میرپور آزاد کشمیر کے ضلعی مفتی مولانا قاضی محمد رویس خان ایوبی نے ’’اوصاف‘‘ میں شائع ہونے والے ایک مراسلہ میں بتایا ہے کہ پاکستان کی وفاقی وزارت تعلیم کے بعض ذمہ دار حکام میٹرک کے نصاب تعلیم سے قرآن کریم کی سورۃ توبہ کو خارج کرنے کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اس سے قبل بھی راقم الحروف کے علم میں بعض ذرائع سے یہ بات آچکی ہے کہ وفاقی وزارت تعلیم میں اس قسم کی کھسر پھسر جاری ہے اور اس سلسلہ میں اسلام آباد میں ایک اجلاس بھی ہو چکا ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ یہ سورۃ بہت مشکل ہے اور ملک کے مختلف حصوں سے طلبہ کے خطوط موصول ہو رہے ہیں کہ اس سورۃ کا ترجمہ پڑھنا ان کے لیے دشوار ہے اور انہیں امتحان میں دقت پیش آتی ہے۔
ملک کے کسی بھی حصہ سے وزارت تعلیم کے حکام کے نام اس قسم کے خطوط کا اہتمام کرنا ان این جی اوز کے لیے کوئی انوکھا کام نہیں ہے جو رفاہی اور تعلیمی سرگرمیوں کے نام پر بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے ملک میں ذہنی انتشار اور فکری انارکی کی فضا پیدا کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ ورنہ جہاں تک مشکل مضامین کا تعلق ہے میٹرک کے طلبہ کے لیے اس سے کہیں زیادہ مشکل انگریزی اور ریاضی کے مضامین ہیں۔ اور میٹرک میں فیل ہونے والے طلبہ کی ایک بڑی تعداد بلکہ اکثریت ان دو مضامین کی وجہ سے فیل ہوتی ہے۔ مگر وزارت تعلیم کے حکام یا این جی اوز نے کبھی طلبہ اور طالبات کی اس مشکل کو دور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور نہ ہی ایسی کسی شکایت کو توجہ کے قابل سمجھا جا سکتا ہے۔ اس لیے کہ تعلیم میں نصاب کی بنیاد اس پر نہیں ہوتی کہ طلبہ اپنے لیے کون سی بات کو آسان سمجھتے ہیں اور کون سی بات انہیں مشکل دکھائی دیتی ہے۔ بلکہ نصاب تعلیم کی بنیاد معاشرتی ضروریات اور ملی تقاضوں پر ہوتی ہے اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ کس سطح پر ہم ان طلبہ اور طالبات کو کیا پڑھانا چاہتے ہیں، پھر اس دائرہ کے تعین کے بعد اس کے اندر رہتے ہوئے طلبہ کے لیے متوقع مشکلات کو آسان کرنے کی کوشش میں بھی کوئی حرج نہیں ہوتا۔
جہاں تک سورۃ توبہ کا تعلق ہے، مولانا قاضی محمد رویس خان ایوبی کے اس خیال سے ہمیں اتفاق ہے کہ یہ طلبہ اور طالبات کے لیے مشکل ہو یا نہ ہو البتہ سورۃ کے مضامین کو ہضم کرنا ان عالمی طاقتوں اور بین الاقوامی اداروں کے لیے بہت مشکل ہو رہا ہے جو ملت اسلامیہ میں تیزی سے ابھرتے ہوئے جذبۂ جہاد کو موجودہ عالمی نظام کے لیے خطرہ سمجھ رہے ہیں۔ اور ان کے نزدیک مسلمان بچوں کا قرآنی تعلیمات سے واقف ہونا ان کے بنیاد پرست ہونے اور جہاد کے احکام و فضائل سے آگاہی ان کے دہشت گرد ہونے کی علامت ہے۔ اسی وجہ سے تعلیمی نصاب کے حوالے سے کام کرنے والے عالمی ادارے اور تعلیم کے نام پر مالی امداد دینے والی بین الاقوامی تنظیمیں مسلمان ملکوں پر اپنے نصاب تعلیم پر نظر ثانی اور اس میں دینی معلومات کا عنصر کم سے کم کرنے پر زور دیتی رہتی ہیں۔
کچھ عرصہ قبل صدر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے دور میں ’’مسجد مکتب اسکیم‘‘ کے عنوان سے ملک بھر میں ایک تعلیمی پروگرام شروع کیا گیا تھا جس کا مقصد تعلیمی دائرہ کو وسیع کرنا، مساجد کو عوامی تعلیمی دائرہ میں شامل کرنا اور خواندگی اور تعلیم کو فروغ دینا تھا۔ اس پروگرام کے تحت مساجد میں قرآن کریم کی تعلیم کے ساتھ پرائمری اسکولوں کی سطح تک تعلیم کا اہتمام کیا جانا تھا جس سے پرائمری سطح پر تعلیم کے اخراجات بہت کم ہو جاتے اور زیادہ سے زیادہ بچوں کو اس سے فائدہ ہوتا۔ یہ سلسلہ شروع ہوا اور ملک کے بہت سے حصوں میں مساجد میں اس پروگرام کا آغاز بھی ہوا مگر بعد میں یہ اسکیم ختم کر دی گئی۔ واقفان حال نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ عالمی اداروں کے خیال میں اس طرح ملک میں بچوں کی بہت زیادہ تعداد کو مساجد کے ماحول میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملتا، اس نظام کے تحت تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی اکثریت بچپن میں ہی بنیاد پرستی کی خوگر ہو جاتی اور اس کے نتیجے میں بنیاد پرستوں کے تناسب میں بہت اضافہ ہو جاتا۔ چنانچہ مبینہ طور پر عالمی اداروں کی مداخلت کی وجہ سے یہ مفید اسکیم ختم کر دی گئی۔
اس سابقہ تلخ تجربہ کے پیش نظر محسوس ہوتا ہے کہ میٹرک کے نصاب سے سورۃ توبہ کو خارج کرنے کی یہ تجویز بھی اسی پس منظر میں پیش کی گئی ہے اور اگر قارئین سورۃ توبہ کے مضامین پر ایک نظر ڈال لیں تو انہیں اس تجویز کا پس منظر اور مقصد سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی۔ ان سطور میں سورۃ توبہ کے سب مضامین کا احاطہ تو مشکل ہے البتہ ان میں سے چند اہم امور کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔
- یہ سورۃ قرآن کریم کے دسویں اور گیارہویں پارے میں ہے اور اس کے دو نام ہیں۔ اسے سورۃ برأت بھی کہا جاتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مشرکین کے بہت سے قبائل نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ امن کے معاہدات کر رکھے تھے لیکن بعض قبائل بالخصوص قریش نے ان معاہدات کی شرائط کی پاسداری نہیں کی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے جناب رسول اکرمؐ کو ان معاملات سے برأت کے اعلان کا حکم دیا اور اس کے ساتھ ہی ایسے تمام معاہدے ٹوٹ گئے جن میں عرب قبائل نے شرائط کو ملحوظ رکھنے کی بجائے من مانی کرنے کی کوشش کی تھی۔ البتہ جن قبائل نے شرائط کی پابندی کی ان کے ساتھ معاہدات کو برقرار رکھا گیا۔
- اور اسے سورۃ توبہ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے اس لیے کہ اس میں جناب رسول اللہؐ کے تین مخلص صحابہ کرام حضرت کعب بن مالکؓ، حضرت ہلال بن امیہؓ اور حضرت مرارہ بن ربیعؓ کی توبہ قبول کرنے کا اعلان کیا گیا ہے جو غزوۂ تبوک میں کسی عذر کے بغیر پیچھے رہ گئے تھے۔ اس کی قدرے تفصیل یہ ہے کہ جناب نبی اکرمؐ کو معلوم ہوا کہ اس وقت کی ایک عالمی قوت رومن ایمپائر نے شام کے راستے مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کا پروگرام بنا رکھا ہے۔ اس پر رسول اکرمؐ نے انہیں مدینہ منورہ پر حملہ آور ہونے کا موقع دینے کی بجائے خود شام کی سرحد پر جانے اور وہاں ان کے خلاف محاذ آرا ہونے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے مدینہ منورہ میں عام لام بندی کا حکم دے دیا۔ سخت گرمی کا موسم تھا، فصلیں پکی ہوئی تھیں، مالی سال کے اختتام کی وجہ سے وسائل اور پیسے کم تھے جبکہ سفر لمبا تھا اس لیے لوگوں کا جہاد کے لیے جانا بظاہر بہت مشکل تھا۔ لیکن حضرات صحابہ کرامؓ نے ان تمام مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود حضورؐ کی پکار پر لبیک کہا اور ہزاروں کی تعداد میں تیار ہوگئے۔ البتہ منافقوں نے حیلے بہانے شروع کر دیے اور مختلف عذر پیش کر کے ان کی ایک بڑی تعداد پیچھے رہ گئی جبکہ صحابہ کرامؓ میں سے مذکورہ بالا تین حضرات ساتھ نہ جا سکے۔ آنحضرتؐ لشکر لے کر تبوک تک گئے، وہاں ایک ماہ قیام کیا مگر رومی لشکر کو مقابلے پر آنے کی ہمت نہ ہوئی اور آپؐ لشکر لے کر واپس آگئے۔ مدینہ منورہ واپسی پر منافقین نے تو جھوٹے عذر اور حیلے بہانے پیش کر کے اپنی جان چھڑا لی لیکن مذکورہ تین بزرگوں نے صاف گوئی کے ساتھ اپنے قصور کا اعتراف کیا جس پر انہیں یہ سزا دی گئی کہ آنحضرتؐ نے خود اور آپؐ کے حکم سے صحابہ کرامؓ نے ان تینوں حضرات کا کئی روز تک سوشل بائیکاٹ کیے رکھا جس میں ان کے ساتھ بول چال اور لین دین کے سارے معاملات ترک کر دیے گئے۔ لیکن ان حضرات کی مسلسل ثابت قدمی کے باعث اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان کی توبہ قبول کرنے کا اعلان فرمایا جس کا ذکر اس سورۃ میں ہے اور اسی وجہ سے اسے سورۃ توبہ کہا جاتا ہے۔
- اس کے علاوہ اس سورۃ میں غزوۂ حنین کا ذکر ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے قدم اکھڑ جانے کے بعد ان کی مدد کی اور انہیں فتح عطا فرمائی۔
- اس کے ساتھ ہی یہ حکم اس سورۃ میں بطور خاص مذکور ہے کہ مشرکین کو آج کے بعد مکہ مکرمہ میں مسجد حرام اور بیت اللہ شریف کے قریب آنے کی اجازت نہ دی جائے۔
- پھر اس سورۃ میں یہود و نصاریٰ کی سرکشی اور نافرمانی کا ذکر ہے اور بتایا گیا ہے کہ ان کے علماء اور پیروں کی ایک بڑی تعداد نے خود کو خدائی مقام عطا کر رکھا ہے اور وہ لوگوں کا مال اس کے ذریعہ ہڑپ کرتے ہیں۔
- اس سورۃ میں مسلمانوں کو جہاد میں حصہ لینے کی ترغیب دی گئی ہے، جہاد کے فضائل بیان کیے گئے ہیں اور جہاد سے پیچھے رہنے والے مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی ہے۔
- اس کے علاوہ اس سورۃ میں جناب رسول اللہؐ کو منافقین کا جنازہ پڑھانے سے روکا گیا ہے۔
- جبکہ سورۃ کے اختتام پر مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ ان میں دین کا علم اور تفقہ حاصل کرنے والی ایک جماعت ضرور موجود رہنی چاہیے جو دینی معاملات میں امت کی رہنمائی کرتی رہے۔
یہ سورۃ توبہ کے بعض مضامین کی ایک ہلکی سی جھلک ہے جس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس سورۃ کو میٹرک کے نصاب سے نکالنے کی تجویز کا اصل مقصد کیا ہے۔