جنگ میں استعمال ہونے والے چند ہوائی جہاز، توپیں، ٹینک اورگاڑیاں بھی ہیں۔ شام کا وقت تھا میوزیم کا گیٹ بند تھا اس لیے اندر رکھا ہوا اسلحہ ہم نہ دیکھ سکے اور باہر کھلی جگہ پڑی ہوئی چیزیں دیکھیں جن میں’’ٹینک ۸۱۵‘‘ بھی ہے جس کے بارے میں ہمیں بتایا گیا کہ انقلاب ثور میں جنرل اسلم وطن یار نے صدارتی محل پر قبضہ کرنے کے لیے پہلا گولہ اسی ٹینک سے چلایا تھا اور پھر اس ٹینک کو انقلاب کی یادگار کے طور پر شہر کے ایک چوک میں کھڑا کر دیا گیا تھا۔ اب یہ ٹینک میوزیم میں ہے اور انقلاب ثور کی عبرتناک موت پر آنسو بہا رہا ہے۔ ہم نے کابل کا وہ چوک بھی دیکھا جسے خان عبد الولی خان صاحب کی سرگرمیوں کے حوالہ سے ’’پشتونستان چوک‘‘ کہا جاتا تھا اور وہاں پشتونستان کا پرچم چند روز قبل تک لہراتا رہا ہے لیکن اب وہاں حرکۃ الجہادالاسلامی کا پرچم پوری آب وتاب کے ساتھ لہرا رہا ہے۔
۲ جون کو مختلف راہنماؤں کے ساتھ ہماری ملاقاتوں کا پروگرام تھا۔ سب سے پہلے مولانا ارسلان رحمانی ہوٹل میں آئے اور مہمان حضرات سے ملاقات کی، ہوٹل کے ہال میں ایک مختصر تقریب ہوئی جس میں وفد کی طرف سے مولانا نور محمد آف وانا نے مولانا ارسلان رحمانی کو جہاد افغانستان کی کامیابی پر مبارک باد پیش کی اور مولانا رحمانی نے مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جہاد افغانستان میں حرکۃ الجہاد الاسلامی اور پاکستان کے علماء کے کردار کو سراہا اور کہا کہ ہماری کامیابی کی ایک بڑی وجہ پاکستانی علماء کی پشت پناہی ہے اور ہم ہمیشہ علماء پاکستان کے احسان مند رہیں گے۔ اس کے بعد یہ قافلہ مولانا ارسلان رحمانی کی راہ نمائی میں حرکت انقلاب اسلامی کے ہیڈکوارٹر کی طرف روانہ ہوگیا۔
حرکت انقلاب اسلامی افغانستان میں علماء کی سب سے بڑی تنظیم ہے جس کے سربراہ مولانا محمد نبی محمدی ہیں۔ مولانا موصوف افغانستان کے سربرآوردہ عالم دین ہیں، ظاہر شاہ کے دور میں پارلیمنٹ کے رکن رہ چکے ہیں، انتہائی مدبر اور زیرک ہیں، باوقار اور سنجیدہ مزاج کے حامل ہیں۔ جہاد افغانستا ن کے چودہ سالہ دور میں ان کی جماعت تین حصوں میں بٹ گئی تھی لیکن اب پھر متحد ہوگئی ہے۔ متعدد صوبوں میں ان کی جماعت کو مکمل کنٹرول حاصل ہے اور عبوری حکومت میں بھی اسے معقول نمائندگی حاصل ہے۔ کمیونسٹ پارٹی جو پہلے خلق پارٹی اور پرچم پارٹی کے نام سے تقسیم تھی اور بعد میں ڈاکٹر نجیب اللہ نے وطن پارٹی کے نام سے اسے متحد کر دیا تھا اس کا ہیڈ کوارٹر مولانا محمد نبی محمدی کی حرکت انقلاب اسلامی کے حصہ میں آیا ہے، یہ ہیڈ کوارٹر پانچ منزلہ بلڈنگ میں ہے جس میں دو سو کے قریب کمرے ہیں اب وہاں حرکت کا دفتر ہے۔ جس ہال میں ڈاکٹر نجیب اللہ حکمران پارٹی کے اجلاسوں کی صدارت کیا کرتا تھا وہاں اب مولانا محمد نبی حرکت انقلاب اسلامی کے اجلاسوں کی صدارت کرتے ہیں اور ہماری ان سے ملاقات بھی اسی ہال میں ہوئی۔
مولانا محمد نبی سے پہلے ہماری ملاقات ان کے نائب مولانا نصراللہ منصور سے ہوئی جن سے چودہ سالہ جہاد آزادی کے دوران بھی کئی بار ملاقات ہوچکی تھی۔ یہ مجاہد عالم دین اپنے جوش وجذبہ اور انقلابی مزاج کے باعث ’’اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بے گانے بھی ناخوش‘‘ کی عملی تصویر بنا رہا ہے۔ امریکہ نے اپنے مفادات کی خاطر افغان مجاہدین کی امداد کا سلسلہ شروع کیا تو مولانا منصور اس کے کئی تقاضوں کو ہضم نہ کرسکے۔ ان کا دھڑا اس وقت مولانا محمد نبی محمدی سے الگ تھا۔ نصر اللہ منصور کی حرکت انقلاب اسلامی کی امداد بند کر دی گئی اور ان کے ساتھی مجبور ہو کر ان سے الگ ہوتے رہے مگر مصائب ومشکلات کا یہ دور ان کے پائے استقلال میں لغزش نہ پیدا کرسکا۔ انہوں نے پاکستانی علماء کے قافلہ سے خطاب کیا اور جہاد افغانستان میں پاکستانی علماء اور طلبہ کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے اسے سراہا۔ ان کا کہنا تھا کہ علماء نے اپنے شاگردوں اور معتقدین کی تربیت اور ذہن سازی کی اور نوجوان ان کے کہنے پر جہاد افغانستان میں شریک ہوئے جس پر پوری افغان قوم علماء پاکستان کی شکر گزار ہے۔
مولانا محمد نبی محمدی اپنے مخصوص باوقار انداز میں ہال میں تشریف لائے اور تلاوت کلام پاک سے تقریب کا آغازہوا۔ مولانا نصراللہ منصور نے مہمانوں کا تعارف کرایا، مولانا نور محمد نے وفد کی طر ف سے مبارک باد اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے تعاون کے جذبات کا اظہار کیا۔ وفد میں شام کے ایک عالم دین الشیخ احمد الزبیدی بھی تھے جو شام کے سیکولر حکومت کے مظالم کے باعث ہجرت کرکے گزشتہ چودہ سال سے پاکستان میں مقیم ہیں، انہوں نے اپنے جذبات کا اظہار کیا اور یہ کہہ کر اہل محفل کے دلی جذبات کی ترجمانی کی کہ آپ حضرات نے چودہ سال تک جو جنگ کی ہے وہ جہاد اصغر تھا، اس میں اللہ تعالٰی نے آپ کو جو کامیابی دی ہے وہ مبارک ہو لیکن اب آپ جہاد اکبر کی طرف آگئے ہیں۔ آپ کا اصل جہاد اب شروع ہوا ہے اور وہ صدیوں کے بعد اسلام کے اپنے نظام حکومت کا احیاء ہے، ایک خالص اسلامی ریاست کا قیام ہے اور خلافت اسلامیہ کی بحالی ہے۔ ہم پہلے جہاد میں بھی آپ کے ساتھ تھے اور اس جہاد میں بھی آپ کے ساتھی ہیں۔ مولانا محمد نبی محمدی نے وفد کا شکریہ ادا کیا، جہاد افغانستان میں پاکستان کے عوام، علماء اور حکومت کے کردار کو سراہا اور یقین دلایا کہ افغانستان میں مکمل اسلامی نظام نافذ ہوگا اور جہاد افغانستان کا اصلی ہدف پورا کیاجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر، فلسطین، برما اور دیگر علاقوں میں ہمارے جو مسلمان بھائی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں انہیں ہماری مکمل حمایت حاصل ہوگی اور ہم اپنے حالات پر قابو پانے کے بعد اپنے ان مظلوم بھائیوں کی امداد کی طرف سنجیدہ توجہ دیں گے۔
ہمارے وفد کی دوسری ملاقات افغانستان کی عبوری حکومت کے سربراہ پروفیسر صبغت اللہ مجددی سے ہوئی۔ وہ قصر صدارت میں قیام پذیر ہیں، یہ محل ظاہرشاہ کے دور میں بنا جو پہلے ’’قصر گل خانہ‘‘ کہلاتا تھا، پھر بادشاہت کے خاتمہ کے بعد قصر صدارت کے نام سے متعارف ہوا۔ یہ محل ظاہر شاہ، محمد داؤد، نور محمد ترہ کئی، حفیظ اللہ امین، ببرک کارمل اور ڈاکٹر نجیب اللہ کا دور دیکھ چکا ہے اور اب مجددی صاحب کے تصرف میں ہے۔ مجددی صاحب ملاقات کے لیے تشریف لائے اور کرسی پر بیٹھتے ہوئے اپنے پیشرو حضرات کا ذکر کیا اور کہا کہ اس کرسی پر پہلے وہ بیٹھا کرتے تھے۔ میر ی زبان سے بے ساختہ نکلا ’’خدا خیر کرے‘‘۔ بہرحال اس تقریب میں بھی مولانا نور محمد نے پاکستانی علماء کے وفد کی ترجمانی کی اور تشکر وتبریک کے بعد علماء پاکستان کی طرف سے ایک عرضداشت صدر افغانستان کے حضور پیش کی جس میں کہا گیاہے کہ
- مجاہدین کی مختلف جماعتوں کے درمیان یک جہتی اور اتحاد کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جائے۔
- نسلی، علاقائی اور لسانی تفریق کی سازشوں سے افغانستان کو بچاتے ہوئے قومی وحدت اور ملکی سالمیت کے تحفظ کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دی جائے۔
- مکمل اسلامی نظام کے نفاذ اور مغرب ومشرق کے اثرات سے محفوظ رہتے ہوئے خالص اسلامی نظام حکومت کی تشکیل ونفاذ کو اولیت دی جائے۔
عرضداشت میں حکومت افغانستان کویقین دلایا گیا ہے کہ جہاد افغانستان کی طرح نفاذ اسلام میں بھی علماء پاکستان مکمل طور پر افغان بھائیوں کے پشتیبان ہوں گے۔
پروفیسرصبغت اللہ مجددی نے جوابی تقریر میں جہاد افغانستان کے مختلف مراحل کا ذکر کیا اور بتایا کہ انہوں نے چالیس سال قبل ظاہرشاہ کے دور میں اس مہم کا آغاز کیا تھا کہ افغانستان کو کمیونزم کے اثرات سے بچایا جائے، اس مقصد کے لیے انہوں نے ’’جمعیت علماء محمدی‘‘ قائم کی اور پورے ملک میں علماء کرام کو منظم کیا۔ جس دور میں داؤد خان وزیر اعظم تھے روسی وزیر اعظم خروشیف کی کابل آمد کے موقع پر انہیں گرفتار کر لیا گیا اور وہ ساڑھے چار سال جیل میں رہے اس دوران ایک سال انہوں نے تہہ خانہ میں گزارا اور پورا سال سورج نہیں دیکھا۔ پھر رہائی کے بعد وہ جلا وطن ہوگئے اور مختلف ممالک میں وقت گزارتے ہوئے کوپن ہیگن (ڈنمارک) میں اسلامی سنٹر قائم کیا اور تعلیم وتربیت کا سلسلہ جاری رکھا۔ پھر جب افغانستان میں کمیونسٹ حکومت کے خلاف جہاد کا آغاز ہو ا تو وہ پاکستان آگئے اور جہاد میں شریک ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ جہاد افغانستان کا مقصد ہی اسلامی حکومت کا قیام ہے اگر ہم خدانخواستہ ایسا نہ کرسکے تو ہماری چالیس سالہ جدوجہد ضائع ہوجائے گی اس لیے ہم مکمل اسلامی نظام کے نفاذ کی طرف بتدریج بڑھ رہے ہیں اور عبوری حکومت کے قیام کے ساتھ ابتدائی طور پر چند اقدامات کیےگئے ہیں:
- شراب اور منشیات پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے اور بازاروں میں موجود شراب اور منشیات کے ذخیرے ضائع کر دیے گئے ہیں۔
- پردے کی پابندی عائد کردی گئی ہے، چنانچہ کابل میں جہاں نوجوان عورتیں سکرٹ پہن کر بازاروں میں گھوما کرتی تھیں اب شرعی حجاب کے بغیر گھر سے باہر نہیں نکل سکتیں۔ اسی طرح ملازمت کرنے والی خواتین کو بھی پابند کر دیا گیا ہے کہ وہ شرعی پردے کے ساتھ کام پر آئیں۔
- مختلف سطح پر علماء کو قاضی مقرر کیا جا رہا ہے اور عدالتوں کو پابند کر دیا گیا ہے کہ وہ مقدمات کے فیصلے شریعت کے مطابق کریں۔
- سکولوں اور کالجوں میں کمیونسٹ حکومت کا نصاب ختم کر دیا گیا ہے اور اس کی جگہ علماء پاکستان کی مشاورت کے ساتھ تعلیم کا اسلامی نصاب مرتب کر لیا گیا ہے جس کے مطابق کتابیں چھپ گئی ہیں اور بہت جلد سکولوں میں تقسیم کی جا رہی ہیں۔
- روس کے ساتھ کابل حکومت نے جتنے معاہدے کیے تھے وہ سب منسوخ کر دیے گئے ہیں اور ہم نے انہیں تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ قرآن وسنت کی روشنی میں حکومتی ڈھانچے کی تشکیل کا مرحلہ ابھی باقی ہے، ہم اس کے لیے ایک کمیشن قائم کر رہے ہیں جس میں عرب ممالک اور پاکستان کے علماء کو بھی شریک کیا جائے گا اور اسلامی نظام حکومت کا ایک متفقہ ڈھانچہ تشکیل دے کر اس کی بنیاد پر افغانستان کا دستور طے کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ وہ مشرق ومغرب کے اثرات سے پاک ایک ایسے نظام حکومت کی تشکیل چاہتے ہیں جو اسلام کے مساوات، معاشرتی انصاف اور جمہوری حقوق کے اصولوں پر مبنی ہو اور ہم بہت جلد ایسا ڈھانچہ تشکیل دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
پروفیسر صبغت اللہ مجددی کو شکوہ ہے کہ انہیں وقت بہت کم دیا گیا ہے کہ دو ماہ میں کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ ان کی گفتگو سے اندازہ ہوتا تھا کہ کوئی لابی ان کے ارد گرد کام کررہی ہے جس کا مقصد عبوری حکومت کے سربراہ کو اس بات پر اڑ جانے پر آمادہ کرنا ہے کہ اسلام میں عبوری حکومت کا کوئی تصور نہیں ہے اور جو ایک بار اقتدار پر آجائے اسے شرعی عذر کے بغیر معزول نہیں کیا جا سکتا۔ ایک بزرگ نے ان سے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ امامت کے انعقاد کے لیے تمام گروہوں کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے کیونکہ حضرت علیؓ کی خلافت تمام گروہوں کے اتفاق کے بغیر ہی منعقد ہوگئی تھی۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا کہنے والے افغان مجاہدین کے خیرخواہ نہیں ہیں کیونکہ ان باتوں کا نتیجہ افغان مجاہدین میں اختلاف کو بڑھانے اور نتیجتاً افغان قوم کو ایک طویل خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
ہماری رائے یہ ہے کہ جہاد افغانستان میں حضرت پروفیسر صبغت اللہ مجددی کی شخصی اور خاندانی خدمات اور قربانیوں کے اعترا ف کے طور پر کمیونسٹ حکومت سے اقتدار وصول کرنے کا جو اعزاز انہیں ملا ہے اسے تاریخ میں اعزاز کے طور پر ہی محفوظ ہونا چاہیے، اس میں وقت کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ چنانچہ چند روز یا چند سال مزید صدر رہنے کی بجائے اقتدار سے اپنے وقت پر معاہدہ کے مطابق عزت ووقار کے ساتھ دستکش ہو جانے سے انہیں جو مقام حاصل ہوگا وہ صدارت کے رسمی منصب سے کہیں زیادہ بلند و بالا ہوگا اور ہمیں امید ہے کہ جناب مجددی چند لوگوں کے غلط مشورے کو قبول کر کے اپنے اس تاریخی اعزاز کو ضائع نہیں کریں گے۔
پاکستانی علماء کی وفد کی ملاقات عالمی شہرت کے حامل گوریلا کمانڈر اور عبوری حکومت کے وزیر دفاع احمد شاہ مسعود سے بھی ہوئی جو کئی لحاظ سے بہت اہم ہے۔ تقریباً ہم سب کو پہلی بار اس مجاہد نوجوان کو دیکھنے کا موقع ملا جو مسلسل چودہ سال تک روس اور اس کے حواریوں کے اعصاب پر چھایا رہا ہے اور اب یکلخت پینترا بدل کر مغربی میڈیا کے اعصاب پر سوار ہو گیا ہے۔ احمد شاہ مسعود نے جس دھیمے اور منطقی انداز میں علماء کے سامنے اپنے موقف اور پوزیشن کی وضاحت کی اس نے تمام شرکاء محفل کو یکساں متاثر کیا اور اس کی تواضح وانکساری اور علماء کے ساتھ عقیدت ومحبت کے بلاتکلف اظہار نے اس کی شخصیت کے بارے میں پائے جانے والے کئی شکوک وشبہات خود بخود تحلیل کر دیے۔ احمد شاہ مسعود کے ساتھ ملاقات کی تقریب وزارت دفاع کے ہیڈ کوارٹر میں ہوئی۔ تقریب میں مولانا نور محمد آف وانا کے علاوہ جمعیت علماء اسلام پاکستان کے نائب امیر مولانا فداء الرحمان درخواستی نے بھی خطاب کیا جن کے بارے میں اسی محفل میں انکشاف ہوا کہ وہ احمد شاہ مسعود کے استاذ زادہ ہیں۔ احمد شاہ مسعود نے خود بتایا کہ جہاد افغانستان کے آغاز سے قبل انہوں نے رمضان المبارک کے کچھ دن خانپور میں قیام کیا اور حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستی دامت برکاتہم کے دورۂ تفسیر قرآن میں شرکت کی۔ چنانچہ اپنے استاذ زادہ کو جس عقیدت کے ساتھ احمد شاہ مسعود نے رخصت کیا وہ ان کی سعادت مندی کی علامت ہے۔ تقریب کے اختتام پر احمد شاہ مسعود نے اپنی سرکاری گاڑی میں مولانا فداء الرحمان درخواستی کو بٹھایا اور سرکاری گارڈ سے کہا کہ وہ انہیں اپنے ساتھ ہوٹل تک چھوڑ کر آئے۔ یہ گاڑی ڈاکٹر نجیب اللہ کے زیر استعمال رہی ہے، مولانا درخواستی کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو وہ سارا راستہ نم آلود ہ آنکھوں کے ساتھ سبحان اللہ سبحان اللہ کا ورد کرتے رہے۔
احمد شاہ مسعود نے اپنے تقریبا پون گھنٹے کے خطاب میں ان تمام سوالات کا جائزہ لیا جو ان کے بارے میں مغرب ومشرق کا میڈیا مسلسل اٹھا رہا ہے۔ اور سچی بات یہ ہے کہ ہم لوگ جو سوالات کی ایک لمبی قطار ذہنوں میں سجائے اس محفل میں گئے تھے جب اس نوجوان کا خطاب مکمل ہونے پر ہم نے اپنے سوالات کا ترکش دیکھا تو اس میں کوئی تیر بھی قابل استعمال نہیں رہ گیا تھا۔ وزیر دفاع اور عبوری حکومت کے روح رواں انجینئر احمد شاہ مسعود نے کہا کہ اسلامی نظام کا نفاذ اور ایک مکمل اسلامی حکومت کا قیام دنیا کے ہر مسلما ن کی خواہش ہے اور ہمارے جہاد کا مقصد بھی صرف اور صرف یہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاد افغانستان کے دوران انہیں جن علاقوں میں کنٹرول حاصل ہوا ان میں باقاعدہ اسلامی حکومتیں قائم کی گئیں اور شرعی احکام نافذ کیے گئے۔ ان کا اصول یہ رہا ہے کہ معاملات کے فیصلے قرآن وسنت کے ماہر علماء کریں اور انہوں نے ہر معاملہ میں علماء سے ہمیشہ راہنمائی حاصل کی ہے حتٰی کہ کسی قیدی کی رہائی کا فیصلہ بھی انہوں نے خود کبھی نہیں کیا بلکہ علماء کے فیصلوں پر عمل کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب روسی فوجیں افغانستان سے چلی گئیں تو انہوں نے کہا تھا کہ ابھی کابل کی حکومت حاصل کرنے کے لیے دو اڑھائی برس لگیں گے اور گزشتہ سال انہوں نے کہہ دیا تھا کہ اب نجیب حکومت بے بس ہوچکی ہے اور موسم گرما شروع ہونے کے بعد ہماری پیش قدمی ہوگی تو اس کے لیے ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہ جائے گا۔ دونوں مواقع پر ان کی بات پر یقین نہیں کیا گیا لیکن عملاً وہی ہوا جو انہوں نے کہا تھا۔ پھر جب ہماری فوجی فتح کے آثار نظر آنے لگے تو مغربی طاقتوں نے ریشہ دوانیاں شروع کر دیں اور سیاسی حل کی تجویز سامنے آئی، ہم نے اسے مسترد کر دیا اور کہا کہ جو کام ہم نے جہاد کے ذریعہ شروع کیا تھا اسے جہاد کے ذریعے ہی مکمل کریں گے۔ کیونکہ مجھے یقین تھا کہ اسی سال ہماری کامیابی یقینی ہے اور موسم گرما کے شروع ہوتے ہی کابل ہمارے سامنے ہتھیار ڈال دے گا۔ مجھے تین دفعہ مخلوط حکومت بنانے اور شریک اقتدار ہونے کی پیش کش کی گئی جو میں نے مسترد کردی۔ پھر مغربی طاقتوں کی یہ سیہ کاریاں اس حد تک بڑھ گئیں کہ انہوں نے مجاہدین کی بعض جماعتوں کو اقوام متحدہ کے فارمولا کے مطابق نام نہاد غیر جانبدار حکومت کے لیے نام دینے پر آمادہ کر لیا اور بعض نے نام بھی دے دیے۔ ہم نے قائدین سے کہا کہ آپ ایسا نہ کریں ہم کابل کو فتح کریں گے اور کوئی سیاسی حل قبول نہیں کریں گے۔ ان حالات میں شمال کے مرکز مزار شریف میں سرکاری فوجوں میں باہمی اختلاف پیدا ہوا تو ہم نے اس سے فائدہ اٹھانے کی حکمت عملی اختیار کی تاکہ کابل کی طرف پیش قدمی کی صورت میں ہماری توجہ اس طرف سے ہٹائی نہ جاسکے۔ چنانچہ ہم نے سرکاری فوجوں کے باہمی جھگڑے سے فائدہ اٹھایا اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس میں ہمیں کامیابی ہوئی اور مزار شریف پر ہمارا کنٹرول ہوگیا۔
احمد شاہ مسعود نے کہا کہ پھر ہم نے کابل کی طرف پیش قدمی کی اور یہ بات بتانا ضروری ہے کہ میں نے کابل کی طر ف پیش قدمی سے پہلے جناب گلبدین حکمت یار کی طرف نمائندے بھیجے اور ان سے کہا کہ آپ آئیں تاکہ ہم مل کر کابل پر حملہ کریں، وہ نمائندے آج بھی موجود ہیں جو اس بات کی گواہی دیں گے اور جناب حکمت یار بھی انکار نہیں کریں گے کہ ہم نے انہیں کابل پر مشترکہ حملہ کی دعوت دی جو انہوں نے قبول نہیں کی۔ چنانچہ میں نے اکیلے کابل پر چڑھائی کا فیصلہ کیا اور دو طرف سے آگے بڑھتے ہوئے ہم چاریکار اور بگرام کے مقام پر کابل کے دروازے پر آکر بیٹھ گئے۔ یہاں سے کابل میں داخل ہونا ہمارے لیے مشکل نہیں تھا لیکن میں نے پشاور میں بیٹھے ہوئے قائدین سے کہا کہ آپ حضرات اجتماعی حکومت تشکیل دیں تاکہ ہم سب مل کر کابل میں داخل ہوں۔ چنانچہ میں دس روز تک چاریکار میں انتظار میں بیٹھا رہا اور جب تک پشاور میں عبوری حکومت کا فیصلہ نہیں ہوگیا اس وقت تک اپنا ایک آدمی بھی کابل کی طرف روانہ نہیں کیا۔
احمد شاہ مسعود نے کہا کہ اس دوران کابل انتظامیہ کی طرف سے وزیر خارجہ عبد الوکیل میرے پاس چاریکار میں آئے اور کہا کہ میں ان کے ساتھ اقتدار میں شریک ہوجاؤں۔ میں نے یہ پیشکش مسترد کردی اور کہا کہ میں آپ کو دو دن کی مہلت دیتاہوں کہ آپ مجاہدین کے سامنے ہتھیار ڈال دیں چنانچہ صرف ایک دن کے بعد عبد الوکیل دوبارہ آئے اور تین دفعہ ہاتھ اٹھا کر کہا کہ ہم ہتھیار ڈالتے ہیں ہم ہتھیار ڈالتے ہیں ہم ہتھیار ڈالتے ہیں۔ میں اس موقع پر بھی کابل میں داخل ہو کر اپنی حکومت کا اعلان کرسکتا تھا لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔ میرا رخ پشاور کی طرف تھا میں وہاں کے فیصلے کا منتظر تھا اور اجتماعی قیادت کے انتظار میں تھا۔ چنانچہ جب حضرت صبغت اللہ مجددی کی سربراہی میں عبوری حکومت کا فیصلہ ہوا تو قائدین کے حکم پر میں نے کابل کو جناب حکمت یار کے حملہ آوروں سے خالی کرایا اور اقتدا ر اجتماعی قیادت کے حوالے ہوگیا۔ لوگ آج یہ کہتے ہیں کہ ہم نے کمیونسٹوں کے ساتھ اقتدار میں شراکت کرلی ہے، میں پوچھتا ہوں کہ وہ شراکت کدھر ہے؟ کابل میں حضرت صاحب کی حکومت ہے جو مجاہدین پر مشتمل ہے، تمام صوبوں میں مجاہدین کی حکومتیں ہیں، آپ خود تلاش کریں آپ کو وہ شراکت کہیں نظر آتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ شمال اور جنوب کی جنگ ہے یا پشتو اور فارسی کا جھگڑا ہے اگر ایسا ہوتا تو میں کابل میں تنہا داخل ہوتا اور کسی کو قریب نہ آنے دیتا لیکن میں نے ایسا نہیں کیا اس لیے کہ یہ نہ علاقہ کی جنگ تھی اور نہ زبان کی یہ تو اسلام کی جنگ تھی اور جہاد تھا جو کفر کے خاتمہ اور اسلام کے نفاذ کے لیے بے پناہ قربانیوں کے ساتھ منزل تک پہنچا۔ اسی لیے میں نے اجتماعی قیادت کی بات کی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج اجتماعی قیادت آپ کے سامنے کابل میں موجود ہے اور میں بھی اس کا ایک حصہ ہو ۔
انہوں نے کہا کہ دوستم ملیشیا کی بات کی جاتی ہے، آپ نے خود کابل میں گھوم پھر کر دیکھ لیا ہے کہ دوستم ملیشیا کہاں کہاں ہے؟ میں انکار نہیں کرتا کہ دوستم ملیشیا کابل میں موجود ہے لیکن اس کی تعداد پورے کابل میں اڑھائی ہزار سے زیادہ نہیں ہے اور اس کی الگ کوئی کمان نہیں ہے وہ ہماری کمان میں ہے اور ہماری مرضی کے خلاف کچھ نہیں کر سکتی۔ اسے بھی کابل سے نکالا جاسکتاہے لیکن میں حکمت عملی سے کام لینے کا قائل ہوں پھر میں کسی کو یہ کہنے کا موقع نہیں دینا چاہتا کہ دیکھا! ہم نے ملیشیا کو کابل سے نکلوا دیا۔ صرف اتنی بات ہے ورنہ دوستم ملیشیا یہاں کابل میں ہمارے لیے سرے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
جناب احمد شاہ مسعود نے پاکستان کے علماء کا جہاد میں پشت پناہی کرنے اور مبارک باد کے لیے کابل تشریف لانے پر شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر مولانا فداء الرحمان درخواستی نے جمعیت علماء اسلام پاکستان اور حرکۃ الجہاد الاسلامی کی طرف سے جناب احمد شاہ مسعود کو پاکستان کے دورہ کی دعوت دی جو انہوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کرلی اور کہا کہ حالات بہتر ہونے پر وہ پاکستان کے عوام اور علماء کا شکریہ ادا کرنے کے لیے پاکستان کا دورہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہماری جنگ صرف اور صرف اسلام کے لیے تھی اور ہم افغانستان کو ایک صحیح اسلامی نظریاتی ریاست بنانے کا ہدف حاصل کریں گے۔ ہم نے یہ جنگ علاقہ یا زبان کے نام پر نہیں لڑی اور میں قسم کھا کر کہتاہوں کہ اگر یہ جنگ شمال جنوب کی ہوتی یا پشتو فارسی کی ہوتی تو میں ایک دن کے لیے بھی اس جنگ میں شریک نہ ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ہمیشہ علماء کا احترام کیاہے اور ان کے فیصلوں کو ترجیح دی ہے بلکہ آخری مرحلہ میں جب پشاور میں اجتماعی حکومت کے قیام کے سلسلہ میں متفقہ فیصلہ میں مسلسل تاخیر ہو رہی تھی تو میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ قائدین متفقہ حکومت قائم نہ کرسکے تو میں کمانڈروں اور علماء کا اجلاس طلب کر کے ان سے کہوں گا کہ وہ مشترکہ حکومت تشکیل دیں اور میرے ساتھ کابل چل کر اقتدار سنبھالیں لیکن اللہ تعالٰی کا فضل ہوا کہ قائدین متفق ہوگئے اور کابل میں عبوری حکومت نے اقتدار سنبھال لیا۔
جناب احمد شاہ مسعود نے کشمیر، فلسطین اور برماکے مسلمانوں کا بھی ذکرکیا اور کہا کہ ہمیں اپنے مظلوم بھائی یاد ہیں اور میں کابل میں وزیر دفاع بن کر بیٹھنے سے ان مظلوم بھائیوں کے ساتھ مل کر جہاد میں شریک ہونے کو ترجیح دیتاہوں لیکن ابھی ہماری مشکلات ہیں، ہم اپنے مسائل پر قابو پالیں تو ان بھائیوں کے ساتھ بھی ضرور شریک ہوں گے۔ ہمارے جذبات اور دعائیں ان کے ساتھ ہیں اور حالات سازگار ہونے پر ہماری مدد اور تعاون بھی ان کے ساتھ ہوگا۔
۳ جون کو قافلہ کا واپسی کا پروگرام تھا لیکن ہمیں اپنا دورہ کچھ تشنہ سا محسوس ہو رہا تھا۔ ہم جناب حکمت یار سے نہیں مل سکے تھے، پروفیسر عبد الرب الرسول سیاف سے ہماری ملاقات نہیں ہوسکی تھی، جناب برہاں الدین ربانی سے بھی ملاقات نہ کرسکے تھے اور مرد مجاہد مولانا جلال الدین حقانی کی زیارت بھی ابھی باقی تھی۔ اس لیے مولانا فدا ء الرحمان درخواستی، مولانا نور محمد آف وانا، مولانا سعادت اللہ خان، حاجی امیر نواز خان ایڈووکیٹ، حاجی غلام علی اور راقم الحروف نے مزید دو روز وہاں رکنے کا فیصلہ کیا جبکہ باقی قافلہ واپس روانہ ہوگیا۔ لیکن بدقسمتی سے پروفیسر سیاف کی اتحاد اسلامی کے ساتھ ایران نواز شیعہ گروپ حزب وحدت کی جھڑپیں شدت اختیار کر گئیں۔ شہر میں چلنا پھر نا مشکل ہوگیا اور قائدین سے رابطے نہ ہوسکے بلکہ ہمیں یہ بتایا گیا کہ ان حالات میں ان قائدین سے ملاقاتوں کے لیے آپ کو مزید چند روز تک رکنا پڑے گا جبکہ زیاد ہ دنوں کے لیے قیا م ہمارے لیے مشکل تھا اس لیے ان قائدین سے ملاقاتوں کے لیے دوبارہ کابل آنے کا ارادہ کرکے تشنگی کا احساس باقی رکھتے ہوئے ۴ جون کو صبح سات بجے کابل سے روانہ ہوکر شام سات بجے پشاور واپس پہنچ گئے۔